طنز و مزاح کے مشہور رسالہ "شگوفہ" (حیدرآباد) نے مئی 2019 کے شمارے میں کے۔این۔واصف پر خصوصی گوشہ شامل کیا ہے۔
شگوفہ مئی-2019 کا یہ خصوصی شمارہ ادارۂ شگوفہ کی اجازت اور شکریے کے ساتھ پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
68 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 5 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
کے۔این۔واصف سرکردہ اور کہنہ مشق صحافی ہیں۔ حیدرآباد کے روزنامہ "سیاست" کے مستقل کالم نگار ہیں۔ سعودی عرب میں غیر مقیم ہندوستانیوں کی سرگرمیوں، انہیں درپیش مسائل پر 'سیاست' کے اپنے ہفتہ واری کالم میں اظہار خیال کرتے ہیں۔ قیام سعودی عرب کے دوران کے۔این۔واصف نے متعدد شخصیات پر مختلف موقعوں پر خاکے لکھے۔ "ذکرِ یاراں" کے نام سے خاکوں کا مجموعہ حال ہی میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا ہے۔
کتاب کی تقریب اجرائی ہندوستانی بزم اردو (ریاض) کے زیراہتمام عمل میں آئی جس میں فرسٹ سکریٹری سفارت خانہ ہند ریاض ڈاکٹر حفظ الرحمن اعظمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ:
کے۔این۔ واصف بحیثیت فری لانس جرنلسٹ مختلف اردو اخبارات کے لیے خبریں، مضامین اور کالم لکھتے رہے ہیں۔ کسی انسان کا اپنی زبان کی خدمت، بقا اور ترویج کے لیے وقت نکالنے والے کو ہم 'مجاہدِ اردو' ہی کہہ سکتے ہیں، اس طرح کے۔این۔واصف 'مجاہد اردو' قرار پاتے ہیں۔
کے۔این۔واصف نے کونسلیٹ کے زیراہتمام منعقدہ ایک ماہ طویل انڈیا فیسٹیول میں حصہ لیا تھا اور ہندوستان کی تاریخی عمارتوں کی تصاویر پر مشتمل پراجکٹ کو اس فیسٹیول میں پیش کیا تھا۔ وہ جتنی اچھی فوٹوگرافی کرتے ہیں، اتنا ہی اچھا لکھتے بھی ہیں چاہے وہ رپورٹنگ ہو ، کالم ہو یا مضامین یا پھر خاکہ نگاری۔ ہر صنف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں کو مجہول تنقید سے پاک رکھتے ہیں۔
کے این واصف اپنے مختصر سوانحی خاکے میں لکھتے ہیں:سنا ہے صحافی غریب یا متوسط گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں اور اگر امیر گھر میں پیدا ہونے والا صحافت سے جڑے اور دیانت دارانہ صحافت کرے تو اسے بھی غریب ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ میں بھی حیدر آباد دکن کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ اب تک 67 خزائیں اور بہاریں دیکھ چکا ہوں ، بوڑھا ہو گیا مگر بزرگی نہیں آئی کیوں کہ اب تک میرے بال پوری طرح سفید نہیں ہوئے۔ ادبی ذوق ورثہ میں ملا۔ لکھنے لکھانے کی لت نو عمری سے رہی۔ ابتدا سے رجحان مزاح کی طرف رہا۔ پہلا خاکہ 1974 میں معروف مزاح نگار نریندر لوتھر (آئی اے ایس) پر لکھا جو انہیں بھی بہت پسند آیا جس کا ثبوت ان کا لکھا دو صفحہ کا ستائشی خط ہے۔
بی۔کام کیا مگر محاسب کی نوکری نہیں ملی تو فوٹو جرنلزم میں ڈپلوما کیا اور میدان صحافت میں کود پڑا۔ روزنامہ 'سیاست' سے سفر کا آغاز کیا اور انگریزی اخبارات 'دکن کرانیکل' اور 'انڈین ایکسپریس' میں کافی عرصہ تک کام کیا۔ 1992ء میں سعودی عرب منتقل ہوا اور آرکیٹکچرل میگزین "البناء" سے منسلک ہوا۔ وہاں سے اٹھارہ سال بعد ریٹائر ہوا اور آج کل "سکسیس انٹرنیشنل اسکول" ریاض میں ایڈمنسٹریٹر بنا بیٹھا ہوں۔
مزاح نگاری میں میری محبوب صنف خاکہ نگاری ہے۔ مگر نیوز فوٹو گرافر ، رپورٹر اور کالم نگار کی حیثیت سے زیادہ جانا جاتا ہوں (یہ لوگوں کا خیال بھی ہے) کیوں کہ 1994 سے 'اردو نیوز' سعودی عرب کے لیے خبریں، مضامین اور 'سیاست' حیدرآباد کے لیے مسلسل ہفتہ وار کالم لکھ رہا ہوں۔ فوٹو گرافی میرا Passion ہے۔ انڈین ایمبسی ریاض کے تعاون سے یہاں فوٹو گرافی کے بہت سے شوز کیے۔ ہندوستان کے تاریخی مقامات پر میری تیار کردہ کافی ڈاکیومنٹریز یوٹیوب پر موجود ہیں۔
لکھاری ہوں مگر کوئی تخلص اختیار نہیں کیا۔ ماں باپ کے دیے ہوئے نام کو اونچا یا بڑا کرنے کے بجائے مختصر کیا اور "کے این واصف" کے نام سے بدنام ہوں۔ ایک بیوی اور دو بچے ہیں، جس میں اضافے کا کوئی امکان نہیں۔
غوث ارسلان اپنے مضمون "کے این واصف اور ان کی خاکہ نگاری" میں لکھتے ہیں:۔۔۔ کتاب "ذکر یاراں" میں واصف صاحب کے تحریر کردہ تیس سے زائد خاکے ہیں۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ذکرِ یاراں اور ذکرِ رفتگاں۔ ذکر یاراں میں ان لوگوں کے خاکے ہیں جو ان کی حیات میں لکھے گئے اور ذکر رفتگاں میں بعد از مرگ لکھے گئے خاکے ہیں۔
واصف صاحب نے خاکہ نگاری کے تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ خاکہ نگاری ایسا فن ہے جس میں خاکہ نگار کے تجربات، احساسات، تاثرات، جذبات اور خیالات لفظوں سے تصویر میں ڈھل جاتے ہیں۔ اچھا خاکہ وہی ہوتا ہے جو مختصر اور جامع ہو۔ مختصر یعنی ایک ہی نشست میں اختتام پذیر ہو۔ جامع اس طرح کہ شخصیت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ ہو۔ واصف صاحب کے خاکے ان شرائط کو پورا کرتے ہیں۔ انہوں نے خاکہ نگاری میں اپنا اسلوب وضع کر لیا ہے۔ ان کے خاکے توصیفی، سوانحی اور مزاح کے امتزاج سے شگفتگی رکھتے ہیں۔ ان کے خاکوں میں اکہراپن نہیں پایا جاتا۔ واقعات اور لطائف سے مزاح پیدا کرتے ہیں، اس معاملے میں وہ غیرمقلد نہیں مقلد ہیں۔ جہاں جہاں وہ خاکوں میں مزاح سے کام لیتے ہیں ، ان کا پرتو نظر آتا ہے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔
محمد سیف الدین اپنے مضمون "تصویر کا دوسرا رخ" میں لکھتے ہیں:۔۔۔ کے این واصف کی شخصیت کے دو پہلو ہیں ۔۔ دونوں ہی خالص علمی و فنی مہارت سے معمور ہیں۔ ان کا ایک روپ تو صحافی و کالم نگار کا ہے جہاں قارئین ان کے الفاظ کے جادو میں کھو جاتے ہیں۔ مزاح بھی لکھتے ہیں تو بہت ہی اعلیٰ معیار کا جو پھکڑپن سے پاک ہوتا ہے۔ مزاح میں ان کی پسندیدہ صنف خاکہ نگاری ہے۔ یہ ذوق بہت ہی کم لکھاریوں کے حصہ میں آیا ہے۔ کیونکہ آج کے اس پرآشوب دور میں لوگ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں اس طرح لگے رہتے ہیں کہ کسی کے حقیقت پسندانہ محاسبہ کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ ایسے میں کے این واصف صاحب مزاحیہ اسلوب میں خاکہ نگاری کرتے ہوئے اس صنف میں کم از کم سعودی عرب میں ایک اتھاریٹی کی حیثیت حاصل کر رہے ہیں۔
ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو یا رخ تصویر کشی کا ہے جہاں ایک پروفیشنل فوٹوگرافر اور فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے وہ ہماری زندگی کے یادگار لمحات کو اپنے کیمرے میں قید کر لیتے ہیں۔
فوٹوگرافی ہو یا رپورٹنگ یا پھر کالم نگاری، واصف صاحب اپنا ہر کام اس قدر دلچسپی سے انجام دیتے ہیں کہ کام کے دوران انہیں کوئی اور بات سوجھتی ہی نہیں۔ وہ اپنا کام بہت ہی انہماک سے کرتے ہیں بلکہ ہر وقت لوگوں میں خوشیاں بانٹ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ خوشیوں کے ان لمحات سے کئی بار وہ خود محروم ہو جاتے ہیں۔ 'چراغ تلے اندھیرا' والی بات ان پر پوری طرح فٹ ہوتی ہے۔
***
نام رسالہ: شگوفہ - مئی 2019
مدیر: ڈاکٹر مصطفیٰ کمال
تعداد صفحات: 68
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 5 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Shugoofa_May-2019.pdf
یہ بھی پڑھیے:
ماہنامہ 'شگوفہ' - مئی 2019 :: فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | تخلیق کار | صفحہ نمبر |
1 | مدیر شگوفہ کو سالار ملت ایوارڈ | ادارہ | 3 |
2 | ذکرِ یاراں کی رسم اجرا | ادارہ | 4 |
3 | غالب اور راجہ مہدی علی خان | عطا الحق قاسمی | 5 |
4 | اردو خاکے کے اولین نقوش (خودنوشت) | ڈاکٹر اشفاق احمد ورک | 7 |
5 | یہ ان دنوں کی بات ہے (خاکہ) | فیاض احمد فیضی | 9 |
6 | وہ سنتری ہمارا وہ پاسباں ہمارا (خاکہ) | نور الحسنین | 17 |
7 | شوہر (انشائیہ) | سیما شکور | 24 |
گوشۂ کے این واصف | |||
8 | میں بےچارہ | کے این واصف | 37 |
9 | ایک ہی وقت میں رہتے ہیں | عذرا نقوی | 38 |
10 | کے این واصف کی خاکہ نگاری | غوث ارسلان | 40 |
11 | تصویر کا دوسرا رخ | محمد سیف الدین | 42 |
12 | ہر شخص تیرا نام لے | ڈاکٹر عزیر غازی | 44 |
13 | حسن غفور | کے این واصف | 46 |
14 | جہانِ ادب کا شہریار | کے این واصف | 48 |
15 | وہ جا رہا ہے ۔۔۔ | کے این واصف | 50 |
16 | ولی تنویر | کے این واصف | 53 |
17 | مزاح کا رابن ہڈ - مصطفی علی بیگ | کے این واصف | 55 |
18 | زندہ جاوید | کے این واصف | 58 |
19 | پر ہم جو نہ ہوں گے | کے این واصف | 61 |
چورن (منظومات) | |||
20 | میاں جی | مظلوم بہاری | 26 |
21 | دیکھتا ہوں میں | محمد توحید الحق | 32 |
22 | ایک فقیر کا تجربہ | سید حشمت سہیل | 33 |
23 | میاں بیوی اور غالب | سید حشمت سہیل | 33 |
24 | پاگل پن میں | سید حشمت سہیل | 33 |
25 | ایک بےچارے شوہر کی داستان | سید حشمت سہیل | 33 |
26 | غزل | شبیر احمد ماہر | 41 |
27 | غزل | ہنس مکھ حیدرآبادی | 45 |
28 | چائے | شکیل سہسرامی | 63 |
29 | دے کے خط | مراسلے | 64 |
30 | پھر ملیں گے اگر ۔۔۔ | اداریہ | 66 |
Shugoofa magazine Hyderabad, issue: May 2019, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں