تاریخ ساز جریدہ 'نقوش' کے "ادبی معرکے" نمبر کا حصہ اول ستمبر 1981 میں شائع ہوا تھا جو کہ 'نقوش' کا 127 واں شمارہ تھا۔ اس خصوصی نمبر کا اولین باب بعنوان "زبان کے نام پر معرکے" اپنے اندر اردو زبان کی ایک وسیع و عظیم تاریخ رکھتا ہے۔ اسی باب کے ایک ذیلی عنوان "اردو اور ناگری رسمِ خط" کے تحت پنڈت جواہر لال نہرو کا تحریر کردہ مضمون پیش خدمت ہے۔
رسم الخط کے مسئلے پر پنڈت جواہر لال نہرو کے خیالات ہم رسالہ اردو 1936ء بابت ماہ جولائی سے ذیل میں پیش کرتے ہیں۔ اس سے ہندوستان کے ایک بہت بڑے مفکر اور سیاست دان کا ایک واضح موقف بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔
(یہ مضمون پنڈت جی کی خود نوشت سوانح عمری کے ایک باب سے ماخوذ ہے)
ہم نے شادی (1) کا جو چھوٹا سا دعوت نامہ تقسیم کیا وہ ہندوستانی میں لکھا اور رومن حروف میں چھپا تھا۔ یہ ایک جدت تھی کیونکہ ایسے رقعے یا تو ناگری میں چھاپے جاتے ہیں یا فارسی رسم الخط میں۔ رومن میں ہندوستانی لکھنے کا چلن پادریوں اور فوجیوں کے علاہ اور کہیں نہیں۔ میں نے رومن رسم الخط کا استعمال تجربے کے طور پر کیا تھا۔ تاکہ مختلف لوگوں پر اس کے اثر کا مطالعہ کروں۔ کچھ نے اس جدت کو سراہا، مگر بہتوں کو میر ایہ فعل نہ بھایا، رقعے تھوڑے سے لوگوں میں تقسیم ہوئے تھے، اگر زیادہ لوگوں کو بھیجے جاتے تو مخالفتوں کی تعداد اور زیادہ نکلتی۔ گاندھی جی نے اسے پسند نہیں کیا۔
میں نے رومن خط کا استعمال اس وجہ سے نہیں کیا تھا کہ میں اس کا معتقد ہو گیا تھا۔ گویہ صحیح ہے کہ ایک عرصے سے میرا میلان اس طرف تھا، ترکی اور وسط ایشیا میں اس کی کامیابی نے مجھے متاثر کیا تھا۔ اور اس کے موافق جو بین دلائل تھے وہ بڑے وزنی تھے۔ یہ ہوتے ہوتے بھی اس کا پورا پورا قائل نہ ہوا تھا اور اگر ہوبھی جاتا تو بھی مجھے خوب معلوم تھا کہ موجودہ ہندوستان میں اس کے رواج کے متعلق کوئی امید نہیں ہے۔ قوم پرور اور مذہبی لوگ، ہندو اور مسلمان، جوان اور بوڑھے غرض کہ ہر جماعت شدت سے اس کی مخالفت کرے گی اور مجھے اس کا بھی احساس ہے کہ مخالفت کی بنیاد محض جذباتی نہ ہو گی۔ ایک شاندار ماضی کی وارث زبان کے لئے رسم خط کی تبدیلی بہت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ رسم خط اور زبان میں چولی دامن کا رشتہ ہے۔ رسم خط بدل کر دیکھو کہ لفظوں کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ ان کی آواز بھی بدل گئی ہے اور ساتھ ساتھ خیالات بھی بدل گئے ہیں۔ اس کے بعد قدیم و جدید ادب میں ایک ناقابل عبور حد فاصل آ جاتی ہے۔ اور پرانی زبان ہمارے لئے اجنبی اور مردہ ہو جاتی ہے۔ جس زبان کا کوئی ادبی سرمایہ نہ ہو وہ ان جوکھوں سے کھیل سکتی ہے۔ ہندوستان میں تو میں اس قسم کے تغیر کا گمان بھی نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ہمارا ادب نہ صرف قیمتی اور وسیع ہے، بلکہ وہ ہماری تاریخ اور دماغ میں رچ بس گیا ہے اور عوام کی زندگی میں گھل مل گیا ہے۔ اس قسم کا تغیر ایک ظالمانہ قطع وبرید ہو گی جو عام تعلیم کے چلن میں سد سکندری بن جائے گی۔
مگر آج کل کے ہندوستان میں تو اس بحث کی نوعیت علمی بھی نہیں ہو سکتی۔ اصلاحِ رسم خط کی دوسری صورت میری رائے میں یہ ہو سکتی ہے کہ سنسکرت نژاد زبانوں یعنی ہندی، بنگالی، گجراتی اور مرہٹی کے لئے ایک عام رسم الخط قبول کر لیا جائے حقیقت یہ ہے کہ ان سب کے رسم خط ایک ہی سوت سے نکلے ہیں اور ان میں زیادہ فرق بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ان میں آسانی سے سمجھوتا ہو سکتا ہے اگر ایسا ہو گیا تو چاروں بہنیں ایک دوسرے سے بہت قریب ہو جائیں گی۔
ہمارے انگریز حکمراں نے ہندوستان کے متعلق ایک یہ افسانہ بھی دنیا میں پھیلا رکھا ہے کہ ہمارے ملک میں سیکڑوں زبانیں (مجھے صحیح تعداد یاد نہیں ) رائج ہیں۔ ثبوت کے لیے مردم شماری کی رپورٹ دیکھ لیجئے۔ یہ عجیب بات ہے کہ بہت کم انگریز ہیں جو ان سینکڑوں زبانوں میں سے ایک آدھ میں بھی کچھ شد بد جانتے ہوں۔ حالانکہ وہ زندگی کا بہت بڑا حصہ یہیں گزارتے ہیں۔ ہماری زبانوں کے لئے انہوں نے 'ورنیکلر' کا نام تجویز کیا ہے۔ یہ لاطینی کا مرکب لفظ ہے، ورنا کے معنی غلام ہیں اور ورناکلر کے معنی غلاموں کی زبان۔ بہت سے ہندوستانیوں نے لاعلمی میں نام کو اپنالیا ہے، حیرت ہوتی ہے کہ ہندوستان میں زندگی گزار دینے کے باوجود انگریز یہاں کی زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اپنے خانساماؤں اور آیاؤں کی بدولت انہوں نے ایک عجیب و غریب بولی بنائی ہے۔ اس بگڑی ہوئی ہندوستانی کو وہ اصل زبان سمجھ بیٹھے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے ماتحتوں اور خوشامدیوں سے ہندوستانی زندگی کے حقائق معلوم کرتے ہیں، اسی طرح 'ہندوستانی' زبان کا علم وہ اپنے نوکروں سے حاصل کرتے ہیں اور یہ نوکر جان بوجھ کر زبان کو توڑ مروڑ کر استعمال کرتے ہیں کہ صاحب لوگ کہیں کچھ نہ کچھ نہ سمجھ بیٹھیں۔ غالباً انہیں مطلق علم نہیں ہوتا کہ ہندوستانی اور دوسری دیسی زبانوں کا ادبی معیار بلند اور ادبی ذخیرہ وسیع ہے۔
اگر مردم شماری کے اعداد ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہندوستان میں دو تین سو زبانیں ہیں اور وہی اعداد یہ بھی کہتے ہیں کہ جرمنی میں پچاس ساٹھ زبانیں رائج ہیں۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی نے اس واقعے کو اہل جرمن کے باہمی نفاق و اختلاف کے ثبوت میں پیش کیا ہو۔ سچ پوچھو تو مردم شماری کی رپورٹ میں ہر قسم کی اہم اور غیر اہم زبانوں کا ذکر ہوتا ہے۔ ایسی زبان کا شمار بھی ہوتا ہے جس کے بولنے والے صرف چند ہزار ہیں۔ لسانیاتی وجوہ سے مقامی بولیوں کا شمار زبانوں میں کر دیا جاتا ہے لیکن رقبے کو دیکھتے ہوئے میرے خیال میں ہندوستان میں زبانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یورپ کے اتنے ہی بڑے رقبے سے مقابلہ کر کے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ زبان کے معاملے میں ہندوستان میں کہیں زیادہ یگانگت ہے مگر عام جہالت کی وجہ سے مقامی بولیوں کو فروغ مل گیا ہے اور ان کے اتحاد کی صورت پیدا نہیں ہوئی ہے۔
برما کو چھوڑ کر ہندوستان کی خاص زبانیں حسب ذیل ہیں:
"ہندوستانی" جس کی دو شاخیں ہیں (ہندی اور اردو)، بنگالی، گجراتی، مرہٹی، تامل، تیلگو، ملیالم اور کنڑی۔
اگر اس فہرست میں آسامی، اڑیا اور جنگلی قبیلوں کے علاوہ پورے ملک کی تقسیم ہو جاتی ہے، ان میں بھی انڈو آرین زبانیں باہم بہت قریبی رشتہ رکھتی ہیں اور ہندوستان کے شمال، مشرق، وسط، اور مغرب میں پھیلی ہوئی ہیں۔ دکن کی دراوڑی زبانیں مختلف ہیں، تاہم ان پر سنسکرت کا بڑا اثر ہے اور سنسکرت کے بہتیرے الفاظ ان میں مل گئے ہیں۔
حسب بیان بالا آٹھ بڑی بڑی زبانوں کے ادب بیش بہا اور قدیم ہیں۔ ان میں سے ہر ایک بہت بڑے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے جس کے حدود متعین و مخصوص ہیں، بولنے والوں کی تعداد کے نقطہ نظر سے ان زبانوں کی گنتی دنیا کی بڑی زبانوں میں ہو سکتی ہے۔ پانچ کروڑ آدمی بنگالی بولتے ہیں اور ہندوستان کی مختلف اقسام کے بولنے والوں کی تعداد (میرے پاس صحیح نہیں ہے) میرے خیال میں 14 کروڑ سے کم نہیں۔ علاوہ بریں پورے ملک میں اس کے سمجھنے والے ان گنت ہیں، ظاہر ہے کہ ایسی زبان کے فروغ کے وسیع امکانات ہیں۔
سنسکرت پر اس کی بنیاد ہے۔ فارسی سے اس کا قریبی رشتہ ہے یعنی وہ دو مخزنوں سے مدد حاصل کر سکتی ہے اور اب تو اس نے انگریزی زبان سے بھی ناتا جوڑنا شروع کر دیا ہے۔
دکن کے دراڈری صوبے ہی ایسے ہیں جہاں اس زبان کی حیثیت غیر ملکی ہے۔ مگر وہاں کے باشندے بھی اسے سیکھنے کی دل و جان سے سعی کر رہے ہیں۔ 32ء میں میں نے ایک سبھا کی رپورٹ دیکھی تھی جو دکن میں ہندی پرچار کا کام کر رہی ہے، اس کے قیام کے چودہ سال بعد تک صرف صوبہ مدراس میں اس نے ساڑھے پانچ لاکھ آدمیوں کو ہندی سکھا دی تھی۔ ایک غیر سرکاری ادارے کی یہ سعی بلیغ قابل ذکر ہے۔ جو لوگ ہندی سیکھتے ہیں ان میں سے اکثر اس مقصد کے مبلغ بن جاتے ہیں۔
مجھے اس کا یقین ہے کہ "ہندوستانی" اس ملک کی عام زبان ہو کر رہے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ معمول کا کام کاج میں آج بھی اس کی حیثیت یہی ہے۔ اس کی ترقی میں دو احمقانہ مباحث حائل ہو گئے ہیں۔
ایک توناگری اور فارسی رسم خط کا سوال
اور دوسرے فارسی یا سنسکرت الفاظ کی بھرمار کی غلط تحریک۔
رسم خط کی مشکل کا کوئی حل سمجھ میں نہیں آتا۔ کیونکہ اس کا نام آتے ہی آتش غضب بھڑک اٹھتی ہے۔ یہی ہو سکتا ہے کہ سرکاری طور پر دونوں کو تسلیم کر لیا جائے اور لوگوں کو دونوں کے استعمال کی اجازت دی جائے لیکن انتہا پسند رجحانوں کو روکنے اور بول چال کی زبان کی نہج پر کوئی درمیانی ادبی زبان بنانے کی جد و جہد جاری رکھنا ضروری ہے۔ عام تعلیم کے بعد یہی ہو کر رہے گا اس وقت کو متوسط طبقے کے وہ تھوڑے سے لوگ جو ادبی ذوق و اسلوب کے سرپنچ بنے ہوئے ہیں، بہت ہی تنگ خیال اور اپنے اپنے دائرے میں سخت رجعت پرور ہیں، فرسودہ اور بے جان طرزوں سے وہ جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور ادب عالم یا اپنے ہاں کے عوام سے ان کا تعلق برائے نام ہے۔
"ہندوستانی" کی اٹھان اور پھیلاؤ کے معنی یہ نہیں کہ وہ بنگالی، گجراتی، مرہٹی اور دکن کی دراوڑی زبانوں کے رواج اور فروغ میں سد راہ بنے۔ ان میں سے بعض تو ہندوستانی سے زیادہ بیزار اور علمی اعتبار سے زیادہ باخبر ہیں۔ اپنے اپنے علاقوں میں وہ تعلیم اور دوسرے کاموں کے لئے سرکاری زبانیں تسلیم کی جائیں گی۔ صرف ان ہی کی وساطت سے عوام میں تہذیب اور تعلیم کی روشنی جلد پھیل سکتی ہے۔ کچھ لوگ تصور کرتے ہیں کہ انگریزی بھی ہندوستان کی قومی زبان ہو سکتی ہے۔ طبقہ اعلیٰ کے مٹھی بھر عالموں کا ذکر نہیں ہے ورنہ مجھے تو یہ تصور بالکل خیال معلوم ہوتا ہے۔ تعلیم عامہ اور تہذیب کے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ ممکن ہے کہ صنعتی، علمی اور کاروباری امور میں اور خصوصاً بین الاقوامی تعلقات کے لئے رفتہ رفتہ انگریزی کا استعمال بڑھتا جائے گا۔
ایک حد تک آج بھی یہی معاملہ ہے افکار و اشغالِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے ہم میں سے بعض کو بیرونی زبانوں کا علم لازمی طور پر حاصل کرنا ہوگا۔ اور میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ہماری یونیورسٹیاں انگریزی کے علاوہ فرینچ، جرمن، روسی اسپینی اور اطالوی کی تعلیم کا بھی انتظام کریں۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ انگریزی سے کنارہ کشی اختیار کی جائے لیکن اگر دنیا کے متعلق صحیح توازن قائم کرنا ہے، تو محض انگریزی عینکوں سے کام نہ چلے گا۔ صرف ایک پہلو اور ایک نظریے پر ارتکاز کی وجہ سے ہماری ذہنیت بہت کچھ یک رخی ہو چکی ہے اور ہمارے سخت سے سخت قوم پرست بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ ہندوستان کے متعلق برطانوی نقطہ نظر نے ان کے زاویہ نگاہ کو کس قدر محدود اور مسخ کر دیا ہے؟
دوسری غیر زبانوں کی تحصیل کی ہم کتنی ہی ترغیب کیوں نہ دیں مگر بیرونی دنیا سے ہمارے واسطے کا سب سے اہم ذریعہ انگریزی زبان ہی ہوگی۔ ایسا ہونا بھی چاہئے، ایک مدت سے ہم انگریزی سیکھنے کا جتن کر رہے ہیں اور اس سعی میں ہمیں بڑی حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے، سارے کئے دھرے پر پانی پھیرنے اور اس طویل تربیت سے فائدہ نہ اٹھانے کا خیال سراسر احمقانہ ہے۔ بلا شبہ انگریزی دنیا کی اہم اور مقبول زبان ہے اور وہ تیزی سے دوسری زبانوں سے آگے بڑھ رہی ہے اور وہ دنیا میں بین الاقوامی بھرما اور نشر لاسلکی کا ذریعہ ہوتی جاتی ہے۔ یہ دیکھنا کہ 'امریکن' اس کا نمبر نہ چھین لے اس لئے ہمیں انگریزی زبان کی اشاعت کرنا چاہئے، اس پر جتنا عبور حاصل کیا جائے، اچھا ہی ہے لیکن مجھے ہرگز پسند نہیں ہے کہ اس زبان کی نزاکتیں اور باریکیاں سمجھنے میں بہت زیادہ وقت اور ذہانت ضائع کی جائے۔ اکے دکے آدمی ایسا کیا کریں گے مگر اسے ایک عام مقصد بنا دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں پر فضول بار لادا جائے اور انہیں دوسرے کاموں میں ترقی حاصل کرنے سے روکا جائے۔
بنیادی انگریزی (BASIC ENGLISH) کی طرف اب میں بہت توجہ کرنے لگا ہوں اور میری رائے یہ ہے کہ یہ غیر معمولی سہولت جو زبان میں پیدا کی گئی ہے اس کا مستقبل امید افزا ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ہم بڑے پیمانے پر بنیادی انگریزی کی اشاعت شروع کر دیں اور معیاری انگریزی کو ماہروں اور شوقین طلبہ کے لیے چھوڑ دیں۔ میں ذاتی طور پر یہ پسند کروں گا کہ ہندوستانی دوسری غیر ملکی زبانوں اور انگریزی کے الفاظ کو اپنانے اور رواج دینے کی صلاحیت پیدا کرے۔ یہ ضروری بھی ہے کیونکہ ہمارے پاس جدید اصطلاحات نہیں ہیں اور سنسکرت، فارسی، یا عربی سے غیر مانوس و ادق ترکیبیں وضع کرنے کے بدلے عام فہم الفاظ کو اختیار کر لینا زیادہ مناسب ہے، خالص زبان کے معتقد (PURIST) پردیسی الفاظ کے استعمال پر اعتراض کرتے ہیں مگر ان کی غلطی ہے کیونکہ ہماری زبان اس وقت مالا مال ہوگی جب کہ اس میں ایسا لوچ ہوکہ وہ دوسری زبانوں کے الفاظ اور خیالات کو اپنانے کی صلاحیت پیدا کرے۔
اپنی بہن کی شادی کے بعد میں اپنے پرانے دوست اودھم کار شیو پرشاد گپتا سے ملنے کے لئے بنارس گیا۔ وہ سال سوا سال سے بیمار پڑے تھے لکھنو جیل میں ان پر فالج گرا اور اب وہ بہت دھیرے دھیرے روبصحت ہورہے تھے۔ قیام بنارس کے دوران ہندی کی ایک چھوٹی سی ادبی انجمن نے مجھے ایڈریس دیا اور اس موقع پر اس کے ارکان سے میری گفتگو ہوئی۔ میں نے مشورہ دینے سے پہلے جتا دیا کہ ایسے معاملات پر جن کے متعلق میرا علم محدود ہے، ماہرین فن سے کہتے ہوئے مجھے تامل ہوتا ہے، میں نے ہندی کی پر تکلف اور پیچیدہ عبارت آرائی پر تنقید کی جو مشکل سنسکرت الفاظ سے بھری ہوئی ہے جس میں تصنع ہوتا ہے اور جو فرسودہ اسالیب کی نقل ہے، یہ طور عام ہے۔
میں نے یہ رائے دینے کی جرات کی کہ اس درباری اسلوب کا تخاطب چند لوگوں سے ہو سکتا ہے اور اسے جلد چھوڑ دینا چاہئے۔ ہندی کے معنوں کو ارادتاً عوام کے لئے لکھنا چاہئے، یعنی ایسی زبان میں جو عوام کی سمجھ میں آ سکے۔ عوام کا تعلق زبان میں نئی روح پھونکے گا اور اسے اخلاص کا جوہر عطا کرے گا۔ عوام کے جذبات کی قوت مصنفوں پر بھی اثر ڈالے گی اور وہ زیادہ بہتر کام کرنے لگیں گے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہندی کے مصنف مغربی علم و ادب کی طرف زیادہ توجہ کریں تو انہیں بڑا فائدہ ہوگا۔
یورپین زبانوں کی اعلیٰ تصانیف اور جدید خیالات کی حامل کتابوں کے تراجم بہت سود مند ہوں گے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ غالباً جدید بنگالی گجراتی اور مرہٹی زبانیں ان معاملات میں نئی ہندی سے کسی حد تک آگے ہیں اور اس امر میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ زمانہ حال میں بنگالی میں ہندی سے کہیں زیادہ تخلیقی کام ہوا ہے۔
ان معاملات پر ہماری بات چیت دوستانہ تھی۔ پھر میں وہاں سے چلا آیا۔ مجھے مطلق خیال نہ تھا کہ میری رائے اخباروں کو بھیج دی جائے گی۔ مگر کسی نے جو اس صحبت میں شریک تھا، اس گفتگو کی رپورٹ ہندی پریس میں اشاعت کیلئے بھیج دی۔
پھر تو ہندی اخباروں نے میرے خلاف بڑا واویلا مچایا۔ ہندی کو بنگالی، گجراتی اور مرہٹی سے گھٹیا بتانے کی وجہ سے مجھے خوب صلواتیں سنائی گئیں۔ مجھے جاہل بتایا گیا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس معاملے میں میرا علم بہت محدود تھا۔ مجھ پر دباؤ ڈالنے کے لئے اور بھی سخت باتیں کہی گئیں۔ اس مباحثہ کے لئے میرے پاس وقت نہ تھا اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یہ شورش مہینوں جاری رہی حتی کہ میں پھر جیل چلا گیا۔
اس واقعے سے مجھے ایک نئی بات معلوم ہوئی اور اس سے ہندی کے ادیبوں اور اخبار نویسوں کی غیر معمولی زود حسی کا راز کھل گیا اور یہ پتہ چل گیا کہ ایک بہی خواہ کی تھوڑی سی مخلصانہ تنقید کو بھی وہ سننا گوارا نہیں کرتے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ اپنی پستی کا وہم تھا۔ یہ تو اکثر ہوا کہ مصنف اور نقاد باہم دست و گریباں ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے پر ذاتی بغض و حسد کا الزام لگاتے ہیں مگر ان کا (میرے معترضین کا) زاویہ نگاہ نہایت ہی تنگ، فرسودہ اور سرمایہ دارانہ تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ مصنف اور اخبار نویس ایک دوسرے کے لیے اور ایک محدود دائرے کے لئے لکھتے ہیں اور عوام اور ان کے مفاد سے انہیں کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ انہیں نیا اور وسیع میدان مل سکتا ہے۔ تو ان کا یہ طرز عمل قابل رحم ہے کیونکہ یہ صلاحیت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ ہندی ادب کا ماضی شاندار ہے مگر وہ اپنی ماضی کے بوتے ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ اس کا مستقبل روشن ہے اور ہندی اخبار نویس اس ملک کی قابل قدر طاقت ثابت ہوگی، لیکن اس وقت تک ان کی ترقی محال ہے، جب تک فرسودہ پابندیوں سے آزاد نہ ہو جائیں اور جرات کر کے عوام کو اپنا مخاطب نہ بنائیں۔
حوالہ (1) : یہ واقعہ پنڈت جی کی بہن کی شادی کا ہے۔
ماخوذ از رسالہ: نقوش (ادبی معرکے نمبر، حصہ اول)
127واں شمارہ، ستمبر 1981 ، بابِ اول: زبان کے نام پر معرکے
127واں شمارہ، ستمبر 1981 ، بابِ اول: زبان کے نام پر معرکے
Urdu & Devnagri script. Article: Jawaharlal Nehru
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں