بھوپال میں طنز و مزاح نگاری کا ارتقائی سفر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-02

بھوپال میں طنز و مزاح نگاری کا ارتقائی سفر


عرصہ سے سوچ رہی تھی کہ سرزمین بھوپال کے ان خوش بیانوں کا تذکرہ کرکے ادبی دنیا میں ان کی یاد تازہ کردوں، جن کے دم سے تازہ واردان بھوپال میں بیان کی توانائی اور جذبہ کا خلوص نئے انداز میں جلوہ گر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔۔
القصہ اس بیان در بیان کی ضرورت صرف اس لیے محسوس کی گئی کہ آج پھر خوش بیانوں کی اس محفل کا ذکر چھیڑا جائے جس کے بانی ملا رموزی ہوئے اور اس کے بعد ایک طویل فہرست نظر آتی ہے، جن میں سے ہر رنگ کا انداز جدا ہے اور ہر طرز کی کیفیت مختلف ہے۔ کم و بیش پچیس تیس نام ایسے ضرور ہیں جن میں سے بیشتر مقامی اخباروں میں اور چند برصغیر کے اخبار و رسائل میں اپنی تخلیقات شائع کرواتے رہے ہیں۔ بیشتر ایسے بھی ہیں جنہوں نے طنزومزاح کو آلہ کے طور پر استعمال کیا۔ تو کچھ وہ بھی ہیں جنہوں نے صرف خوش باشی کی فضا قائم کرنے کے لیے مزاح کے آلے سے کام لیا۔ سماج کے مضحک پہلوؤں پر طنز کیا گیا تو سیاسی مسائل اور برٹش راج کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والے اثرات پر بھی وار کیے گئے اور یہ سب اس دور میں جب انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانا، جرم شمار کیا جاتا تھا۔۔

ملارموزی:
نے اپنی گلابی اردو، اور تیکھے طنز سے سماج کے ہر پہلو کو نشانہ بنایا۔ ایسا طنز جس میں اصلاح کا رجحان کارفرما تھا۔ وہ گلابی اردو، جس کے موجد بھی ملا تھے اور خاتم بھی۔ اور ملا کے ذہن رسا نے قرآن پاک کے لفظی ترجموں کی طرز پر مختلف مسائل پر بہت کچھ لکھا اور اسے گلابی اردو کا نام دیا۔ لیکن اس طرز خاص کے علاوہ سادہ اور شستہ و سلیس زبان میں بھی ملا رموزی نے بہت کچھ لکھا اور کئی مجموعے ان مضامین کے منظر عام پر آئے۔ سیاسی عوامل، سیاسی داؤ پیچ، طبقاتی کشمکش اور بدلتے ہوئے رجحانات نے جہاں جہاں ان کے شعور کو جھنجھوڑا، انہوں نے اپنے فن کے ذریعہ نہ صرف ان کی نشاندہی کی، بلکہ ان پر تیکھے وار بھی کیے۔
ادیب کی مقبولیت کا دارومدار، موضوعات اور مسائل پر ہوتا ہے۔ اور ادیب کا یہی کمال ہے کہ وہ زندہ موضوعات پر قلم اٹھائے۔ گلابی اردو میں ایسے مضامین ہیں جن کے ذریعہ قوم کے نوجوانوں کو خطاب کیا گیا ہے۔ اور مضامین کے عنوانات طے کرنے میں مختلف رنگوں کی دھنک سجادی ہے۔ دھانی، عنابی، لال، نیلا، پیلا، سرخ، انگوری، فیروزی اور سیاہ، غرض کہ کوئی رنگ اچھوتا نہیں ہے۔
نیلا کمیشن اور پیلا بائیکاٹ، لندن کا عنابی دربار، ہسپانیہ کی سیاہ بغاوت غرض کہ اس عہد کے سلگتے ہوئے مسائل اور اہم واقعات پر اپنے مخصوص انداز میں بے تکلفی سے لکھتے چلے جاتے ہیں۔
ملا رموزی کے طنز میں بیان کے لطیف پہلو اور مشاہدہ کی گہرائی لطف دے جاتی ہے۔ گلابی اردو کے علاوہ ان کی چند اور مشہور کتابیں یہ ہیں۔ عورت ذات، شفاخانہ، زندگی، لاٹھی اور بھینس وغیرہ۔ بے شمار وہ مضامین بھی ہیں جو ہنوز اشاعت کے محتاج ہیں۔ ملارموزی کی بیشتر کتابیں ۰۴۹۱ ء تک طبع ہوچکی تھیں۔ اور ہندوستان گیر شہرت کی حامل ہوئیں۔
ایک بھولا بسرا نام جوہر قریشی کا بھی ہے، جنہوں نے اردو صحافت کو اپنا میدان بنایا۔ ۶۳۹۱ء میں "اخبار آزادی" ۵۴۹۱ ء میں ترجمان، ۶۴۹۱ ء میں شاہکار، اور ۰۴۹۱ ء میں "نیا بھوپال" کے چیف ایڈیٹر رہے۔ ان اخباروں کے ذریعہ وہ عوامی تحریکات کی طاقت اور ان کے اثرات جانتے تھے۔ انہوں نے سیاست اور عوامی رہنماؤں کو خاص کر اپنا نشانہ بنایا۔ بھوپال میں سیاست میں عملی طنزیہ قدم اگر کسی نے اٹھایا تو جوہر قریشی ہی تھے۔ نام نہاد سیاسی رہنماؤں پر کھلے طنز کا انوکھا انداز، بھوپال میں "چاہ حسین" کو بار بار الیکشن میں کھڑا کرنا اور ان کے نام سے قدآدم پوسٹر کی اشاعت، جوہر قریشی کا عملی مزاح تھا، جسے نہ صرف مقامی سطح پر پسند کیا گیا بلکہ جس کی شہرت بھوپال سے باہر بھی پہنچی۔ سیاست کی خامیوں اور معاشرہ کی بدعنوانیوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے طنز و مزاح سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جوہر قریشی نے اپنے موضوعات کو مقامی سیاست تک محصور رکھا اور اس سے آگے ان کے قلم کے پر جلنے لگے۔
پھر ہیں۔

جہاں قدر چغتائی:
جنہوں نے اپنے پرکیف مزاح سے ہندوستان گیر شہرت پائی۔ جن کی تحریروں میں سادگی اور خلوص کا جوہر ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے تو مزاج کی شوخی اور چلبلا پن لطیف مزاح کو جنم دیتا ہے۔ حالانکہ چغتائی صاحب طنز کے تیکھے پن سے بچتے رہے، لیکن نہ جانے کیوں مقامی اخباروں میں فرضی ناموں سے لکھنے کا شغل اختیار کیے رہے۔ اور بلا شبہ اخباروں میں ہزاروں کالم ان کی شوخی تحریر کے گواہ ہیں۔ کبھی "علامہ مدہوش" بن کر لکھتے کبھی "فریادی" کے نام سے فریاد کرتے اور ہر پیکر تصویر کو کاغذی پیرہن پہناتے رہے۔ حقیر ؔ بھارتی، کے نام سے اخبار الحمرا میں مزاحیہ قطعات لکھنے کا عرصہ تک اہتمام کرتے رہے۔ مزاحیہ ڈرامے بھی لکھے جو اسکولوں میں کھیلے گئے، ریڈیو اسٹیشن کے لیے بھی مزاحیہ فیچر اور ڈرامے تحریر کیے۔۔
پیشہ سے ٹیچر رہے اور بچوں میں ہمیشہ ہر دلعزیز رہے۔ اپنی تحریروں کے خلوص اور تاثر کی وجہ سے پسند بھی کیے جاتے رہے۔ قومی گیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ۷۵۹۱ ء میں انہیں سپاسنامہ اور ٹرافی دی گئی۔ اردو اکیڈمی کی جانب سے یوسف قیصر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اسکولی سطح پر بہترین ٹیچر کا انعام بھی دیا گیا۔ ان کی شخصیت اور فن پر حمیدیہ کالج میں تحقیقی مقالہ بھی سپرد قلم کیا گیا ہے۔ چغتائی صاحب بنیادی طور پر انشائیہ نگار ہیں۔ اختصار ان کے فن کی اساس ہے۔ وہ کم سے کم الفاظ میں اپنی بات کہنا جانتے ہیں۔

عبدالاحد خاں تخلص:
جن کا تخلص ان کی شاطرانہ طبیعت کا بھرپور اظہار کرتا ہے۔ فوج کی نوکری کو ترک کرنے کے بعد تازندگی موٹر پارٹس کی دکان چلاتے رہے۔ طنز و مزاح کی ابتدا کرنے میں ترک ملازمت نے بڑا رول ادا کیا۔
بیان میں بیباکی، طنز میں ذہانت کی کاٹ اور مقامی بولی کے کارگر ہتھیاروں سے لیس، تخلص صاحب کی نثر انفرادی شان سے جلوہ گر ہوئی۔ پہلے بھوپال پنچ نے عوام و خواص کو متوجہ کیا، پاندان والی خالہ اپنے طرز ادا اور بیان کے مقامی اثرات اور لب و لہجہ کی وجہ سے مقبول ہوئیں اور یوں ایک کے بعد ایک تخلص صاحب نے اتنا لکھا کہ برسوں لکھنے والے ادیبوں کے پاس اتنا ادبی سرمایہ نہ ہوگا جتنا تخلص صاحب کی بے چین اور بیباک روش نے اکٹھا کرلیا۔ خالہ کے بعد، غفور میاں سے متعارف کروایا اور پھر پوسٹ مارٹم، کے ذریعہ اپنا لوہا منوالیا۔ تخلص صاحب کا ٹھیٹھ بھوپالی لہجہ اور مقامی اثرات نے ایک عجب سی انفرادی شان پیدا کردی۔ بھوپالی الفاظ کا اتنی بے ساختگی اور برجستگی سے استعمال کیا کہ ان کی عبارت کا لطف دو چند ہوگیا۔ عصری مسائل پر لکھنے میں تخلص صاحب کا قلم خوب رواں ہے۔ وہ خالہ کی زبان سے ہو یا غفور میاں کی۔ اور سب سے بڑھ کر اردو زبان کو ایسا لافانی کردار عطا کرگئے جو مقامی لب و لہجہ، کلاسیکی قدروں کے ساتھ عوامی سطح پر زندگی بسر کرنے کا مخصوص فلسفہ، مخصوص ذہنیت اور زندگی کی خوش باشی سے لطف لینے کا انداز، یہ سب کچھ بڑے ہی فطری انداز میں تخلص کی عبارت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ حق گوئی اور طنز کی کاٹ بھی ان کے یہاں لاجواب ہے۔
طنز نگار کے جذبہ کا خلوص اس کے لب و لہجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ موضوعات کا انتخاب نظریاتی فرق ہوسکتا ہے، لیکن جذبہ کی شدت اور تڑپ کبھی کبھی تو عبارت کے موضوع سے ہی دکھائی دینے لگتی ہے۔ "شیطان جاگ اٹھا" تخلص صاحب کا ایک اور مجموعہ ہے۔ جس میں متنوع مضامین شامل ہیں۔
"اس سے پہلے کہ دنیا کا انسان مجھے گمراہ کردے مجھے جلد سے جلد جنت میں بلالے کروڑوں سال پہلے انسان کو سجدہ نہ کرنے کی پاداش میں جنت سے نکالا گیا تھا۔ لیکن اب اس موڈ میں ہوں کہ آج کے انسان کو سجدہ کرکے تیرے حکم کی تعمیل کردوں کہ یہ انسان وہ نہیں جس کو سجدہ نہ کرنے کا میں نے عزم کیا تھا"
اتنا گہرا طنز حقیقت کے پردوں سے ہی باہر آتا ہے۔ تخلص صاحب کا مشاہدہ اور تجربہ بہت زبردست تھا۔

ڈاکٹر شفیقہ فرحت:
بلاشبہ شفیقہ فرحت کی شخصیت ایسی اکلوتی ادیبہ کا تصور پیش کرتی ہے جنہوں نے طنزومزاح کی صنف کو اس خلوص سے اپنایا کہ ساری زندگی اس کے علاوہ اپنے قلم کو بھٹکنے نہ دیا۔ بے پناہ انشایئے ان کے رشحات قلم سے وجود میں آتے رہے۔
ادبی دنیا سے ان کا رشتہ رسالہ "کرنیں" کے اجرا سے ہوا۔ یہ رسالہ بچوں اور خواتین کے لیے تھا۔ اور جس کی عمر ایک سال سے زیادہ نہ ہوپائی کہ وہ اپنی عمر طبعی کو پہنچ گیا۔ لیکن اس دوران ادب کے مختلف گوشوں سے واقفیت ہوئی۔ یوں آپ نے متعدد افسانے بھی لکھے۔ لیکن خود ان کی نظر میں ان کے انشایئے زیادہ قابل اعتنا تھے کہ وہ گویا خون جگر کی نمود تھے اور ان کے رنگ خاص کے مظہر، اور یہ حقیقت بھی ہے۔ شفیقہ فرحت صاحبہ نے انشائیوں کے علاوہ اخباری کالم بھی تحریر کیے، قلمی خاکہ نگاری سے گونہ شغف تھا۔ متعدد قلمی خاکے ان کی نوک قلم کے رہین ہیں کہ خاکوں پر مبنی ایک مجموعہ حال میں شائع ہوا ہے۔ "چہرے جانے ان جانے"۔ انشائیوں کے مجموعے پانچ ہیں۔ "لو آج ہم بھی"، "رانگ نمبر"، "گول مال، "ٹیڑھا قلم" اور "نیم چڑھے" ان کے علاوہ متعدد وہ انشایئے جو مختلف رسائل میں بکھرے پڑے ہیں اور انہیں یکجا کرنے کی نہ انہیں فرصت تھی نہ ہمت۔ ریڈیو فیچر بھی ان گنت لکھے اور ڈرامے بھی۔ کچھ ڈرامے کھیلے بھی گئے اور لطف یہ کہ وہ سب مزاحیہ ہیں۔ اسی طرح قلمی خاکوں کے انداز میں بھی شوخی کارفرما ہے۔ سفرنامے کم ہی لکھے ہیں۔ جتنے بھی لکھے ہیں ان میں حاوی انداز تحریر شوخ نگاری ہی ہے۔ غرض کہ ان کی فنکاری میں طنز و مزاح کو خاص مقام حاصل ہے۔ بیباکی اظہار، چھوٹے چھوٹے فقروں سے اپنے مطلب کا پہلو نکالنا اور بیان میں اسے اس طرح استعمال کرنا کہ شوخ بیانی اور طنز کی لطافت دونوں اپنا اثر دکھاسکیں۔۔
ابتدائی انشائیوں میں ظرافت اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے اور جب طنز کرنے پر آتی ہیں ان کا نشانہ بڑا کارگر لیکن بہت ہی شستہ اور شائستہ ہوتا ہے۔ اپنی ذات خاص کو نہایت بے دردی سے نشانہ بناتی ہیں۔ ان کے انشائیوں کے موضوعات روزمرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور اردگرد کے مسائل ہوتے ہیں۔ اور مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ خواتین ادیبوں میں شفیقہ فرحت کی ذات اس واحد طنزومزاح نگار کی ہے جس نے اپنی ساری زندگی اور اپنے ادب کا بیشتر حصہ انشائیہ نویسی کے لیے وقف کررکھا تھا۔ اور ان کا فن طنزومزاح کا لطیف امتزاج پیش کرتا ہے۔ چند دلکش انشایئے حسب ذیل ہیں۔ روم میٹ، زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی، کرسی، چوہے اور آلو وغیرہ۔

ڈاکٹر سید حامد حسین:
انگریزی کے پروفیسر تھے۔ اردو میں تحقیقی و تنقیدی مضامین بہ کثرت لکھے۔ کلاسیکی ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ لیکن طنزومزاح پر طبیعت جو آئی تو اتنے مضامین تو لکھ ہی لیے اور ان میں سے بعض ادبی جلسوں میں پڑھے بھی گئے اور پسند بھی کیے گئے۔ ان مضامین کا مجموعہ "موج در موج" کے نام سے شائع ہوا۔ ان میں سے بعض مضامین خالص مزاحیہ ہیں اور بعض میں طنز کی آمیزش بھی ہے۔ ان کے یہاں لطیف مزاح اور برجستہ طنز کے نمونہ اکثر نظر آتے ہیں۔ "قصہ منہ بولی بھاوجوں کا"۔ اور "داڑھی" ایسے ہی انشایئے ہیں۔ بات میں بات پیدا کرتے ہیں اور سامنے کی معمولی بات میں لطف مزاح سے چاشنی پیدا کردیتے ہیں۔۔

ابراہیم یوسف:
بنیادی طور پر فن ڈرامہ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ طنز کے تیکھے تیر ان کے پہلے مجموعے "سوکھے درخت" سے نظر آنے لگتے ہیں۔ ان کے ڈرامے "لاش کے گرد"، "حیوان"، "ایک حمام میں"، "چمکَاڈریں"، اور "جمہور کے ابلیس" میں طنز کے نشتر بڑے زبردست ہیں۔ ابراہیم یوسف صاحب نے بہت لکھا ہے۔ بعض طنزیہ مزاحیہ مضامین حسب ذیل ہیں۔ بیماریاں اور عزیز محترم، ہماری ہابی، آؤ دنگا دنگا کھیلیں اور معرضت صاحب وغیرہ۔

قیوم جاوید:
بھوپال کی صحافت میں سرگرم رہے۔ مزاحیہ کالم لکھتے رہے۔ اور ہفتہ وار "ایاز" میں بھی قلمی نام "راکٹ" سے مزاحیہ کالم لکھے۔ ایک طویل عرصہ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ریڈیو بھوپال کے لیے بھی طنزیہ مزاحیہ مضامین لکھتے رہے۔ ان کا اسلوب بہت شائستہ ہے۔ روزمرہ حالات اور کیفیات میں سے مزاحیہ پہلو پیدا کردیتے ہیں۔
چند مضامین کے موضوعات حسب ذیل ہیں کھانا مسلمانوں کو کھاگیا، خاندان والی خالہ، ایران عراق کا برادرانہ فساد۔۔

شمیم احمد:
اسکول کے زمانہ سے ہی آپ نے لکھنا شروع کردیا تھا۔ سنجیدہ علمی مضامین لکھتے رہے۔ ایم۔ اے سال آخر میں "اردو میں رپور تاژ" لکھا۔ جس کے بیشتر ابواب برصغیر کے اہم رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ایک مختصر ناولٹ۔ "شاعروں کا جمہوری دیس" ہے۔ تخیل کی اڑان اور مزاح کی کیفیت نے اسے خاصے کی چیز بنادیا ہے۔ (ہنوز تشنہ طباعت ہے) چند مزاحیہ مضامین یہ ہیں۔ "من کہ مسٹر فاعلن، قلندر صاحب، علامہ اڑن دستہ، غزل جگالیہ، گزیٹیڈچپراسی وغیرہ۔
شمیم احمد کی تحریروں میں ان کی ذہانت کے جلوے صاف دکھائی دیتے ہیں جس سے مزاح میں انفرادی شان پیدا ہوجاتی ہے۔

پروفیسر ضمیر الدین:
انگریزی کے پروفیسر ہیں۔ خوش باش انسان ہیں۔ انگریزی میں لکھے گئے light essays کا مجموعہ ’Smile‘ کے نام سے شائع ہوچکا تھا۔ پھر اردو نے اپنی طرف کھینچا اور انہیں مضامین میں سے بیشتر کو اردو میں منتقل کیا۔ روزنامہ ندیم، کے مزاحیہ کالم میں لکھنا اختیار کیا اور پسند کیے جانے لگے۔ ہلکے پھلکے مضامین، طنز کی کاٹ کم سے کم اور بیشتر خالص مزاح لکھا۔ اردو میں مضامین کا ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے۔ اس کتاب کا نام "چلتے پھرتے" تجویز کیا گیا ہے۔ جو کالم نگاری کی معنویت کو ظاہر کرتا ہے۔

مصطفےٰ تاج:
مقامی رہن سہن، لوگوں کی عادتیں، بھوپال کی معاشرت۔ ادبی اور سیاسی سرگرمیاں ان کا موضوع سخن بن جاتے ہیں۔ خاکہ نگاری میں انہیں کمال حاصل ہے۔ ان کے انشائیوں کے مجموعے کا نام "اب میں کیا کروں" سولہ مضامین پر مشتمل ہے۔ ان کے چند مشہور خاکوں میں "جی۔ ایم نغمی کا خاکہ اور نجیب رامش کا خاکہ "عجیب منش" کے عنوان سے لکھے گئے۔ مصنف کا مشاہدہ، زبان و بیان کا چٹخارہ اور شخصیت کا سراپا نہایت فنکاری سے پیش کیا گیا ہے۔۔
خاکہ نگاری کے زعم اور شوق میں کبھی کبھی مصطفےٰ تاج ذاتیات کو بھی نشانہ بنالیتے ہیں۔ ان کا قلم بے تکلفی میں حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ اور یوں بجائے خاکہ لکھنے کے خاکہ اڑانے لگتے ہیں۔

خالد محمود:
خالد محمود، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں شعبہئ اردو سے وابستہ ہیں۔ ذہین ہیں اور اردو کے بیشتر اصناف میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں۔ انشائیوں کے موضوعات روزمرہ زندگی اور اپنے اردگرد سے اخذ کرتے ہیں۔ مشاہدہ گہرا بھی ہے اور دلکش انداز بیان سے روزمرہ کی باتیں بھی لطیف پیرایہ اختیار کرلیتی ہیں۔
"سٹی منی بس کا سفر" اور بہشت آنجاکہ مہمانے نہ باشد ’اپنے موضوع سے ہی دل فریبی کی چغلی کھارہے ہیں۔ اور اسی طرح ان کے اکثر انشایئے انفرادی شان رکھتے ہیں۔

ماسٹر اختر:
سنجیدہ اور متین انسان ہیں۔ تحقیقی مزاج رکھتے ہیں۔ بھوپالی ماحول، سیاسی داؤ پیچ، سماجی شعور اور انسانی شناخت کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ "روبرو" طنزیہ مزاحیہ مضامین پر مشتمل ان کی واحد تصنیف ہے۔ جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ آپ، تم، تو اور تڑاخ۔
بھوپالی زبان اور لب و لہجہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن جہاں مزاح پر آنچ آرہی ہو وہاں لب و لہجہ بدل بھی گیا ہے۔ اور یہ پہلا موقع نہیں۔ تخلص بھوپالی نے بھوپالی زبان کو ادب کا جزو بنایا، تو مصطفےٰ تاج نے بھی بھوپالی لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کی تھی اور ماسٹر اختر نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ "مجھے اندیشہ ہوا کہ تلفظ کی بھول بھولیوں میں کہیں مزاح کی چاشنی پھیکی ہوکر نہ رہ جائے۔" روبرو کے مکالموں میں لب و لہجہ کی دلکشی بیان کی لطافت ایک معیار بھی رکھتی ہے اور قاری کے لیے دلچسپی کا سامان بھی۔

اقبال مسعود:
خالصتہً طنز یا طنز و مزاح کم لکھا ہے۔ البتہ افسانوی میں طنزیہ عناصر بھرپور ہیں۔ "پڑوس کے بچے" اور ایک فرشتے سے انٹرویو"۔ ایسی ہی کہانیاں ہیں جن کی طنز کی کاٹ مصنف کے انداز بیان کی لطافت اور ذہانت کی مظہر ہے۔

محمد خالد عابدی:
طنزیہ مزاحیہ انداز بیان پر مشتمل ان کی کتاب ’شکایتہً عرض ہے‘، میں لطیف طنز کی متعدد مثالیں مل جاتی ہیں۔ یوں خالد عابدی نے بہت لکھا ہے۔ طنزومزاح ان کا خاص میدان بھی نہیں ہے۔ پھر بھی اس کتاب میں ان کا طنز بڑا جاندار ہے۔ چونکہ طنز، حقیقت کے پروں سے اڑتا ہے، اگر ان مسائل اور کیفیات پر نظر ڈالیں جن کے تحت یہ طنز وجود میں آیا تو لگتا ہے اس سے بہتر وار ہو ہی نہیں سکتا۔

عظیم الدین احمد:
آپ بھی آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہیں۔ مزاحیہ مضامین پر مشتمل ان کی کتاب "مسکراہٹیں" میں کچھ ریڈیو فیچر ہیں اور کچھ ریڈیو ڈرامے بھی۔ جو ریڈیائی تکنیک کی حدتک خاصے پسند کیے گئے۔

نظام احمد قریشی:
سیفیہ کالج میں فارسی کے پروفیسر رہ چکے ہیں۔ مزاحیہ نظمیں بھی لکھتے ہیں اور انشایئے بھی۔ ان کے چند مضامین حسب ذیل ہیں۔ اولاد کا اثر پڑھائی پر، شکوہ استاد اور برقعہ وغیرہ۔

خالدہ بلگرامی:
عرصہ تک روزنامہ ندیم میں بچوں کے سیکشن کی ایڈیٹر رہیں۔ گاہے گاہے طنزیہ، مزاحیہ مضامین بھی لکھتی رہی ہیں۔
دلہن کی تلاش، داماد کی منڈی، تلاش گم شدہ اور "کیا کیا جائے" ان کے چند خاص مضامین ہیں۔

حفصہ عرب:
صرف نام سے ہی عرب نہیں ہیں، بھوپال گرلس کالج میں عربی کی پروفیسر رہی ہیں۔ بہت کم لکھتی ہیں۔ لیکن جب لکھتی ہیں تو دل لگا کر لکھتی ہیں۔ ان کے مضامین تعداد میں کم سہی، فن کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں۔ "کرشمات زبان" اور "میاں ہی میاں‘ قابل ذکر انشایئے ہیں۔

انیس سلطانہ:
راقم الحروف نے بھی زمانۂ طالب علمی سے ہی انشائیہ نگاری سے اپنے شغف کا ثبوت دینا شروع کردیا تھا۔ البتہ ان انشائیوں کے لیے واقعات کا اتفاقی سرزد ہونا شرط تھا۔ چنانچہ ایک سہیلی کے اتفاقیہ (ایم۔ ایل۔ بی، کالج جو کبھی چھوٹے تالاب کے کنارے ہوا کرتا تھا) تالاب میں ڈوبنے اور پھر نکالے جانے کی داستاں ہے جس نے ایک انشائیہ کو جنم دیا۔ "ہوئے ہم جو غرق دریا" اور پھر وقتاً فوقتاً زندگی کے واقعات اور حادثات لکھنے کے لیے اکساتے رہے۔ اور یوں انشائیوں کا ایک مجموعہ "قصور معاف" منظر عام پر آسکا۔ سفر ابھی جاری ہے!! کم و بیش تمام انشایئے "ماہنامہ شگوفہ" میں شائع ہوچکے ہیں۔۔

یہ بھی پڑھیے:
نواب حمید اللہ خان - سابق بھوپال فرمانروا کے عہد میں شعر و ادب
لاٹھی اور بھینس - ملا رموزی کی گلابی اردو - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

ماخوذ:
ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد)۔ شمارہ: جنوری 2009۔

Humour Literature in Bhopal, Article by: Dr. Anees Sultana.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں