چارمینار - شہر حیدرآباد دکن کی ابدی و تاریخی پہچان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-12-25

چارمینار - شہر حیدرآباد دکن کی ابدی و تاریخی پہچان

charminar-quli-qutb-hyderabad

محمد قلی قطب شاہ (1565-1611 ء)
کو تعمیرات کا بےحد شوق تھا۔ عظیم الشان اور پرشکوہ عمارتیں بنانے کی لگن میں وہ مغل بادشاہ شاہ جہاں کا پیش رو تھا۔ اس کی بنائی ہوئی عمارتوں میں ایک شاندار یادگار چارمینار اور کچھ دیگر عمارتیں باقی ہیں۔ اس کا بسایا ہوا شہر بھی موجود ہے جو اپنے قیام کی چوتھی صدی منا چکا ہے، جس کا روپ اس کے بنیادی خد و خال سے بہت بدل چکا ہے۔
گولکنڈہ کا قلعہ محمد قلی کے والد ابراہیم قطب شاہ کے زمانے میں ہی کثیر آبادی والا قلعہ بن گیا تھا۔ آبادی کی کثرت نے قلعہ کی فضا اور ماحول کو آلودہ کر دیا تھا، اسی وجہ سے اس زمانے میں قلعہ کے اندر آبادی کو کم کرنے کے خیال سے تھوڑی بہت توسیع کا کام بھی ہوا تھا۔ ابراہیم قطب شاہ نے 1578ء میں موسیٰ ندی پر ایک پل بھی تعمیر کیا تھا۔ وہ قلعے کے شمال اور مغرب میں رہائشی توسیع کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے شہر کے مغربی حصے میں ایک سیرگاہ بنائی تھی جو اب "ابراہیم باغ" سے موسوم ہے۔ توسیع کا یہ منصوبہ کچھ آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ یہ علاقہ پتھریلا تھا اور یہاں پانی کی قلت تھی۔
موسیٰ ندی پر پل بن جانے کی وجہ سے ندی کے دوسری طرف ایک موزوں زمین کا انتخاب ممکن ہو گیا۔ اس زمین سے وابستہ کئی سہولتیں بھی تھیں۔ مثلاً یہ کہ یہ جگہ قلعہ سے قریب تھی، کھلی تھی اور زیادہ ڈھلوان نہیں تھی۔ یہاں پانی کی نکاسی کا انتظام بھی تھا اور "جل پلی" نامی تالاب میں پانی کی وافر مقدار موجود تھی۔ اس کے علاوہ یہ جگہ حیدرآباد سے مچھلی پٹنم جانے والی شاہراہ پر تھی۔ وہاں چچیلم نامی ایک گاؤں بھی آباد تھا۔ اسے نئے شہر کا مرکز چنا گیا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں آج "چارمینار" ہے۔

مورخ فرشتہ لکھتا ہے:
ایک ایسے مبارک دن جب چندرما، سنگھ راشی میں تھا اور مشتری اپنے گرہ میں، سلطان قلی قطب شاہ نے ایک ایسے شہر کی تعمیر کا حکم دیا جو "ساری دنیا میں بےمثال ہو اور زمین پر جنت کا نمونہ ہو"۔ ایسے شہر کے پلان 1591ء میں تیار ہو گئے۔

شہر کا نقشہ اس طرح بنایا گیا تھا کہ اس پر طائرانہ نظر ڈالنے سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شہر ایک وسیع و عریض بساط شطرنج کے خانوں میں بٹا ہوا ہے۔
چارمینار شہر کے نقشے میں مرکزی قطعہ تھا اور اس مرکز سے چار شاہراہیں مساوی سمتوں میں نکالی گئیں۔ ان میں سے دو پہلے سے موجود تھیں۔ وہ سڑک جو مشرقی ساحل پر مچھلی پٹنم کو جاتی ہے، ابتدا میں بھی موجود تھی۔ اس سڑک کے دوسری طرف پل سے آٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر گولکنڈہ کا قلعہ واقع تھا۔ اس کو کاٹتی ہوئی اور اس پر زاویہ قائمہ بناتی ہوئی ایک اور سڑک بنائی گئی۔ یہ سڑک شمال میں موسی ندی کی طرف جاتی تھی اور جنوب میں کوہ طور محل کی طرف۔ اب یہ محل تو موجود نہیں ہے لیکن عام خیال یہ ہے کہ عین اسی مقام پر بعد میں "فلک نما محل" بنایا گیا تھا، جو اب بھی موجود ہے۔
شہر کے اس نقشے میں شہر کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ شمال مغربی حصہ شاہی محلات اور سرکاری دفاتر کے لیے مخصوص تھا۔ شمال مشرقی حصہ رؤسا کی رہائش کے لیے تھا۔ درمیان کی مرکزی شاہراہ 14 ہزار دکانوں، مسجدوں، سرائے خانوں، عسل خانوں اور مکتبوں کے لیے مخصوص کی گئی تھی۔

شہر کی تعمیر کی ابتدا چارمینار کی تعمیر سے ہوئی تھی۔
ایک خیال یہ ہے کہ اسے ایک تعزیے کی صورت بنایا گیا ہے یعنی یہ حضرت امام حسین کے روضے کی صورت بنا ہوا ہے۔ اس بات سے بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا ہے۔ عام رائے ہے کہ یہ محض شہر کا مرکز ہے۔ اسے پلاسٹر اور پتھر سے ایک مربع شکل میں بنایا گیا۔ اس کی چاروں سمتیں آپس میں مساوی ہیں اور ہر سمت 18.26 میٹر لمبی ہے۔ ہر طرف ایک کمان بنی ہے جو 7.3 میٹر چوڑی اور 9.14 میٹر اونچی ہے۔ زمین سے ہر مینار کی اونچائی 48.7 میٹر اور چھت سے 24.4 میٹر ہے۔ ہر مینار کی چار منزلیں ہیں اور ہر مینار میں اوپر تک پہنچنے کے لیے 641 سیڑھیاں ہیں۔
اصل عمارت میں تین منزلیں ہیں۔ چھت کی مغربی جانب مسجد ہے۔ اس کی پانچ دوہری کمانیں ہیں اور یہ شیعہ مسلک کے مطابق پنجتن پاک یعنی پیغمبر اسلامؐ ، علی، فاطمہ، حسن اور حسین کی علامت ہیں۔ ہر نوک دار کمان ایک ہلالی کمان پر محیط ہے جو مغل اثرات کی دین ہے۔
حالانکہ گولکنڈہ ریاست خود مختار تھی لیکن مغل تہذیب کے اثرات تعمیری تصور پر ہی نہیں، لباس، آداب اور کھانے پینے کی عادتوں پر بھی تیزی سے مرتب ہو رہے تھے اور ان دونوں یعنی مغلوں اور قطب شاہوں کے لیے فیضان کا سر چشمہ ملک فارس تھا۔
مینار عمارت کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث تھے لیکن دیکھنے والے کی نگاہ میں مینار کی بلندی کو کم کرنے کی غرض سے چھت پر میناروں کے درمیان ایک دوہرا جالی دار سکرین لگایا گیا ہے۔ مسجد کے اندرونی ہال میں 45 نمازیوں کے لیے جگہیں بنی ہیں اور آگے کھلا صحن ہے۔
کہا جاتا ہے کہ چارمینار کی دوسری منزل پر ایک مدرسہ بھی تھا۔ اگر ایسا ہے تو اس مدرسے تک جانا خاصا دشوار رہا ہوگا۔ یہاں پانی جل پلی تالاب سے شہر اور محلات کے لیے لایا جاتا تھا۔ عمارت میں پانی کو جمع کرنے یا اس کی تقسیم کے طریقہ کار کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ حالانکہ جن منصوبہ کاروں اور تعمیرات کے ماہرین نے ایسی خوبصورت عمارت کا نقشہ بنایا تھا وہ پانی کی فراہمی کا کوئی بہتر نظام بھی سوچ سکتے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ چارمینار محض ایک زیبائشی عمارت تھی اور جمالیاتی اور عملی دونوں زاویوں سے سکول، مسجد اور زخیرۂ آب ایک ہی عمارت میں باہم مہیا کرنا بعید از خیال لگتا ہے۔
مشہور فرانسیسی سیاح جین دی تیونو [Jean de Thevenot] نے برآمدوں تک پانی کی فراہمی کا ذکر کیا ہے۔ یہاں مدرسے کی موجودگی کی بھی کئی ذرائع نے تصدیق کی ہے۔ سید علی اصغر بلگرامی کے مطابق چارمینار کی تیاری پر نو (9) لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اورنگ زیب کے دکھن کی اس ریاست کے فتح کرنے کے بعد بہادر دل خان کو حیدرآباد کا صوبہ دار مقرر کیا گیا تھا۔ اسی زمانے میں بجلی گرنے سے چارمینار کا ایک مینار پاش پاش ہو گیا تھا اور شہر کے ایک مالدار تاجر کی موت واقع ہو گئی تھی جس کا کوئی قانونی وارث نہیں تھا۔ چنانچہ اس کی تمام تر املاک جس کی مالیت ایک لاکھ 25 ہزار روپے تھی، صوبہ دار کے تصرف میں دے دی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ صوبہ دار نے اس میں سے ساٹھ ہزار روپیہ چارمینار کے منہدم مینار کو دوباره بنوانے پر صرف کیا اور باقی رقم خیرات کر دی۔
1824ء میں پوری عمارت پر پلاسٹر کرنے پر ایک لاکھ روپے خرچ کیے گیے اور 1886ء میں عمارت کے چاروں طرف لوہے کی سلاخیں کھڑی کی گئیں اور شمال کی جانب صرف ایک دروازہ کھول دیا گیا۔

چارمینار، ہندوستان کی خوبصورت عمارتوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ حیدرآباد شہر کی ایک ایسی ابدی پہچان بن گیا ہے کہ جس کی دید ہر آنے والے کے لیے لازمی ہے۔ اس کی چھت پر کھڑے ہو کر پرانے شہر کا سارا منظر آنکھ میں سمٹ آتا ہے۔ 1756ء میں چارمینار اور اس کے آس پاس بنے باغات پر فرانسیسی کمانڈر Bussy اور اس کی فوج کا تصرف تھا۔ 1884ء میں افغان سٹی پولیس کا ایک گارڈ یہاں متعین تھا۔

چارمینار کی تعمیر کے بعد سے یہ جگہ بیکاروں کی آماجگاہ بن گئی تھی۔ چنانچہ شہر میں اکثر افواہیں اور گپیں یہیں سے پھیلتی تھیں اور اسی لیے جب کسی بات پر یقین نہیں ہوتا تھا تو لوگ اسے "چارمینار کی گپ" کہہ کر رد کر دیا کرتے تھے۔ اس کے ارد گرد بےشمار ایرانیوں کے چائے خانے بھی اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔
چارمینار کی تعمیر کا مادہ تاریخ "یا حافظ" نکالا گیا تھا۔ اس سے 1000 سن ہجری یا 1592ء سن عیسوی نکلتا ہے۔ یہ چارمینار کی حفاظت کے لیے دعا کا کام بھی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

***
ماخوذ از کتاب:
سلطان شاعر عاشق معمار : محمد قلی قطب شاہ - بانی حیدرآباد
تالیف: نریندر لوتھر (اشاعت: فروری 1998)
اردو ترجمہ: زبیر رضوی

Charminar - The eternal and historical identity of the city Hyderabad Deccan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں