چاروں طرف شور ہی شور ہے۔ اب جلوس بڑے مینار کی مسجد کے سامنے کی سڑک سے بل کھاکر ریلوے اسٹیشن کی طرف جانے والی شاہراہ پربڑھ رہا ہے جہاں سے وہ پبلک پارک کے سامنے سے ہوتے ہوئے سیدھی جانب اس طرف مڑ جائے گا جہاں ایک پرائیویٹ کالج کی کھنڈر جیسی عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ اور جو اب بھی اپنے شاندار ماضی کی داستان سنارہی ہے۔
میں چل رہا ہوں اور پسینے میں شرابور ہو چکا ہوں۔ لیکن تھکا نہیں جلوس کے ساتھ چلنا اچھا معلوم ہورہا ہے۔ اس مسرت کا اور اس نئے تجربے کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔ لوگا پنے اپنے فلیٹوں کی اوپری منزلوں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ان کا دیکھنا ہم سب کو اچھا لگ رہا ہے۔ ہم سب اپنے ہاتھوں کو اوپر کی طرف اٹھا کر ان کی توجہات اپنی جانب کرتے ہوئے نعرے لگارہے ہیں جیسے کہتے ہوں آپ کی تائید ہماری کامیابی ہے۔
جواب میں وہ لوگ بھی مسکراتے ہوئے اپنے ہاتھ ہلا رہے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں، آگے بڑھو، اسی طرح آگے بڑھتے رہو۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اردو زندہ باد۔۔ ۔
ایک تلگو بولنے والے شخص نے چلتے چلتے دوسرے سے تلگو زبان میں پوچھا”ویئرویندکو ارستونارو” یعنی یہ لوگ کیوں چیخ رہے ہیں ؟ دوسرے نے تلگو میں یوں جواب دیا۔ ویرو چپو چنارو۔ ویری پللا کو رکو، اسکول مریو کالج للو ویری یوکا ماتربھاشا!نو پرویشا پٹہ ویلنو۔
کسی نے سمجھایا، یہ لوگ اپنے بچوں کے لئے مدرسوں، اسکولوں اور کالجوں میں اردو تعلیم کی سہولتیں چاہتے ہیں اور سرکاری ملازمتیں۔
یمی پربھوتم۔۔ ۔ اتنا پایم چسندیدا؟
کیا حکومت نے اتنا پاپ کیا؟ پھر اس نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا”انتا انیائم جرگندہ۔۔ ۔ انتا پائم!!! یعنی ان کے ساتھ کیا اتنا ظلم ہوا!!
اب ایک عام آدمی کے کانوں تک، دل تک اور اس کی روح کی گہرائیوں تک اردو کی فریاد پہنچ رہی تھی، جب ہی تو ان کی آواز فضا میں گونجی، انتا انیائم جرگندہ۔ کیا اتنی نا انصافی ہوئی۔۔ ۔ نا انصافی۔۔ ۔ ظلم۔۔ ۔ ظلم!!
آخر کار، جلوس مختلف تنگ گلی کوچوں، کچی پکی سڑکوں، تیڑھے میڑھے راستوں اور شاہراہوں سے ہوتا ہوا نہرو اسٹیڈیم پہنچا اور چورا ہے پر گاندھی جی کے مجسمے کے قریب جلسہ عام میں تبدیل ہو گیا۔
اب میں تھک چکاہوں یقیناً میری طرح سب لوگ بھی تھک چکے ہوں گے لیکن انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ان میں مزید میلوں چلنے کا حوصلہ ہے۔ جذبہ ہے اور طاقت ہے۔
چلو دہلی چلو۔۔ ۔
لکھنو چلو!!
حیدرآباد چلو!!!
سینکڑوں، ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کے شوروغل میں ایک آواز آئی، بزرگو اور دوستو!
مائیک سے کسی کی آواز آ رہی ہے، کوئی کہہ رہا ہے۔ اب جلسہ شروع ہونے والا ہے، لیکنا س سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ پوری قوت کے ساتھ نعرہ لگائیں تاکہ آپ کا یہ نعرہ کرسیوں پر بیٹھے ہوئے آقاؤں کے کانوں تک پہنچ سکے، میں نعرہ لگتا ہوں، آپ جواب میں کہیں زندہ باد۔۔
اردو ہندی۔۔
ہزاروں انسانوں کی ایک ساتھ آواز آئی۔ زندہ باد۔
کہئے، اردو تلگو اتحاد۔۔ ۔
جواب ملا۔۔ ۔ زندہ باد
نہیں اور طاقت سے جواب دیجئے، ہمارے آقا ذرا اونچاسنتے ہیں۔ میرے ساتھ آوازمیں آواز ملا کر کہئے، اردو تلگو۔۔ ۔
زندہ باد کی آواز سے جیسے آسمان پھٹ پڑا۔
اس جلسے کے لئے کوئی پلیٹ فارم تیار کیا گیا تھا اور نہ ڈائس نما کوئی شئے وہاں تھی، مقرر گاندھی جی کے مجسمے کے نیچے کھڑا بول رہا تھا، مجسمے کے عین مقابل نہرو جی کا مجسمہ تھا، نہرو جی کے ہاتھوں میں ایک کبوتر تھا جسے وہ اڑا رہے تھے۔ اور ان دونوں کے بائیں طرف اندرا جی کامجسمہ تھا یوں لگتا تھا جیسے اندرا جی اپنے والد اور باپو کو دیکھ کر مسکرا رہی ہوں، یہ تینوں مجسمے ایک طرح کا ایک ایسا مثلث تھے جہاں جلسے کو مخاطب کرنے والے تمام مقر رین کھڑے تھے، لوگ سڑکوں پر فٹ پاتھوں پر اور دور دور تک کھڑے سن رہے تھے۔ ان میں سے بعض بسوں کی چھتوں پر اوربعض عمارتوں کے احاطے کی دیواروں کی منڈیروں پربیٹھے ہوئے تھے۔ غرض جس کو جہاں جگہ ملی وہ وہاں کھڑا ہو گیا یا کہیں بیٹھنے کی گنجائش ہے تو بیٹھ گیا۔ کسی کی آواز آئی، حضرات ایک کہہ رہا ہے، ارے سن، سن غضب کا بولتا ہے۔
کون ہے یہ؟
چندرسریواستو!
اچھا، اچھا یہ وہی ہے جو فٹا فٹ قرآن کی آیتوں کو سنتا ہے۔ ترجمے کے ساتھ، جواب نہیں سالے کا۔۔ تیسرا بولا۔
ارے گالی کیوں دیتا ہے ؟ چوتھے نے پوچھا۔
تجھے کیوں مرچیاں لگیں ؟ کیا وہ تیرا بہنوئی ہے ! کسی نے چڑ کر پوچھا۔
سالے ! بتاتا ہوں تجھے ابھی۔ وہ میرا بہنوئی ہے یا تیرا۔۔ ۔ تیری تو۔۔ ۔ ساتھ ہی دونوں نے ایک دوسرے پر مکے برسائے لیکن پاس ہی کھڑے ہوئے لوگوں نے جھگڑے کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔
A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-36
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں