ترجمے کے رموز - رضا علی عابدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-08

ترجمے کے رموز - رضا علی عابدی

codes-of-translation
درج ذیل مضمون بی-بی-سی اردو کے معروف براڈکاسٹر جناب رضا علی عابدی کی کتاب "اخبار کی راتیں" سے ماخوذ ہے۔ اس کتاب کے چند مضامین مصنف محترم کی اجازت سے تعمیر نیوز پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
مضمون-1 : ترجمے کے رموز - رضا علی عابدی
مضمون-2 : یہ مسائلِ تلفظ - رضا علی عابدی
مضمون-3 : زبان کا فن - رضا علی عابدی
جن لوگوں نے انگریزی بہت پڑھی ہو اور انہیں اردو پر بھی عبور حاصل ہو وہ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ قلم اٹھائیں گے اور ترجمہ شروع کردیں گے، وہ یہ خیال ذہن سے نکال دیں۔ ترجمے کا فن سب سے الگ ہے اور بڑی مشقت اور ریاضت مانگتا ہے ۔
اس بات کو اس ذرا سی بات سے سمجھ لیجیے کہ In کا مطلب اندر اور Out کا مطلب باہر ہونا ضروری نہیں۔
ترجمہ زبان کا نہیں بلکہ تہذیب کا ہوتا ہے ۔ ہر زبان کے اپنے بندھن اور اپنی پابندیاں ہوتی ہیں، ترجمہ کرتے وقت ایک تہذیب اور ایک ثقافت کو جدا تہذیب اور ثقافت میں منتقل کرنا ہوتا ہے ۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ترجمہ ایک ایسا پرندہ ہے جو ایک زبان سے اڑان بھرتا ہے، راہ میں اس زبان کا چولا اتار کر نیا چولا پہن کر دوسری زبان کی شاخ پر اترتا ہے ۔
میں یہ بھی کہتا ہوں کہ Translation کچھ نہیں ہوتا، دراصل یہ Transformation ہوتا ہے ۔ انگریزی اصطلاحیں لکھنے کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

انگریزی اور اردو قواعد میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انگریزی میں آسمان نیچے اور زمین اوپر ہے ۔ کہنے میں یہ بات عجیب لگتی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ انگریزی جملے کی ساخت میں سب سے ضروری بات پہلے اور سب سے کم ضروری بات جملے کے آخر میں آتی ہے۔ اردو میں یوں نہیں ہوتا۔ مثال دیکھیے:
Ten People were Killed in an explosion in Baghdad this morning
لفظی ترجمہ یوں ہوگا: دس افراد مارے گئے ، ایک دھماکے میں بغداد میں آج صبح۔ اس ترجمے پر دنیا ہنسے گی، لہٰذا ہم جملے کو الٹ دینے پر مجبور ہیں:
بغداد میں آج صبح ایک دھماکے میں دس افراد ہلاک ہو گئے ۔
انگریزی میں سرخی ہوگی:
Ten People Killed in Baghdad
اردو میں سرخی یوں لگے گی: بغداد میں دس افراد ہلاک

اس کا کوئی علاج ہے؟ لوگ پوچھتے ہیں۔
اس کا علاج چھوٹے جملوں میں ہے۔ میں بتاتا ہوں۔ مثلاً:
"بغداد میں دس افراد مارے گئے ۔ اطلاع یہ ہے کہ آج صبح وہاں ایک دھماکہ ہوا تھا۔"
لیکن لفظ "تھا" لگتے ہی خبر پر قدامت کار نگ چھائے گا ، لہٰذا مجبوری کی صورت میں یوں ہو سکتا ہے:
"بغداد میں آج صبح ایک دھماکے میں دس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔"
خبروں میں صیغۂ ماضی سے گریز کیاجائے تو اچھا ہے۔ صیغۂ حال خبر کے تازہ ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ اردو اخباروں کو اس کی عادت نہیں لیکن عادت بدلنے میں کسی کا کیا جاتا ہے؟

ترجمے کے بارے میں ایک بات بنیادی ہے ۔ انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی عبارت میں کبھی کبھی صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ انگریزی سے ترجمہ ہے ۔ ہمارے بعض رپورٹر اپنی خبریں انگریزی میں لکھتے ہیں جو برادر اخبار کے لیے اردو میں ترجمہ کی جاتی ہیں اور جن کا ایک ایک فقرہ بتا رہا ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ ہیں اور یہ کہ مترجم اناڑی ہے ۔
اس سے بچنا ضوری ہے اور یہی ترجمے کی خوبی ہے۔

ترجمے میں اصطلاح سازی ضرور ہونا چاہئے۔ جو اصطلاحیں رائج ہیں ان کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ بعض ایک عربی، فارسی یہاں تک کہ ہندی سے بھی اٹھائی جا سکتی ہیں، مثلاً : Subsidy کا ترجمہ 'زرِ تلافی' فارسی لغت سے ملا اور رائج ہو گیا لیکن Ransom کا اتنا ہی عمدہ ترجمہ 'زرِ خلاصی' بھی وہیں سے ملا لیکن اس نے رواج نہیں پایا۔
Fundamentalism کا ترجمہ 'بنیاد پرستی' وضع کرنا پڑا۔ Militant کا ترجمہ شدت پسند ٹھہرا۔ کچھ لوگ عسکریت پسند بھی کہنے لگے ہیں۔
Progress کا ترجمہ پیش رفت پہلے پہل راولپنڈی کے ایک اخبار کی سرخی میں نمودار ہوا تھا، فوراً قبول کر لیا گیا ۔ Haven کا ترجمہ بہشت نہیں، کمیں گاہ یا جائے پناہ ہوتا ہے ۔ Peace Process کا ترجمہ 'امن عمل' مجھے قبول نہیں کیونکہ کانوں کو بھلا نہیں لگتا ۔ اس طرح anti-goverment کا ترجمہ 'حکومت مخالف مظاہرے' طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔
ترجمے میں ایسا بارہا ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر بارہ الفاظ کا انگریزی فقرہ اردو میں ترجمہ ہو کر سات الفاظ کا رہ جاتا ہے۔ اگر کبھی اس کے بر عکس صورتحال پیدا ہو جائے تو یوں بھی صحیح۔ 'قیام امن کا عمل' اور 'حکومت کے خلاف مظاہرے' لکھنے میں کوئی بڑا نقصا ن تو نہیں۔

ایک اور ضروری بات:
ترجمہ کرتے ہوئے ڈکشنری دیکھنے میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں۔ بہت ممکن ہے اس میں زیادہ مناسب لفظ مل جائے ۔ اس کے علاوہ جس ادارے میں کئی لوگ بیٹھے لکھ رہے یا ترجمہ کر رہے ہوں ، وہاں اپنے ساتھیوں سے مدد مانگنا ذرا بھی معیوب نہیں۔ یہ بات اس لیے بھی ضروری ہے کہ بعض اداروں کی اپنی مخصوص اصطلاحات اور ترکیبیں ہوتی ہیں اور عملے کے ہر فرد کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ ادارے کا مخصوص انداز اختیار کرے ۔ میں کبھی ڈکشنری دیکھتا ہوں تو اپنے ساتھیوں کو بتا دیتا ہوں کہ اس ترجمے پر عدالت میں طلبی ہو سکتی ہے۔

کہیں انگریزی یا یورپین لفظ استعمال کرنا پڑے تو بہتر ہے کہ اسی زبان کے تلفظ میں کیا جائے مثلاً grand prix کو 'گراں پری' لکھا جائے۔ جیسا یہ لفظ نظر آ رہا ہے ویسا لکھا گیا تو نہایت معیوب ہوگا۔

تلفظ کی بات آ گئی تو اب ہم اس پر نہایت اہم موضوع کی طرف آتے ہیں ۔ اردو میں ہندی کی طرح ماترائیں نہیں ہوتیں، نہ ہی زیر زبر لگانے کا رواج ہے ۔ اس لیے بارہا لوگ غلط تلفظ کرتے ہیں۔ اگلا باب سارا کا سارا اسی بارے میں ہے۔ امید ہے اس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔
نوٹ :
مضمون نگار، بی بی سی اردو (لندن) کے معروف براڈکاسٹر رہے ہیں۔
***
فیس بک : Raza Ali Abidi
رضا علی عابدی

The codes of translation. Article: Raza Ali Abidi

2 تبصرے:

  1. بہت اچھا اور کار آمد مضمون۔ بڑی نوازش۔ بہت بہت شکریہ رضا علی عابد صاحب۔ اللہ آپکو خوش رکھے۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت اچھا اور کار آمد مضمون۔

    جواب دیںحذف کریں