اردو اور بالی ووڈ - ہندوستانی فلمی دور کا کلجگ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-24

اردو اور بالی ووڈ - ہندوستانی فلمی دور کا کلجگ

bollywood-kalyug-era

1975 سے 1985 کا دور ایک ایسا دور ہے جسے ہندوستانی فلمی دور کا کلجگ کہا جاسکتا ہے۔ کہانی، موسیقی اور مکالموں کے اعتبار سے اس دور میں جو زوال آیا ہے اس کے متعلق بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ اس دہائی میں خاص طور پر ساؤتھ انڈین فلم ساز ذومعنی مکالموں اور گیتوں کا جیسے ایک سیلاب لے آئے تھے۔ جب جب زمانہ اخلاقی ، سماجی یا سیاسی دیوالیے پن کا شکار ہوتا ہے اس کا عکس ادب و شعر میں ہی نہیں اس کی فلموں میں بھی صاف دکھائی دیتا ہے کیونکہ فلموں کی کہانیاں، کردار اور مکالمے بھی اپنے آس پاس کے ماحول سے تشکیل پاتی ہیں۔
لڑکی نہیں ہے تو لکڑی کا کھمبا ہے، سے، سرکائے لے کھٹیا جاڑا لگے، جیسے ذومعنی گیت اور اس قماش کے ڈائلاگ نے فلموں میں نہ صرف راہ پالی تھی بلکہ کثرت سے استعمال ہونے لگے تھے۔
انیس سو اسی کے اس عشرے میں ہندوستانی سیاسی و سماجی حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالات سخت ناہمواری اور تعصبات کا دور تھا۔ یہاں تک کہ حکومتوں کو بھی جیسے قرار نہیں تھا۔ مسند حکومت بھی گویا کہ میوزیکل چیر جیسی کوئی چیز ہو گئی تھی۔ حالات کی یہ ناہمواری اس وقت کی فلموں، کرداروں اور مکالموں کے ہلکے پن میں جھلکتی ہے۔ اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال تھا کہ مکالموں اور گیتوں کو کوئی صاحب ذوق سننا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
لیکن جیسا کہ ہندو دیو مالا کے مطابق کلجگ دوسرے یگوں کی بہ نسبت چھوٹا عہد ہے، ہندوستانی فلم سازی نے بھی اس کلجگ سے جلد ہی چھٹکارا پالیا۔ پروڈیوسروں کا یہ خیال اپنی موت آپ مر گیا کہ عوام ایسی ہی فلمیں پسند کرتے ہیں۔

شکر ہے کہ ساگر سرحدی اور جاوید صدیقی جیسے قلمکار موجود تھے جو زبان و بیان، اخلاق و آداب سے واقف لوگ ہیں۔ جنہوں نے کہانی اور مکالمہ نگاری کی صحت مند روایت کو سنبھالے رکھا۔
قادر خان بھی اس سلسلے کا اہم نام ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مکالمے اخلاقی گراوٹ کے اس دور میں زبان و بیان کی شفاف روایت سے ہٹنے لگے تھے۔ ستر کی دہائی میں جب سلیم جاوید ، اپنی بہترین فلمیں دے چکے تھے تب ہمیں ساگر سرحدی اور جاوید صدیقی اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ دونوں ہی اردو ادب کے بہترین نام ہیں۔ ساگر سرحدی کا ناول 'خیال کی دستک' ہم نے اپنے گریجویشن کے نصاب میں پڑھا تھا۔ انسان کے دلی جذبات کے اتنے مختلف شیڈز کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جو انھوں نے اپنی فلموں کی وساطت سے پیش کیے ہیں۔ نوری کی جاں باختہ و دل گداز نوری، کبھی کبھی کا وہ شاعر جو پل دو پل کا ہی نہیں بلکہ ہر پل کا شاعر ہے، دوسرے آدمی کا کرب ، سلسلہ کا وہ ازلی و ابدی مثلث جس میں سے اگر وہ خصوص وارداتی شیڈز نکال دیے جائیں تو بس عام سی مثلث نما کہانی بن کر رہ جائے۔ بازار کی کہانی تو ساگر سرحدی کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ اخبارات سے، راستوں سے محفلوں سے، اپنے آس پاس سے وہی شخص کہانیاں اٹھا سکتا ہے جس نے زندگی کو اس کی اوریجنالیٹی میں نہ صرف دیکھا ہو بلکہ اسے برتا بھی ہو۔

یش چوپڑا کے متعلق سبھی جانتے ہیں کہ ان کے دوستانہ تعلق ساحر سے کتنے گہرے تھے۔ یہ صرف دوستانہ ہی نہیں بلکہ یش چوپڑا کی اردو نوازی بھی ہے۔ ساگر سرحدی، نے یش چوپڑا کے پروڈکشن میں، کبھی کبھی، دوسرا آدمی ، نوری ، سلسلہ، سوال وغیرہ فلمیں لکھی ہیں۔ "کبھی کبھی" کے نغمہ نگار ساحر تھے۔ کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے، ساحر کا گیت اور امیتابھ بچن کا ڈائلاگ بن جاتا ہے۔ سنے لائق ہے
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی

اس روایت کا ایک خوبصورت سلسلہ ہمیں فلم "سلسلہ" میں دکھائی دیتا ہے۔ امیتابھ بچن کے لیے اس فلم میں، جاوید اختر نے نظم لکھی ہے:

میں اور میری تنہائی
اکثر یہ باتیں کرتے ہیں
تم ہوتیں تو کیسا ہوتا
تم یہ کہتیں تم وہ کہتیں
تم اس بات پہ حیراں ہوتیں
تم اس بات پر کتنی ہنستیں
تم ہوتیں تو ایسا ہوتا
تم ہوتیں تو ویسا ہوتا

جاوید صدیقی صاحب نے جانے کتنے ڈرامے اور فلمیں لکھی ہیں۔ ہٹ ڈرامے اور ہٹ فلمیں۔ مکالموں میں وہی لکھنو اسکول کا انداز بیان۔ پچاس سے زائد فلموں کی اسٹوری لائن، منظر نامہ اور ڈائیلاگ لکھنے والے اس رائٹر کی جھولی میں صحافتی تجربہ اور اردو کے رس رنگ تھے جس نے ان کی فلم نگاری میں تاثر پیدا کر دیا۔
ستیہ جیت رے کی فلم 'شطرنج کے کھلاڑی' میں اگر آپ سنجیو کمار اور سعید جعفری کے درمیان مکالموں کے تبادلے دیکھیں۔ شیام بینگل کی فلم 'زبیدہ' کے مکالمے، یش چوپڑا اور سبھاش گھئی کی ان فلموں کے مکالمے دیکھیں جو جاوید صدیقی نے لکھے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص آرٹ فلموں اور کمرشیل فلموں کے ڈائلاگ یکساں مہارت سے لکھنے پر قدرت رکھتا ہے۔ ان کے ڈراموں کی فہرست میں "تمہاری امرتا"، جس میں فاروق شیخ اور شبانہ اعظمی نے خطوط پڑھے ہیں ، اپنی نوعیت کا انوکھا ڈرامہ ہے۔ "تمہاری امرتا" میں شبانہ اعظمی کا کہا ہوا ایک ڈائیلاگ تو نہایت متاثرکن ہے، آپ بھی سن لیجیے:
"ہم تو باغ کی منڈیر پر اگے ہوئے پودے ہیں، نہ باغ کے اندر نہ باغ کے باہر"۔


ماخوذ از کتاب:
اردو اور بالی ووڈ
مصنف : سہیل اختر وارثی

Bollywood Kalyug era. Article: Sohail Akhtar Warsi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں