اللہ دے بندہ لے - افسانے از رضیہ سجاد ظہیر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-14

اللہ دے بندہ لے - افسانے از رضیہ سجاد ظہیر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

allah-de-banda-le-razia-sajjad-zaheer

رضیہ سجاد ظہیر (پ: 15/فروری 1917 اجمیر ، م: 18/دسمبر 1979 دہلی)
ترقی پسند تحریک کے ممتاز قلمکاروں میں نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ وہ ایک نمائندہ قلم کار خاتون تھیں۔ انھوں نے عالمی ادب کی کئی معروف ہستیوں کے 40 سے زائد فن پاروں کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ ایک عمدہ ناول نگار اور ایک اچھی افسانہ نگار ہونے کا ثبوت بھی ان کے فن پاروں سے ملتا ہے۔ رضیہ سجاد ظہیر، انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانی اور اِپٹا [IPTA ، انڈین پیپلز تھیٹر اسوسی ایشن] کے روح رواں سجاد ظہیر کی اہلیہ اور نادرہ ببر (اداکارہ و راج ببر کی اہلیہ) اور نور ظہیر (انگریزی کی صحافی اور کتھک ڈانسر) کی والدہ تھیں۔
رضیہ سجاد ظہیر کے منتخب افسانوں کا مجموعہ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 11 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس کتاب کے نہایت دلچسپ پیش لفظ میں رضیہ سجاد ظہیر کی سب سے چھوٹی دختر نور ظہیر لکھتی ہیں ۔۔۔
امی صبح اٹھنے کی بہت قائل تھیں۔ اور ابا سے اس بات پر اکثر ناراض رہتی تھیں کہ دن کا بہترین حصہ جب دماغ تر و تازہ ہوتا ہے اور چاروں طرف خاموشی ہوتی ہے وہ سونے میں گنوا دیتے تھے۔ ابا انہیں اکثر چھیڑا کرتے تھے: "لیکن رضیہ، اگر ہم صبح اٹھ گئے تو تمہیں سکون اور خاموشی کیوں کر ملے گی؟"
امی اس طرح کی منطق کا صرف ایک جواب دیتی تھیں: "اونہہ" ۔۔۔ صبح اٹھنے کی عادت امی ہمیشہ اپنی مذہبی طبیعت سے جوڑتی تھیں اور ہمیشہ کہتی تھیں کہ کچھ ہو یا نہ ہو مذہب آپ کو باقاعدگی ضرور سکھاتا ہے۔

امی خود اپنی ادبی تخلیق کرنے ہی میں مگن نہیں رہتی تھیں بلکہ دوسروں کی لکھی چیزوں کے سمجھنے اور سمجھانے میں بھی بڑا لطف لیتی تھیں۔ اور اگر کہیں غیرموزوں پڑھ دو تو بس۔۔۔
"تم ہم لوگوں کی اولاد ہو، پھر منو رقص تمہارا کام ہے۔ تم ناموزوں شعر پڑھ رہی ہو۔"
شعر پڑھنے کے بعد اس کا مرکزی لفظ نکلواتیں۔ مجھے یاد ہے انہوں نے غالب کا یہ شعر سنایا:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
اور مجھ سے شعر کا سب سے اہم لفظ ڈھونڈنے کو کہا۔ میں نے فوراً کہا: "لالہ و گل"۔
"جاہل، نادان! اس شعر کا سب سے اہم لفظ ہے: 'کچھ'۔ اب اس پر زور دے کر پڑھو خود، شعر سمجھ میں آ جائے گا"۔

۔۔۔ انہیں دیسی خوشبودار پھول بہت پسند تھے۔ مولسری ہار سنگھار، رات کی رانی اور چمیلی کی خوشبو پر مر مٹتی تھیں۔ یہی حال سبزیوں کے ساتھ تھا۔ سبزیوں کی دکان پر امی ایسے مچلتیں جیسے کوئی بچہ مٹھائی کی دکان پر۔ اور اکثر وہ اپنے کردار کا خاکہ کھینچتے وقت اس کا کوئی نہ کوئی پہلو کسی سبزی سے ملا دیتیں۔ سوکھی شکرقند جیسی صورت، ایسی پھیکی شخصیت جیسے شلجم، اس قدر دبلا جسم جیسے باسی ککڑی وغیرہ۔ ان کی پسندیدہ پینٹنگ بھی وین گوگ [Van Gogh] کی "پوٹیٹو ایٹرس [Potato Eaters] یعنی "آلو کھانے والے" تھی۔

۔۔۔ امی کے کہانی پڑھنے کے انداز کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ وہ بہت جذباتی تھیں۔ اپنی کہانیوں کو خوب مزہ لے کر پڑھتی تھیں۔ اپنے کرداروں کو خود جیتی تھیں۔ یہ باتیں صحیح ہیں اور انہیں سب جانتے ہیں۔ لیکن یہ شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ کتنی محنت کرتی تھیں، کتنا ریاض کرتی تھیں، کتنا بدلتی تھیں اپنی کہانی کو تاکہ اس میں روانی آئے اور خوبصورتی پیدا ہو۔ ایک بار میں اپنی ایک کہانی انہیں سنانے کے لیے گئی۔ اس میں ایک جملے میں "ر" اور "ڑ" ایک ساتھ بار بار آ رہے تھے۔ بس امی نے فوراً پکڑ لیا:
"اے ہے اتنے 'ر' اور 'ڑ' ۔۔۔ یہ تو تم کبھی روانی سے نہیں پڑھ سکتیں۔ زبان ضرور لڑکھڑائے گی۔ فوراً بدلو یہ لفظ۔"
"اب ہم کہاں سے لائیں اور لفظ؟" میں نے چڑ کر کہا۔
"بس یہی تو تم لوگوں میں خرابی ہے۔ ہندی سیکھی نہیں، اردو سکھائی نہیں گئی۔ انگریزی اپنی زبان ہو تو آئے۔ لہذا رہ گئے بےزبان، کیا خاک ایکسپریس [express] کرو گی اپنے آپ کو!"

۔۔۔ کچھ کہانیاں وہ زیادہ اَن کہا چھوڑ دیتیں اور مسائل کی طرف بس ایک اشارہ کر دیتیں۔ انہیں اپنے پڑھنے والوں پر بڑا بھروسا تھا اور وہ یہ مان کر چلتی تھیں کہ ادیب کا کام بس ایک سمت اشارہ کرنا ہے۔ "نتیجہ پڑھنے والوں پر چھوڑ دینا چاہیے ورنہ تخلیق میں اور پروپیگنڈہ میں کیا فرق رہ جائے گا؟"

۔۔۔۔ شاید امی کے لیے سب سے مشکل تخلیق تھی "انتظار ختم ہوا انتظار باقی ہے"۔ ابا کے غیرمتوقع انتقال کی خبر سن کر امی بالکل نہیں روئیں۔ بس ایک عجیب طرح کی خاموشی نے انہیں گھیر لیا۔ ابا کا انتقال الماآتا (روس) میں ہوا تھا اور تیسرے دن ان کا جنازہ دلی لایا گیا تھا۔ ان کو دفن کر کے جب ہم لوگ جامعہ ملیہ سے لوٹے تو میں اپنی امی کے ساتھ ہی ان کے پلنگ پر ان کی پیٹھ سے لگ کر سو گئی تھی۔ صبح پانچ بجے آنکھ کھلی تو امی پلنگ پر بیٹھی لیمپ جلائے تختی پر جھکی تھیں۔ ان کا چہرہ عجیب طرح سے زرد تھا۔ بدن بار بار کانپتا تھا۔ لکھنا ختم کرکے انہوں نے ایک سرد آہ بھری، عینک اتاری اور میری طرف دیکھ کر بولیں: "بیٹی ایک کپ چائے پلاؤ گی؟"
میں نے ان کا ماتھا چھوا تو تیز بخار میں تپتا ہوا پایا۔ چائے لے کر میں کمرے میں آئی تو امی مجھ سے بولیں: "نجمہ کی شکل تمہارے ابا سے بہت ملتی ہے۔ آج وہ لندن سے آ جائے گی"۔ اور ابا کے انتقال کے بعد پہلی بار وہ سر جھکا کر بغیر کسی آواز کے زار و قطار رونے لگیں۔ صرف چند ہفتے پہلے ابا دلی سے لندن اور لندن سے الماآتا ہوتے ہوئے لوٹنے کا وعدہ کر گئے تھے۔ امی کا انتظار تاعمر باقی ہی رہا۔

امی کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے میں ان سے ملنے نجمہ باجی کے گھر گئی تھی۔ انہوں نے کوئی بات نہیں کی، بس سلام کا جواب دیا اور پھر اپنی تختی پر جھک گئیں۔ مجھے بہت برا لگا۔ میں نے طنز سے پوچھا: "کوئی ضروری کام کر رہی ہیں کیا؟"
"ہوں" کہہ کر وہ پھر خاموش ہو گئیں۔
"کتنی بری ہیں آپ امی! اتنی دور سے آپ سے ملنے آئے ہیں، آپ بات تک نہیں کرتیں، کتنی خودغرض ہیں آپ!! آپ کا کام ہو جائے بس ٹھیک ہے، ہم جاتے ہیں۔ جب بچوں کے لیے وقت مل جائے تو فون کر کے بلا لیجیے گا"۔
میں تنک کر جا ہی رہی تھی کہ انہوں نے روک لیا:
"ٹھہرو۔ بیٹی جا رہی ہو تو جاؤ لیکن ایک بات سنتی جاؤ۔ اگر ہم اپنے کام کے بارے میں خودغرض نہ ہوتے تو یہ نوکری، یہ زندگی بھر کی جدوجہد، تمہارے ابا کے جیل کا سفر، تم لوگوں کی پڑھائی لکھائی، ہمیں ایسا مارتی کہ ہم کھڑے نہیں ہو سکتے تھے۔ ہماری قوتِ ارادی ہماری طاقت ہے، ہمارا لکھنا ہمیں زندہ رکھتا ہے۔ کیا ہمیں اپنی زندگی کے بارے میں خودغرض ہونے کا بھی حق نہیں؟!"

***
نام کتاب: اللہ دے بندہ لے (افسانے)
مصنف: رضیہ سجاد ظہیر
تعداد صفحات: 259
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Allah de Banda le - Short stories by Razia Sajjad Zaheer.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

اللہ دے بندہ لے - افسانے از رضیہ سجاد ظہیر :: فہرست
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
الفتختی بہ طور پیش لفظ - نور ظہیر9
برضیہ سجاد ظہیر (سوانح حیاتی خاکہ) - علی باقر18
1بادشاہ23
2نیچ33
3نگوڑی چلی آوے ہے49
4معجزہ58
5رئیس بھائی102
6سورج مل106
7دل کی آواز113
8اللہ دے بندہ لے130
9اب پہچانو141
10تلی تال سے چینا مال تک148
11بڑا سوداگر کون159
12انتظار ختم ہوا انتظار باقی ہے167
13اندھیرا177
14چنے کا ساگ193
15راکھی والے پنڈت جی200
16لاوارث208
17کچھ سہی217
18دوشالہ226
19وہ شعلے235
20سچ صرف سچ اور سچ کے سوا کچھ نہیں247

Allah de Bande le, urdu short stories by Razia Sajjad Zaheer, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں