ہوا کے رخ پہ چلا گیا - Gone with the Wind - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-09-23

ہوا کے رخ پہ چلا گیا - Gone with the Wind

gone-with-the-wind
سن 1939 میں بننے والی شہرہ آفاق فلم "ہوا کے رخ پہ چلا گیا" (گون ود دا ونڈ) [Gone with the Wind]" ، سینما کی تاریخ کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔ ہدایات کاری، عکاسی، مکالمہ نگاری، اور اداکاری کے میدانوں میں رجحانات کے سینکڑوں نئے در وا کرنے والی یہ فلم دنیا بھر میں لاکھوں فلم بینوں کی پسندیدہ ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ فلم میں رہیٹ بٹلر کا کردار ادا کیا ہے کلارک گیبل نے جو اس وقت بھی فلمی صنعت کا ایک معروف نام تھے اور اسکارلیٹ اوہارا کا کردار نبھایا ویویان لیھ نے جنہیں اس فلم پر ان کا پہلا آسکر ملا۔ فلم نے 13 آسکر اعزازت کے لئے نامزدگی پائی اور ان میں سے 8 حاصل کیے جن میں بہترین فلم کا اعزاز بھی شامل ہے۔
فلم کی کہانی امریکی جنوب کی ریاست جارجیا کی ایک بڑی جاگیر ٹیرا اور اس جاگیر کے مالک کی بیٹی اسکارلیٹ اوہارا کے گرد گھومتی ہے۔ اسکارلیٹ کے بارے میں ناظرین کا پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک کھلنڈری، مغرور، گھمنڈی قسم کی لڑکی ہے۔ آس پاس کی جاگیروں کے کئی لڑکے اس کی ایک نگاہ التفات کے منتظر رہتے ہیں۔ اور وہ ان کے دلوں سے کھیلنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتی۔ مگر دل ہی دل میں وہ ایشلے نامی ایک نوجوان کو چاہتی ہے جو ان کے ہی علاقے میں ایک جاگیر Twelve Oaks کے جاگیردار کا لڑکا ہے۔ مگر ایشلے اپنی ایک کزن میلینی سے پیار کرتا ہے اور جس رات امریکی خانہ جنگی شروع ہوتی ہے اس رات Twelve Oaks میں ایک بڑی دعوت میں وہ میلینی سے اپنی منگنی کا اعلان کرتا ہے۔
اسکارلیٹ حیران رہ جاتی ہے، وہ ایشلے کو اکیلا پا کر اس سے اقرار محبت کرتی ہے مگر ایشلے مہذبانہ طریقے سے اسے سمجھاتا ہے کہ گرچہ وہ اسے پسند کرتا ہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ میلینی ہی اس کے لئے بہتر بیوی ہو سکتی ہے۔ حویلی کی مطالعہ گاہ میں جہاں اسکارلیٹ، ایشلے سے اظہار محبت کرتی ہے اور اس کے ٹھکرا دینے کے بعد آنسو بہا رہی ہوتی ہے وہاں ایک مہمان رہٹ بٹلر اس کی اس بے باکانہ محبت کا مظاہرہ دیکھ کر اس پر فدا ہو جاتا ہے۔ رہٹ بٹلر جنوبی کیرولینا کا رہائشی ہے، اور کافی بدتمیز، گھمنڈی اور مغرور ہے۔ وہ اسکارلیٹ سے کہتا ہے کہ تم میں اور مجھ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ جب اعلان جنگ ہوتا ہے اور twelve oaks میں موجود تمام جوان مرد اپنے ہتھیار پہن کر جنگ کے لئے اپنا اندراج کروانے جا رہے ہوتے ہیں، رہٹ بے نیازی سے اعلان کرتا ہے کہ اس کے خیال میں یہ جنگ بے مقصد ہے اور شمال کی دولت و وسائل اور فوجی برتری کا مقابلہ جنوب نہیں کر سکتا۔
جنگ کے پس منظر میں فلم کی کہانی آگے بڑھتی ہے۔ اسکارلیٹ جلد بازی میں ایشلے سے پہلے شادی کرنے کے چکر میں ایک نوجوان کی پیشکش قبول کر بیٹھتی ہے مگر وہ نوجوان جلد ہی جنگ میں ہلاک ہوجاتا ہے۔ بیوگی کا سوگ گزارنا اسکارلیٹ کے لئے محال ہوتا ہے تو اس کی ماں اسے اٹلانٹا بھیج دیتی ہے جہاں میلینی دل و جان سے اسکارلیٹ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ اس کو سگی بہن کی طرح پیار کرتی ہے مگر اسکارلیٹ ایشلے کا انتظار کرتی ہے۔ رہٹ بٹلر بھی اٹلانٹا میں مقیم ہوتا ہے اور یہاں وہ اسکارلیٹ سے کہتا ہے کہ وہ اس کا دل جیت کر رہے گا۔ اسکارلیٹ کہتی ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
فلم کی رومانوی کشمکش پر مبنی داستان جنگ کے پس منظر میں آگے بڑھتی ہے۔ جہاں اسکارلیٹ ایشلے کو، ایشلے میلینی کو، اور رہیٹ اسکارلیٹ کو چاہتا ہے۔ مگر اسکارلیٹ کو اس کی محبت نہیں مل پاتی، رہیٹ کو اس کی محبت مل کر بھی نہیں مل پاتی اور اسکارلیٹ آخر میں۔۔۔

فلم کی کہانی کچھ ایسی ہے کہ کسی تبصرہ نگار کے لئے شاید ہی یہ ممکن ہو کہ وہ کہانی کا کوئی ایک سین بھی بیان کرے بغیر تبصرہ آگے بڑھا سکے یا فلم کا اختتامیہ بیان کر سکے۔ فلم کی کہانی دو حصوں پر مبنی ہے۔ پہلا حصہ ابراہم لنکن کے صدارات سنبھالنے سے لیکر جنگ کے اختتام تک اور دوسرا جنگ کے ختم ہونے کے بعد کے آٹھ سالہ واقعات پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں اسکارلیٹ کی محبت میں بے بسی، بیوقوفی اور یہ امید کے شاید وہ رہٹ کے التفات کا مثبت جواب دے گی فلم بین کو محصور رکھتی ہے۔ اسکارلیٹ کی جرات، بےباکی اور بیوقوفی کے باوجود اس کا کردار اتنا دلچسپ ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ وہ سنبھل جائے۔ کہانی آپ کو اسکارلیٹ کو پسند یا ناپسند کرنے پر مجبور نہیں کرتی۔ آپ چاہیں تو اسکارلیٹ کو ایک خود غرض، لالچی، بے وقوف عورت سمجھ کر اس سے نفرت کرسکتے ہیں۔ یا چاہیں تو اس کے عزم و حوصلے، اس کی طاقت اور چالاکی اور ایک وہم نما پیار کے پیچھے اس کی دیوانگی کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اس کہانی کی ہیروئن بھی ہے، اور ولن بھی۔
فلم کے دوسرے حصے میں اسکارلیٹ ایک ذمے دار جاگیردارنی کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ جنگ کے بعد کی انتہائی سخت غربت اور تنگدستی کے باجود وہ اپنی چالاکی اور محنت سے حالات بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ خانہ جنگی اور شکست کے بعد کنفڈریٹ ریاستوں کے عوام کو انتہائی سخت مالی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اسکارلیٹ بہادری سے ان حالات کا مقابلہ کرتی ہے۔ فلم میں کنفڈریٹ ریاستوں کو پہنچنے والے بے پناہ جانی اور مالی نقصان کی بھی جنوب کے نقطہ نظر سے عکاسی کی گئی۔

گون ود دا ونڈ سینما کی تاریخ کی اہم ترین فلموں میں سے ایک ہے۔ فلم سازی پر اس فلم کے اثرات بے پناہ ہیں۔ امریکی عوام میں فلم کی بے پناہ مقبولیت کے سبب اس فلم کے امریکی کلچر پر اثرات بھی نمایاں ہیں۔ فلم کے مکالمے فلمی تاریخ کے سب سے زیادہ پسندیدہ ترین مکالمے ہیں۔ یہ فلم امریکی لینڈ اسکیپ کی انتہائی سحرانگیز عکاسی کرتی ہے۔ فلم کے عظیم الشان سیٹ، ٹیرا کی حویلی کی منظر کشی، قدیم جنوب کی پلانٹیشن، اٹلانٹا کی منظر کشی، ملبوسات، رقص، موسیقی، بہترین مکالمے فلم بین کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ ایک گم گشتہ دور کی داستان دیکھ رہے ہیں۔ اور درحقیقت یہ فلم اسی گم گشتہ دور کی کہانی بیان کرتی ہے۔ فلم کے ابتدائی مناظر میں پس منظر میں پیش کیا جانا والا ابتدائیہ کہانی ان جملوں کے ساتھ شروع کرتا ہے : "کسی زمانے میں شہ سواروں اور کپاس کے کھیتوں کی ایک سرزمین ہوا کرتی تھی جسے قدیم جنوب کہتے تھے۔ اس اشرافیہ کی سرزمیں پر سپہ گیری نے اپنا آخری گھاؤ سہا۔ یہیں آخری بار گھڑسوار اور ان کی اچھی خواتین، آقا اور ان کے غلام دکھائی دئیے تھے۔ اب اسے صرف کتابوں میں ہی دیکھا جاسکتا ہے، کیونکہ آپ یہ بس ایک یاد رہ جانے والے خواب سے زیادہ کچھ نہیں، ایک تہذیب جو ہوا کے ساتھ اڑ گئی"۔

بشکریہ: فلمستان ویب پورٹل

Gone with the Wind. Movie Review by: Noumaan Yaqoob.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں