کشمیر میں دفعہ 370 کی برخاستگی اور ریاست کی دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کے بعد وادی میں عملاً ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ مواصلات کے بلیک آؤٹ، انٹرنیٹ خدمات کی عدم موجودگی، مسلسل کرفیو، غذائی اجناس اور ادویات کی قلت، بھاری تعداد میں فوج کی موجودگی اور ہزاروں افراد کی گرفتاری کی وجہ سے پورا ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی کشمیر کے حالات میں اب تک بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
پاکستان نے کشمیر کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر بین الاقوامی سطح پر ہندوستان پر شکنجہ کسنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں جس میں 57 اسلامی ممالک پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریس (او آئی سی) نے کشمیر میں صورتحال کو فوری بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بیان جاری کر دیا۔
متحدہ عرب امارات نے نریندر مودی کو اعلی ترین اعزاز کی پیشکشی کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی اپنے وزیر خارجہ کو پاکستان روانہ کیا تاکہ کشمیر کی صورتحال پر پاکستانی قیادت سے بات کر سکیں ۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے امارات اور سعودی حکمرانوں سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے انہیں کشمیر کی صورتحال سے واقف کروایا اور اس کے بعد چہارشنبہ کو امارات کے وزیر خارجہ اور سعودی عرب کے وزیر خارجہ ایک روزہ دورے پر پاکستان پہنچے۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مہمان وزراء کے ساتھ علیحدہ علیحدہ اجلاس منعقد کئے اور انہیں کشمیر کی تازہ ترین صورت حال سے واقف کروایا۔
پچھلے ایک مہینے سے پاکستان دنیا کے مختلف ممالک سے رابطہ کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر مداخلت کرنے اور اسے بین الاقوامی مسئلہ بنانے کی پوری کوشش کر رہا ہے تاکہ اس صورتحال کے خلاف متحدہ طور پر ہندوستان کے خلاف مسلم ممالک کو صف آرا کر سکے۔
خارجہ سیکریٹری برطانیہ ڈومینیک رنی راب [Dominic Rennie Raab] نے برطانوی پارلیمنٹ میں کشمیر کے مسئلے پر بیان دیتے ہوئے وہاں حقوق انسانی کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کیا اور اسے بین الاقوامی مسئلہ قرار دیا۔
برطانوی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر ایک درخواست جاری کی گئی ہے جس میں کشمیر کے معاملے پر پارلیمنٹ کو موثر رول ادا کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہند کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیے جانے سے خطے میں خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے لہذا برطانیہ اس معاملے کے حل کے لیے مداخلت کرے۔ اس درخواست پر اگر ایک لاکھ افراد دستخط کر دیں تو پھر پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوگی۔
وزیر خارجہ ابلجئیم دیدیر ریندرس [Didier Reynders] نے اقوام متحدہ میں کشمیر کی صورتحال پر بات کرنے کا تیقن دیا۔ وزیر موصوف کے اس بیان سے ایک روز قبل ہی یورپی پارلیمنٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں کشمیریوں کے شہری حقوق کو فوری بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسی ہفتے اپنے دورہ روس کے موقع پر وزیراعظم ہند نریندر مودی نے صدر روس ولادمیر پوتین [Vladimir Putin] سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان اور روس کسی بھی ملک کے داخلی امور میں بیرونی اثر کے مخالف ہیں۔ اس سے قبل فرانس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے موقع پر امریکی صدر نے بھی مسئلہ کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا۔
اس طرح ہندوستان اور پاکستان کی جانب سے اپنے اپنے موقف کی تائید حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پرکوششیں جاری ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان جاری رسہ کشی کے دوران کشمیری عوام کو پریشانیوں سے راحت کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
پچھلے ایک ماہ سے جاری پابندیوں کے سائے میں اور انٹرنیٹ بلیک آوٹ کی وجہ سے ساری دنیا سے منقطع عوام کے بارے میں سوچنا ہندوستانی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن نریندر مودی کی حکومت وادی میں اپنا شکنجہ مضبوط کرنے کے لیے کسی بھی حد کو پار کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ کشمیری عوام کی پریشانیوں کی پرواہ کیے بغیر جارحانہ موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت ہند نے کشمیریوں پر اپنی مرضی مسلط کر دی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق مسلسل پابندیوں کے ذریعے مرکزی حکومت کشمیری عوام کو اس قدر مجبور کر دینا چاہتی ہے کہ وہ آرٹیکل 370 کی برخواستگی اور ریاست کی تقسیم کے فیصلے کے خلاف کسی بھی قسم کی آواز تک نہ اٹھا سکیں۔ بی جے پی حکومت، کشمیر میں آخر کیا چاہتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اپوزیشن جماعتوں اور بیرونی میڈیا کی جانب سے حکومت ہند پر تنقیدوں کا سلسلہ جاری ہے۔
سی پی آئی ایم ایل کے جنرل سیکریٹری سیتا رام یچوری نے کشمیر کی موجودہ صورتحال کو فلسطین کے مماثل قرار دیا جہاں فلسطینی عوام پر اسرائیلی افواج کے مظالم ایک عام بات ہے۔ چند سیاسی تجزیہ نگاروں نے مودی حکومت کے اقدامات کو اسرائیل سے متاثرہ قرار دیا ہے۔ جس طرح اسرائیل دنیا بھر سے لاکر یہودیوں کو اسرائیل میں بسانا چاہتا ہے بالکل اسی طرح بی جے پی حکومت بھی ملک کے مختلف علاقوں سے ہندوؤں کو لا کر کشمیر میں بسانا چاہتی ہے جہاں مسلمانوں کے اکثریتی موقف کو ختم کر دیا جا سکے۔
اس بات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے ساتھ ریاست کی تقسیم کے در پردہ عزائم در اصل یہ ہیں کہ کشمیر سے ہندوستان کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کا موقف چھین کر اسے ہندو اکثریتی ریاست میں تبدیل کر دیا جائے۔
ہندوستان کے بیشتر میڈیا چینلوں نے کشمیر کی حقیقی صورتحال کی سچی عکاسی نہیں کی جبکہ بین الاقوامی ٹی وی اور اخبارات نے حالیہ عرصے میں کشمیر کو جتنا کوریج کیا ہے شاید ہی اس سے قبل کبھی کیا گیا ہو۔ بی بی سی، الجزیره یا پھر واشنگٹن پوسٹ، نیو یارک ٹائمز اور گارجین جیسے اخبارات سبھی نے کشمیر کی صورتحال پر وسیع تر کوریج کیا ہے۔
ایسے میں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی ساکھ کتنی متاثر ہوگی؟ ہندوستانی حکومت کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ بین الاقوامی میڈیا ہو یا پھر امریکی و برطانوی پارلیمنٹ ہر جگہ پاکستانی نژاد امریکی و برطانوی افراد موجود ہیں جو تازہ صورتحال کو موقع غنیمت جان کر کر دل کھول کر ہندوستان کے خلاف اپنی بھڑاس نکال لیں گے۔ بیرونی ممالک کی حکومتیں پارلیمان میں اور میڈیا کشمیر کی صورتحال پر ہندوستانی حکومت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو ایسے میں بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو اپنی ساکھ پچانے کی بھی فکر کرنی چاہیے۔
مستقبل قریب میں حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیمیں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ کشمیر کی صورتحال پر اپنی رپورٹ جاری کریں گی تو بین الاقوامی میڈیا میں ہندوستانی حکومت کے خلاف پھر ایک نئی مہم چھڑ جانے کا راستہ کھل جائے گا۔
ہندوستان کی گودی میڈیا نے کشمیر کی حقیقی صورتحال کی پردہ پوشی کی ہے بلکہ چند چینلز تو ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حالات تیزی سے معمول پر آ رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کے غیر جانبدار صحافیوں نے حقیقت سے پردہ اٹھا کر ڈھونگی میڈیا کی پول کھول کے رکھ دی ہے۔
رویش کمار، رعنا ایوب، برکھا دت، ابھیسار شرما، عارفہ خانم شروانی جیسے چند صحافیوں نے میڈیا کے ساکھ کی لاج رکھ لی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مودی سرکار بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو مزید خطرے میں ڈالے گی یا پھر ابتر صورتحال کو بحال کرنے کے اقدامات سے ملک کی ساکھ کو بچالے گی؟
حکومت ہند کی جانب سے ایسا امیج پیش کیا جا رہا ہے جیسے وادی میں صورتحال بالکل نازل ہو۔ چوری اور اوپر سے سینہ زوری والے اس رویے پر ہمیں کلیم عاجز مرحوم کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
***
بشکریہ:
روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن، 8/ستمبر 2019۔
محمد سیف الدین (ریاض ، سعودی عرب)۔
mohdsaifuddin[@]gmail.com
بشکریہ:
روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن، 8/ستمبر 2019۔
محمد سیف الدین (ریاض ، سعودی عرب)۔
mohdsaifuddin[@]gmail.com
محمد سیف الدین |
The strategy of India regarding Kashmir issue
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں