اردو زبان اور رسم الخط کا تحفظ - ہماری ذمہ داریاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-02-27

اردو زبان اور رسم الخط کا تحفظ - ہماری ذمہ داریاں

urdu-script-protection

اردو ہماری مادری زبان ہے۔ اور یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بولی اور سمجھی جانے والی ایک مقبول زبان ہے۔ سعودی عرب ہو کہ لندن یا امریکہ، آسٹریلیا ہو کہ جرمنی یا جاپان دنیا کے طول و عرض میں آج ارد و بولنے والے مل جائیں گے۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ ارد و کی مقبولیت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ لیکن اردو زبان کے جائے پیدائیش ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اردو کی ترقی مائل بہ زوال ہے۔اور آج چراغ تلے اندھیرا کے بقول دنیا بھر میں مشہور اردو زبان کے بارے میں ہمیں یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اردو زبان اور اس کے رسم الخط کو مٹنے سے بچانے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ایک طرف تو دعویٰ ہے کہ اردو عالمی طور پر مقبول زبان ہے۔ اور دوسری طرف ہندوستان میں ارد و بچاؤ مہم چلانے کی ض رورت پڑ رہی ہے۔ آئیے اردو زبان کے شاندار ماضی سے حال کی طرف آتے ہیں۔

زبان کی تعریف:
زندگی کے ارتقا ء میں زبان کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر انسان حیوان ناطق نہ ہوتا تو ہماری زبان گونگی رہ جاتی۔ انسانی سماج میں زبان کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وہ زبان ہے جو ابلاغ و ترسیل کا بنیادی وسیلہ ہے۔زبان کا تصور اعضائے نطق سے ادا کی جانے والی آوازوں سے ہے۔ کچھ آوازیں بے معنی ہوتی ہیں۔ اور کچھ با معنی۔جب آوازیں ایک ترتیب کے ساتھ ادا ہوکر بامعنی لفظ بن جاتی ہیں تو خیالات و احساسات کا ذریعہ بنتی ہیں۔ زبان کیسے وجود میں آئی اس سلسلے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن انسانیت کے ارتقاء کے ساتھ زبانوں کی بھی ترقی ہوئی۔ زبان کی ابتدائی شکل بولی ہوتی ہے۔ جسے انگریزی میں Dialectکہتے ہیں۔ اور بولی کی ترقی یافتہ شکل زبان ہوتی ہے۔ جسے انگریزی میں Languageکہتے ہیں۔

لسانیات:
زبان کے سائینسی مطالعے اور تجزئیے کا نام لسانیاتLinguistics ہے۔ زبان کے مطالعے کی شاخیں صوتیات۔ توضیحی لسانیات۔ بولیاں۔ سماجی لسانیات۔ثانوی لسانیات۔ نفسیاتی لسانیات۔تاریخی لسانیات اور اسلوبیات وغیرہ شامل ہیں۔

اردو زبان کا آغاز وارتقاء:
اردو ایک ہند آریائی زبان ہے۔ ہندوستان میں ماہرین لسانیات نے اردو کے آغاز کے نظریے دو طرح سے پیش کئے۔ ایک نظریہ مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد اور مقامی باشندوں سے میل ملاپ کے ذریعے اردو کے آغاز کا ہے۔ اس طرح کا نظریہ پیش کرنے والوں نے علاقوں کے اعتبار سے پیش کیا۔ چنانچہ حافظ محمود شیرانی نے پنجاب سے اردو کے آغاز کا نظریہ پیش کیا۔ سلیمان ندوی نے سندھ سے اردو کے آغاز کا نظریہ پیش کیا۔ نصیر الدین ہاشمی نے دکن سے اردو کے آغاز کا نظریہ پیش کیا۔ اور محمد حسین آزاد نے آگرہ سے اردو کے آغاز کا نظریہ پیش کیا۔ بعد میں ہندوستان میں زبانوں کا مطالعہ علم لسانیات کی روشنی میں کیا گیا۔ ماہرین لسانیات سنیتی کمار چٹرجی، مسعود حسین خان، ڈاکٹر محی الدین قادری زور اور پروفیسر گیان چند جین نے واضح کیا کہ ہندوستان میں زبانوں کے مطالعے کو ویدک سنسکرت دور۔پراکرت دور اور جدید ہند آریائی دور سے جوڑا۔ اور کہا کہ اردو کا آغازہند آریائی زبان مغربی ہندی کی شاخ کھڑی بولی سے ہوا۔ اور اس کا جائے پیدائیش دہلی اور آگرہ کے علاقے رہے۔ اور گیارھویں صدی کے اوائل میں زبان کی بنیاد پڑی۔ اور مسلمانوں کی آمد اور مقامی باشندوں کے ساتھ میل ملاپ سے اردو کے الفاظ کا دامن وسیع ہوا۔

"اردو" ترکی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی فوج یا لشکر کے ہیں۔ 1193ء کے بعد جو لشکر دہلی میں مقیم ہوا۔اس کی زبان اردو تھی۔ اور اردو دہلی چلی آئی۔ اور پروان چڑھنے لگی۔ اردو اپنے آغاز کے کافی عرصے تک بولی کی شکل میں پروان چڑھتی رہی۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں ملک کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ لیکن عوام میں صوفیائے کرام کی تعلیمات اور بازاروں کی بول چال میں اردو استعمال ہونے لگی۔ اردو آغاز کے بعد دکن میں پروان چڑھی۔ جہاں صوفیائے کرام اور بعد میں دکنی سلطنتوں کی سرپرستی سے اردو کے شعری اور بعد میں نثری ادب کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ اردو کی پہلی نثری داستان سب رس 1045 ہجری میں ملا وجہی نے دکن میں لکھی۔ اردو کی منثویاں دکن میں ہی پروان چڑھیں۔ ارد و کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ کا تعلق دکن سے رہا۔ ولیؔ کے شمالی ہند سفر سے وہاں اردو شاعری کا آغاز ہوا۔ اور بعد میں انشاء۔آتشؔ۔ناسخؔ۔ مصحفیؔ۔میرؔ۔ دردؔ۔ مومن ؔ۔غالبؔ۔انیسؔ۔ دبیرؔ۔ حالیؔ۔ اقبال۔جوشؔ۔ فراقؔ۔ فیضؔ۔ ناصر کاظمی وغیرہ شاعروں نے اردو کی مقبولیت میں اضافہ کیا۔

شاعری کے دور کے بعد اردو نثر کو فروغ ملا۔ فورٹ ولیم کالج۔دہلی کالج۔ ماسٹر رام چندر۔ سرسید احمد خان۔ خطوط غالب۔ اردو صحافت۔مولانا آزاد۔محمد علی جوہر اور دیگر نے اپنے اپنے طور پر اردو نثر کو فروغ دیا۔ اردو میں داستانوں کے بعد ناول۔ ڈرامہ۔ افسانہ۔ اور غیر افسانوی ادب کی اصناف مضمون۔انشائیہ۔ رپورتاژ۔ڈائری وغیرہ نے فروغ پایا۔

اردو رسم الخط:
کسی بھی زبان میں پہلی بولی رواج پاتی ہے۔ بعد میں اس کارسم الخط فروغ پاتا ہے۔اردو کا رسم الخط فارسی و عربی سے ماخوذ ہے۔ یہ سامی خاندان کی زبانیں ہیں جو دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں۔ اردو نے ضرورت کے مطابق وہ آوازیں جو فارسی اور عربی حروف سے اد ا نہیں ہوتی تھیں۔اس کے لئے ہندوستانی زبانوں سے حروف اخذ کئے۔ جیسے ٹ۔چ۔ڈ۔ڑ۔گ۔ وغیرہ۔ اسی طرح ہندی سے بھ۔پھ۔تھ۔ٹھ۔ڈھ۔ وغیرہ آوازیں لیں۔1787ء میں جان گلکریسٹ نے سب سے پہلے ہندی کو دیوناگری رسم الخط میں رواج دیا۔ اور ہندی اور اردو کے رسم الخط کا فرق شروع ہوا۔
اردو زبان کے حروف تہجی:اردو کے حروف تہجی37ہیں۔ اردو میں عربی فارسی اور ہندی کے الفاظ اور آوازیں شامل ہیں۔ جن کی تفصیل اس طرح ہے۔

خالص عربی حروف:
ث۔ح۔ذ۔ص۔ض۔ ط۔ظ۔ ع۔ ق۔ ہ

عربی کے ساتھ فارسی میں موجود حروف:
ا۔ب۔ت۔ج۔د۔ر۔ز۔س۔ش۔غ۔ق۔ک۔ل۔م۔ن۔و۔ہ۔ء۔ی۔ے

ہندی الاصل حروف:
ٹ۔ڈ۔ڑ

خالص فارسی حروف۔
پ۔چ۔ژ۔گ

مکمل حروف تہجی:
ا ب پ ت ٹ ث ج چ خ خ د ڈذ ر ڑ زژس ش ص ض ط ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن وہ ء ی ے۔

اردو کا رسم الخط ہندوستان کی تمام تر زبانوں میں جامع اورکشادہ ہے۔ جس کے ذریعے ہر آواز کو ادا کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ زبان ایک تغیر پذیر شئے ہے۔ اس میں ہمیشہ تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ اردو کے الفاظ و تراکیب۔قواعد اور الفاظ سازی تمام زبانوں سے ذیادہ وسیع ہیں۔
زبان دو طرح کے مقاصد کی تکمیل کرتی ہے۔ ایک تہذیبی مقصد جس میں علوم و فنون کی اشاعت غور و فکر تحقیق و تنقید ایجادات و اختراع شامل ہیں۔ دوسرے افادی مقصد جس میں رو ز مرہ کی ضروریات کے لئے زبان کا استعمال شامل ہے۔ہندوستان میں اردو زبان کا شاندار ماض ی رہا ہے۔ مغلیہ دور سے ہی اس زبان کے شعر و ادب نے اپنے بال و پر پھیلانے شروع کردئے تھے۔انیسویں اور بیسویں صدی میں اس زبان نے نثر اور شاعری کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئے۔ اور اردو کی سبھی شعری و نثری اصناف میں بیش بہا خزانہ چھوڑا۔ اردو کے مستقبل پر سوال اس وقت سے لگنا شروع ہوا جب کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو کے مقابلے میں ہندی کو ملک کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ اور بتدریج اردو کی سرپرستی میں کمی آنے لگی۔ اور آج عالم یہ ہے کہ شمالی ہند سے اردو کار رسم الخط تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ اور وہاں کے شاعر اب اپنا اردو کلام ہندی میں شائع کرانے لگے۔ جنوبی ہند میں اردو کی صورتحال پھر بھی بہتر ہے۔ اور یہاں اردو رسم الخط زندہ ہے۔ اردو کے اخبارات اور رسائل اردو کی جامعہ اردو یونیورسٹی اور اردو کے تعلیمی ادارے اس زبان کے مستقبل کی امید ہیں۔ لیکن پھر بھی اردو کے رسم الخط کے تحفظ اور زبان کے تحفظ کے لئے اگر شعوری کوشش نہیں کی گئی تو اردو پہلے زبان کے طور پر اور پھر بولی کے طور پر ختم ہوسکتی ہیں۔

اردو زبان اور رسم الخط کے لئے ہماری ذمہ داریاں:
زبان ایک نامیاتی شئے ہوتی ہے۔ اگر اس استعمال کیا جائے تو وہ زندہ رہتی ہے۔ اور اگر اس کے ساتھ لاپرواہی برتی جائے تو پہلے اس زبان کی تحریری شکل ختم ہوجاتی ہے۔ اور اس کے بعد بولی بھی ختم ہوسکتی ہے۔ ایک دور میں دکن میں دکنی اردو کا چلن عام تھا لیکن اب یہ بولی کے طور پر بھی ختم ہوچکی ہے۔ ہندوستان میں فارسی کا بھی سرکاری سطح پر چلن تھا لیکن جب حکومتی سرپرستی ختم ہوگئی تو زبان بھی مر گئی۔اس کے لئے انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر اردو زبان اور رسم الخط کے تحفظ کی کوشش ہونی چاہئے۔ ذیل میں اردو زبان کے تحفظ کی چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔

٭ اردو کے تحفظ کی پہلی ذمہ داری اردو والوں پر ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچو ں کو ان کی مادری زبان اردو میں تعلیم دلائیں۔ جب بچوں کی اردو میں تعلیم ہوگی تو اردو میں کتابیں شائع ہونگی۔ اردو مدارس قائم ہونگے۔ استاتذہ کے تقررات ہونگے۔ اردواخبارات کی افادیت رہے گی۔اور اردو کا ماحول رہے گا۔ آج اردو کے تحفظ کا نعرہ دینے والے قائدین کے بچے خود انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ غریب کا بچہ ارد و میڈیم میں پڑھے اور اردو کا تحفظ ہو۔ اس لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ بیان بازی کی نہیں۔

٭ اردو کی ادبی انجمنوں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فروغ اردو کے لئے جلسے ’سمینار، مشاعرے، طلباء کے لئے تحریری و تقریری مقابلے منعقد کریں۔ طلبا کو انعامات دیں۔ انعام کے لالچ میں بھی بچے سیکھتے ہیں۔

٭ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کے فروغ کے لئے عملی اقدامات کرے۔ دفاتر میں اردو میں درخواستیں قبول ہوں۔ تمام سرکاری اور خانگی اداروں، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹیشن وغیرہ پر اردو میں بورڈ لگوائے جائیں۔

٭ مرکزی حکومت جس طرح اپنے دفاتر میں بورڈ لگا کر روزانہ ہندی کا ایک لفظ سکھا رہی ہے۔ اسی طرح تمام دفاتر میں ارد و سکھانے کے لئے بھی بورڈ لگائے جائیں۔ اور غیر اردو داں حضرات کو روز ایک اردو لفظ سکھایا جائے۔حکومت جس طرح ریاست میں تلگو کو لازمی طور پر سب کو سکھا رہی ہے۔ اسی طرح لازمی کیا جائے کہ تمام مدارس میں ارد و بھی لازمی زبان ہو اور انگریز ی و تلگو میڈیم مدارس میں بھی اردو کو ایک لازمی مضمون بنایا جائے اور اس کے لئے حکومت مناسب قانون سازی کرے۔ اور اردو والے جب تک یہ قانون لاگو نہ ہوجائے اپنا مطالبہ جاری رکھیں۔

٭ اردو اکیڈیمی کو مزید فعال بنایا جائے اور اردو کی کتابوں کی اشاعت اور دیگر امورانجام دئے جائیں۔اردو میں سائینسی تعلیم کے دور کو دوبارہ شروع کیا جائے۔جس طرح عثمانیہ یونیورسٹی کے آغاز میں ہوا تھا۔ اردو یونیورسٹی میں اردو میں سائینس کی اعلیٰ تعلیم کا نظم کیا جائے اس کے لئے کتابوں کے ترجمے کاکام کیا جائے۔

٭ اردو اساتذہ اپنے طلباء میں اردو دانی کے فروغ کے اقدامات کریں۔ کتب خانوں کو فروغ دیا جائے۔ طلبا ء میں کتب بینی کا شوق بڑھایا جائے۔ اور ادبی مقابلوں کا انعقاد کرایا جائے۔

٭ مشاعرے اردو زبان کو زندہ رکھنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ مشاعروں کی طرح نثر کی اصناف جیسے افسانہ اور مضمون و انشائیہ وغیرہ کے بھی اجلا س رکھے جائیں۔ اور زبان کو فروغ دیا جائے۔

٭ کمپیوٹر کو اردو کے فروغ میں استعمال کیا جائے۔ آج اردو کتابت کمپیوٹر کے ذریعے ہورہی ہے۔اس کے امکانات میں وسعت پیدا کی جائے۔ اور اردو سے روزگار کے مواقع میں اضافہ کیا جائے۔

٭ کسی بھی زبان کو زندہ رکھنے کے لئے حکومت کی سرپرستی لازمی ہے۔ اس لئے اردو دان حلقہ حکومت سے اردو کے بارے میں اپنے مطالبات منواتے رہیں۔ اور اردو دوست حکومت کا انتخاب کرتے رہیں۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
اِملا اور رسم الخط کے مسائل - سرسری جائزہ
اردو کا حسن اس کا رسم الخط ہے - وزیراعظم نریندر مودی
اردو اور ناگری رسم خط - از پنڈت جواہر لال نہرو

(20/ستمبر 2014 کو شعبہ اردو گری راج گورنمنٹ کالج نظام آباد [تلنگانہ] کے ایک روزہ قومی سمینار بعنوان "اردو ادب تہذیبی قدریں، ماضی حال اور مستقبل" میں یہ مقالہ پیش کیا گیا۔)

Urdu Language and Script Protection - Our Responsibilities. Essay: Tabassum Sultana.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں