ادب لطیف - افسانہ نمبر 1949 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-26

ادب لطیف - افسانہ نمبر 1949 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

adabe-lateef-afsana-no-1949
اردو دنیا کے معروف، مقبول اور قدیم ترین ادبی رسالہ "ادبِ لطیف" کی جلد:29 کا اولین شمارہ بحیثیت 'افسانہ نمبر' شائع ہوا تھا۔
سن 1949 کا یہ یادگار افسانہ نمبر تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
163 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 25 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس خاص نمبر کے اداریے میں چند اہم باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
موجودہ دور ۔۔۔ اردو ادب کا افسانوی دور ہے؟
اس دور میں نظمیں بھی لکھی گئی ہیں، بہت زیادہ لکھی گئی ہیں۔ اور ان میں اچھی نظموں کی بھی کمی نہیں، ناول بھی معرضِ وجود میں آ رہے ہیں، تنقیدی کتابوں کی کمی سہی مگر بعض نقادوں کے تنقیدی مقالات دیکھ کر مایوس ہونے کی وجہ نظر نہیں آتی۔۔۔ یہ سب کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ادب کی ہر صنف آگے بڑھ رہی ہے، لیکن مجموعی لحاظ سے یہ دور ادب کا افسانوی دور ہی کہلاتا ہے۔
کیونکہ آج کل ادب کی یہ صنف باقی اصناف کے مقابلے میں زیادہ صحت مند، زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایک قوم کی حیاتِ ذہنی کا ایک خاص دور ادب کی خاص صنف کے لیے کیوں زیادہ موزوں ہوتا ہے؟ اور اس دور میں اس صنفِ ادب کے علاوہ باقی اصناف اس قدر ترقی کیوں نہیں کر سکتیں؟
اس کا کوئی نہ کوئی سبب تو ہونا چاہیے۔ آخر ادب خلا میں پیدا ہوتا نہیں اور نہ یہ کوئی ایسی چیز ہے جسے خود رو کہا جا سکے۔ ادب کیا زندگی کی کوئی چیز بھی خود رو نہیں ہے۔ اور نہ ہو سکتی ہے۔ ہر چیز اپنی تخلیق کے لیے مخصوص مادی حالات کی مرہونِ منت ہوتی ہے، جب یہ مادی حالات ختم ہو جاتے ہیں تو اس کی تخلیق بھی رک جاتی ہے یا اس میں کوئی نمایاں اور بنیادی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے۔
جس طرح ایک مخصوص سماجی نظام بنیادی معاشی تبدیلیوں کے پیدا کردہ حالات کا نتیجہ ہوتا ہے اس طرح ادب کی ایک خاص صنف بھی مخصوص سماجی حالات ہی میں زندہ رہ سکتی ہے ، آگے بڑھ سکتی ہے اور نشو و نما حاصل کر سکتی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ تقسیم ملک کے بعد ہمارے سامنے بےشمار پیچیدہ مسائل پیدا ہو گئے ہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں اردو کا مسئلہ اس وقت بہی خواہانِ اردو کے لیے خاص توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے! حقیقت یہ ہے کہ آج کل اردو ادب کی نشو و نما اور ترقی و فروغ کے راستے میں ایسے موانع اور ایسی مشکلات حائل ہو گئی ہیں کہ ان کے تصور سے ایک خوش فہم سے خوش فہم شخص بھی مایوس ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ظاہر ہے اردو کا وطن اسی نیم براعظم کی زمین ہے اور ہندو اور مسلمان کے مشترکہ کلچر کا ایک ایسا اثاثہ ہے جو قطعی طور پر ناقابل تقسیم ہے۔ مگر اس وقت ہندوستانی حکومت کا اردو کی طرف معاندانہ رویہ اردو کو اس طرح کچلنے کی کوشش کر رہا ہے جیسے اس زبان کے کچل دینے ہی میں اس کے کلچر کا راز پوشیدہ ہے۔ آج تک کسی حکومت نے بھی ہندوستان کی موجودہ حکومت کی طرح آمرانہ تشدد کے ساتھ اپنے ملک کی عوامی زبان کو کچلنے کی کوشش نہیں کی ہوگی۔
یہ تو ہے ہندوستانی حکومت کا مشترکہ کلچر کے ناقابل تقسیم اثاثے کے ساتھ رویہ۔ ہمیں فی الحال اس رویے کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان کے سیاسی کاروبار کے پس منظر جو زہر آلود ذہنیت کارفرما ہے اس سے کسی معاملے میں بھی خوشگوار توقعات قائم رکھنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ہمیں آج جو کچھ کہنا ہے وہ سرزمین پاکستان میں اردو کی حالت کے بارے میں ہے۔
سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے عوام معاشی الجھنوں کے ایسے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ انتہائی خواہش کے باوجود زندگی کی ان قدروں کی طرف توجہ نہیں کر سکتے جو زندگی میں حسن، ترتیب اور توازن پیدا کرتی ہیں۔ یہ حقیقت زندگی کی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک شکمی تقاضے پورے نہ ہو جائیں انسان فنونِ لطیفہ میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں لے سکتا۔ دو سال گزر چکے ہیں، نوآباد کاری کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔ اقتصادی پیچیدگیاں لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی ہیں۔ روزمرہ کی ضروریات کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے ادب ملک کی اقتصادی حالت کے ساتھ ساتھ قدم اٹھاتا ہے۔ جیسی اقتصادی کیفیت ہوگی ویسی ادب کی حالت ہوگی۔ اور ہمارے نوزائیدہ ملک کی معاشی حالت جیسی ہے ظاہر ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ ادبی کتابیں اور رسائل خریدیں ۔۔۔ بڑی غیرمنطقی بات معلوم ہوتی ہے!
یہ تو ہے عوام کی معاشی کیفیت۔ اب دوسرے امور کی طرف توجہ کیجیے! کاغذ کی گرانی بھی ایک پریشان کن مسئلہ بن گیا ہے۔ دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان میں کاغذ مہنگا بک رہا ہے۔ ڈاک خرچ کے لحاظ سے بھی ہمارے ملک کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ شاید کسی جمہوری ملک میں بھی کتابوں کی برآمد پر اتنی ڈیوٹی نہیں ہے جس قدر ہمارے ہاں ہے۔
پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں رسائل و جرائد کی فروخت کے لیے ابھی تک ایجنسیاں ہی قائم نہیں ہو سکیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کے ایک شہر میں رہنے والے پاکستان کے کسی دوسرے شہر سے شائع ہونے والے ادبی رسالے کو بھی نہیں خرید سکتے۔ کیونکہ عام طور پر ہماری ایجنسیوں کا انتظام سخت ناقص ہے اور جو لوگ بک اسٹالوں سے پرچے خریدنا پسند کرتے ہیں، بعض اوقات انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا کہ فلاں ادبی رسالہ شائع بھی ہوا ہے یا نہیں؟! ۔۔۔ ادب کے فروغ کے سلسلہ میں یہ کیفیت کس قدر افسوس ناک اور الم انگیز ہے۔
حکومت باریا اعلان کر چکی ہے کہ اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنایا جائے گا۔ اور یہی زبان ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کی جائے گی۔ مگر اس سلسلے میں ابھی تک حکومت نے کوئی قابلِ ذکر اور امید افزا اقدام نہیں اٹھایا! صرف اعلانات سے تو اردو زبان اور اردو ادب کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی جو اسے پاکستان میں حاصل ہونی چاہیے۔
یہ تھیں وہ رکاوٹیں جن کا ذکر بارہا 'ادبِ لطیف' کے صفحات میں کیا جا چکا ہے اور قارئین ان سے ناآشنا نہیں ہیں۔۔۔ آج ہمیں ایک اور معاملے کی طرف بھی توجہ کرنا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے ہم ایک خاص اصول کی خاطر اس معاملے کی طرف توجہ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

دنیا کی ہر جمہوری حکومت کام کرنے والے پبلک اداروں کی ہر ممکن طریقے سے ہمت افزائی کرتی ہے مگر ادبی رسایل کے بابِ خاص میں ہماری حکومت نے جو رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ مسابقانہ ہے۔ اور وہ اس طرح کہ حکومت نے دارالسلطنت کراچی سے "ماہِ نو" کے نام سے جو رسالہ شائع کر رکھا ہے وہ قدم قدم پر ملک کے ادبی رسایل کا مقابلہ کر رہا ہے اور انہیں نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگر حکومت ملکی امور اور اپنی خاص تجاویز و عزائم کی نشر و اشاعت کے لیے کسی رسالے کا اجرا کرتی تو کسی کو بھی کوئی اعتراض کرنے کا موقع نہ ملتا۔ حکومت بڑے شوق سے اپنا پراپاگنڈہ کر سکتی ہے۔ مگر "ماہِ نو" اپنی پالیسی کے لحاظ سے ایک ادبی رسالہ ہے جس کے ہر شمارے میں ادبی موضوعات سے متعلق مضامین کی تعداد پراپاگنڈائی مضامین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اسے ادبی رسالہ ہی کہیں گے اور لوگ بھی اسے ادبی رسالہ ہی سمجھتے ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ اس کی گٹ اپ نہایت شاندار اور دیدہ زیب ہوتی ہے، کاغذ نہایت اعلیٰ استعمال کیا جاتا ہے، رسالے میں تصویریں شائع کی جاتی ہیں۔ اور ان تمام خوبیوں کے باوجود اس کی قیمت آٹھ آنے فی شمارہ ہے۔
اس کی ہر کاپی پر تقریباً ڈیڑھ روپیہ خرچ آ جاتا ہے۔ حکومت اس کی ہر کاپی چار آنے میں بھی بیچ سکتی ہے۔ کیونکہ اس پر جتنا خرچ ہوتا ہے وہ پبلک کے محفوظ سرمایے سے لیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کے دوسرے ادبی رسائل کیا کریں؟ اگر حکومت ہی اپنے لامحدود ذرائع اور بےپناہ اختیارات سے فائدہ اٹھا کر پبلک کے اداروں کا مقابلہ شروع کر دے تو انجام کیا ہوگا؟
ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت یہ بھی تو ظاہر نہیں کرتی کہ "ماہِ نو" حکومت کا اپنا پرچہ ہے، یعنی سرکاری پرچہ ہے۔ اس کے سرورق پر اس کے متعلق کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا!

***
نام رسالہ: ادبِ لطیف ، افسانہ نمبر 1949
تعداد صفحات: 163
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 25 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
AdabeLateefAfsanaNo1949.pdf

Direct Download link:
https://archive.org/download/AdabeLateefAfsanaNo1949/Adabe-Lateef-Afsana-No-1949.pdf

ادبِ لطیف - خاص نمبر 1949 :: فہرست مضامین
نمبر شمارمضمونمصنفصفحہ نمبر
1حرف اولادارہ3
2مختصر افسانہ میں نفسیات کا عنصراحتشام حسین5
3افسانوی ادب کے بنیادی رجحاناتممتاز حسین9
4ہرجائی (نظم)جمیل ملک16
5روکلا سے پیرس تک (نظم)جگن ناتھ آزاد17
6تعمیربلونت سنگھ20
7وہ دور بھی آنے والا ہےاکرم افگار27
8میرا بیٹا میرا دشمنخواجہ احمد عباس30
9ایک یہ بھی کہانی (نظم)بلراج کومل39
10ستارہ ٹوٹتا ہے ۔۔۔خدیجہ مستور43
11ایک ہنگامے پہ ۔۔۔ڈاکٹر صلاح الدین اکبر46
12اہل قلم (نظم)عبدالمجید بھٹی52
13عیدو خانصدیقہ بیگم سیوہاروی53
14غیر امریکیدیوندر اسر58
15عورت (نظم)قتیل شفائی66
16پٹی ہوئی لکیراعجاز بٹالوی69
17مظلومشکیلہ اختر75
18خدا کے بچےصبح صادق حمید79
19چٹان کے نیچےپرتھوی ناتھ شرما86
20سرابپریم پجاری93
21برف گرنے تکاے۔ حمید100
22اج آکھاں وارث شاہ نوںامرت کور113
23میرا اجڑا پڑوسیسنتوکھ سنگھ دھیر115
24لہرمیرزا ادیب118
انتظاریہ
25ایران میں اجنبین۔ م۔ راشد123
26کیکٹس لینڈقرۃ العین حیدر126
27تنقیدی جھلکیاںڈاکٹر عبادت بریلوی149

Adab-e-Lateef, Afsana Number 1949, pdf download.




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں