ناول خوفناک جزیرہ - سراج انور - قسط - 23 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-23

ناول خوفناک جزیرہ - سراج انور - قسط - 23



اگلی قسط (24 ویں قسط) اس ناول کی آخری قسط ہوگی

پچھلی قسط کا خلاصہ :
جیک اور اس کی ٹیم نے دیوزاد خوفناک مکھی کی پناہ گاہ ڈھونڈ لی تھی اور اب وہ لوگ اس مکھی کو ختم کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ منصوبے کے ایک حصے کے طور پر جیک کی ہدایت پر ان لوگوں نے کاہی کے علاقے میں جگہ جگہ آگ لگا دی جس سے شام کے وقت کاہی کھانے والے پرندے آگ کے سبب ان چٹانوں پر اتر نہ سکے اور کاہی کھائے بغیر وہ تمام چیختے چلاتے لوٹ گئے۔چونکہ خوفناک مکھی انہی کاہی کھا کر مدہوش ہوئے پرندوں کا شکار کرنے رات کے وقت اپنے ٹھکانے سے باہر نکلتی تھی ، اور اس بار جب وہ باہر نکلی تو اسے ایک بھی پرندہ نظر نہ آیا ۔۔۔
۔۔۔ اب آپ آگے پڑھئے ۔۔۔
روشنی اتنی تیز تھی کہ ہم ایک ایک چیز صاف طور پر دیکھ سکتے تھے۔ پیروں کے بعد ایک لمبی سی سونڈ دکھائی دی، اسی سونڈ میں سے وہ تیز شعلہ بار بار نکل رہا تھا۔ شعلہ اندازً اس کی ناک سے پندرہ گز دور تک پہنچتا تھا اس خطرناک مکھی کے پیر آگے جا کر ایک پنجہ سا بن جاتے تھے۔۔۔ بالکل کبوتر کے پیروں کی طرح اور اپنے اسی پنجے کو دلدلی زمین میں گاڑتی ہوئی وہ آہستہ آہستہ اوپر آ رہی تھی۔ جلد ہی ہمیں اس کا سر بھی نظر آ گیا، کیا بتاؤں کہ یہ سر کتنا بڑا تھا! دہلی کی جامع مسجد کے پہلو والے گنبد سے بس ذرا سا ہی چھوٹا ہو گا۔ اس سر میں اس کی دو لمبوتری آنکھیں خون کی طرح سرخ نظر آتی تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آنکھوں کی جگہ دو بڑے انگارے جڑے ہوئے ہوں۔ ہم لوگ چٹان کی اوٹ میں دبکے ہوئے خاموشی سے اسے دیکھ رہے تھے اور اب وہ پوری طرح غار سے باہر آ چکی تھی!
اس کا جسم بہت لمبا تھا۔ خیال تو یہ تھا کہ ہاتھی سے بڑی ہو گی، مگر اب جب آنکھوں سے دیکھا تو حقیقت کھلی وہ دراصل وھیل مچھلی سے بھی لمبی تھی۔ اس کے جسم میں آگ دہک رہی تھی، کیوں کہ جسم بالکل سرخ تھا۔ خدا کی قدرت کی کیا تعریف کی جائے! کیسے کیسے جانور اس نے دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں! غار سے باہر آنے کے بعد مکھی نے وہی تیز سیٹی جیسی آواز نکالنی شروع کر دی اور کچھ دیر کے لئے آرام کرنے لگی۔ آپ نے ہوائی اڈے پر کسی ہوائی جہاز کو اڑنے سے پہلے ضرور دیکھا ہو گا۔ وہ پہلے ایک جگہ کھڑا رہ کر سیٹی کی سی آواز نکالتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اڑتا ہے۔ یہی حال اس مکھی کا تھا مگر ہمیں ابھی معلوم نہ ہو سکا تھا کہ وہ اڑتی بھی ہے یا نہیں۔ اس کے دو بہت بڑے پر نظر تو آ رہے تھے۔ مگر ابھی تک ہم نے اسے ان پروں سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اچانک کچھ دیر بعد اس میں حرکت ہوئی۔ سیٹی کی آواز اور تیز ہو گئی اور پھر اس کے دونوں بڑے پر تیزی سے ہلنے لگے۔ پروں کے ہلنے کے ساتھ ہی آس پاس کے درخت بری طرح لرزنے لگے، مٹی اڑنے لگی، ایسا لگتا تھا جیسے طوفان آ گیا ہو۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ ہوا میں بلند ہو کر اڑنے لگی۔ مگر وہ زیادہ اونچی نہیں اڑ رہی تھی۔ مشکل سے زمین سے کوئی پانچ گز اونچی ہو گی اور بس۔!
یہ دیکھ کر ہم نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم جس پہاڑ پر کھڑے ہوئے تھے وہ کافی اونچا تھا۔ اگر نیچا ہوتا تو ہم مکھی کی تیز نظروں سے ہر گز نہ بچ سکتے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ اڑتی ہوئی ان دو پہاڑوں ہی کی طرف آ رہی تھی۔ جلدی سے ہم پہاڑ کی چوٹی پر ٹکی ہوئی چٹان کے نیچے دبک گئے اور اور مکھی دو پہاڑوں کے درمیان سے گرزتی ہوئی اس طرف جانے لگی جہاں ہم نے آگ لگائی تھی مکھی کے اس طرف جاتے ہی جان نے گھبرا کر کہا۔
"بس اب عمل کا وقت آ گیا ہے۔ وہ دوڑ کا مقابلہ میں نے اسی وقت کے لئے کرایا تھا۔ بد قسمتی سے فیروز اس مقابلے میں اول آیا تھا۔ مگر فیروز کو موت کے مونہہ میں جھونکنا مجھے پسند نہیں۔ وہ بچہ ہے، اسے زندگی گزارنی ہے۔ مگر میں نے اپنی زندگی کے دن پورے کر لئے ہیں، اس لئے میں ہی اب پہاڑ سے نیچے جاتا ہوں۔"
"کیا کہہ رہے ہیں آپ۔ یعنی اس کا مطلب کیا ہے۔۔۔؟" میں نے تعجب سے پوچھا۔
"مطلب۔۔۔ ہاں مطلب بھی مجھے ضرور بتانا چاہئے۔" جان نے کہنا شروع کیا۔ "دیکھو فیروز میں نے دراصل یہ سوچا ہے کہ مکھی جہاں اس وقت گئی ہے وہاں اسے کوئی پرندہ نظر نہ آئے گا۔ وہ بھوکی ہو گی اس لئے سب جگہ کی خاک چھاننے کے بعد مجبورًا وہ واپس اپنے غار میں چلی جائے گی۔ اس مکھی کی خاصیت ہے کہ وہ زیادہ دیر تک سمندر سے اوپر نہیں رہ سکتی۔۔۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ میں پہلے پہاڑ کے نیچے اتر کر کھڑا ہو جاتا ہوں۔ ان دونوں پہاڑوں سے کم از کم چالیس گز دور کھڑے ہونے سے یہ فائدہ ہو گا کہ مکھی کے غار سے بھی قریب رہوں گا اور سمندر سے بھی۔ پہاڑ سے نیچے اس کے سامنے کھڑے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے مکھی پہاڑوں کے درمیان سے نہ گزرے تو مجھے دیکھ کر لازمی طور سے وہ پہاڑوں کے بیچ میں سے گزرے گی۔ اب غور سے سنو کہ کرنا کیا ہے۔ مکھی جب اپنے غار یا گھر کی طرف واپس آ رہی ہو گی تو لازمی تھکی ہوئی ہو گی۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ یا تو زمین پر گھسٹتی ہوئی چلے یا زمین سے بہت ہی تھوڑے فاصلے پر اڑے۔ تم لوگوں کا کام یہ ہو گا کہ پہاڑ کی ٹکی ہوئی اس بڑی چٹان کو زور سے ہلانا شروع کر دو۔ اور کوشش یہ کرو کہ جیسے ہی وہ مکھی مجھے دیکھ پہاڑوں کے درمیان آ جائے یہ چٹان اس کے جسم پر جا کر گرے۔ میرے خیال میں یہی طریقہ اسے ختم کرنے کا ہو سکتا ہے۔
یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے کی زمین نکل گئی۔ کیوں کہ اس میں تو خطرہ ہی خطرہ تھا!
لیکن اگر ہمارا نشانہ خطا ہو گیا تو؟" جیک نے جلدی سے کہا "مطلب یہ کہ چٹان مکھی پر نہ گری تو۔؟
"تو یہ کہ میں تیز دوڑتا ہوا سمندر میں جا کر گھس جاؤں گا اور تیرتا ہوا اس طرف نکل آؤں گا جہاں ہم نے آگ لگائی ہے۔ جان نے جواب دیا۔
مگر آپ تیز کس طرح دوڑیں گے؟ آپ تو مقابلہ میں پہلے ہی دم توڑ چکے تھے!" جیک نے کہا۔ "نہیں مسٹر جان یہ کام میں کروں گا، میں نیچے جاتا ہوں۔"
"نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔" میں نے چلا کر کہا "انصاف سے کام لیجئے۔ دوڑ میں اول میں آیا تھا، اس لئے یہ معرکہ بھی مجھے ہی سر کرنا ضروری ہے، پھر دوسری بات یہ کہ چٹان آپ تینوں مل کر جلدی ہلا سکیں گے۔ میں ہوں گا تو اس میں وقت لگے کا کیونکہ میں عمر میں کم ہوں اور کم طاقت ور ہوں اس لئے اب میں نیچے جاتا ہوں۔"
اس سے پہلے کہ جان اور جیک مجھے روکتے، میں تیزی سے پہاڑ کی ڈھلان کی طرف بھاگا۔ انہوں نے مجھے بہتیری آوازیں دیں۔ مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور نیچے اترتے اترتے پکار کر کہا۔
"مجھے مت روکئے سر۔ بحث میں وقت صرف ہو گا، ایسا نہ ہو کہ وہ مکھی واپس آ جائے۔"
یہ کہہ کر میں جلدی جلدی پہاڑ سے نیچے اترنے لگا اور پھر کچھ ہی دیر بعد میں ان دونوں پہاڑوں سے چالیس گز کی دوری پر کھڑا تھا مجھے وہاں دیکھ کر مجبوراً جان، جیک اور ملاح اس ہلتی ہوئی چٹان پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو گئے۔ طوفان بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ سیٹی تیز سے تیز ہوتی جا رہی تھی۔ بڑی ہیبت ناک آوازیں آ رہی تھیں خوف کے مارے میرا رؤاں رؤاں لرز رہا تھا۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ میری کیا حالت تھی، پسینے چھوٹے ہوئے تھے اور جسم کپکپا رہا تھا۔ میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر عین وقت پر چٹان مکھی کے جسم پر نہ گری تو میرا خاتمہ یقینی ہے۔ مکھی پندرہ گز دور ہی سے مجھے جلا کر خاک کر ڈالے گی۔ یہ سوچتے ہی میں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان کی طرف نظر کرتے ہی میرے آنسو بہنے لگے اور میں بے اختیار سجدے میں گر گیا۔ میرا دل خدا تعالی سے خاموش دعا مانگ رہا تھا۔ میں نے ایک لفظ مونہہ سے نہ نکالا، مگر دل دعا مانگتا رہا آنسو بہتے رہے اور پھر اچانک یوں لگا کہ میرا جسم کپکپانا بند ہو گیا ہے۔ دل میں نہ جانے کہاں سے طاقت آ گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ اس وقت اگر سامنے سے ہاتھی بھی آ جائے تو اسے چٹکی سے مسل کر رکھ دوں گا۔! اچانک دھب دھب کی تیز آواز مجھے سنائی دی۔ ساتھ ہی ایسا دھماکا بھی سنائی دیا جس کی وجہ سے زمین لرزنے لگی۔۔۔ میں جلدی سے کھڑا ہو گیا، کیونکہ سامنے دو پہاڑوں کے بیچ میں سے مجھے وہ خوف ناک مکھی زمین پر چلتی ہوئی اپنی طرف آتی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پہاڑ کی چوٹی پر نظر اٹھا کر دیکھا تو جان نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ہوشیار! اور پھر وہ تینوں مل کر چٹان کو ہلانے لگے۔ مکھی ویسے تو آہستہ چل رہی تھی، لیکن کبھی کبھی چلتے چلتے پھدک کر آگے بڑھ آتی تھی۔ چٹان برابر تیزی سے ہل رہی تھی۔۔۔ مکھی قریب آتی جا رہی تھی اور میں نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے، چپ چاپ کھڑا اسے دیکھ رہا تھا اور پھر وہی ہوا جو جان نے کہا تھا۔ مکھی نے مجھے دیکھ کر زور کی پھنکار ماری اور میری طرف تیزی سے بڑھنے لگی۔ میں سینہ تانے اسے گھور رہا تھا۔ چٹان اور زور زور سے ہل رہی تھی۔ میں نے صرف اتنا دیکھا کہ مکھی جیسے ہی پہاڑوں کے بیچ میں پہنچی، اوپر سے چٹان لڑھک کر اس کی طرف گرنے لگی اور مکھی زور سے پھدک کر میری طرف آئی اور پھر۔۔۔۔ پھر مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا؟ دہشت کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔۔۔!
جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں اپنے بادبانی جہاز کے ڈیک پر چت لیٹا ہوا ہوں۔ چمکیلی دھوپ نکل رہی ہے۔ ہر طرف سکون سا ہے اور جان مجھ پر جھکا ہوا غور سے مجھے دیکھ رہا ہے، مجھے ہوش میں آتے دیکھ کر اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر جیک کو آواز دی۔ جیک اندر کیبن میں سے دوڑتا ہوا آیا اور میرے قریب بیٹھ کر میرے سر کو سہلانے لگا اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ جب اس نے میرے سر کو سہلایا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے سر میں پٹی بندھی ہوئی ہے اور سر میں ہلکی سی تکلیف بھی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ اندازہ لگا کر میں نے بڑی کمزور آواز میں پوچھا۔
"میرے سر پر پٹی کیوں بندھی ہوئی ہے۔۔۔ مجھے کیا ہوا؟"
"گھبراؤ مت فیروز۔" جان نے میرا سر تھپتھپا کر جواب دیا۔ "اب تم بالکل ٹھیک ہو۔ بات یہ ہے کہ تم گر گئے تھے اور تمہارا سر ایک پتھر سے ٹکرایا تھا۔ گرتے ہی تم بے ہوش بھی ہو گئے تھے اور پورے تیس گھنٹے تک بے ہوش رہے۔ آج تم ہوش میں آئے ہو، خدا کا شکر ہے کہ اب تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔ تمہارے دماغ کو گرمی پہنچانے کی ضرورت تھی اس لئے ہم نے تمہیں دھوپ میں لٹا رکھا ہے۔"
"اوہ! یہ بات ہے۔" میں نے کمزور آواز میں کہا۔ اچانک مجھے وہ دیوزاد مکھی یاد آ گئی۔ خوف کے باعث میرا جسم لرزنے لگا اور میں خوف زدہ آواز میں چلایا "مکھی۔ وہ مکھی کہاں ہے۔؟"
جیک نے جان کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے کے بعد کہا "فیروز اپنے دماغ پر زور مت ڈالو۔ فی الحال اتنا سمجھ لو کہ تم مکھی کے حملے سے بچ گئے ہو۔ جب تم بالکل تندرست ہو جاؤ گے تو ہم تمہیں ایک ایک بات بتا دیں گے۔"
میں چوں کہ سب حال جاننے کے لئے بہت بےتاب تھا اس لئے میں نے جلدی سے کہا "نہیں نہیں اب میں بالکل ٹھیک ہوں۔ خدا کے لئے مجھے سب کچھ بتائیے آخر یہ ماجرہ کیا ہے؟ وہ جزیرہ کہاں گیا۔ وہ مکھی کیا ہوئی اور اب ہم کہاں جا رہے ہیں؟"
جان نے جواب دیا "اچھا تو پھر تم اندر چل کر لیٹ جاؤ۔ ہلو جلو مت اور بولو بھی کم۔ تب میں تمہیں پوری باتیں سناؤں گا۔"
میں نے اس کی بات مانتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی۔ ان دونوں نے مجھے سہارا دیا اور پھر اندر کیبن میں لے جا کر میرے بستر پر لٹا دیا۔ اس کے بعد جان نے اپنا پائپ سلگایا اور دھواں چھت کی طرف چھوڑتے ہوئے کہنے لگا۔
"باتیں بڑی عجیب ہیں فیروز! مختصراً تمہیں بتاتا ہوں۔ جب تم ہمارا کہنا نہ مانتے ہوئے پہاڑ سے نیچے اترنے لگے تو مجھے بڑی گھبراہٹ ہوئی۔ پہاڑ پر کاہی جمی ہوئی تھی اور ہر لمحہ تہمارے نیچے پھسل جانے کا خطرہ تھا، مگر اس سے بھی بڑا خطرہ وہ تھا جس سے مقابلہ کرنے کے لئے تم نیچے جا رہے تھے۔ ہمارے دلوں کی عجیب حالت تھی۔ ہمارے سامنے تم موت کے مونہہ میں جا رہے تھے اور ہم کچھ نہ کر سکتے تھے، اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ ہم تمہیں زبردستی اوپر کھینچ کر لاتے۔ مکھی آہستہ آہستہ پہاڑ کی طرف بڑھتی آ رہی تھی۔ میں دل ہی دل میں خود کو ملامت کر رہا تھا کہ بڑا بہادر ہوں! خود تو جان بچا کر پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور ایک چھوٹا سا لڑکا موت سے ٹکر لینے نیچے جا رہا ہے۔ مگر وقت اتنا نازک تھا کہ سوچنے سمجھنے کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت تھی۔ آخر مجبور ہو کر ہم عمل کے لئے تیار ہو گئے۔ جب ہم نے دیکھا کہ تم پہاڑوں سے کافی دور جا کر مکھی کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے ہو، تو ہم تینوں نے اس چٹان کو ہلانا شروع کر دیا۔۔۔ جو چٹان انگلی لگانے سے ہلنے لگی تھی وہ اب ہم تینوں کے زور لگانے سے بری طرح ہلنے لگی۔ مکھی پھنکاریں مارتی ہوئی تہماری طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی۔ چوں کہ وہ بہت زیادہ تھکی ہوئی اور شاید بھوکی بھی تھی۔ اس لئے ہوا میں اڑ نہیں سکتی تھی۔ اگر خدانخواستہ اڑنے لگتی تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ تھا۔ اس نے صرف تمہیں ہی دیکھا تھا اس لئے تمہاری ہی طرف بڑھنے لگی۔ ہم لوگوں کے ہاتھ پاؤں کا دم سا نکل رہا تھا۔۔۔ سوچ رہے تھے کہ اگر چٹان بر وقت اس پر جا کر نہ گری تو ہم تم سے ہاتھ دھو لیں گے۔ کیوں کہ مکھی کے قریب آ جانے کے بعد تم تیزی سے سمندر کی طرف نہیں بھاگ سکتے تھے لہذا مکھی اپنے شکار کو بھاگتے دیکھ کر ایک زوردار حملہ ضرور کرتی۔ خیر ہم چٹان کو ہلاتے رہے اور جب وہ دیوزاد مکھی دونوں پہاڑوں کے درمیان میں پہنچ گئی۔ تو ہم نے چٹان زور لگا کر گرا دی۔ ہماری خوش قسمتی تھی اور خدا کا کرم کہ چٹان بالکل اس کے پیٹ پر جا کر گری۔ بڑے زور کے چھپاکے اڑے۔ اور اس کے پیٹ میں سے گرم گرم لاوا نکل کر ہر طرف بہنے لگا جس طرف بھی لاوا گیا، اس نے ہر چیز کو جلا کر خاک کر دیا۔ چھوٹی چھوٹی چٹانیں تو اس لاوے میں اس طرح پگھل گئیں، جیسے چینی پانی میں گھل جاتی ہے۔ مکھی مر رہی تھی اور وہ اپنی دم زور زور سے زمین پر پٹخ رہی تھی۔ اس کی ناک سے نکلنے والے شعلے اب مدہم ہوتے جا رہے تھے اور لاوا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ہم نے تمہیں بے ہوش ہو کر زمین پر گرتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اور اب ہمیں یہ خدشہ ہونے لگا تھا کہ لاوا کہیں بڑھتے بڑھتے تم تک نہ پہنچ جائے! سچ بات تو یہ ہے کہ اس موقع پر میں ملاح کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک لفظ کہے بغیر تیزی سے پہاڑ کے نیچے اترنے لگا۔ جب وہ پہاڑ کے نیچے پہنچ گیا تو ہم نے دیکھا کہ لاوا آہستہ آہستہ پہاڑ کو چاروں طرف سے گھیر رہا ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ لاوا پہاڑ کو گھیرتا ملاح ایک چھلانگ لگا کر لاوے کے اوپر سے گزر گیا اور پھر چٹانوں کی آڑ لیتا ہوا دوڑ کر تم تک پہنچ گیا۔ لاوا آہستہ آہستہ تمہاری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس نے جلدی سے تمہیں اٹھا کر اپنے کاندھے پر ڈالا اور دوڑتا ہوا اس طرف پہنچنے کی کوشش کرنے لگا جہاں لاوا ابھی تک نہیں آیا تھا۔ تمہیں لاوے سے بچاتا ہوا آخرکار وہ وہاں پہنچ گیا جہاں ہم نے پہلے پہل ایک غار میں رات گزاری تھی۔ لاوا اس مقام تک کسی صورت سے بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔"
"اور آپ پہاڑ سے کس طرح نیچے اترے؟" میں نے ایک ٹھنڈا سانس لینے کے بعد پوچھا۔
"ہم دونوں پہاڑ پر کھڑے مکھی کو اپنا سر زمین پر پٹختے دیکھتے رہے۔ سورج پوری طرح آسمان پر نکل کر چمک رہا تھا اور ہم کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں؟ کوئی چھ گھنٹے اسی طرح کھڑے کھڑے گزر گئے۔ آخرکار کافی دیر کے بعد ہمیں ملاح کی شکل دکھائی دی۔ وہ اپنے ساتھ موٹے موٹے رسے لئے ہوئے آ رہا تھا۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ ملاح لازمی طور پر اپنے جہاز میں پہنچا ہو گا اور وہیں سے یہ رسے نکال کر لایا ہو گا۔ اس نے ہمیں نیچے اترنے کا اشارہ کیا۔ جب ہم پہاڑ کے نیچے پہنچ گئے تو ہم نے دیکھا کہ کسی صورت سے بھی ہم زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ لاوے نے پہاڑ کو ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور اس میں سے بلبلے اور بھاپ اٹھ رہی تھی! یہ دیکھ کر ملاح نے دور سے چلا کر کہا کہ وہ رسہ ہماری طرف پھینکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ رسے کا ایک سرا پہاڑ پر اگے کسی درخت سے باندھ دیں۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور ملاح نے بھی رسے کا دوسرا سرا پہاڑ سے کافی فاصلے پر اگے ہوئے ایک دوسرے درخت سے باندھ دیا۔ اس کے بعد اس نے ہم سے کہا کہ رسے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر لٹکتے ہوئے ہم آگ کا یہ دریا پار کریں۔
آخر ہمیں اس کا کہنا ماننا ہی پڑا کیوں کہ اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔ ہمارے نیچے گرم گرم لاوا ابل رہا تھا اور ہم اس کے اوپر رسے سے لٹکتے ہوئے گزر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ ملاح کی عقل مندی سے ہم نے اس لاوے کے دریا سے نجات پائی۔ ملاح کے پاس پہنچے تو اس نے مجھ سے کہا کہ وہ تمہیں جہاز کے اندر کیبن میں چھوڑ آیا ہے۔ غار اسے محفوظ معلوم نہیں ہوا ساتھ ہی وہ مکھی کا سر کاٹنے کے لئے کلہاڑا بھی لیتا آیا ہے۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ مکھی کا گنبد نما سر کس طرح کٹے گا جب کہ لاوا اس کے چاروں طرف کھول رہا تھا؟ تو اس نے ایک بڑی اچھی ترکیب بتائی اس نے کہا کہ وہ دوسرے رسے کا ایک پھندا سا بنائے گا۔ پہلا رسہ تو دونوں درختوں سے بندھا ہوا تھا اور وہ کسی صورت سے نہیں کھل سکتا تھا۔ کیوں کہ اسے کھولنے کے لئے ہمیں پھر پہاڑ پر جانا پڑتا۔ اس لئے اس دوسرے رسے کا پھندا دور کھڑے کھڑے وہ مکھی کے سر کی طرف پھینکے گا پھندا اگر مکھی کے سر پر اٹھے ہوئے دو سینگوں میں جا کر پھنس گیا تو وہ ہم دونوں کی مدد سے زور لگا کر مکھی کو اپنی طرف کھینچ لے گا۔


Novel "Khofnak Jazirah" by: Siraj Anwar - episode:23

2 تبصرے: