آصف سابع میر عثمان علی خان کی علمی و ادبی خدمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-09

آصف سابع میر عثمان علی خان کی علمی و ادبی خدمات

(5/اپریل کو 131 ویں یوم ولادت پر خصوصی تحریر)

علاقہ دکن میں آصف جاہی حکمرانوں نے مثالی رعایا پرور اور قومی یکجہتی کے تصور کے تحت بے مثال حکمرانی کی اردو زبان جو کہ آصف جاہی عہد میں سرکاری طورپر تسلیم کی گئی اور دفتری و حکومتی انتظامات کیلئے لازمی قرار دی گئی کاچلن عام ہوا آصف جاہی عہدکی سب سے اہم اور مثالی خوبی یہ تھی کہ اس دور کے سلاطین نے اپنے آپ کو رعایا کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا اور گنگاجمنی تہذیب کورواج دیا جس کے ذریعہ سے رواداری اور بھائی چارہ اس ریاست میں قائم رہا اور یہ ریاست کافی ترقی کرتی گئی ساتھ ہی دنیا کی تاریخ میں ایک مثالی ریاست کے طورپر تسلیم کی گئی۔ آصف جاہی عہد نواب میر قمر الدین خان نظام الملک آصف جاہ اول 1724ء سے نواب میر عثمان علی خاں نظام الملک آصف جاہ سابع1948ء تک کم و بیش 225 سال تک قائم رہا ۔ آصف جاہی عہد میں کل آٹھ سلاطین نے حکومت کی لیکن میر عثمان علی خان بہادر جو آصف سابع کے نام سے حیدرآباد دکن کی تاریخ میں یاد کئے جاتیں ہیں اپنے بے مثال انتظام حکومت اور عوامی خدمات کے سبب ذیادہ مشہور ہیں ۔ اور آج حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ، عثمانیہ دواخانہ، عدالت العالیہ ،گنڈی پیٹ عثمان ساگر اور حسین ساگر جیسی عوامی خدمات کی نشانیاں ہیں وہ سب میر عثمان علی خان آصف سابع کے ہی کارنامے ہیں ۔ وہ ایک اچھے حکمران ہیں نہیں بلکہ علمی ادبی اعتبار سے ایک قابل انسان تھے ۔ ان کے یوم پیدائیش کے ضمن میں ان کے حالات زندگی اور علمی اور ادبی کارنامے پیش ہیں ۔

یکم رجب المرجب1302ء مطابق5/اپریل1886 ء کو پرانی حویلی حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ 1911ء میں جب کہ وہ 24سال کے تھے آصف سابع کی حیثیت سے ریاست حیدرآباد دکن کے فرمان روا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اعلیٰ تعلیم مدرسہ عالیہ اور نظام کالج سے حاصل کی ۔ میر عثمان علی خاں بچپن سے ہی ذہین اوراعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ اردو، عربی، فارسی، انگریزی زبانوں پر دسترس رکھتے تھے وہ ایک بہترین شاعر اور ادب نواز شخصیت تھے شاعری میں عثمان تخلص کرتے تھے ۔ ان کی شادی 1910ء میں
نواب جہانگیر بہادر کی صاحبزادی اعجاز النساء سے ہوئی۔
میر عثمان علی خاں بہادر آصف سابع کی حکمرانی 29/اگست1911ء سے لے کر17/ستمبر1948ء تک قائم رہی یعنی انہوں نے 37سال تک حکمرانی کی اور عوام کی خدمت انجام دی ان کی یہ دور مملکت آصفیہ کاسنہری اور بہترین دور تھا ان کے دور میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا حکومت کے کاروبار اردو زبان ہی میں انجام پاتے تھے۔ ان کا انتقال 24/فروری 1967ء میں حیدرآباد میں ہوا۔

میر عثمان علی خاں بہادر آصف سابع کا دور مثالی اور سنہرا دور تھا اردوداں زبان وادب کیلئے اس عہد سے بہتر ہندوستان کی تاریخ میں کوئی دور نہیں رہا ہو گا۔ ان کے 37سالہ دور حکمرانی میں اردو زبان کو ریاست حیدرآباد کی سرکاری زبان کی حیثیت سے بہت زیادہ ترقی کامیابی اور وسعت نصیب ہوئی اس کی مثال کوئی ہندوستانی زبان پیش نہیں کر سکتی۔ میر محبوب علی خان نظام ششم کے زمانہ میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی اور اردو زبان دفتری نظام میں مکمل طورپر رائج ہو چکی تھی۔
پروفیسر مجید بیدار اپنے مضمون میں میر عثمان علی خان کے عہد کی تعلیمی پس منظر کے متعلق لکھتے ہیں :
"میر عثمان علی خان کی تخت نشینی 1911ء کے وقت ریاست حیدرآباد میں مدارس کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اورجامعہ عثمانیہ کے قیام تک سرکاری مدرسوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار ہو گئی اور جن میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد تیئس لاکھ ستائیس ہزار تھی جن کو اعلیٰ تعلیم سے فیضیاب کرنے کے لئے ایک جامع کی شدید ضرورت تھی اور یہ جامع عثمانیہ کی شکل میں مملکت آصفیہ کی اہم دین بن گئی۔ "
(پروفیسر مجید بیدار "جامعہ عثمانیہ کی خدمات" تاریخ اردوزبان و ادب، ص306,305)

میر عثمان علی خاں آصف سابع نے تعلیم کی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز کی تھی یہی وجہ رہی کہ انہی کے دور حکمرانی میں ہندوستان کی عظیم الشان جامعہ "جامعہ عثمانیہ" کے نام سے 1918ء میں قائم ہوئی جس کا افتتاح اگست1919ء کو عمل میں آیا۔

ڈاکٹر سید مصطفی کمال نواب میر عثمان علی خاں کے دور میں اردو کی ترقی سے متعلق رقمطراز ہیں :
"نواب میر عثمان علی خان کے دور میں اردو زبان ترقی یافتہ ریاست کے ہمہ جہتی تمام تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئی ۔ نظم و نسق کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس کی دفتری ضروریات کی تکمیل میں سرکاری زبان اردو قاصر رہی ہو۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز حضرات نہ صرف اردو پر عبور رکھتے تھے بلکہ ان میں سے اکثر اعلیٰ و شستہ ادبی مذاق کے حامل بھی تھے۔ اسی دور میں دفتروں اور عدالتوں کی ہر سطح پر کسی دقت یا اختلاف کے بغیر بلالحاظ مذہب و ملت اور علاقہ وسیع پیمانہ پر اردو کا استعمال سرکاری زبان کی حیثیت سے اس زبان کی کامیابی کی دلیل ہے یہ کامیابی ہندوستان کی لسانی تاریخ کا ایک روشن باب ہے جس سے آنے والی نسلیں مستفید ہو سکیں گی۔ "
(ڈاکٹر سید مصطفی کمال، حیدرآباد میں اردو کی ترقی،ص171)

جس طرح سے ریاست حیدرآباد میں عہد آصفی اور خاص کر میر عثمان علی خاں کے عہد میں اردو زبان نے ترقی کی منزلیں طئے کی اور یہ زبان شعرو شاعر ی کے ساتھ ساتھ علمی، صنعتی اور دفتری زبانوں کی حیثیت حاصل کر چکی تھی دراصل یہ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان کی اردو زبان کی طئے ادبی خدمات رہی جس کو بھلایا نہیں جاسکتا اور نہ ہی فراموش کیاجاسکتا ہے ہم دیکھتے ہیں جامعہ عثمانیہ کے قیام سے قبل میر عثمان علی خان آصف سابع کی سرپرستی میں جامعہ عثمانیہ کے لئے اردو میں نصابی کتابوں کے ترجمے اور اشاعت کیلئے دارالترجمہ 14/اگست1917ء میں قائم کیا گیادارالترجمہ کے ناظم کی حیثیت سے اردوبان کی مشہور و معروف شخصیت مولوی عبدالحق کی خدمات حاصل کی گئی اور انہیں ناظم مقرر کیا گیا۔

پروفیسر مجید بیدار دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی اردو خدمات سے متعلق رقمطراز ہیں :
"اردو کوتدریسی زبان کی حیثیت سے یونیورسٹی کی اعلیٰ جماعتوں تک رائج کرنا ہندوستان میں سب سے پہلا تجربہ تھا جسے جامعہ عثمانیہ نے نہ صرف قبول کیا بلکہ دارالترجمہ کے ذریعہ اردو تعلیم کو میڈیسن انجینئرنگ اور قانون میں بھی رائج کر کے یہ ثابت کر دیا کہ شعر و ادب کیلئے ہندوستان کی مقبول ترین اردو زبان میں اتنی طاقت ہے کہ وہ نہ صرف علوم وفنون کابوجھ سنبھال سکتی ہے بلکہ ان کی درس و تدریس کے لئے بھی بہترین ماحول پیدا کر سکتی ہے چنانچہ جامعہ عثمانیہ کے قیام 1918ء سے ایک سال قبل یعنی 1917ء میں دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیاتاکہ نصاب میں شامل انگریزی کتابوں کے اردو میں ترجمے ہو جائیں اور ان کی اشاعت کے بعد نئے تعلیمی سال سے نصاب کی تکمیل کے لئے اردو کتابیں اساتذہ کے ہاتھوں میں آ جائیں ۔ "
(پروفیسر مجید بیدار "دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ کی خدمات" تاریخ اردوزبان و ادب، ص315)

آصف سابع میر عثمان علی خاں نے بلالحاظ مذہب و ملت مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کو تعلیمی امداد سے نوازا جن میں قابل ذکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور، آندھرا یونیورسٹی، بھنڈار کر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پونا، انڈین اکیڈیمی آف سائنس بنگلور قابل ذکر ہیں ۔

جس طرح سے میر عثمان علی خاں نے علمی خدمات کو اپنے عہد میں فروغ دیا اسی طرح انہوں نے ریاست کے انتظامات اور عوامی فلاح و بہبود کے عظیم کام بھی انجام دیئے ریاست حیدرآباد ہندوستان کی ایک عظیم اور مثالی ریاست تھی جس پر انسان اجتماعی طورپر خوشحال زندگی گذارتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور تعلقات کی خوشگواری پائی جاتی تھی ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کئے ہوئے تھی ریاست حیدرآاباد کی قومی یکجہتی بھی دنیا بھر میں مشہور رہی۔ یہاں کے حکمرانوں نے عوا م کے درمیان خوشگوار تعلقات کو ہمیشہ بنائے رکھا اور امن و امان سلامتی کے لئے بہتر سے بہتر خدمات انجام دیئے جن میں آصف سابع میر عثمان علی خاں کا دور بھی اہمیت کا حامل رہا ہے۔

1357ء میں ریاست حیدرآباد میں چند افسوسناک واقعات کے رونما ہونے پر اعلیٰ حضرات مظفرالملک والمالک فتح جنگ آصفجاہ سابع میر عثمان علی خان کا فرمان ملاحظہ فرمائیں :
"مجھے افسوس ہے کہ آج کل ملک کی سیاسی فضا بیرونی اثرات کے تحت جو خراب ہو گئی ہے جس کی وجہ سے فریقین میں (یعنی مسلم و ہنود) ہا تھا پائی ہو کر جن افراد کو زخم پہنچے ان سے ہمدردی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہہ کہہ بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس ملک میں امن و امان نہیں وہ ہرگز شاہراہ ترقی پر گامزن نہیں ہو سکتا اور نہ ایسے لغو حرکات سے کسی فریق کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا بجز اس کے کہ جان ومال کا نقصان ہو اور تعلقات باہم کشیدہ ہو کر بہ عوض آپس میں صلح و آشتی پید ا ہونے کا الٹی منافرت و مخالفت پید ا ہولہٰذا ہر دو کو چاہئے کہ عقل سلیم سے کام لے کر درست طریقہ کار اختیار کریں جس میں اس کی فلاح مضمر ہے۔ "
(میر عثمان علی خان بہادر آصف سابع، فرمان1357ء رسالہ اتحاد دکن عرف پیغام امن و امان ص3)

آصف جاہی عہد کا یہ عظیم کارنامہ رہا کہ انہوں نے ریاست میں امن وامان کی برقرار ی کے لئے کا رہائے نمایاں انجام دیا۔ میر عثمان علی خان آصف سابع نے اپنے دور حکومت میں رواداری اور یکجہتی کی جو مثال قائم کی وہ بے مثال ہے اور قابل تقلید نمونہ بھی ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بھی ہے۔
آصف سابع میر عثمان علی خان کی روداری سے متعلق ڈاکٹر شیلاراج لکھتی ہیں :
"میرعثمان علی خاں آصف سابع ایک نیک دل،ہمدرد، فیاض، غرباء پرور، فریس، مدبر اور رودار انسان تھے آپ کی ریاست حیدرآباد کی اپنی ایک بے مثال تہذیب تھی ایک کلچر تھا اور اُس کا اپنا نظام مملکت آپ کی سلطنت میں ہندوبھی تھے ، سکھ، عیسائی، پارسی اور مسلمان بھی تھے اور سب شیروشکر کی طرح رہتے تھے نہ کبھی ہندو مسلم فساد ہوا نہ کبھی خون کی ندیاں بہیں نہ کبھی یہاں تعصب کو بڑھاوا دیا گیا۔ تمام رعایا آصف سابع کی روداری کا دم بھرتی تھی۔ خود آصف سابع مساوات اور یکجہتی میں یقین رکھتے تھے اور سب کے ساتھ آپ کا یکساں سلوک تھا 1935ء تک حیدرآباد ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ "
(ڈاکٹر شیلاراج،شاہان آصفیہ کی رواداری اورہندو مسلم روایات، ص72,71)

الٰہی واعظوں کو کیا ہوا ہے جدا کرتے ہیں یہ دنیا کو دیں سے
عثمانؔ ان کو غلط ہے سمجھنا جدا جدا ہے جسم و جان کی طرح سے دنیا و دیں شریک

آصف سابع میر عثمان علی خاں اردو اور فارسی کے شاعر تھے گویا شاعری ان کو خاندانی وراثت میں ملی تھی وہ عثمانؔ تخلص کرتے تھے انہوں نے مشہور شاعر جلیل مانک پوری سے اصلاح لی۔ ان کے اردو کلام کے پانچ دیوان شائع ہوئے جو سالار جنگ میوزیم میں محفوظ ہیں اور ساتھ ہی فارسی کے دو دیوان بھی شائع ہوئے یعنی جملہ سات دواوین شائع ہوئے ۔ میر عثمان علی خاں کا دور اردو ادب و شاعری کا ایک روشن دور تھا انہوں نے ادیبوں اور شاعری کی بھی دل کھول کر سرپرستی کی میر عثمان علی خان کی ادبی سرپرستی کے متعلق محترمہ طیبہ بیگم رقمطراز ہیں :
"شبلی نعمانی اور عبدالحلیم شرر اپنی وفات تک عثمان علی خاں ہی کی بدولت خوش حالی کی زندگی بسر کرتے رہے اور اردو ادب کو گراں بہا تحریروں سے مزین کیا۔ عبدالماجد دریابادی، خواجہ حسن نظامی، سلیمان ندوی، ظفر علی خاں جیسے انشاء پرداز عثمان علی خان ہی کی سرپرستی کی وجہ سے حیدرآباد سے دور اپنے وطن میں اردو کی خدمت کرتے رہے۔ نواب فصاحت جنگ جلیل، امیر مینائی کے جانشین اور خانوادہ آصفی کے استاد سخن تھے ۔ عثمان علی خان نے انہیں خاطر خواہ ما ہوارتنخواہ کے علاوہ مختلف اعزازات اور خطاب سے سرفراز کیا تھا۔
(طیبہ بیگم، آصف سابع میر عثمان علی خان ص224)

جواب چشم جاناں کیوں نہ ہو تیری زباں عثمانؔ
ادھر جادو نگاہی ہے ادھر جادو بیانی ہے

نواب میر عثمان علی خان نے اپنے دور حکومت میں اردو ادب کی ترقی کے لئے مثالی کارنامے انجام دیئے۔ ادبی خدمت کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کے کاموں میں دل کھول کر حصہ لیا اور شعراء و ادیبوں کی سرپرستی انجام دی۔ وہ ایک وسیع النظر حکمراں تھے ان میں مذہبی روداری کاجذبہ بدرجہ اتم تھا انہوں نے اپنی زندگی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دی اور حیدرآباد ریاست کو عالمی سطح پر متعارف کروایا۔

دکن کو ہے شہ عثمان پہ فخر ائے عالیؔ
ہمیں یہ فخر ہے ان کا کوئی جواب نہیں

***
محمد عبدالعزیز سہیل ریسرچ اسکالر (عثمانیہ)
موبائل: 9299655396
مکان نمبر: 75-2-4 ، مجید منزل ، لطیف بازار، نظام آباد -503001 (اے ۔پی )۔
maazeez.sohel[@]gmail.com
ایم اے عزیز سہیل

AsifJah-VII Mir Osman Ali Khan's academic & Literary services. Article: M.A.Azeez Sohel

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں