عرفی کی رائے میں وہ شعر اچھا کہلانے کا مستحق ہے جو حسن صورت کے ساتھ حسن معنی بھی رکھتا ہو۔ اُردو کے قدیم شعرا میں سب سے پہلے مُلّاوجہینے شعر کی بابت اپنی رائے کا اظہار کیا۔ مثنوی "قطب مشتری" میں اُس نےاپنے نقطۂ نظر کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وجہی شاعری میں سادگی، معنی آفرینی اور الفاظ و معنی کے بیچ تعلق کو مدنظر رکھتا ہے:
جو بے ربط بولے تو بیتاں پچیس
بھلا ہے جو یک بیت بولے سلیس
جسے بات کے ربط کا فام نئیں
اسے شعر کہنے سوں کچ کام نئیں
رکھیا ایک معنی اگر زور اھے
ولے بھی مزا بات کا ھور ھے
دکن کا ایک اور شاعر ابن نشاطی (صاحب مثنوی 'پھولبن') کہتا ہے:
اگرچہ شاعری کا فن ہے عالی
ولے کیا کام آوے بات خالی
مری ہےنظم میں انشا کے دھاتاں
رہے انشا کے دھاتاں اور باتاں
ولی کو اس پرفخر ہے کہ اس کا کلام معنی سے لبریز ہے:ع
اے ولی یو شعر ہے لبریزِ معنی سر بسر
تصوّرِ شعر کی یہ روایت شمال میں بھی پائی جاتی ہے۔ شاہ مبارک آبروکے نزدیک شاعری معنی آفرینی ہے قافیہ پیمائی نہیں:
شعر کے معنی سیتی جو قدر ہو ہے آبرو
قافیہ سیتی ملایا قافیہ تو کیا ہوا
میر تقی میر ہیں جنھوں نے کبھی یہ کہا کہ خوش سلیقگی سے جگر خوں کرنا شاعری ہے:
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
مرزا محمد رفیع سودانے بھی شاعری کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہے:
سودا کی فصاحت ہے جو کچھ نظم بیاں میں
رکھتی وہ فصاحت نہیں خاقانی کی تقریر
وہ ربطِ سخن اور وہ آئین بیاں کا
پاوے نہ کبھی کوئی کرے کیسی ہی تدبیر
خوبیِ معانی کہوں یا بندش الفاظ
پاکیزہ بیانی کہوں یا صافیِ تقریر
شعروادب کے متعلق نقطۂ نظر کی بحث بڑی پرانی ہے۔ اچھا فن کار ایک مخصوص شعور رکھتا ہے اور اسی پسِ منظر میں اپنے فن کو جِلا بخشتا ہے۔ شاعری ایک فطری ملکہ ہے، اس کا کسب نہیں کیا جاسکتا ، ہاں مشق و ممارست سے اس کی تہذیب و تحسین کی جاسکتی ہے۔ شاعر جب اپنے احساسات کو اشعار کے پیکر میں ڈھالتا ہے تو فن کے اصول و ضوابط پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ یہ ضابطے اس کی تخلیق کو حسن بخشتے ہیں۔
اُردو میں تنقیدِ شعر کی یہ روایت کسی نہ کسی صورت میں موجود رہی ہے۔ ابتدائی دور میں بھی تنقیدی شعور پایا جاتا تھا۔ پہچان اور پرکھ کے زاویے قائم تھے۔ چونکہ اُس دَور کا شعور 'فنی' نہیں تھا، اس لیے اِن اصولوں میں بڑی وسعت ہے اور یہ جابجا بکھرے ہوئے ہیں۔ تنقیدِ شعر کے اصولوں میں انتشار رہا ہے۔ زمانے کے ساتھ ساتھ یہ بدلتے رہے ہیں۔ البتہ کچھ مشترک نکات مثلاً شاعری میں وارفتگی، معنی آفرینی، کلام میں ندرت اور الہامی کیفیت پر اکثرشعرا کےاتفاقِ رائے سے اُس دور کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اُردو تنقید برسوں پرانی تاریخ رکھتی ہے۔ تنقیدی شعور اس وقت بھی تھا جب اردو کا پہلا شعر کہاگیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ اردو تنقید کل کی بات ہے، صحیح نہیں۔ قدیم اُردو ادب وافر مقدار میں دریافت ہوا ہے۔ اس کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی تخلیق کے پیچھے تنقیدی شعور کارفرما تھا۔
دکن کا شعری تصور اردو تنقید کی خشت اول ہے۔ اس باب میں دکنی شعرا کا کلام بنیاد کا وہ پتھر ہے جس پر اردو تنقید کی پوری عمارت قائم ہے۔ افسوس کہ لوگوں نے اسے بنظرِکم دیکھا اوراُردو تنقید کی یہ پہلی کڑی اقلیدس کا خیالی نکتہ اور معشوق کی موہوم کمر بن کر رہ گئی۔ اب تک دکن کے شعری تصور پر ہونے والی تمام بحث عموماً مُلا وجہی کے شعری نقطۂ نظر کے اردگرد گھوم کر رہ گئی ہے۔ بہت خیال رکھا تو کسی نے ابنِ نشاطی کے ایک آدھ شعر کا ذکر کردیا، جبکہ نقدِ شعر کا یہ تصور یکجا نہیں جا بجا بکھرا پڑا ہے۔ اِس سلسلے میں صرف ایک مثال کافی ہوگی۔مثنوی 'چندر بدن و مہیار' میں مقیمی نے "وانصاف دادنِ شعر و ترتیب کردنِ سخن" کی سرخی قائم کرکے سخن اور کلام کے اوپر آٹھ شعر کہے ہیں۔ اِس سے ذرا قبل "بیان ابتدائے عشق و تالیف کتاب" کے تحت آخری دو شعر میں کہتا ہے:
ہوادل پویوں کر تفکر قریب
کہوں شعر موزوں، حکایت عجیب
بچن درہو دل تھے اُبلنے لگے
نوے طرز خوش تب نکلنے لگے
مثنوی کے خاتمے پر آخری سے پہلا شعر کچھ اس طرح کہا:
دنیا تو فنا ہے مقیمی سہی
رہے گی بچن کی نشانی یہی
اس طرح پوری مثنوی اور تین سرخیوں میں 'تصور شعر' پر گیارہ بیت ملتی ہیں۔ دکن میں شعری تنقید کا سب سے بڑا سرمایہ وجہی کا وہ تنقیدی کلام ہے جو اس نے "وجہی در شرحِ شعر گوید" کے عنوان کے تحت تصنیف کیا تھا۔ قدیم دکنی شعرا نے "تعریف سخن"، " درباب سخن" جیسے عنوانات کے تحت شعر کے سلسلے میں اپنے نقطۂ نظر کااظہار کیا ہے۔ بسا اوقات شاعر کی"تعلّی" سے بھی -جو عموماً اپنے کلام کی خصوصیات ، قادرالکلامی کے اظہار اور فنی برتری کے افتخارپر مشتمل ہوتی تھی- شعر کے بارے میں شاعر کی رائے کا علم ہوتا ہے۔ ابن نشاطی ندرت اور جدت کے ساتھ ساتھ شکوہِ الفاظ پر بھی زور دیتا ہے۔ نصرتی اور وجہی نے سادگی، اصلیت اور معنی آفرینی پر زور دیا ہے۔ اس دور کے شعرا ایک دوسرے کے فن اور فنی صلاحیتوں کا اقرار بھی کرتے رہے ہیں۔ اس بات کا اظہار وجہی اور ابن نشاطی کی مندرجہ ذیل ابیات سے ہوتا ہے:
کہ فیروز و محمود اجیتے جو آج
تو اس شعر کوں بہوت ہوتا رواج
(وجہی)
نئیں وو کیا کروں فیروز استاد
جو دیتے شاعری کا کچ مرے داد
اَہے صد حیف جو نئیں سید محمود
کتے پانی کوں پانی دوٗد کو دوٗد
(ابن نشاطی)
مثنوی 'گلشنِ عشق' اور مشہور رزمیہ 'علی نامہ' کے خالق نصرتی کا نظریۂ شعر صحت مند اور بامعنی اقدار پر مشتمل تھا۔ اس نے اپنے کلام کو اسی نظریۂ شاعری کی وجہ سے طاقِ گردوں پر لے جاکر رکھا ہے۔ نصرتی نے سخن کی بیل کو یہاں تک بڑھایا کہ وہ فلک کے منڈوے پے جاچڑھی ہے:
کیا میں بچن بیل کو یوں پڑی
پڑی سو فلک کاچ منڈوا چڑھی
دکن کے اس 'تصورشعر' سے قبل اُردو میں تنقیدِ شعر کی روایت موجود نہ تھی۔ تنقید شعر کی جو روایت دکن کے شعرا تک پہونچی وہ عربی اور اس سے زیادہ فارسی ورثے پر مشتمل تھی۔ یہ روایت شاعری میں صنائع بدائع اور طرزِ اظہار کی برتری پر مبنی تھی۔عہدِ وسطیٰ میں اِن دونوں زبانوںمیں شعری ادب کے تعلق سےتقریباً ایک جیسے معیارات ملحوظ خاطر رہے ہیں۔ شاعری کو پرکھنے کے لیے معانی، بیان، بدیع، عروض اور علم قافیہ کی طرف رجوع کیاجاتا تھا۔ دکنی شعرا نے انہی معیارات کو سامنے رکھا۔ نصرتی کہتا ہے:
معانی کی صورت کی ھے آرسی
دکھن کا کیا شعر جوں فارسی
یہی معیار نقد قدیم اردو تنقید نے بھی مستعار لیے اور انہی پر شعروادب کو پرکھا جانےلگا۔ چنانچہ فصاحت، بلاغت، تشبیہ، استعارہ، صنعت لفظی، صنعت معنوی، سلاست، روانی، خوش لہجگی، شیریں کلامی و جادو بیانی جیسے الفاظ و اصطلاحات کا استعمال قدیم تنقید میں عام ہوگیا۔ شاعری کے حسن و قبح اور کلام کے محاسن و معائب کے سلسلے میں جن چیزوں نے دکنی شعرا کی رہنمائی کی اُن میں سب سے اہم اِن کا وجدان تھا۔ دوسرے نمبر پرعلم زبان و عروض تھا جسے شعرا سیکھتے تھے ۔تیسرے قدیم شعرا کے کلام کا مطالعہ اور چوتھے جمالیاتی و فنی قدریں جس میں صنائع وبدائع، تشبیہ و استعارات اور دوسری صنعتیں شامل تھیں۔
دکن کے "تصور شعر" کو ناقدین اور ادبا نے اپنے مضامین میں سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اردو تنقید کی یہ پہلی اینٹ تھی، اِس سے صرف نظر ممکن نہ تھا۔ البتہ جو کام ہوا ، وہ باقاعدہ تحقیق کا نہیں رائے اور خیال کے درجے کا ہے۔ دکن کی شعری تنقیدکے بارے میں جس کمی کا شکوہ کیا جاتا ہے، موجودہ کام خود بھی اسی کم یابی کا شکار ہے۔ دکن کے شعری سرمایے سے صرف نظر کرکے بات کی جائے تو کام کی نوعیت کچھ اس طرح ہے:
ڈاکٹر مسیح الزماں کی کتاب "اُردو تنقید کی تاریخ" اکتوبر 1954ء میں منظر عام پر آئی ۔ یہ کتاب اردو میں تنقیدی شعور کی ابتدا، شعری ادب میں ابتدائی تصور نقد اور اس کے امتیازات و وجوہات سے بحث کرتی ہے۔ مسیح الزماں صاحب نے دکن کے تصور شعر پر، "اُردو تنقید کا پہلا دور" کے عنوان سے وجہی کو بنیاد بناکرتقریباً تین صفحات میں گفتگو کی ہے۔ مثنوی 'پھول بن' مطبوعہ 1978ء پر لکھے گئے اپنے مقدمے میں اکبرالدین صدیقی نے ابن نشاطی کے معیار شعر سے بحث کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ "ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پھول بن سے قبل ابن نشاطی نے شعر کہنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انشا پردازی کی طرف ہی زیادہ مائل رہا ہے"۔ گلبرگہ کے طیب انصاری نے ایک کتاب 'نصرتی کی شاعری' مطبوعہ 1984ءلکھی ۔ انھوں نے کتاب میں "تنقیدی شعور" کے نام سے ایک باب باندھا ہے اورتقریباً گیارہ صفحات میں نصرتی اور اس کے ضمن میں شعرائے بیجاپور اور ولی دکنی کے یہاں پایے جانے والے شعری تصور کا جائزہ لیا ہے۔ اسی طرح مولوی عبدالحق نے اپنی کتاب 'نصرتی' مطبوعہ 1988ء کے ص35 پر'مناجات' کے ذیل میں نصرتی کے "تصور شعر" کو بیان کیا ہے:
عنایت کیا آسمانی مجھے
بچن کی دیا دُرفشانی مجھے
اِسی کتاب کے ص273 پر مولوی عبدالحق نے نصرتی کے کلام پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف پروفیسر شارب ردولوی نے اپنی کتاب 'جدید اردو تنقید: اصول و نظریات' میں "تذکرہ نگاری اور تنقید کے مفہوم کی توسیع" کی سرخی کے تحت دکنی منظومات میں آئے تصور شعر کو بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اپنی کتاب 'اردو تنقید کا ارتقا' میں "منظومات میں تنقیدی خیالات" کے عنوان سے دکن کے تنقیدی شعور کا تقریباً پانچ صفحات میں جائزہ لیا ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے 'مثنوی قطب مشتری' کو مرتب کرکے نئے سرے سے شائع کیا ہے۔ انھوں نے "وجہی کا نظریۂ فن و تنقید" کی سرخی قائم کرکے تقریباً سات صفحات میں مُلّا وجہی کی تنقیدِ شعر کا بیان کیا ہے۔ مذکورہ مضامین اور تحریروں کے علاوہ ڈاکٹر سیدہ جعفر نے کلیات قلی قطب شاہ مطبوعہ 1998ء میں ایک باب "محمدقلی کا تصور شعر" کے نام سے باندھا ہے۔ یہ واحد مضمون ہے جس میں دکن کے شعری شعور کی پیمائش "تصور شعر" کے نام سے کی گئی۔
آصف مبین
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
موبائل: 09990289656
جواہرلال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
موبائل: 09990289656
The concept of 'sher' in Deccan's poetic literature. Article: Asif Mubeen
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں