اردو اور بالی ووڈ - پیاسا کے مکالموں کی معنویت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-07-26

اردو اور بالی ووڈ - پیاسا کے مکالموں کی معنویت

film-pyasa-urdu-dialogues
فلم "پیاسا" کا وجے، یعنی، گرودت تو ایک شاعر ہی کا کردار ہے۔ اس فلم کے گیت ساحر نے لکھے تھے۔ ساحر ایک ایسا انوکھا اور باغی شاعر ہے جس کی شاعری سماج میں ہونے والے استحصال کے خلاف ایک درد مند چیخ بن کر ابھرتی ہے۔ پنجاب کے خوبصورت کھیت کھلیانوں کی حسین امیجری سے لے کر بازاروں میں بکتے ہوئے جسم ساحر کی شاعری کا موضوع ہیں۔ ساحر کے فلمی گیتوں اور اس کی شاعری میں زبان کی تھوڑی سی تبدیلی کا فرق ہے ۔ پیاسا کی شروعات ساحر کے چار مصرعوں سے ہوتی ہے،
یہ ہنستے ہوئے پھول یہ مہکا ہوا گلشن
یہ رنگ میں اور نور میں ڈوبی ہوئی راہیں
میں دوں بھی تو کیا دوں تمہیں اے شوخ نظارو!
لے دے کے میرے پاس کچھ آنسو ہیں کچھ آہیں

ابرار علوی نے پیاسا کے مکالمے لکھے تھے ۔ ظاہر ہے اس میں لکھنؤ کی شیریں بیانی آنی ہی تھی ۔ اس شیریں بیانی کا ایک منظر نامہ دیکھئے۔ مالش والا ، ستار بھائی (جانی واکر) اور وجے (گرودت) کے درمیان باغ میں ایک مکالمہ ہے۔ پڑھا لکھا شاعر کام کی تلاش سے تھکا ہارا ایک بنچ پر آ کر بیٹھتا ہے ۔
ستار، ایک گاہک کی مالش میں مصروف ہے ۔ وجئے، کو دیکھ کر کہتا ہے:
ستار: وجے بابو، آج ستار بھائی کی پیشل مالش کریں گے اور وہ بھی پھوکٹ۔
وجے: نہیں بے ستار، آج کل زمانے نے اتنا مسل ڈالا ہے ہمیں کہ اب اور کسی مالش کی ضرورت نہیں ۔
ستار: لے ، کمال ہے، بابو جی۔ مسلے جانے کے بعد بھی مسکراہٹ ہے چہرے پر؟ بھائی، بے وقت دو ہی چیزوں کو مگن دیکھا ہے اپن نے۔۔۔ ایک تو گرمی میں گدھا اور سردی میں شاعر۔
وجے: ٹھیک کہتے ہو ستار۔ گرمی چاہے موسم کی ہو یا دولت کی، صرف گدھے ہی مگن رہتے ہیں اس میں۔
گاہک :جی! کیا کہا آپ نے؟
ستار (گاہک سے) آپ چمکیے مت۔ گدھے کی بات ہو رہی ہے ۔
گاہک زمانے کی قدر ناشناسی اور گدھے پن کی علامت بن جاتا ہے ۔

وجے ، کی معشوقہ ، مینا، محبت اور دنیا کی آسائشوں میں سے، دنیا کی آسائشیں چن لیتی ہے اور وجے کے حصے میں بے وفائی آتی ہے۔ قسمت کی قلا بازی اسے ، مینا ، کے شوہر، جو ایک پبلشر ہے ، کے آفس میں ملازم کروادیتی ہے ۔ پبلشر کے گھر ایک پارٹی میں، وجے، مہمانوں کی خدمت کے لئے مامور کیاجاتا ہے۔ چھوٹی سی شعری نشست کاماحول بنا ہوا ہے جس میں کچھ شاعر کلام پڑھ رہے ہیں۔ ایک شاعر جو مجاز کا سا کردار اور حلیے میں ہے، شعر پڑھتا ہے ۔ خیال رہے کہ اس فلم کے مکالمہ نگار، ابرار علوی اور نغمہ نگار، ساحر تھے اور مجاز، ساحر کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔ دو ہم عصر شاعروں کا کلام ، فلمی نغمے اور اردو شاعری کے حوالے سے کم ہی سننے ملتا ہے ۔ مجاز کا شعر پڑھا جاتا ہے ۔
اس عالم کیف و مستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے
محفل میں جام و مے کا دور چل رہا ہے ۔ وجے مہمانوں کو شراب کے ساغر پیش کررہا ہے ۔ شیروانی ٹوپی میں ملبوس ایک بزرگ شاعر اردو کے کلاسیکی انداز میں شعر پڑھتے ہیں۔
کام آخر جذبہ بے اختیار آہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا ان کو پیار آہی گیا
واہ واہ کے شور میں، وجے کی دھیمی آواز سنائی دیتی ہے جو ساحر کے اس خوبصورت نغمے میں ڈھل جاتی ہے ۔
جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا

وجے کے بچپن کا دوست، شیام، اپنے فائدے کے لئے وجے سے دھوکہ کرتا ہے ۔ اسے اگر صحیح قیمت مل جائے تو وہ اپنے دوست کو پاگل ثابت کر کے پاگل خانے بجوانے سے بھی بعض نہیں آئے گا ۔ وہ اس پبلشر کو بلیک میل کرنے کے لئے آتا ہے جو وجے کی شاعری شائع کرکے پیسے کمانا چاہتا ہے۔ اس منافع میں وجے کا دوست بھی حصہ بٹانے پہنچ جاتا ہے ۔ اس مقام پر مکالمے کے ٹھاٹ دیکھئے۔
بلیک میل کیے جانے پر پبلشر شیخ کہتا ہے:
شیخ: جناب، نہایت ہی بیہودہ قسم کے انسان ہیں آپ۔ آپ کی تعریف؟
شیام: جتنی بھی کی جائے کم ہے۔ چاہوں تو آپ کے مرغے کو پہچان کر وجئے بنا دوں۔ اور چاہوں تو اسے نہ پہچان کر پاگل خانے کا ٹکٹ کٹوا دوں۔

پیاسا کا کلائمکس دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے و جے، اپنے حالات سے فرار ہوجانا چاہتا ہے ۔ لیکن کلائمکس کی طرف بڑھتے ہوئے ایک عجیب نکتہ سامنے آتا ہے ۔ ایک منظر میں ، ٹائم میگزین کے سر ورق پر ہمیں مصلوب عیسی مسیح کی تصویر دکھائی دیتی ہے ۔ وجے، کا کردار اسی نقش قدم پر چلنے والا علامتی کردار بن جاتا ہے ۔ وہ اگر چاہتا تو ان لوگوں کو سر محفل جھٹلا سکتا تھا جو اسے وجے ماننے سے انکار کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن مکالمہ اپنی شان سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے ۔
وجے:
مجھے ان سے کوئی شکایت نہیں، مجھے کسی انسان سے کوئی شکایت نہیں ۔ مجھے شکایت ہے ، سماج کے اس ڈھانچے سے جو انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتا ہے ۔ مطلب کے لئے اپنے بھائی کو بیگانہ بناتا ہے ، دوست کو دشمن بناتا ہے۔ مجھے شکایت ہے اس تہذیب سے اس سنسکرتی سے جہاں مردوں کو پوجا جاتا ہے اور زندہ انسان کو پیروںتلے روندا جاتا ہے ۔ جہاں کسی کے دکھ درد پر دو آنسو بہانا بزدلی سمجھاجاتا ہے ۔ ایسے ماحول میں مجھے کبھی شانتی نہیں ملے گی، مینا۔ کبھی شانتی نہیں ملے گی ۔ اسی لئے میں دور جا رہا ہوں۔ دور۔۔۔۔

gurudutt-pyaasa
ساحر کی زبان ایسی ہے کہ لگتا اس نے فلموں سے باہر اپنی شاعری میں گیت لکھے ہیں اور فلموں کے گیتوں میں شاعری کی ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال ساحر کی نظم ہے ، چکلے، فلم پیاسا سے پہلے ساحر یہ گیت کہہ چکے تھے ، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گرودت نے فلم کی تھیم سے میچ کرتی ہوئی اس نظم کو استعمال کیا ہے صرف کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ ، ساحر نے کہا تھا:
یہ کوچے یہ نیلام گھر دل کشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں، کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں
اس ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں، کو ساحر ، جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں، تک لے آئے اور یہ لائن ہندوستانی سمجھنے والے لوگوں کے دلوں میں اتر گئی ۔ اسی نظم کا ایک بند ہے:
وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی ال جھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن
جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں
ساحر نے تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن کو تھکی ہاری سانسوں پہ طبلے کی دھن دھن ، سے بدل دیا۔
ایک اور انترے میں ساحر نے ایسا ہی کیا:
یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں ، یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلے بدن اور یہ مدقوق چہرے
لفظ مدقوق کی جگہ ساحر نے کہا:
یہ ڈھلکے بدن اور یہ بیمار چہرے
جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں
چکلے، ساحر کی کافی لمبی چوڑی نظم ہے، عام طور پر گیتوں میں ایک مکھڑا اور دو یا تین انترے ہوتے ہیں ، لیکن گرودت نے اس نظم کے دس انتروں میں سے آٹھ انترے اتنی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیے ہیں کہ وہ فلم کی تھیم میں ایک پورا منظر نامہ بن جاتا ہے ۔


ماخوذ از کتاب:
اردو اور بالی ووڈ
مصنف : سہیل اختر وارثی

The significance of dialogues of Guru Dutt's legendary film Pyaasa. Article: Sohail Akhtar Warsi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں