انٹرنیٹ اور اخلاقی ذمہ داری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2014-09-29

انٹرنیٹ اور اخلاقی ذمہ داری

Internet-and-moral-responsibility
ایک عرصہ قبل ہم نے خواندگی کی تعریف یہ سنی تھی کہ وہ شخص جو اپنی مادری زبان میں لکھ پڑھ سکتا ہے وہ خواندہ یا پڑھا لکھا کہلائے گا اور یہ سن کر ہم بہت خوش تھے کہ چلو کچھ نہ سہی ہمارا شمار خواندہ افراد میں تو ہے اور ہماری خوشی نے ایک زینہ اور طئے کیا جب سے ہم لکھنے اور اخبار و رسائل میں شائع ہونے لگے ، کیونکہ اب ہم نہ صرف اپنی مادری زبان میں لکھ پڑھ سکتے ہیں بلکہ ہمارا لکھا کئی لوگ پڑھتے بھی ہیں۔
پھر ایک دن معلوم ہوا کہ اب خواندگی کا معیار یا پیمانہ بدل گیا ہے اور اب خواندہ کہلانے کے لئے بندے کو کمپیوٹر سے واقف ہونا بھی ضروری ہے ۔ یوں ہم نے اپنے آپ کو خواندہ افراد کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے کمپیوٹر سیکھ لیا۔ پھر ای میل، ٹوئٹر اور فیس بک پر اپنے کھاتے بھی کھول لئے اور اس عمر میں اب گھنٹوں کمپیوٹر کی کھڑکیوں کی تاک جھانک میں بھی گزارتے ہیں ۔
ہم بنیادی طور پر ایک مصور(فوٹو گرافر) ہیں۔ فوٹو گرافی ہمارا روزگار ہے اور عشق و شوق بھی ، ایک روز ہم نے اپنی لی ہوئی کچھ تصویریں فیس بک پر پوسٹ کیں ۔ کئی احباب اور ناظرین نے انہیں پسند کیا اور ان پر اظہار خیال بھی کیا ۔ ہم فیس بک کی ورق گردانی کر رہے تھے کہ اچانک کوئی صاحب جن سے ہم شخصی طور پر واقف نہیں فیس بک پر نمودار ہوئے اور لکھا کہ آپ کے نام سے تو ظار ہوتا ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ نیز آپ کی Profile فوٹو کہہ رہی ہے کہ آپ عمر رسیدہ بھی ہیں۔ مگر آپ کے افعال مومنانہ نہیں ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ فوٹو گرافی ناجائز اور ممنوعہ عمل ہے اور آپ کی ڈھٹائی تو دیکھئے کہ آپ اپنے گناہ کی تشہیر فیس بک پر بھی کر رہے ہیں ۔
ہم نے انہیں بڑے خلیق انداز میں جواب دیا کہ ہم ایک آرکیٹیکچرل فوٹو گرافر ہیں اور تاریخی عمارتوں کی تصویر کشی کرتے ہیں اور عام طور سے یہی تصویریں یا تاریخی مقامات پر بنائی ہوئی اپنی ڈاکیومنٹریز فیس بک پر احباب کے ساتھ Share کرتے ہیں۔ انہوں نے سخت انداز میں جواب لکھا کہ فوٹو گرافی ہر حال میں ناجائز اور ممنوع ہے ۔ آپ یہ کام فوری ترک کر دیں۔
ہم نے پھر بڑے ادب سے انہیں سمجھاتے ہوئے مرحوم مولانا رشید پاشاہ قادری ، شیخ الجامعہ نظامیہ حیدرآباد کے ایک مضمون کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے فوٹو گرافی کو ایک کیمیائی رد عمل Chemical Re-action قرار دیا تھا اور لکھا تھا کہ فلم یا برش کی مدد سے جانداروں کی بنائی گئی تصویر اور کیمرے سے اتاری گئی تصویر دو مختلف چیز ہیں۔ کیمرے سے اتاری گئی تصویر چونکہ ایک کیمیائی رد عمل ہے، لہذا اسے ناجائز نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ ابھی ہم اپنی بات مکمل بھی نہ کر پائے تھے کہ وہ اچانک بھڑک اٹھے اور غیر شائستہ الفاظ سے نوازتے ہوئے ہمیں گنہگار اور دوزخی قرار دے دیا۔

بہر حال سوشیل میڈیا پر ہر روز ایسے بیسیوں واقعات ہوتے ہیں جہاں لاعلم یا کم علم لوگ دینی و دنیوی معاملات پر بے دھڑک انداز میں اظہار خیال کرتے ہیں اور یہ چیز ہر سوسائٹی میں پائی جاتی ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایک معروف عرب قلم کار ترکی الدخیل کی اسی موضوع پر ایک تحریر یہاں کے مقامی اخبار میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہمارے معاشرے کے روز مرہ معمولات کو دیکھ کر کبھی کبھی مجھے انتہائی درجے کی حیرت ہوتی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ مملکت میں جو طبقہ انٹر نیٹ استعمال کررہا ہے اس نے تعلیم کا کم از کم ادنی درجہ حاصل کیا ہوگا۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاشرے کا مذہبی طبقہ ہوگا لیکن اسی تعلیم یافتہ اور مہذب طبقے میں سے جب ان لوگوں کو دیکھا جاتا ہے جو انٹر نیٹ پر کسی مفکر ، دانشور، کا لم نگار یا عالم دین سے اختلاف کرتے ہیں تو بد تہذیبی کے آخری درجے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ فکری اختلاف کی وجہ سے لوگ فحش گالیوں اور بازاری الفاظ تک استعمال کرنے سے نہیں چوکتے ۔ انٹرنیٹ کی مختلف سائٹس سمیت سوشل میڈیا میں اختلاف کرنے والے کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جسے استعمال کرنے میں بازاری لوگ بھی گریز کرتے ہیں ۔
ہم سب کو ٹوئیٹر کے ان جوانوں کا واقعہ یاد ہے جن کا سعودی مجلس شوریٰ کے ایک معزز رکن کے ساتھ کسی معاملے پر اختلاف ہوگیا تو نوجوانوں نے جو زبان استعمال کی، سو استعمال کی مگر مجلس شوریٰ کے معزز رکن نے بھی بازاری الفاظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا۔

اس طرح کے معاملات انٹر نیٹ کی مختلف سائٹس کے علاوہ سوشل میڈیا میں عام ہوگئے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی طرف سے ہو رہا ہے جو معاشرے کے پڑھے لکھے اور مہذب لوگ سمجھے جاتے ہیں ۔ اس بد تہذیبی کی کوئی توجیہ نہیں پیش کی جاسکتی ۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اختلاف رائے اس حد تک پہنچا کہ مخالف فریق کو بالآخر بازاری الفاظ سے نوازا گیا کہ یہی اس کا حق تھا ۔
میں کہتا ہوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بھی کسی کی مخالفت کی گئی؟ کفار مکہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے کی آخری حدوں کو پار کر ڈالا تھا ۔ آپ کو (نعوذباللہ) مجنون ، کاہن ، جادوگر اور شاعر کہا گیا ، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے خلاف کبھی خلاف ادب بات نہیں کہی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ : مجھے ملامت کرنے والا، لعنت کرنے والا اور گالیاں دینے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ۔
ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کی تہذیب سیکھنی چاہئے ۔
بدزبانی ، گالی ، بد خلقی اور بد تہذیبی اختیار کرنے والا شخص کبھی اعلی فکر اور نظریات کا حامل نہیں ہو سکتا۔
اعلیٰ فکر اور عمدہ نظریات کی ترویج اور اشاعت کبھی گالی ، بدزبانی اور لعنت ملامت سے نہیں ہوگی۔
زبان دراصل دل کا آئینہ ہے اور دل وہ لوتھڑا ہے جو اگر ٹھیک ہوگا تو پورا جسم توانا ہوگا اور اگر وہی خراب ہوا تو پورا جسم بیمار ہوگا۔
ہمیں اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زبان کو تہذیب سکھائیں ۔ ہماری زبان گالی ، فحش کلامی اور بد تہذیبی سے پاک ہونی چاہئے ۔ وہ معاشرہ کبھی بلندی کے مدارج طئے نہیں کرسکتا جس کے افراد باہمی احترام اور تہذیب کے ساتھ نہ رہتے ہوں۔

گزشتہ برسوں میں ترسیل کا ذریعہ خط و کتابت تھا اور لوگ اس میں مستعد نہیں ہوا کرتے تھے ۔ خط کے آنے جانے میں ہفتوں مہینوں لگ جاتے تھے لیکن انٹر نیٹ نے ترسیل کو سہل، کم خرچ اور تیز رفتار کر دیا ہے کہ جس سے احباب کے درمیان رابطے بڑھ گئے ہیں۔ اب وہ ایک دوسرے کی پل پل کی خبر رکھتے ہیں ۔ لوگ گھروں اور دفاتر میں بیٹھ کر احباب سے میل، فیس بک اور ٹوئیٹر وغیرہ کے ذریعہ آسانی سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں ۔ یہ ہوئے اس کے کچھ مثبت پہلو لیکن اس کا دوسرا رخ خوش کن نہیں۔
بعض لوگ میل پر غیر مستند باتیں اور دینی موضوعات پر مضامین، ضعیف احادیث ، اسلامی تاریخ کے نام پر من گھڑت قصے نیٹ پر پوسٹ کرنے لگے ہیں اور کچھ لوگ انہیں اپنے میل کے ذریعہ مزید آگے بڑھاتے ہیں جس سے بعد کے اوقات میں غیر صحتمندانہ افکار سماج میں عام ہوتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز کے مثبت و منفی اثرات ہوتے ہیں اور انٹر نیٹ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ۔ اب یہ استعمال کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اس کو کسی ضرورت یا مقصد کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ جیسا کہ ہم نے ابتداء میں لکھا انٹرنیٹ کا استعمال سیکھنا بھی ایک علم ہے اور آج کی اہم ضرورت بھی اور علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔
ترسیل کے اس بے دام اور آسان ذریعہ سے مستفید ہوتے ہوئے ہمیں اس بات کا خیال رہنا چاہئے کہ کہیں ہم اخلاق و تہذیب کی حدود کو تو نہیں پھلانگ رہے ہیں ۔ ہم نیٹ پر کیا دیکھ رہے ہیں کیا لکھ رہے ہیں یا کسی کی پوسٹ پر کیا اظہار خیال کر رہے ہیں یا اپنی کون سی پسند ناپسند کا اظہار کر رہے ہیں؟ تو اس سلسلے میں ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس سے کسی کو ٹھیس نہ پہنچے ۔ کسی کی دل آزاری نہ ہو ، کسی کے احساس و جذبات مجروح نہ ہوں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم دائرۂ اخلاق میں رہیں۔

***
knwasif[@]yahoo.com
موبائل : 00966509834206
کے۔ این۔ واصف

Internet and moral responsibility - Article: K. N. Wasif

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں