اسلامی ثقافت اور دورِ جدید - مارماڈیوک پکتھال - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-23

اسلامی ثقافت اور دورِ جدید - مارماڈیوک پکتھال - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

cultural-side-of-islam-pickthall-pdf
مغرب سے تعامل کی وجہ سے آج جو تہذیبی اور ثقافتی مسائل مسلمانوں کو درپیش ہیں، ان کے حوالے سے اسلامی موقف کو پیش کرنے کے لیے سید سلیمان ندوی اور علامہ اقبال کے خطبات بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ بھی خود مٖغرب کے ایک فرزند محمد مارماڈیوک پکتھال (1875-1936) کے خطبات (The Cultural Side of Islam) کو بھی خاصی شہرت حاصل ہے۔ اسی کتاب کا اردو ترجمہ (از قلم: توراکینہ قاضی)، کتاب و سنت لائبریری کے شکریے کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 8 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

کتاب کے پیش لفظ میں تحریر ہے۔۔۔
مغرب اور اسلام یا اسلام اور مغرب اس دور کا گرم موضوع ہے۔ چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی ہمیشہ ہی ستیزہ کار رہا ہے لیکن ہر دور کے افراد اپنے دور کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں جبکہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہوتی ہے۔
مغرب سے تعامل کی وجہ سے آج جو تہذیبی اور ثقافتی مسائل مسلمانوں کو درپیش ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ نئے اور جدید ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسے نئے اور جدید بھی نہیں۔ 70، 75 برس قبل اور اس سے بھی قبل، ہندوستان پر برطانوی قبضے کے بعد جو دور گزرا، یہ اس دور کے بھی مسائل ہیں۔ ان مسائل کے حوالے سے اسلامی موقف کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ لکھا گیا۔ لیکن جو بات مٖغرب کے اپنے فرزند کی زبان و قلم میں ہو سکتی ہے، وہ کسی سکۂ بند عالم کے بیان میں شاید نہ ملے۔
محترم محمد مارماڈیوک پکتھال (1809-1936)، جن کے حالات "کچھ صاحب کتاب کے بارے میں" میں بھی ملیں گے، ایسے ہی فرد تھے۔
مدراس کے خطبات کی ایک وجۂ شہرت سید سلیمان ندوی کے چھ خطبات ہیں جن کو ہم "خطبات مدراس" پڑھتے تھے۔ دوسرے علامہ اقبال کے مشہور زمانہ چھ خطبات ہیں۔ پکتھال کے یہ خطبات بھی مدراس میں دئیے گئے۔ اسی طرز پر اسلامی جامعہ بہاولپور نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ اور ڈاکٹر محمود احمد غازی کے خطبات بہاولپور کرائے اور اب جامعہ پنجاب میں خطبات لاہور کا سلسلہ اس روایت کا تسلسل ہے۔ اس کتاب کے موضوعات کی وسعت کا اندازہ فہرست سے کیا جا سکتا ہے۔ توراکینہ قاضی صاحبہ نے اسے خوبصورت رواں اور شستہ اردو قالب میں ڈھال کر ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔
اسلام کے حوالے سے جدید ذہن میں جو موضوعات گردش کر رہے ہیں، یہ کتاب ان کے لیے روشنی فراہم کرتی ہے۔ امید ہے کہ "منشورات" کی اس کتاب کو جدید و قدیم ہر طرح کے لوگ مفید پائیں گے۔

اس کتاب کے مضمون "کچھ صاحب کتاب کے بارے میں" سے چند مفید اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
مترجم قرآن، مفکر اسلام، ادیب، محقق، صحافی اور مبلغ و خطیب محمد مارماڈیوک پکتھال بلاشبہ ان شخصیات میں سے ہیں جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں اور صدیوں کو متاثر کرتی ہیں۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل نابغہ انسان تھے۔ ان پر قدرت خداوندی کا سب سے بڑا کرم یہ تھا کہ اگرچہ وہ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں پیدا ہوئے مگر ان کی عقل سلیم انہیں اسلام کی سیدھی اور روشن شاہراہ پر لے آئی۔ اور بہت سی دیگر تصنیفات کے علاوہ انہوں نے خصوصاً ترجمۂ قرآن کی صورت میں انگریزی خواں طبقے کو ایک ایسا انمول تحفہ عطا کیا جو تاقیامت راہ روان شوق کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ اور خود پکتھال مرحوم کے لیے بھی بےبہا صدقہ جاریہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

مارماڈیوک ولیم پکتھال، 7/ اپریل 1875ء کی صبح برطانیہ میں سفوک کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چارلس گرے پکتھال مقامی گرجا کے پادری تھے۔ ان کی والدہ کا نام میری تھا۔ وہ امیر البحر ڈی۔ایچ۔اوبرائن کی بیٹی تھیں۔ چارلس کی پہلی بیوی سے دس بچے تھے۔ میری سے شادی، انھوں نے پہلی بیوی کی موت کے بعد کی تھی۔ اس بیوی سے چارلس کے ہاں مارماڈیوک تولد ہوئے۔ مارماڈیوک کی زندگی کے ابتدائی چھ برس دیہاتی مدرسے کی پاک فضا میں گزرے۔ پھر جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا تو ان کا خاندان گاؤں سے ترک سکونت کر کے لندن آ گیا۔
ثانوی تعلیم کی تکمیل کے بعد مارماڈیوک فرانس چلے گئے جہاں انہوں نے فرانسیسی زبان سیکھی، پھر اٹلی کے شہر فلورنس سے اطالوی زبان پر دسترس حاصل کی ، پھر واپس لندن آ کر جرمن اور ہسپانوی زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ اس کے ساتھ انہیں ادب اور تاریخ سے بھی گہرا شوق تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے مشرقی زندگی اور معاشرتی روایات سے بھی اچھی خاصی شناسائی حاصل کر لی اور اس کے گہرے اثرات قبول کیے۔
اگرچہ ان کے عزیزوں کی طرف سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی تجویز تھی مگر انہوں نے سیاحتِ مشرق کو ترجیح دی اور اپنے ایک دوست ڈولنگ کے ساتھ مصر پہنچ گئے۔ مصر پہنچ کر مارماڈیوک نے وہاں کی تہذیب اور ثقافت کا مطالعہ شروع کیا اور کچھ عرصہ قیام کے بعد شام چلے گئے۔ وہاں ایک پادری ہینوز سے روابط استوار کر کے اس سے عربی زبان سیکھنی شروع کی۔ پھر وہ ایک ترجمان اور گائیڈ کو لے کر تہران، رملہ اور غزہ پہنچے۔
مشرق اوسط کی سیاحت کے بعد مارماڈیوک برطانیہ واپس چلے آئے اور کئی سال لندن، سفوک اور سوئزرلینڈ میں مقیم رہے۔ اس دوران پڑھنا اور غور و فکر کرنا ان کے محبوب مشاغل رہے۔
1904 میں مارماڈیوک دوبارہ مصر پہنچے، پھر اپنی اہلیہ کے ساتھ بیروت اور شام گئے اور بیت المقدس میں کافی عرصہ تک قیام کیا۔ اس قیام میں انہوں نے اپنی عربی کی تحصیل مکمل کی اور اسلام کا گہرا مطالعہ کیا۔ اس زمانے میں وہ اسلام سے اس قدر متاثر ہو چکے تھے کہ مسجد اقصیٰ میں شیخ الجامعہ سے عربی پڑھتے پڑھتے انہوں نے قبول اسلام کا ارادہ ظاہر کیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب خلافتِ عثمانیہ میں اندرونی خلفشار پیدا ہو رہا تھا اور یورپی طاقتیں خلافت کی قوت کو توڑنا چاہتی تھیں۔ جنگ ترابلس اور جنگ بلقان میں خلافت عثمانیہ کو شکست ہو چکی تھی۔ پکتھال کا خیال تھا کہ یورپی طاقتیں محض مذہبی تعصب اور اسلام دشمنی کے سبب خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں۔ 1912 میں وہ مشرق وسطیٰ سے واپس انگلستان گئے اور اینگلو عثمانیہ سوسائٹی قائم کی۔ اس سوسائٹی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ترکوں کے خلاف جو زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کا تدارک ہو۔ مگر شدید مخالفانہ اور متعصبانہ فضا میں یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ پکتھال ترکوں سے متاثر تھے۔ ترکوں کی سماجی خوبیوں اور طبعی خصوصیات نے انہیں مکمل طور پر اپنا اسیر بنا لیا تھا۔ غازی انور پاشا، شوکت پاشا، رؤف پاشا اور دوسرے ترک رہنماؤں کا ذکر پکتھال بڑی عقیدت اور والہانہ محبت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ ان کا تاثر تھا کہ لوگ ناحق ترکوں پر آزاد خیالی اور لادینی کا الزام دھرتے ہیں ، میں نے تو انہیں ہمیشہ ایک سچا مسلمان پایا۔
غازی طلعت بے کے مشورہ پر پکتھال نے ترکی میں قبول اسلام کرنے کے بجائے لندن جا کر دسمبر 1914 میں اپنے قبول اسلام کا اعلان کر دیا۔ جس سے وہاں کی علمی اور سیاسی دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ عیسائی دنیا کا عمومی تبصرہ تھا:
"جس مذہب کو پکتھال جیسا شخص قبول کرتا ہے اس میں یقیناً بہت سی خوبیاں ہوں گی"۔

1920 میں عمر سبحانی کی دعوت پر پکتھال بمبئی آ گئے اور یہاں کے مشہور اخبار "بمبئی کرانیکل" کی ادارت سنبھالی اور 1925 تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔ پھر انہیں نظام حیدرآباد کی جانب سے دکن کے وزیراعظم سر اکبر حیدری اور ناظم تعلیمات سر راس مسعود کے خطوط ملے جن میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ پکتھال اپنی خدمات حیدرآباد دکن کے سپرد کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے نظام کے حکم پر چادرگھاٹ کالج کے پرنسپل کا عہدہ قبول کر لیا اور یکم جنوری 1925 کو نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔
پکتھال حیدر آباد دکن کے ماحول اور معاشرت سے بےحد متاثر ہوئے۔ وہ اپنے ایک دوست کو لکھتے ہیں:
"حیدر آباد ایک شان دار جگہ ہے۔ ناقابل بیان حد تک خوبصورت۔ یہ آفتاب مغلیہ کی ایک جگمگاتی کرن ہے۔ تہذیب و ثقافت میں اس کی کوئی مثال نہیں"۔
دکن اور اس کی تہذیب سے پکتھال کی محبت عمر بھر قائم رہی۔ انھوں نے چادر گھاٹ کالج کو ترقی دینے کے لیے بڑی جانفشانی سے محنت کی۔ طلباء کی کردار نگاری کے لیے حضوصی انتظامات کیے، اور بہت جلد اسے ایک مثالی ادارہ بنا دیا۔ ان خدمات کی قدر کرتے ہوئے نظام نے انھیں ریاست کے سول سروس ہاؤس کا منتظم اعلیٰ بنا دیا۔ اس ادارے میں حیدر آباد سول سروس کے تمام اعلیٰ عہدیدار تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے۔

1927ء میں پکتھال نے حیدر آباد سے ایک سہ ماہی انگریزی رسالے "اسلامک کلچر" کا اجراء کیا جس کا انتظام و انصرام ایک بورڈ کے سپرد تھا جس کے سربراہ سر اکبر حیدری تھے۔ اس رسالے میں علمی اور تحقیقی نوعیت کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ جن میں اسلامی تعلیمات کا اثبات دلائل و براہین کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ انھوں نے اس رسالے کو ہندوستان میں اپنی نوعیت کا واحد پرچہ بنانے کے لیے بےحد محنت کی ۔ ایک ایسا علمی جربده جو ہر پہلو سے اسلامی ثقافت اور روایات کا آئینہ دار ہو۔ اپنے عہد ادارت میں انھوں نے متعدد مستشرقین کو اس رسالے میں لکھنے پر آمادہ کیا۔ اور دنیا بھر کی تقریباً ستر (70) یونیورسٹیاں اس کے خریداروں میں شامل ہو گئیں۔ اشاعت کے لیے آنے والے اکثر مضامین کو وہ دوبارہ لکھتے۔ اور رسالے کے اعلی معیار کو کسی صورت میں بھی کمزور نہ ہونے دیتے۔ اس رسالے کی انگریزی بےحد بلند معیار کی تھی۔ چونکہ پکتھال دنیا کی بہت سی زبانیں جانتے تھے، اس لیے وہ غیر ملکی فضلا کے مضامین کے تراجم نہایت خوش اسلوبی سے کر لیتے تھے۔ تازہ ترین کتابوں پر تبصرہ بھی خود ہی کرتے تھے۔ یوں انگریزی خواں طبقہ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے چھپنے والی ہر کتاب سے باخبر رہتا تھا۔
1927 میں پکتھال نے مدراس میں مختلف اسلامی موضوعات پر لیکچر دئیے۔ ان لیکچروں کے موضوعات میں اسلامی تہذیب و ثقافت کے مختلف پہلو شامل تھے جو بعد میں "کلچرل سائیڈ آف اسلام" کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ تعلیم یافتہ سنجیدہ طبقے میں یہ لیکچر بہت پسند کیے گئے۔
لیکن پکتھال کی علمی و ادبی زندگی کا سب سے بڑا اور سب سے شاندار کارنامہ ان کا "ترجمۂ قرآن" ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
مارما ڈیوک پکتھال اور ترجمۂ قرآن مجید

***
نام کتاب: اسلامی ثقافت اور دورِ جدید
مصنف: مارماڈیوک پکتھال
اردو ترجمہ: توراکینہ قاضی
تعداد صفحات: 211
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 8 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: کتاب و سنت لائبریری)
Islami Saqafat Aur Daur-e-Jadeed.pdf

Direct Download link:

اسلامی ثقافت اور دورِ جدید - از: مارماڈیوک پکتھال :: اہم موضوعات
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
.پیش لفظ9
.محمد مارماڈیوک پکتھال11
1خطبہ اول ۔ اسلامی تہذیب35
2خطبہ دوم ۔ اسباب عروج وزوال45
.مسلمانوں کی ہمسایہ اقوام، اسلام یا تلوار، مسلمانوں کی رواداری، غلامی، مساوات، زوال کے اسباب، اسلامی دانش گاہیں، علما کی تنگ نظری، علماء کی صداقت پسندی، خلافت عثمانیہ اور ترکوں کے کارنامے45
3خطبہ سوم ۔ اخوت68
.حجۃ الوداع، اخوت اسلامی، سود، دولت کا حصول اور مصرف، نماز اور حج، روزہ، زکوۃ اور اسلام کا معاشی نظام، تعلیم68
4خطبہ چہارم ۔ سائنس فنون اور ادب87
.علم کیمیا، طبیعیات، جغرافیہ، طب، فلکیات، نقاشی، تمثیل، داستان گوئی، تعمیرات، خطاطی، تراجم، تاریخ، ادب کے مخصوص اصناف، فقہ، قواعد و انشا، تصوف87
5خطبہ پنجم ۔ رواداری114
.کافر ، مشرک اور اہل کتاب، تاریخی شہادت، اسلامی سلطنت میں ایک وقف114
6خطبہ ششم ۔ تقدیر پرستی137
.جہاد، توشۂ آخرت، جدید تہذیب اور اسلامی تہذیب میں تطابق کی ضرورت137
7خطبہ ہفتم۔ اسلام میں عورت کا مقام156
.پردہ، شادی، نکاح بیوگان، تعداد ازدواج156
8خطبہ ہشتم ۔ اللہ اور رسولﷺ کی حکمرانی یعنی اسلامی حکومت181
.اخوت، اصول جنگ اور قومیت، اسلامی ریاست، اشاعت تعلیم اور تعلیم کی نوعیت، زکوۃ کا احیاء، سود، تقدیر پرستی، جہاد اور طریقۂ انتخاب، مسلمان عورتیں، اسلامی اور غیر اسلامی ادارے181

The Cultural Side of Islam, (Urdu translation by Torakina Qazi) Author:Marmaduke Pickthall, pdf download.

1 تبصرہ: