رسالہ قومی زبان اردو اکیڈیمی اے پی کا عہد قطب شاہی نمبر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-08-23

رسالہ قومی زبان اردو اکیڈیمی اے پی کا عہد قطب شاہی نمبر

qaumi zuban ahd-e-qutb-shahi number
اُردو اکیڈیمی آندھرا پردیش کو ملک بھر کی اُردو اکیڈیمیوں میں اس کی فروغ اُردو کی اختراعی اسکیمات اور خاطر خواہ بجٹ کے استعمال کے سبب فوقیت حاصل ہے۔ اس ادارے کا ترجمان اُردو رسالہ قومی زبان ہے۔ جو ایڈیٹر پروفیسر ایس اے شکور کی ادارت میں پابندی سے شائع ہورہا ہے۔ اور اس رسالے کو ملک بھر کے اُردو رسائل میں اپنی معیاری طباعت اور ماہرانہ ادارت کے سبب مقبولیت حاصل ہے۔ حال ہی میں یہ رسالہ ISSN NOکے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ اس رسالے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں میں ہر ماہ علمی وادبی ،ثقافتی،فنی اور سائنسی مضامین شائع ہوتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کے خاص نمبر شائع ہوتے ہیں جو ایک ہی موضوع پر ماہرین ادب کی مختلف آراء کے ساتھ ادبی و تحقیقی و معلوماتی مضامین کا گلدستہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ماہنامہ قومی زبان کا اگست2013ء کا شمارہ "عہد قطب شاہی نمبر" کے عنوان سے محمد قلی قطب شاہ کی وفات کے چار سو سال کے ضمن میں خصوصی نمبر کے طور پر شائع ہوا ہے جس میں اردو کے نامور محققین اور عہد حاضر کے ابھرتے قلم کاروں کے مختلف موضوعات پر لکھے ہوئے جملہ 18مضامین شامل ہیں۔ اور یہ رسالہ قلی قطب شاہ کے فن اور قطب شاہی عہد کی تاریخ و تہذیب کے بارے میں ایک قیمتی دستاویز اختیار کر گیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس رسالہ کا اداریہ" ہم کلامی" کے عنوان سے پروفیسر ایس اے شکور ایڈیٹر قومی زبان حیدرآباد و ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی آندھرا پردیش نے تحریر کیا ہے ۔ انہوں نے عہد قطب شاہی نمبر کے خصوصی گوشہ کی اشاعت کے متعلق لکھا ہے کہ:
"ماہ اگست2013ء کا شمارہ ہم نے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے بانیوں کے نام کیا ہے ، میری مراد قطب شاہی عہد کے حکمرانوں خاص کر پانچویں قطب شاہی فرمانروا محمد قلی قطب شاہ کے نام۔ اس لئے کہ حیدرآباد کے نام کے ساتھ اس کے جہاندیدہ بیدار مغز،معمار شہر،علوم و فنون ،شعر و شاعری کے دلدادہ کانام جڑا ہواہے۔اس دور کی تاریخ سے ہم سب کماحقہ واقف ہیں کہ سلطان محمد قلی قطب شاہ کا دور تعمیرات اور شہر حیدرآباد کی ترقی کے علاوہ علوم وفنون کا گہوارہ بھی تھا۔ ادارہ قومی زبان نے کوشش کی ہے کہ اس فرمانروا کے کارناموں،حالات وکوائف کو یکجا کیا جائے اور قارئین کے سامنے لایاجائے۔" (ص 4)
اس خصوصی ضمیمہ کا پہلا مضمون" عہد قطب شاہی کی دوہم عصر منظوم تاریخیں"(نسب نامہ اورنسب نامہ قطب شاہی) محمد سردار علی کا مضمون ہے جو روزنامہ مشیردکن سالگر نمبر 1356ھ سے لیاگیاہے یہ مضمون کافی معلوماتی ہے جس میں قطب شاہی دور کے آغاز والیان سلطنت اور علوم و فنون کی کتابیں جوکہ عہد قطب شاہیہ میں لکھی گئی ہے ۔معلومات فراہم کی گئی ہے انہوں نے لکھا ہے کہ "دیگر فنون کے قطع نظر صرف عہد قطب شاہیہ کی پانچ تاریخیں لکھی گئی جن کے نام (1) تاریخ قطب شاہی(2) ماثر قطب شاہی(3) صدیقیہ السلاطین (4)نسب نامہ (5)نسب نامہ قطب شاہی۔ "ص(5)
دوسرا مضمون" گولکنڈہ کا پہلا شاعر بادشاہ" کے عنوان سے شامل ہے جسے محمد وزیر حیدرآبادی نے لکھا جوکہ عالمگیر عید نمبر بابت ماہ فروری 1931ء سے ماخوذ ہے جس میں جمشید قطب شاہ کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہے ۔ شعر وسخن کے تحت جمشید قطب شاہ کے قصیدہ اور غزل کو پیش کیاگیاہے۔ تیسرا مضمون" بھاگ متی اور بھاگ نگر" کے عنوان پر ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ کا شامل کیاگیاہے جس میں زور صاحب نے پروفیسر ہارون خان شیروانی کے بھاگ متی سے متعلق بے تحقیقانہ فسانہ پر تحقیقی زاویہ کو پیش کیاہے اور بھاگ متی اور بھاگ نگر سے متعلق مختلف تحقیقی حوالوں سے گفتگو پیش کی ہے اور بھاگ متی کو ہی حیدرمحل قرار دیاہے تمام مضامین میں زور صاحب کا یہ مضمون کافی طویل ہے۔
زینت ساجدہ صاحبہ کا مضمون "محمد قلی اور اس کی شاعری" کے عنوان سے شامل کیاگیاہے یہ مضمون یوم قلی قطب شاہ 1958ء کے دوسرے علمی اجلاس میں پیش کیاگیامقالہ ہے جس میں مضمون نگارنے محمد قلی کی مقبولیت سے متعلق لکھا ہے :"محمد قلی اگر صرف قطب شاہی خاندان کا ایک عام فرمانروا ہوتاتو صرف انہیں طالب علموں کو اس کے کارنامے یاد رہتے جنہوں نے کوئی امتحان کامیاب کرنے کی خاطر دکن کی تاریخ کو پڑھا ہو لیکن آج وہ دکن کے ہر آدمی کو اس لئے یاد ہے اس لئے محبو ب ہے کہ وہ ہماری مشترکہ تہذیب کو سنوارنے والا ہمارے اس پیارے شہر کو آباد کرنے والا، لوگوں کے دلوں کو جوڑنے والی روایات کو قائم کرنے والا شاعر مزاج صناع اور صنعت کار شاعر تھا۔" (ص22)
زینت ساجدہ صاحبہ نے دلکش انداز بیان کے ساتھ قلی قطب شاہ کے مسرت ونشاط کے لمحات کو بیان کیاہے ان کا انداز بیان اتنا اچھا ہے کہ عام قاری بھی محمد قلی کی شخصیت سے خوب واقف ہوجاتاہے زینت ساجدہ کا یہ مقالہ تمام مضامین میں اپنی انفرادیت رکھتاہے۔
پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ نے" قلی کے کلام کا عروضی مطالعہ" کے عنوان پر لکھاہے۔انہوں نے قلی کے کلام کے فنی محاسن ومعائب پرگفتگو کرتے ہوئے قلی کے غزلوں کے بحروزن سے متعلق اشعار کو اپنے مضمون میں پیش کیاہے۔
دکنی ادب پر اتھاریٹی سمجھے جانے والے محقق پروفیسر محمد علی اثر ؔ کا مضمون" محمد قلی قطب شاہ کا رنگ تغزل "بھی اس خصوصی شمارے میں شامل ہے محمد قلی کی غزلوں کا رنگ تغزل سے متعلق وہ لکھتے ہیں:
"محمد قلی کی غزلوں میں سوزوگداز ہے اور فکر کی گہرائی دردوغم کی فراوانی ہے اور نہ نشتریت۔ اس نے اپنی زندگی کی بہاریں ،عیش و نشاط اور راگ رنگ میں گذاریں۔ اس لئے اس کے کلام میں رنگینی ورعنائی ہے تازگی و شگفتگی ہے سیرابی وسرمستی ہے۔غرض آسودگی کے تمام روپ اس کے کلام میں جلوہ گر ہیں۔ محمد قلی کا آرٹ کلاسیکی آرٹ کی نمائندگی کرتاہے یہ خوشحالی اور آسودگی کا آرٹ ہے ۔" (ص32)
ڈاکٹر عقیل ہاشمی کامضمون" محمد قلی قطب شاہ کی شاعری کا سماجی پہلو" کے عنوان کے تحت اس خصوصی شمارے میں شامل ہیں جس میں انہوں نے محمد قلی کی شاعری کے موضوعات میں خالصتاً زندگی کی بھرپور عکاسی کی ہے ساتھ ہی ان کی شاعری میں عوامی اور سماجی پہلوؤں کاتذکرہ کیا ہے۔ جامعہ عثمانیہ کی پروفیسر فاطمہ بیگم نے اپنا مضمون "محمد قلی قطب شاہ کی قصیدہ نگاری ایک مطالعہ" کے عنوان پرلکھا ہے۔ انہوں نے اپنے اس مضمون میں محمد قلی قطب شاہ کے 12قصیدوں کا ذکر کیاہے ساتھ ہی اردو ادب میں قصیدہ نگاری کی صنف سے متعلق لکھا ہے وہ رقمطراز ہیں:
"غرض صرف بارہ قصائد اور ان کے 216اشعار ان میں بھی صرف چھ مکمل کے توسط سے اردو قصیدہ نگاری کے ابتدائی دور میں اپنے مضبوط نقوش ثبت کرتے ہوئے محمد قلی نے اردو قصیدہ نگاری کی تاریخ میں اپنے لئے مستحکم جگہ بنالی ہے۔" (ص49)
دور حاضر میں دکنی ادب پر گفتگو کرنے والوں میں نئی نسل کی نمائندگی کرنے والے استاد ڈاکٹر محمدنسیم الدین فریس کا مضمون" سلطان محمد قلی قطب شاہ اور عید رمضان" اس خصوصی گوشہ میں شامل ہے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں قلی قطب شاہ کے عہد حکمرانی کو سنہرے اور خوشی ونشاط کے دور سے تعبیر کیاہے اور لکھا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ روزانہ شعر کہتا تھا قلی قطب شاہ کے کلام کے موضوعات کا تفصیلی تذکرہ کیاہے اور عید رمضان سے متعلق محمد قلی کی چند نظموں کا مطالعہ اپنے اس مضمون میں پیش کیاہے۔
ڈاکٹر سید فضل اللہ مکرم اردو کی نئی نسل کے ابھرتے محقق اور قلم کار ہیں۔ ان کا مضمون قومی زبان کے اس خصوصی گوشہ میں بعنوان" قطب شاہی عہد میں تلگوادب کا فروغ " شامل ہے۔ مضمون نگار نے تلگو کے معنی اور تلگو ادب سے متعلق مختصر تفصیلات بیان کی ہیں اور قطب شاہی حکمرانوں سے متعلق لکھا ہے کہ "قطب شاہی دور کے سلاطین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ مذہب کو ریاست سے الگ رکھا اور اپنے عقائد کو کبھی بھی امور سلطنت پر مسلط نہیں کیا وہ انتہائی رواداراور روشن خیال تھے۔ اس ضمن میں ہندوستان کاکوئی بھی مسلم بادشاہ قطب شاہیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔"(ص53)
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم نے قطب شاہی حکمرانوں کی تلگوزبان وادب سے دلچسپی اوران کے دربار سے وابستہ تلگو شعراء اور دربار میں تلگو زبان کو فارسی دکنی کے مساویانہ ترقی پر معلومات فراہم کی ہے کافی اچھا اورمعلوماتی مضمون کو پیش کیاہے۔اردو کے ایک اور ابھرتے قلم کار ڈاکٹرمحمد اسلم فاروقی کا مضمون" محمد قلی قطب شاہ کی مذہبی شاعری"کے عنوان سے شامل ہے۔ قلی قطب شاہ کی شاعری میں مذہبی عناصر کو تلاش کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم فاروقی لکھتے ہیں:
"محمد قلی قطب شاہ کے دیوان میں مذہبی شاعری کا بھی ایک بڑا حصہ موجود ہے۔ اس کے دیوان میں حمد، نعت، منقبت، مدح بی بی فاطمہ،عیدمیلادالنبی ،شب معراج،عیدغریر، شب برات، عید رمضان،بقر عید، نوروز،بسنت وغیرہ مذہبی مواقع سے متعلق نظمیں اور غزلیں ہیں۔"(ص 58)
ڈاکٹر اسلم فاروقی نے محمد قلی کے کلام میں مذہبی شاعری کو مثالوں کے ذریعہ پیش کیا ہے ۔ اور اس نئے پہلو کی طرف اشارہ کیا کہ دولت و ثروت اور عیش و نشاط میں ڈوبا شاعراپنے رب اور نبی کے صدقے کو نہیں بھولتا اور اپنی غزلوں میں بار بار اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ نبی کے صدقے اسے حکومت،چین و سکون اور سب کچھ حاصل ہوا ہے۔
قومی زبان کے اس خصوصی نمبر میں شامل دیگر مضامین میں"محمد قلی قطب شاہ کی شاعری اور تصور محبوب" ڈاکٹر ابرار الباقی، "محمد قلی کی شاعری میں تہذیبی وسماجی عناصر" ،ضامن علی حسرت،" محمد قلی قطب شاہ"، ڈاکٹر احتشام الدین خرم،" دکنیات کے محققین اور قلی قطب شاہ" ظہیر دانش، "عہد قطب شاہی اور تعمیر شہرحیدرآباد فرخندہ بنیاد"، محمد ارشدمبین زبیری،" سلاطین قطب شاہی بالخصوص محمد قلی"،ایک جائزہ سلمیٰ سلطانہ" کلیات قلی قطب شاہ ،ایک جائزہ"،شیخ اسماعیل بن شیخ افضل ،شامل ہیں ان مضامین کے علاوہ حصہ نظم کے تحت محمد قلی قطب شاہ کی غزلیات کو بھی شامل اشاعت کیاگیاہے۔
قومی زبان حیدرآباد کاخصوصی گوشہ "عہد قطب شاہی نمبر" اپنی مشمولات کی وجہ سے ادب میں ایک نایاب اور قیمتی جوہر کااضافہ ہے۔ اور نئی محققین کے لئے مواد کی فراہمی کا بیش قیمت ذریعہ۔ اس شمارے میں شامل مضامین میں اکثریت جدید موضوعات اور منفرد انداز معلومات کی ہے ہی لیکن چند ایک مضامین میں روایتی انداز سے معلومات دی گئی ہیں۔۔ میں قومی زبان کے اس خصوص نمبر کی اشاعت پر پروفیسر ایس اے شکور مدیر اور ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی آندھراپردیش اور قومی زبان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتاہوں ساتھ ہی یہ امید بھی کرتا ہوں کہ قومی زبان وقفہ وقفہ سے نئے نئے موضوعات پر خصوصی شمارے شائع کرے گا۔امید کے ریسرچ اسکالرس اور اردوزبان سے دلچسپی رکھنے والے احباب کیلئے یہ رسالہ مواد کی فراہمی اور نئے گوشوں کواجاگر کرنے والے پہلووں کے تحت کافی اہمیت کا حامل ہے ۔دیدہ زیب خوشنما رنگین ٹائٹل جس پر چارمینار گولکنڈہ اور قطب شاہی حکمرانوں کی رنگین تصاویر سے لیس یہ رسالہ96صفحات پر مشتمل ہے۔ جسے دفتر اردو اکیڈیمی چوتھی منزل حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد سے حاصل کیا جاسکتاہے۔

***
محمد عبدالعزیز سہیل۔ Ph.D ریسرچ اسکالر(عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
مکان نمبر:4-2-75 ، مجید منزللطیف بازار، نظام آباد 503001 (اے پی )۔
maazeezsohel[@]gmail.com
موبائل : 9299655396
ایم اے عزیز سہیل

A Review on "magazine - Qaumi Zuban, special issue on Qutb dynasty". Reviewer: M.A.A.Sohail

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں