نواب حمید اللہ خاں (پ: 9/ستمبر 1894 ، م: 4/فروری 1960) سابق ریاست بھوپال کے آخری فرمانروا تھے جن کا نوابی عہد اپریل 1926 سے جون 1949 تک قائم رہا۔ حمید اللہ خاں روشن خیال حکمران اور بیدار مغز سیاست دان تھے۔ ان کی 125 ویں سالگرہ پر، ان کے عہد کے شعر و ادب کا ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔
1927ء میں نواب سلطان جہاں بیگم اپنے چھوٹے صاحبزادے نواب حمید اللہ خان کے حق میں حکومت سے دستبردار ہو گئیں۔ نواب صاحب نہایت روشن دماغ اور جدت پسند انسان تھے۔ یہ ریاست کے پہلے فرمانروا تھے جو گریجویٹ تھے۔ انہوں نے اپنی قابلیت اور سوجھ بوجھ کی بدولت نہایت اچھی طرح ریاست کے کاروبار کو سنبھالا اور اسے روز افزوں ترقی سے ہمکنار کیا۔ ان کا عہد ریاست کے ہند یونین میں انضمام یعنی 1949ء تک رہا۔
علمی و ادبی رجحانات کے لحاظ سے یہ دور بھی دور سابقہ سے مماثلت رکھتا ہے۔ نواب صاحب، صاحب علم اور علم نواز تھے، انھوں نے اہل دانش و فن کی بہتر طور پر سرپرستی فرمائی۔ علمی و ادبی رجحانات میں جو جدت نواب سلطان جہاں بیگم کے زمانے میں نظر آتی تھی، نواب صاحب کے عہد میں اس کی رفتار میں مزید تیزی آئی۔
"ادب برائے زندگی" کا نظریہ کلی طور پر تمام تخلیقات میں نظر آتا ہے۔ شعر و شاعری میں بدستور اصلاحی، مقصدی، اخلاقی اور اجتماعی شعور بیدار ہوتا چلا گیا۔ پامال، فرسودہ اور عامیانہ انداز بیان کا تقریباً اختتام ہو گیا۔ اس دور کی شاعری بھرپور کیف و سرور سے معمور سنجیدہ و متین اور پرتاثیر ہے۔ سچے جذبات کی فراوانی نظر آتی ہے، اسلوب بیان میں ندرت اور تازگی پائی جاتی ہے۔ نئی تشبیہات و نئے استعارات اور نئی تلمیحات وضع کی گئی ہیں۔ ان تمام جدید رجحانات کے ساتھ ادب کو زندگی سے قریب لانے کی کوشش کی جا رہی تھیں۔
ہر سال نواب صاحب کے زیر اہتمام جشنِ سالگرہ کے سلسلے میں یہاں آل انڈیا مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا تھا۔ جس میں ملک کے نامور شعراء شرکت کرتے تھے جن میں قائی، جوش ملیح آبادی ، جگر مرادآبادی ، فراق گورکھپوری ، سیماب اکبرآبادی ، حفیظ جالندھری، احسان دانش، نانک لکھنوی، آنند نرائن ملا ، احسن مارہروی ، سراج لکھنوی، شوکت تھانوی، روش صدیقی، ساغر نظامی، آغا حشر کاشمیری، بہزاد لکھنوی، یاس عظیم آبادی۔۔۔ خاص طور پر اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ مشاعرے بھوپال کے مذاقِ شعری پر بڑی حد تک اثر انداز ہوئے۔
اس دور میں یہاں ترقی پسند ادب کا بھی آغاز ہوا۔ ترقی پسند مصنفین کی با قاعده انجمن بھی قائم ہوئی، اشتراکی نقطہ نظر اس دور کے نوجوان شعراء و ادباء کی تخلیقات میں داخل ہونا شروع ہوا۔
نواب حمید اللہ خاں کے عہد حکومت میں نظام تعلیم میں زبردست تبدیلیاں عمل میں آئیں۔ الکزینڈر اور جہانگیریہ ہائی اسکول کا الحاق عثمانیہ یونیورسٹی سے کر دیا گیا۔ جس کی بدولت اردو ذریعۂ تعلیم کو فروغ ملا۔ اس کے علاوہ بے شمار علمی وادبی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔
اخبارات اور رسائل کے اجراء کے لئے بھی یہ دور گذشتہ ادوار سے ممتاز ہے۔ جو رسائل اور اخبارات جاری کئے گئے ان میں گوبر ادب ، آفتاب نسواں، بصائر، افشاں، افکار، ندیم، جاده، معیار ادب اور کردار وغیرہ کافی اہم ہیں۔ ان کے علاوہ الگزینڈر ہائی اسکول سے "گہوارہ ادب" نام کا ایک معیاری رسالہ جاری کیا گیا۔
نواب صاحب کے ذوق ادب کی بدولت اس عہد میں نشر و اشاعت کا زبردست کام ہوا۔ انھوں نے سلطان جہاں بیگم کی تقاریر کا مجموعہ بھی "خطبات سلطانی" کے نام سے طبع کروایا اور اہل علم و ہنر کی سرپرستی بھی فرمائی۔ علامہ اقبال کو ان کی ادبی خدمات کے سلسلے میں پانچ سو روپیے ماہوار کا وظیفہ جاری کیا۔ ریاست کی طرف سے حفیظ جالندھری کو بھی وظیفہ دیا جاتا تھا۔ نواب صاحب کی ان کرم فرمائیوں سے ریاست کا مشاہیر ادب سے گہرا تعلق قائم ہوا۔
نواب حمید اللہ خاں کے عہد کے چند اہم شعرا و ادبا درج ذیل ہیں:شعری بھوپالی:
محمد اصغر شعری اپنے عہد کے ایسے مایۂ ناز اور مقبول شعرا میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے اپنے شعری سفر کے ابتدائی دور میں ہی بےپناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ ان کی پیدائش 1902 میں اکبرآباد (آگرہ) میں ہوئی تھی۔ 1940 کے آل انڈیا بھوپال طرحی مشاعرے میں شعری کی اس غزل نے داد کا طوفان بٹورا تھا:
اگر کچھ تھی تو بس یہ تھی تمنا آخری اپنی
کہ تم ساحل پہ ہوتے اور کشتی ڈوبتی اپنی
بھوپال میں غزل کے اعلیٰ معیار کو قائم کرنے اور نبھانے والا یہ نامور شاعر 9/جولائی 1991 کو انتقال کر گیا۔
باسط بھوپالی:
باسط بھوپالی ایک خوش فکر اور معتبر شاعر تھے جن کا اندازِ بیان سادہ، سلیس اور مٹھاس والا تھا۔ یہ ذکی وارثی کے شاگرد تھے۔ اس صاحبِ طرز اور باہمت شاعر نے کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے اپنا مجموعہ کلام "کلام کاروانِ غزل" ترتیب دیا تھا مگر اس کی اشاعت سے قبل ہی وہ 1961 میں دنیا سے وداع ہو گئے۔
کیف بھوپالی:
خواجہ محمد ادریس (پ: 20/فروری 1917 یا 1920) المعروف کیف بھوپالی، بھوپال کے نہایت باصلاحیت اور نامور شاعر تھے۔ وہ نسلاً کشمیری تھے مگر ان کا آبا لکھنو سے ریاست بھوپال کی تحصیل اودےپور میں آکر آباد ہو گئے تھے۔
کیف بھوپالی نصف صدی سے زیادہ شاعری کے افق پر چھائے رہے۔ فلمی دنیا سے وابستگی کی بنا پر "پاکیزہ" اور "رضیہ سلطان" جیسی مہنگی اور کامیاب فلموں کے لیے انہوں نے گانے لکھے تھے جو بےحد مقبول ہوئے۔ کیف کا سب سے بڑا کارنامہ کلام پاک کا منظوم ترجمہ "مفہوم القرآن" ہے جو منظوم ہونے کے باوجود مفہوم سے بےحد قریب ہے۔
ملا رموزی:
گلابی اردو کے موجد محمد صدیق ارشاد (پ: 21/مئی 1896) المعروف ملا رموزی اپنے دور کے واحد بھوپالی ہیں جنہیں ملک گیر نہیں بلکہ زبردست عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ گلابی اردو کا طرز تحریر ان کی ذہنی اختراع کا نتیجہ تھی جس نے سارے ہندوستان میں دھوم مچا دی تھی۔ ملا رموزی شاعر بھی تھے اور نثرنگار بھی لیکن ان کی شہرت کا دارومدار ان کی ظرافت نگاری پر تھا، وہ صرف مزاح نگار نہیں، حافظ قرآن، سیاست داں اور نکتہ چیں بھی تھے۔ ان کی پچیس کے قریب مطبوعہ کتب ہیں۔ یکم/جنوری 1952 کو ان کا انتقال ہوا۔
ڈاکٹر عابد حسین:
1896 میں بھوپال میں پیدا ہونے والے ماہر تعلیم عابد حسین 1916 تک بھوپال میں ہی زیرتعلیم رہے، پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی۔اے (آنرز) اور جرمنی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد جامعہ ملیہ دہلی سے وابستہ ہو کر علم و ادب کی خدمت میں تاحیات مشغول رہے۔ 12/دسمبر 1978 کو دہلی میں انتقال کر گئے۔
ان کے علاوہ نواب حمید اللہ خاں کے عہد میں ایک بڑی تعداد ایسے اہل قلم کی تھی جنہیں شہرت اور مقبولیت حاصل تھی اور جنہوں نے شعری و ادبی سرمایہ میں قابل قدر اضافہ کیا۔ ان کے نام حسب ذیل ہیں:
حامد سعید خاں، وکیل بھوپالی، محمد علی نجمی سیہوری، ممتاز رسول یکتا، ظہیر حسن ذکری، محمود علی کاتب، عظمت اللہ بھوپالی، سید منظور حسین سروش بھوپالی، غلام اللہ افسوں بھوپالی، مقصود عمرانی، اسعد اللہ خاں اسعد بھوپالی، مقصود عرفان بھوپالی، فضل اللہ سرور بھوپالی، حامد رضوی، شرافت علی صہبا لکھنوی، حمید احمد حمید قریشی، حبیب فخری، مخمور بھوپالی، عائشہ بیگم انصاری زلفی، سیدہ انور جہاں منور، راجکماری سورج کلاسہائے سرور، ناز کرمانی، حافظ وحید اللہ خاں، تسنیم فاروقی، فاطمہ قیصری وغیرہ۔
***
ماخوذ از کتاب:
ریاست بھوپال اور مشاہیرِ اردو (مصنفہ: ڈاکٹر ارجمند بانو افشاں، اشاعت: 2012)
ماخوذ از کتاب:
ریاست بھوپال اور مشاہیرِ اردو (مصنفہ: ڈاکٹر ارجمند بانو افشاں، اشاعت: 2012)
The literary period during Nawab of Bhopal Hameedullah Khan.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں