سلطان احمد - راجستھان پس منظر والی فلموں کا مقبول ہدایتکار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-11

سلطان احمد - راجستھان پس منظر والی فلموں کا مقبول ہدایتکار

sultan-ahmed bollywood director

سلطان احمد (پیدائش: 1938 ، لکھنؤ - م: 22/مئی 2002 ، تہران)
بالی ووڈ فلموں کے معروف فلمساز و یدایتکار رہے ہیں۔ جنہوں نے راجستھان کے پس منظر میں اپنی مشہور فلمیں ہیرا، گنگا کی سوگندھ اور داتا تخلیق کی ہیں۔ واضح رہے کہ دلیپ کمار کے برادر نسبتی اور سائرہ بانو کے حقیقی بھائی سلطان احمد ایک الگ شخصیت ہیں۔
اس مختصر سے انٹرویو (ماخوذ: ماہنامہ شمع ، مئی-1993) میں سلطان احمد نے ریاست راجستھان سے اپنے قلبی تعلق کی وضاحت کی ہے۔

پروڈیوسر ڈائریکٹر سلطان احمد لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں والدین کے ساتھ بمبئی آ گئے، اسی شہر میں پروان چڑھے اور اسی شہر نے سلطان احمد کو ایک منفرد فلم میکر بنایا مگر خود سلطان احمد ملک کے جس خطہ سے سب سے زیادہ پیار کرتے ہیں وہ ہے راجستھان۔
راجستھان سے سلطان احم کے قلبی لگاؤ کا ثبوت یہ ہے کہ سلطان احمد نے اپنے قلم کیریر میں آج تک پانچ فلمیں بنائی ہیں پہلی فلم "ہیرا" تھی اس کے بعد "گنگا کی سوگندھ"، "دھرم کانٹا" "داتا" اور "جے وکرانتا" ، یہ تمام فلمیں انہوں نے راجستھان میں بنائی ہیں۔

سلطان احمد نے مسافر کو بتایا کہ انہوں نے راجستھان کا چپہ چپہ کھنگال رکھا ہے۔ جب وہ آصف صاحب (کے۔ آصف مرحوم) کے اسسٹنٹ تھے تو ان کے ساتھ "مغل اعظم"، "محبت اور خدا" اور "سستا خون مہنگا پانی" کے سلسلے میں راجستھان کا کونہ کونہ دیکھا بعد میں جب وہ خود پروڈیوسر بنے تو راجستھان ان کا پسندیدہ لوکیشن بن گیا۔
پورے راجستھان سے محبت کرنے والے سلطان احمد اس کے گلابی شہر جے پور کے جیسے اسیر ہو گئے ہوں، اس کا ثبوت ہے کہ ان کا جے پور میں بنگلہ زیر تعمیر ہے۔ یہ بنگلہ جس کا نام سلطان احمد نے "ہیرا" رکھا ہے، ان کی پہلی فلم کے نام کی یاد دلاتا ہے۔
فلمی لوگ اگر دنیا میں کسی سے ڈرتے ہیں تو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ہے مگر سلطان احمد کے حوصلوں کی داد دینا چاہنے کہ ان کا جے پور میں بنگلہ "انکم ٹیکس کالونی" میں تعمیر ہو رہا ہے اور یہ انکم ٹیکس کالونی جےپور کے کلارکس عامر ہوٹل [Hotel Clarks Amer] سے تقریباً دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

"آپ اپنی ہر فلم راجستھان ہی میں کیوں بناتے ہیں؟" مسافر نے سلطان احمد سے پوچھا۔
"میں نے آج تک جتنی فلمیں بنائی ہیں ان میں ہندوستانی تہذیب اور کلچر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور میں سمجھتا ہوں راجستھان میں شوٹنگ کر کے فلم میں وہ ماحول آ جاتا ہے جسے ہندوستانی ماحول کہا جاتا ہے۔ راجستھان میں جتنے خوب صورت لوکیشن ہیں وہ پورے ملک میں اور کہیں نہیں۔ ان لوکیشنز کا اپنا ایک خاص مزاج ہے۔ راجستھان کے گاؤں، یہاں کے لوگ، یہاں کی طرز تعمیر۔۔۔ غرض کہ ہر چیز سے ہندوستانیت کی جھلک ملتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنی ہر فلم راجستھان میں بتاتا ہوں"۔ سلطان احمد نے جواب دیا۔

"آپ جے پور سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ آپ نے یہاں بنگلہ بھی بنایا ہے؟"
"کیوں کہ میں اپنی ہر فلم راجستھان میں بتاتا ہوں جس کے لئے مجھے بار بار یہاں آنا پڑتا ہے۔ ہرفلم کے لئے دو تین بار یونٹ جےپور آتا ہے۔ سوچا کہ جتنا پیسہ ہوٹل کے کرایوں میں چلا جاتا ہے کیوں نہ اس کو بچایا جائے اور اپنے لئے مستقل مکان بنا لیا جائے مگر جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں مکان ابھی زیر تعمیر ہے، جب کہ میں نے یہ مکان 'داتا' کے زمانے میں شروع کیا تھا مگر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ دراصل مجھ پر فلم کا نشہ انتا سوار ہو جاتا ہے کہ میں اس کے علاوہ کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا۔ یہ سمجھیے کہ فلم میری 'محبوبہ' ہوتی ہے اور میں اپنا سب کچھ اس پر لگا دیتا ہوں"۔ سلطان احمد نے مسکرا کر جواب دیا۔

"کاغذ پر کوئی بھی چیز لکھنا آسان ہے، مگر جب حقیقت کی دنیا میں اس تصوراتی دنیا کو تلاش کیا جائے تو مشکل کھڑی ہو جاتی ہے آپ اپنی کہانی میں جو لوکیشن لکھتے ہیں کیا ان لوکیشن تک بہنچ جاتے ہیں؟"
"میرے ذہن میں میری فلم کی پوری کہانی ہر وقت گردش کرتی رہتی ہے۔ میں اپنے تصور میں جو کچھ سوچتا ہوں ان مقامات تک پہنچنے کے لئے میں خود نکلتا ہوں چاہے وہ جگہ کتنی ہی دور دراز کیوں نہ ہو، راجستهان کی گرمی تو مشہور ہے مگر میں اس کی بھی فکر نہیں کرتا، اگر بھوک لگے تو میں سڑک کے کنارے ڈھابے میں کھانا بھی کھا لیتا ہوں اور پھر جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: 'جو خود اپنی مدد کرتے ہیں میں اس کی مدد کرتا ہوں'۔۔۔ اس طرح مجھے مطلوبہ لوکیشنز مل جاتے ہیں۔"

"آپ کی ہر فلم میں ڈاکو اور گھوڑے کیوں ہوتے ہین؟"
"اس لئے کہ ڈاکو اور گھوڑوں کا وجود دنیا میں موجود ہے اور پھر فلمی حساب سے ان دونوں کی وجہ سے فلم میں ایکشن کے ساتھ ساتھ GRANDEUR (شان و شوکت) بھی آ جاتی ہے۔ اور اگر آپ اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو ایسی فلمیں جن میں گھوڑے اور ڈاکو ہوتے ہیں ان کا بنانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اگر میں بھی دوسرے بہت سے میکرز کی طرح سوشل یا رومانی فلمیں بناؤں تو ایسی فلمیں عموماً بنگلوں اور پارکوں میں مکمل ہو جاتی ہیں۔ بنگلے تو آسانی سے بمبئی میں دستیاب ہو جاتے ہیں، اب رہے باغات تو ان کے لئے ملک کے کسی بھی حصے میں جایا جا سکتا ہے۔" سلطان احمد نے بتایا۔

"اپنی فلم کمپنی کی ہر فلم آپ خود ڈائریکٹ کرتے ہیں، کیا آپ نے کبھی کسی دوسرے ڈائریکٹر سے سلطان پروڈکشنز کی کسی فلم کو ڈائریکٹ کرانے کے بارے میں سوچا؟"
"میں نے اس سلسلے میں کئی بار سوچا۔ برسوں پہلے انیل گنگولی کو سائن بھی کیا تھا، وہ میرے لئے ایک سوشل فلم بنانے والے تھے کہ اسی دوران فلموں کا TREND (انداز) بدل گیا، فلموں میں ایکشن آ گیا۔ اس کے بعد روی ٹنڈن کے بارے میں سوچا مگر کسی وجہ
سے بیل منڈھے سے نہ چڑھ سکی۔ اور پھر مجھے دولت کی ہوس بھی نہیں۔ لیکن اب میں سنجیدگی کے ساتھ اپنے چیف اسسٹنٹ شری کانت شرما کو ایک فلم دینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فلم کا اسکرپٹ مکمل کر کے شرما کو دوں اور وہ اسی اسکرپٹ پر فلم بنائے۔
شریکانت شرما، ایس کے اوجھا کے چھوٹے سالے ہیں۔ تقریبا 45 سال پہلے ایس۔ کے۔ اوجھا نے آصف صاحب کی فلم 'ہلچل' (دلیپ کمار، نرگس، بلراج ساہنی یعقوب) کی ہدایت دی تھی۔"

"آپ کی ہر فلم باکس آفس پر کام یاب رہی ہے کیا آپ اپنی زندگی کی سب سے بڑی فلم بنا چکے ہیں یا مستقبل میں بنائیں گے؟"
"فلم 'جے وکرانتا' کے بعد میں اپنے برسوں پرانے خواب کی تعبیر دیکھنا چاہوں گا۔ میں فلم 'صاحبزادی انار کلی' شروع کروں گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یہ فلم وہاں سے شروع سے ہوگی جہاں فلم 'مغل اعظم' ختم ہوئی تھی۔ اس فلم کے لئے مجھے دلیپ صاحب چاہیے۔ میری ان سے بات چیت بھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی دلیپ صاحب نے او۔کے کہا، میں اپنی زندگی کی سب سے بڑی فلم شروع کر دوں گا"۔
سلطان احمد نے گفتگو کا اختتام کرتے ہوئے بتایا۔

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ"شمع" شمارہ: مئی 1993

Sultan Ahmed, Bollywood Producer Director famous for his Rajasthan based films.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں