بالی ووڈ فلمیں - اردو اور انگریزی کا ملاپ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-09-07

بالی ووڈ فلمیں - اردو اور انگریزی کا ملاپ

bollywood-movies-urdu-english-mix

بدلتی ہوئی اخلاقی، سیاسی اور سماجی قدروں کے زیراثر بالی ووڈ فلمیں بھی ادلتی بدلتی گئی ہیں۔ اردو نے پہلے پہل تو ہندی کے الفاظ میں گھل مل کر اپنا ایک کلچر ہی قائم کر لیا ہے۔ آج کے جدید دور میں جب کہ انگریزی ایک سیلاب کی طرح ہندوستانی فلموں میں داخل ہو چکی ہے، اردو نے اس کے ساتھ بھی حیرت انگیز طور پر ایڈجسٹ کر لیا ہے۔ اس کی صرف ایک مثال پیش ہے ، فلم "اے ویڈنس ڈے" کے ایک طویل مکالمے سے۔
اس مکالمے میں صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جس طرح شروعات کے دور میں اردو نے ہندی کی لفظیات کو اپنایا تھا اسی طرح انگریزی بھی اس کے ساتھ کیسے ایک انوکھا سنگم پیدا کرتی ہے۔ فلم کی تھیم مجموعی طور پر ہندوستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے ہیں۔ اس حملوں میں کس طرح مذہبی کارڈز کا استعمال کیا جاتا ہے اور ہندوستان میں رہنے والے ایک عام آدمی کا حال کیا ہوتا ہے، یہ فلم اس کی بہت خوب مثال ہے۔
نصیرالدین شاہ جو ایک عام آدمی کا کردار ہے، اس نے اپنے طور پر دہشت گردی کے خلاف محاذ قائم کر لیا ہے۔ اس عام آدمی کا پولیس کمشنر راٹھور (انوپم کھیر) کے ساتھ ایک طویل مکالمہ ہے جو اردو انگریزی کے اس نئے سنگم کا خوبصورت نمونہ ہے۔

عام آدمی: میں ابراہیم خان، اخلاق احمد، محمد خورشید اور ظہیر لالہ کو بچانا نہیں، مارنا چاہتا تھا۔ اور Infact اب آپ لوگ میرا یہ کام پورا کریں گے آج، ابھی۔
راٹھور: سوری، میں کچھ سمجھا نہیں۔
عام آدمی: آپ کے گھر میں کاکروچ آتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں راٹھور صاحب؟ آپ اس کو پالتے نہیں، مارتے ہیں۔ یہ چاروں کاکروچ میرا گھر گندا کر رہے تھے اور آج میں اپنا گھر صاف کرنا چاہتا ہوں۔
راٹھور: تم ۔۔۔ تم ہو کون؟
عام آدمی: میں وہ ہوں جو آج بس اور ٹرین میں چڑھنے سے ڈرتا ہے۔ میں وہ ہوں جو ۔۔۔ کام پر جاتا ہے تو اس کی بیوی کو لگتا ہے جنگ پہ جا رہا ہے، پتا نہیں لوٹے گا یا نہیں۔ ہر دو گھنٹے کے بعد فون کرتی ہے کہ چائے پی کہ نہیں، کھانا کھایا کہ نہیں؟ دراصل وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ میں زندہ ہوں یا نہیں؟ میں وہ ہوں جو کبھی برسات میں پھنستا ہے، کبھی بلاسٹ میں۔۔ میں وہ ہوں جو کسی کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر شک کرتا ہے، اور میں وہ بھی ہوں جو آج ڈاڑھی بڑھانے اور ٹوپی پہننے سے گھبراتا ہے۔ بزنس کے لیے دکان خریدتا ہے تو سوچتا ہے، دکان کا نام کیا رکھوں؟ کہیں دنگے میں نام دیکھ کے میری دکان نہ جلا دیں۔ جھگڑا کسی کا بھی ہو، بےوجہ مرتا میں ہی ہوں۔ بھیڑ تو دیکھی ہوگی ناں آپ نے؟ بھیڑ میں سے کوئی ایک شکل اپ چن لیجیے، میں وہ ہوں۔
I am just the stupid common man, wanting to clean his house
راٹھور: آج اچانک یہ اسٹوپڈ کامن مین کیسے جاگ گیا؟ وہ بھی چھ کیلو آر ڈی ایکس کے ساتھ۔۔؟
عام آدمی: کیوں؟ جاگ گیا تو تکلیف ہو رہی ہے؟ زندگی بھر گھٹ گھٹ کر مرتے رہنا چاہیے تھا مجھے؟ اور یہ اچانک نہیں ہوا راٹھور صاحب۔ یوں سمجھیے کہ ٹائم نہیں ملا۔ روزی روٹی کے چکر میں یہ کام ذرا neglect ہو گیا، لیکن دیر آید درست آید۔

فلم ساز، کہانی کار اور نغمہ نگار اگر آج انگریزی کہانیوں اور ملے جلے انگریزی مکالمے استعمال کرنے لگے ہیں تو اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ برصغیر اپنی اتنی بڑی آبادی اور گنگا جمنی تہذیب کے ساتھ انگریزی کے سمندر میں غرق ہونے کے لیے تیار ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ہم ایک ایسے زمانے میں داخل ہو چکے ہیں جو علاقائی زبانوں اور ایک ہی خطے کی مختلف تہذیبوں کے سنگم پر نہیں بلکہ گلوبلائزیشن کی وجہ سے بین الاقوامی پیمانے پر مختلف زبانوں اور تہذیبی رویوں کے سنگم پر کھڑا ہے۔
مادی رجحانات ہوں یا روحانی مکاشفات۔ فلسفیانہ، سائنسی مبحث ہوں یا شعری، ادبی اظہار۔ نسبتاً دوسری زبانوں کے، برصغیر میں اس رجحان اور اردو زبان کے پنپنے، پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کے بےشمار امکانات موجود ہیں۔ مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ چھ ساڑھے چھ سو سال کے عرصے میں بولی ٹھولی کے دائرے سے نکل کر جو ایک بھرپور زبان بن چکی ہے اسے نصف صدی کے بدلتے ہوئے رجحانات ختم نہیں کر سکتے۔
بہرحال جدید دور کی فلمی زبان کو آپ ہندی کہیں، ہندوستانی کہیں یا ہنگلش کہیں، اس میں اردو کے جو رنگ شامل ہیں اس سے انکار کرنا ممکن نہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ماخوذ از کتاب:
اردو اور بالی ووڈ
مصنف : سہیل اختر وارثی

Bollywood movies, A mixture of Urdu & English in dialogues. Article: Sohail Akhtar Warsi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں