ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 02 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-10

ناول رام محمد ڈیسوزا : قسط - 02


Novel Ram Mohammad Desouza Episode-02

گذشتہ قسط کا خلاصہ :
نگری ضلع میں ان تینوں اوباشوں کا قیام تھا: رحیم، نندن اور رابرٹ۔ جن کا کام علاقے میں آوارہ گردی اور اپنے تین وقت کے کھانے کے لیے لوٹ مار مچانا تھا۔ ان تینوں کی چھوٹی سی دنیا سماج و مذہب کی جکڑ بندیوں سے آزاد تھی۔ پڑوس کے تلیہ گاؤں میں جب سیلاب آیا تو مال لوٹنے کے لیے تینوں وہاں پہنچے مگر انہیں بہتے پانی میں ایک نومولود بچہ ملا ۔۔۔ اب آگے پڑھیے ۔۔۔

قسط : 01

تینوں بچہ کو لے کر کنارے پہونچے تو موسلا دھار بارش پھر سے شروع ہو گئی تھی۔ کنارے پہونچ کر انہوں نے بچے کے کیچڑ سے لتھڑے کپڑے پھاڑ کر سیلاب میں بہادئیے اور بارش کے پانی سے اس کو نہلا دھلا کر صاف کیا۔ جس طرح گھٹاؤں میں بجلی کوند جاتی ہے اسی طرح بچے کا غلاظت سے بھرا جسم چکا چک ہوکر نکھر آیا۔ گورا گورا، موٹا، موٹا، بلور جیسی آنکھیں، سرخ سرخ کشمیری آمری سیب کے جیسے گال۔
بچہ سردی سے ٹھٹھررہا تھا، لیکن نندن اور رحیم کو اس کا بالکل خیال نہ تھا۔ رابرٹ نے دو زور کے مکّے دونوں کو رسید کئے ۔ دونوں کا دھیان بچے میں لگا ہوا تھا ۔ وہ رابرٹ کے مکوں کے لئے تیار نہ تھے ، قلا بازیاں کھاکر کیچڑ میں لڑھک گئے ۔ رابرٹ بچے کو لے کر اس برگد کے نیچے بھاگا جس کے نیچے ان تینوں نے پانی میں ڈبکی لگانے سے پہلے کپڑے اتار کر رکھ دئیے تھے اور وہاں اس کو ا پنے موٹے پھٹے ہوئے کوٹ میں لپیٹ دیا۔
نندن نے کچھ بھیگی ہوئی لکڑیاں اور پتے جمع کر کے آگ جلانے کی کوشش کی۔ شعلے تو نہ نکل سکے لیکن بچہ کو گرمی پہونچانے بھر کا گرم دھوئیں کا سہارا ہوگیا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے بچہ کو خود ایک بھیانک خطرہ کا احساس تھا جس کی وجہ سے وہ ایک دم چپ تھا۔ لیکن جیسے ہی وہ خطرہ سے باہر ہوا اوراس کو آرا ملا وہ بھوک سے تلملا اٹھا۔ ان میں سے کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ بچہ کو اچانک کیا ہوگیا ۔ وہ گھبرا گئے اور باری باری اس کو گود میں لے کر بہلانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کو ڈر تھا کہ بچہ کو کوئی بھیانک روگ لگ گیا ہے اور وہ مرجائے گالیکن جیسے ہی نندن نے اس کو اپنے ننگے سینے سے چمٹایا ویسے ہی بچہ نے اپنا پیٹ بھرنے کی فطری کوشش شروع کی ۔
رحیم بچے کی یہ حرکت دیکھتے ہی ایک چھلانگ مار کر بارش میں بے تحاشہ بھاگا ۔ بہت دور، اس کو ایک بکری نظر آئی۔ رابرٹ نے اس کا اشارہ سمجھ لیا ۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا ،چشم زدن میں وہ بکری کے پاس پہونچ گئے ۔
بکری اچانک دو طرفہ حملہ سے پریشان ہوکر بھاگی اوراپنے مالک کے پاس پہونچ گئی۔
گھسیٹا گوجر کا شاید سب کچھ سیلاب کی نذر ہوچکا تھا۔۔۔ اس کی کل کائنات صرف یہی بکری موہنی رہ گئی تھی ۔۔۔ سیلا ب کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکا لیکن موہنی کے دو لٹیروں پر وہ اپنی لاٹھی اور گالیوں سے سیلاب کا سارا غصہ لے کر برس پڑا۔ وہ لاٹھیاں اور گالیاں برساتا رہا لیکن رابرٹ اور رحیم بکری کے پیچھے لگے رہے ، رحیم نے بکری دبوچ لی اور رابرٹ نے گھسیٹے کو، رحیم بکری کو گردن پر لاد کر بھاگا اور رابرٹ گھسیٹے کی لاٹھی چھین کر۔
رابرٹ نے موہنی کی ٹانگیں پکڑ لیں تاکہ وہ جگہ سے ہلنے نہ پائے۔ نند نے بچہ کو گود میں لے کر اس کو بکری کے نیچے اس طرح سے ہاتھوں میں لیا کہ بچہ کا مونہہ ٹھیک موہنی کے تھنوں کے نیچے رہے۔ رحیم نے تھنوں کو دباکر دودھ کی دھار بچہ کے مونہہ میں ڈالنا شروع کی۔ موہنی کو بھی شاید اپنے سب بچے سیلاب کی نذر کر کے یہ ایک بچہ ملا تھا معلوم ہوتا تھا اس کے تھنوں سے دودھ نہیں ممتا کی دھاریں بہہ رہی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ بچے کے پیٹ میں اس کے مونہہ سے دودھ نہیں گیا۔ ضرور گیا ہوگا ، لیکن بچہ کا پیٹ ناک کے ذریعہ بھرا اور اس دس منٹ کے عمل میں رحیم نے نندن اور رابرٹ کی جتنی مکروہ گالیاں کھائیں اتنی پورے پچیس سال میں نہیں کھائی تھیں۔ اتنی دیر میں گھسیٹے کے ساتھ بہت سے لوگ جمع ہوکر آگئے۔ لیکن جب انہوں نے درخت کے نیچے کا منظر دیکھا تو وہ شرمندہ ہوگئے۔ گھسیٹا گوجر معافی مانگنے لگا۔
گاؤں والوں میں سے کسی نے بھی بچہ کو نہیں پہچانا۔ آباد گاؤں تھا۔ درجنوں بچے روز ہی پیدا ہوتے رہتے تھے کون کہہ سکتا تھا کہ کس کا بچہ ہوگا؟ اور پھر گاؤں میں زندہ بچے ہی کتنے لوگ تھے ؟ گھر کے گھر خاندان کے خاندان نیست و نابود ہوچکے تھے۔

لیکن بچہ تو بہ حال ان ہی لوگوں کے گاؤں کا تھا۔ ان کا فرض تھا کہ بچہ کو لے کر اس کے کسی زندہ رشتہ دار کو پہنچادیتے۔ مگر کون یہ ذمہ داری مول لیتا؟ سب کو اپنی اپنی جان اور اپنے اپنے لالوں کی فکر لگی تھی اور پھر شیر خوار بچہ کو ذرا بھی کچھ ہوجاتا تو لینے کے دینے پڑ جاتے ۔ سب نے صاف انکار کردیا اور یہی صلاح دی کہ اس کو پولیس کے حوالے کردیاجائے یا کسی یتیم خانے میں رسید لے کر دے دیا جائے تاکہ اگر اس کا کوئی عزیز جیتا بچاہو تو بعد کو رسید دکھا کر واپس لے آئے۔
بچہ کو اس کے ٹھکانے پر پہونچانے کے بعد رابرٹ، نندن، اور رحیم کا پروگرام سیلا ب کا مال لوٹنے کا تھا۔ لیکن اب بیچ میں بچہ اور رابرٹ کی ضد آگئی کہ وہ پہلے بچہ کو اپنے گاؤں پہونچائے گا۔ بچہ نے کچھ اس طرح نندن اور رحیم کا دل بھی موہ لیا تھا کہ وہ سیلاب زدہ گاؤں کو چھوڑ کر واپس اپنے گاؤں جانے پر رضا مند ہوگئے ۔ اتنی بڑی قربانی انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کے لئے نہیں کی تھی۔
رابرٹ نے اپنا اور اپنے دونوں دوستوں کا گاؤں والوں سے تعارف کرواتے ہوئے کہہ دیا کہ وہ بچے کو اپنے پاس رکھے گا اور اگر کوئی حق دار بچا ہو تو وہ کبھی بھی اس سے آکر لے جاسکتا ہے ۔

نندن اور رحیم کوبچہ رابرٹ کے حوالے کرتے ہوئے کوئی اعتراض نہ ہوا ، لیکن ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر وہ بچہ کاکرے گا کیا؟
"میں یہ جولی کو پریزنٹ کروں گا۔"رابرٹ نے کہا۔
جولی شادی شدہ تھی ، لیکن اس کا اور اس کے شوہر پنٹو کا سپریشن ہوچکا تھا اور ملاپ کبھی ہونے کا امکان بھی نہ تھا۔ پنٹو نے جولی سے بہت دھوم دھام سے شادی کی تھی اور ہنی مون پر گوا بھی لے گیا تھا۔ یہاں تک بات ٹھیک تھی لیکن ہنی مون سے واپسی پر جولی کے پاؤں بھاری ہوگیا۔ اس بات پر پنٹو کا دماغ پھر گیا۔ اس کو جولی کے کردار پر شک ہوگیا پنٹو کی مردانگی یہاں تک تو تھی کہ نامرد ہوتے ہوئے ایک حسین اور جوانی سے بھرپور دوشیزہ سے دھوم دھام سے شادی کرلے۔ لیکن اس کی بیوی اس سے بے وفائی بھی کرسکے یہ اس کو گوارا نہ ہوا جس راز کا صرف اسی کو علم تھا وہ اس نے بہ بانگ دہل ساری دنیا کو بتادیا لیکن جولی کو گھر سے نکال دیا۔

جولی نے پنٹو کو بہت سمجھایا کہ بچہ کی وجہ سے اس کی مردانگی پر کبھی اور کسی وقت کوئی بھی شک نہ کرسکے گا اور پھر یہ کہ اس بچہ کی نیّا کے سہارے ان دونوں کی زندگیاں ہنستے کھیلتے پار لگ جائیں گی ورنہ کچھ دنوں کے بعد شاید دونوں کو خود کشی کرنا پڑے۔ لیکن پنٹو کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی۔
پنٹو ہیوی ویٹ لفٹنگ میں کئی برس پہلے تیسرا آل انڈیا چیمپئن ہوچکا تھا۔ نہ جانے کتنی حسین لڑکیاں اس کے آٹو گراف لے چکی تھیں ، اخباروں میں اس کے وہ پوز چھپ چکے تھے جس میں اس کے جسم کی ایک ایک مچھلی پتھر کے اسٹیچو کی طرح سخت اور سڈول نظر آتی تھی۔ اتنی زبردست آل انڈیا باڈی ہوتے ہوئے بھی جولی کو کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہو یہ اس کی عقل سے باہر تھا۔
آخر بیاہ سے پہلے جولی نے اس کی سادی باڈی دیکھی تھی، اسی پر وہ عاشق ہوئی تھی، پھر اب کیوں اسے بچہ کی ضرورت محسوس ہوئی؟
پنٹو دراصل فرشتوں کی طرح معصوم تھا ، اس کی سمجھ میں یہ کبھی آیا ہی نہیں کہ بچہ جولی کے پیٹ میں بیاہ سے پہلے ہی موجود تھا ، اور جولی نے اس سے شادی اسی لئے کی تھی، پنٹو، جولی کی باڈی کو خوب سمجھ بوجھ کر اس پر عاشق ہوئی تھی۔لیکن پنٹو کے دماغ تک نہ پہونچ سکی تھی۔ ویسے بھی باڈی بلڈر کے دماغ تک پہونچنا ہر کس و ناکس کے بس کا کام نہیں ہے۔
جولی نے بچے کے لئے کام شروع کردای تھا۔ ویسے جولی جیسی خوب صورت لڑکی کے لئے کام کی کمی کہاں ہوسکتی تھی۔ وہ کام نہ کرتے ہوئے کام کرنے والوں سے زیادہ کمالیتی تھی اور اپنی کمائی کی پائی پائی اپنے بچہ پر خرچ کرتی تھی لیکن یہ خوشی ہر خوشی کی طرح چند روز ہ ثابت ہوئی۔ بچہ کو پیلیا ہوگیا اور وہ مر گیا۔

رابرٹ جولی کوبچپن سے جانتا تھا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ پنٹو نامرد ہے اور جولی کا بچہ مر گیا ہے۔ اسی وقت سے رابرٹ کے دل میں دَیا پیدا ہوچکی تھی کہ وہ جولی کوکسی نہ کسی طرح ایک حسین بچہ مہیا کرکے دے گا۔ اس نے جولی سے پکا وعدہ بھی کرلیا تھا کہ وہ اس کو ایک بچہ دے گا۔ اس جولی نے بہت شرما کر نہ صرف اس کا شکریہ ادا کیاتھا بلکہ وہ وقتاً فوقتاً اشارۃً رابرٹ کو اس کا وعدہ یاد بھی دلاتی رہتی تھی۔ رابرٹ ہر بار اپنے وعدہ کو پختہ سے پختہ تر کرتا رہتا تھا۔آخر آج وہ دن آگیا جب رابرٹ سمجھا کہ وہ جولی کے سامنے سرخ رو ہوجائے گا۔!

رابرٹ بڑے فخر سے بچے کو لے کر جولی کے پاس پہنچا ، لیکن اس کو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ جب جولی نے بچہ دیکھا تو اس کا مونہہ اتر گیا، آنکھیں نم ہوگئیں اور چہرہ کا رنگ کچھ کالا پڑ گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ جب جولی بچہ دیکھے گی تو خوشی سے ناچنے لگے گی!
"تم مجھ سے مذاق کرتی تھیں شاید؟" اگر بچہ نہیں چاہئے تو میں واپس لے جاسکتا ہوں۔"
رابرٹ نے جولی کی نا امیدی دیکھ کر کہا۔
لیکن جولی نے بچہ اس کی گود سے چھینتے ہوئے بس اتنا ہی جواب دیا۔
"رابرٹ تو کھوپڑی کا ایک دم الٹا ہے۔"
اس کا مطلب بھی رابرٹ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کون سا ایسا الٹا کام کیا ہے ؟ بچہ کا وعدہ کیا تھا، بچہ لادیا! ان عورتوں کی عقل ہوتی ہی ہے کچھ اوندھی!
لیکن جولی نے بچہ کو گود لینے کی رسم بہت دھوم دھام سے منائی۔ ویسے گاؤں کے عزت والے لوگ جولی سے کترا کر ملتے تھے اور اس کے گھر کم آتے جاتے تھے۔ مگر گود لینے کی رسم میں سارے عیسائی جمع ہوگئے کیونکہ گاؤں میں یہ چرچا شرو ع ہوگیا تھا کہ جولی کے یہاں پھر بچہ ہوا ہے اور اس بار بچہ رابرٹ کا ہے!
بچہ کو آنکھوں سے دیکھ کر لوگ اپنے شک کے وسوسے کو یقین کی مسرت میں بدلنا چاہتےتھے۔ عموماً کرسچین بڑی بوڑھیاں دل ہی دل میں جولی کو داد دے رہی تھیں کہ اس نے کس صفائی سے ان کی نظروں کے سامنے چلتے پھرتے کام دکھادیا تھا اور ان کو بھنک بھی نہ لگی۔

نندن اور رحیم بھی ڈنرمیں مدعو تھے۔ رابرٹ خاص طور سے ان کی خاطر کررہا تھا ، بچہ کو برف جیسے سفید کپڑوں میں دیکھ کر ان کے دل اس کی بلائیں لے رہے تھے۔ ڈنر میں دیر تھی۔ ابھی مہوہ کی خالص شراب مہمانوں کے سامنے چلی آرہی تھی۔
ذرا ہی دیر میں فادر نیوٹن جولی اور بچہ کو بڑے چرچ میں بپتسماکروانے لے جانے کے لئے آگئے۔ جولی نے رابرٹ سے کہا کہ وہ مہمانوں کی خاطر کرتا رہے، وہ خود تھوڑی ہی دیر میں بچہ کو گرجے سے واپس لے آئے گی۔ اس کے بعد ڈنر ہوگا۔
نندن اور رحیم دونوں مزے سے کھاپی رہے تھے اور بچہ کے مستقبل سے بہت خوش تھے لیکن فادر کے آتے ہی ان پر ایک نامعلوم سے گھبراہٹ سوار ہونے لگے۔ وہ چوکنے ہونے لگے۔

(باقی اگلی قسط میں ۔۔۔)

Novel: Ram Mohammad Desouza, Episode:02

1 تبصرہ: