حیدرآباد کی پرشکوہ عمارتیں - بنائیں کیا توڑیں کیا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-11

حیدرآباد کی پرشکوہ عمارتیں - بنائیں کیا توڑیں کیا

charminar-hyderabad

ہمارے سیاسی رہنما جب بھی بات کرتے ہیں نرالی کرتے ہیں ، انتخاب سے پہلے لائف بوائے صابن کا استعمال اور انتخاب کے بعد صابن کی ضرورت نہیں رہتی۔۔۔ کہتے تھے کہ ہم نظام سابع کے مداح ہیں۔ وہ آخری نظام تھے ، ان کے دور حکومت میں رضاکار تحریک چلی، کمیونسٹ اپنے عروج پر آئے اور پھر آصف جاہی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا مگر اس دور میں بنائی گئی عمارتیں اپنی طرز تعمیر کی بدولت لاجواب ہیں۔
وہ فلک نما ہو یا ارم منزل ، آسمان محل ہو یا پھر عثمانیہ دواخانہ ، عثمانیہ یونیورسٹی کی دیگر عمارات خاص طور پر آرٹس کالج بے مثال ہیں۔

ہمارے چیف منسٹر صاحب کو بھی شوق ہے آصف جاہی حکمرانوں کی طرح عمارات بنانے کا۔۔۔ چیف منسٹر صاحب کو خیال آیا کہ ماضی میں عمارتیں تو بن گئی ہیں مگر ان کے واستو میں کہیں نہ کہیں خرابی ہے لہذا ان عمارتوں کو ڈھا کر نئی عمارات بنانی چاہیے۔ اس سے دو فائدے ہیں ایک تو شہر میں کوڑا کرکٹ بڑھ جائے گا اور بلڈرس کو کام بھی مل جائے گا اور آمدنی کا ذریعہ بھی ہوگا۔
مگر چیف منسٹر صاحب یہ بھول رہے ہیں کہ نظام کے سارے خرچ، صرف خاص کی آمدنی سے ہوتے تھے یا پھر جاگیرداروں ، منصب داروں کے نذرانے ہوتے تھے مگر اب جو خرچے ہورہے ہیں، وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کیے ہوئے ٹیکس سے ہیں۔۔ اس ٹیکس سے ہم امید کرتے ہیں کہ سڑکیں ٹھیک ہوں گی، حادثے کم ہوں گے ، اچھا ڈرینج سسٹم ہوگا ۔۔۔ مگر اپنے آپ کو نظام سمجھنے والے چیف منسٹر بتکما کھیلنے کے لیے پندرہ کروڑ کی رقم دے رہے ہیں، بالکل فلمی بادشاہ کی طرح رقم لٹا ر ہے ہیں، یگیہ کر رہے ہیں، اس پر کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔

اس طرح اب تلنگانہ قرض کے بوجھ سے دب رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے سکندر جاہ کے زمانے میں ہوا تھا۔۔۔ بلڈرس سے رقم وصول کرنے کے لیے وہ عمارتیں گرانے اور تیار کرنے کے کام لیں گے۔
چیف منسٹر پر الزام ہے کہ وہ پانچ لاکھ میں دو بیڈ روم والے فلیٹ تیار کروا رہے ہیں جب کہ کانگریس نے صرف چالیس ہزار میں تیار کروائے تھے۔ اس تماشے میں آصف جاہی عمارات کو زمین دوز کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ قدیم عمارات تو ایک دولت ہوتی ہیں مگر ہمارے سی ایم نے اپنی حکومت کو یادگار بنانے کے لیے پچھلے برس عثمانیہ اسپتال گرانے یا چیسٹ اسپتال کو مسمار کرنے کا ڈراما کیا اور اب فخرالملک کی بنائی ہوئی عمارت "ارم منزل" گرا کر ایک سکریٹریٹ اور اسمبلی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
آخر کیوں ؟
آندھرا پردیش کے چیف منسٹر ٹی انجیا کی سب سے بڑی کابینہ جسے "ایر بس کابینہ" کہتے تھے، 72 منسٹر اسی سکریٹریٹ میں کام کرتے تھے، آج تلنگانہ کی خاندانی کابینہ کیوں کام نہیں کر سکتی؟

اسمبلی بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
باغ عامہ میں ابھی تک کئی عمارتیں بنائی جا چکی ہیں۔ اسمبلی کی عمارت خوبصورت بھی ہے اور کافی بھی ہے۔ گھر کے لیے انہوں نے بیورو کرائیٹ کی عمارت حاصل کر کے اس کا سوئمنگ پر گرا دیا اور بیورکرائٹ کا ایک چھوٹا موٹا کلب برباد ہو گیا۔
فخر الملک کی "ارم منزل" ایک خوبصورت عمارت ہے اور یہ ایک ہیریٹیج عمارت ہے، اس کو برباد کر کے نئی سیمنٹ کنکریٹ کی عمارت بنانے کا مقصد کیا ہے؟ ایک طرف تو آصف جاہی عمارت گرائی جا رہی ہے، دوسری طرف بدھ مت کے استوپا ڈھونڈے جا رہے ہیں اور بچاؤ کی بات سوچی جا رہی ہے۔

حیدرآباد میں کافی زمین بنجر پڑی ہے، وہ بھی شہر میں ڈی بی آر ملز اور پھر گنگا رام بسکٹ کمپنی اور بیگم پیٹ میں وامن نائک کی زمین، جس میں ایک خوبصورت جھیل ہے جو کبھی سکریٹریٹ تک پہنچتی تھی ، اب یہ پورا علاقہ سانپوں کا مسکن ہے۔ اگر عمارت بنانا ہے تو یہاں بنا لیجیے۔ فخرالملک کی "ارم منزل" توڑ کر ملبہ بڑھا کر، ہیریٹیج برباد کر کے اسمبلی بنانے کی ضرورت کیا ہے؟

ہمارے ٹیکس کے پیسے کی بربادی کے تعلق سے اگر اسمبلی میں سوال نہیں اٹھتا ہے تو نئی اسمبلی کیوں بنوائی جائے ؟ ان اراکین کو واپس کیوں نہ بھیجیں؟ اگرچہ کہ دستور میں یہ ترمیم نہیں لائی گئی ہے مگر اس کو لانا پڑے گا۔
چیف منسٹر کو ایک اچھے صلاح کار کی ضرورت ہے جو تلنگانہ کے تعلق سے اس کے مفاد کے لیے کام کرنے کی صلاح دے سکیں۔ جیسا کہ عثمان علی خاں نظام سابع کو ملے تھے اور جن کی وجہ سے آج تلنگانہ زندہ ہے۔ حیدرآبادی چین کی سانس لے رہے ہیں، ورنہ ہمارا حشر کشمیریوں سے زیادہ برا ہوتا۔

میر عثمان علی خاں نظام سابع کی شخصیت اور انکساری پر غور کریں جو اپنے لیے بہت کم خرچ کیا کرتے تھے لیکن ضرورت مندوں کی بھرپور مدد کیا کرتے تھے، انہوں نے جب گدی چھوڑی تو پھر ایک عام شہری طرح اپنے آپ کو ثابت کیا۔ جب ہندوستان کو ضرورت پڑی تو ایک متمول شہری کی طرح اتنا دیا کہ یاد رکھا جائے۔ اس لیے مثال لینی ہو تو وہ سارے مثبت پہلو جو نظام سے وابستہ ہیں، ان کو اپنائیں۔
نظام نے مین مانی نہیں کی بلکہ جو بھی پیسہ جمع کیا وہ عوام کے لیے کیا اور تعمیری کام کیے۔ عثمانیہ یونیورسٹی ہو یا پتھرگٹی کی مضبوط سڑک جس میں پچھلے پچھتر برس سے کوئی گڑھا نہیں تھا اب تو ہر طرف ایسا کھودا جا رہا ہے جیسے شہر کو قبرستان ہی بنا کر چھوڑیں گے۔۔۔

سارے شہری ایسے تمام جنونی خیالات کے خلاف آواز اٹھائیں ، آج فخر الملک کی ارم منزل ٹوٹے گی ، کل چارمینار کی باری بھی آ سکتی ہے کہ شہر کا واستو بگڑ رہا ہے۔
حیدرآباد کو خوبصورت اور بین الاقوامی سطح کا شہر بنانے کی بات ہوتی ہے تو کیوں بھول جاتے ہیں کہ یورپ کے مشہور شہر اپنی قدیم عمارتوں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ، ان کی شہرت صرف اس شہر کی یادگاروں کو محفوظ رکھنے کی وجہ سے ہے۔
دوسرے ملکوں کو جانے کی ضرورت کیا ہے، خود ہمارے ملک میں جے پور ، جودھ پور اور اودے پور کی مثال لیجیے ، خوبصورت عمارتیں جنہیں اس کے مالکوں نے ہیریٹیج ہوٹل بنائے جو نہ صرف آمدنی بڑھاتے ہیں بلکہ ہمارے ملک کی شہرت بھی بڑھاتے ہیں۔

کاش ! ہمارے رہنما اپنے ملک سے پیار کرتے ، خود تو غیر ممالک کے دورے پر رہتے ہیں ، اس لیے اپنے ملک کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں کرتے ، اس لیے وہ اس کا اعلان کرتے ہیں کہ "ہم شہرکو غیرملکی شہر کی طرح بنا دیں گے"۔
1995ء میں ایک ایکٹ بنایا گیا تھا جس کے تحت 137 عمارتوں کو حیدر آباد کی وراثت قرار دیا گیا تھا مگر اس کو کالعدم کرنے کا اعلان ہوا تو ایک صاحب نے PIL داخل کیا اور اسٹے لیا مگر تغلق کا دماغ رکھنے والوں نے اپنے ہی جیسے ایڈوکیٹ جنرل سے مشورہ کر کے اسے کالعدم کر لیا۔
1934ء میں حکومت کو سونپی جانے والی عمارت جس میں کئی غیر ملکی نمائندے رہے اور یہاں کا جائزہ لیا، اس "ارم منزل" کو بھی معمولی عمارت میں شامل کر لیا۔
اس شہرکا ڈرینج اتنا عمدہ تھا کہ کبھی یہاں پانی جمع ہی نہیں ہوتا تھا مگر آج پائپ لائن نہیں ہے، کھلے نالے اب سڑک پر ندیاں بنا رہے ہیں۔ ان کی طرف تو کوئی توجہ نہ عہدہ داران دے رہے ہیں اور نہ ہی اراکین اسمبلی کو خیال آتا ہے۔

***
بشکریہ: روزنامہ "منصف" (آئینۂ شہر سپلیمنٹ، 11/جولائی 2019)

The Iconic Buildings of Nizam's Hyderabad. Article: Udesh Rani

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں