آصف جاہی سلطنت کی مختصر تاریخ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-03-09

آصف جاہی سلطنت کی مختصر تاریخ

asifjahi-dynasty-history

مغل سلطنت کے مشہور فوجی جرنیل دکن کے صوبیدار چن قلیچ خان قمرالدین آصف جاہ نظام الملک نے اپنی خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے 1724ء میں سلطنت آصفیہ کی بنیاد رکھی جو سقوط حیدرآباد 1948ء کے بعد ختم ہو گئی۔

اورنگ زیب کی وفات (1707ء) کے بعد ہندوستان میں بڑھتی ہوئی طوائف الملوکی اور سفید فام اقوام کے بڑھتے ہوئے غلبے کے لحاظ سے یہ دور نہایت ہی اہم ہے۔ نظام الملک اول اپنے چوبیس سالہ دور حکومت میں نادر شاہ درانی کے حملوں سے دلی سلطنت کے دفاع میں، مرہٹوں سے جنگوں میں اور اندرونی سازشوں کو کچلنے میں مصروف رہا۔ ایک بہترین جرنیل اور مدبر نظام الملک نے دکن کی سرحدوں کی حفاظت اور اندرونی نظم و نسق کی بہتری میں کئی خدمات انجام دیں۔ نظام الملک کے انتقال (1748ء) کے بعد جانشین ناصر جنگ اور نظام الملک کے نواسے مظفر جنگ میں کشمکش چھڑ گئی۔ ناصر جنگ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے کرناٹک میں مظفر جنگ کو مغلوب کر لیا۔ اسی اثناء میں کرنول کے نواب ہمت خان نے ناصر جنگ کو قتل کر دیا۔ فرانسیسی گورنر ڈوپلے نے مظفر جنگ کی حمایت کی اور جنرل بسی کی قیادت میں فوجی دستہ مظفر جنگ کی تائید کے لئے روانہ کیا۔
پانڈی چری سے واپس لوٹتے وقت کرنول اور کڈپہ کے نوابین نے لکی ریڈی پلی، رائے چوٹی کے مقام پر مظفر جنگ کو شکست دی اور اسے قتل کر دیا۔ اسی طرح 1751ء میں ناصر جنگ کے دوسرے بھائی صلابت جنگ نے فرانسیسیوں کی مدد سے آصف جاہی سلطنت کا تیسرا تاجدار ہننے میں کامیابی حاصل کی۔
1761ء میں صلابت جنگ کے بھائی نظام علی خان نے بغاوت کے بعد اسے معزول کر دیا اور تخت پر قابض ہو گیا۔ نظام علی خان کا بیالیس سالہ دور حکومت (1761 تا 1803ء) سیاسی، اقتصادی اور فوجی اعتبار سے بہت اہم ہے۔ نظام علی خان نے مرہٹوں کی سرکوبی کیلئے پہلے فرانسیسیوں پر اور بعد میں انگریزوں پر انحصار کیا۔ فرانسیسیوں سے ناراض نظام علی خان نے انگریزوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور فرانسیسیوں کو دی ہوئی مراعات واپس لے لیں۔ میسور کی جنگوں میں انگریزوں کا ساتھ دیا اور سب سے اہم یہ کہ لارڈ ولزلی کے سبسیڈی معاہدے کے تحت ریاست انگریزوں کے عملی قبضے میں آ گئی۔ اضلاع مفوضہ بھی انگریزوں کے حوالے کر دئے گئے۔

نظام علی خان کے بعد سکندر جاہ (عہد حکومت 1803 تا 1829ء)، ناصر الدولہ (عہد حکومت 1829 تا۔ 1857ء)، افضل الدولہ (عہد حکومت 1857ء تا 1869ء)، میر محبوب علی خان (عہد حکومت 1869 تا 1911ء) نے آصف جاہی سلطنت کے وقار کو قائم رکھا۔ ان تمام حکمرانوں کے دور میں ریاست میں انگریزوں کا رسوخ دھیرے دھیرے بڑھتا رہا۔ سکندر جاہ کے عہد حکومت میں پالمر اینڈ کمپنی نے بھاری شرح سود پر حکومت کو قرض مہیا کیا جس کی وجہ سے مالیہ پر بہت برا اثر پڑا۔ آخر کار شمالی سرکار کے اضلاع انگریزوں کو تفویض کر دینے پڑے تاکہ قرضے کی پابجائی ہو سکے۔ ڈلہوزی کے گورنر جنرل بننے کے بعد ناصرالدولہ کے عہد حکومت میں برار، رائچور اور احمدنگر اضلاع بھی انگریز فوجوں کے مصارف کے بدلے میں تفویض کر دئے گئے۔
سالار جنگ اول نے بحیثیت وزیراعظم کئی اصلاحی اقدامات کئے جن کا خاطر خواہ اثر ہوا۔ افضل الدولہ اور میر محبوب علی خان کے عہد حکومت میں بھی سالار جنگ نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ محبوب علی خان کا عہد حکومت ایک حد تک پر امن کہا جا سکتا ہے۔ اس دور میں مال گذاری میں کئی اصلاحات نافذ کی گئیں۔ تجارتی اور صنعتی ترقی کے لئے کئی اقدامات کئے گئے ۔
نظام عثمان علی خان (عہد حکومت 1911 تا 1948ء) سلطنت آصفیہ کے آخری حکمران تھے۔ عثمان علی خان کا دور حکومت جہاں حیدرآباد کی ترقی کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے وہیں تلنگانہ جدوجہد، ملک کی آزادی، ریاست حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام ایسے نکات ہیں جن کی وجہ سے اس دور کو انقلابی دور بھی کہا جا سکتا ہے۔
تلنگانہ میں بغاوت اور بےچینی، زمینداری نظام کے ظلم و ستم کا بدیہی اور فطری نتیجہ تھا۔ حالانکہ اس دور میں ریاست حیدرآباد نے نمایاں صنعتی ترقی حاصل کی، نقل و حمل کے ذرائع بہتر ہوئے، تعلیمی اعتبار سے بھی بہت ترقی ہوئی لیکن جابرانہ زمینداری نظام نے اس حکومت کے رفاہی کاموں کو دھندلا دیا اور تاریخ میں اس کو ایک جابر اور ظالم دور کی حیثیت دے دی۔ ستمبر 1948ء میں سقوط حیدرآباد کے بعد سلطنت آصفیہ کا خاتمہ ہو گیا۔

غیرملکی طاقتوں خصوصاً فرانسیسیوں اور انگریزوں نے اس دور میں ہر طرح سے مفاد پرستی کا مظاہرہ کیا۔ کبھی ایک بادشاہ تو کبھی دوسرے بادشاہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر انہیں دھوکا دیتے رہے۔ فرانسیسیوں اور انگریزوں کی روایتی دشمنی کی آگ یہاں بھی بھڑکی اور ان دونوں سفید فام اقوام نے ہندوستان خصوصاً دکن کی سرزمین کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا۔ ہندوستانی حکمرانوں کی تائید کے پردے میں اور ان کے مددگاروں کے طور پر دراصل اپنی جنگیں لڑیں جن میں ہندوستان کا زیادہ نقصان ہوا۔ ان دونوں سفید فام اقوام نے اپنی آپسی دشمنی نکالنے کے لئے دکن کے مختلف حکمرانوں کو مہروں کے طور پر استعمال کیا اور ہندوستانیوں کی جان و مال کے زیاں سے اپنی دیرینہ نسلی دشمنی کا حساب چکتا کرتے رہے۔ انگریز فتح یاب رہے یا فرانسیسی، نقصان بہرصورت ہندوستان کا ہی ہوتا رہا۔ اس آپسی جنگ میں انگریزوں کو فوقیت حاصل ہوئی۔
میسور کی تین جنگوں کے بعد فرانسیسی عملی طور پر ریاست حیدرآباد سے خارج ہو گئے۔ 1800ء کے بعد تو انگریزوں نے مناسب نامناسب ہر اقدام کے ذریعے ریاست کو اپنا تابع فرمان بنا لیا۔ شمالی سرکار کے اضلاع، رائچور، عثمان آباد کے علاقے، اضلاع مفوضہ غرض کہ ریاست کا ایک بڑا حصہ راست انگریزوں کے تحت آ گیا۔ انگریز رزیڈینٹ نے ریاست کے داخلی معاملات میں بھی دخل اندازی روا رکھی ۔ ریاست کی فوج کی تربیت اور تنظیم کے نام پر پر فوج پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ ریاستی فوج کے علاوہ دارالحکومت میں اپنا فوجی رسالہ قائم کیا۔ ان تمام باتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سلطنت آصفیہ کے آخری دور میں انگریز عملاً بادشاہ گر کا کردار ادا کر رہے تھے اور حقیقی طاقت انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔

صوبہ آندھرا پردیش کا قیام :
ملک کی آزادی کے بعد ریاست حیدرآباد کا الحاق انڈین یونین میں ہو گیا، لیکن تلنگانہ علاقے کے مسئلے پر صورتحال واضح نہیں ہوئی۔ اسی دوران سرکار اور رائلسیما کے اضلاع پر مشتمل آندھرا اسٹیٹ بنانے اور مدراس پریسیڈنسی سے علحیدہ صوبہ کے قیام کی تحریک شروع ہوئی جو اکتوبر 1953ء میں آندھرا اسٹیٹ کے قیام پر منتج ہوئی۔ دھار کمیشن اور فضل علی کمیشن (1955ء) کی سفارشات کے بعد یکم نومبر 1956ء کو تلنگانہ، سرکار اور رائلسیما کے اضلاع پر مشتمل صوبہ آندھرا پردیش کا قیام عمل میں آ گیا۔

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از کتاب:
اردو اور تلگو ترقی پسند شاعری : تقابلی اور تنقیدی مطالعہ
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ از: سید امتیاز پاشا قادری (گائڈ: پروفیسر کے۔ بشیر احمد)
ایس۔وی۔یونیورسٹی، تروپتی، آندھرا پردیش۔ (شعبہ اردو، فروری 2008)

A glimpse of Asifjahi Dynasty, Research article: Syed Imtiaz Pasha Qadri.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں