زبان کا فن - رضا علی عابدی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-06-28

زبان کا فن - رضا علی عابدی

art-of-urdu
درج ذیل مضمون بی-بی-سی اردو کے معروف براڈکاسٹر جناب رضا علی عابدی کی کتاب "اخبار کی راتیں" سے ماخوذ ہے۔ اس کتاب کے چند مضامین مصنف محترم کی اجازت سے تعمیر نیوز پر پیش کیے جا رہے ہیں۔
مضمون-1 : ترجمے کے رموز - رضا علی عابدی
مضمون-2 : یہ مسائلِ تلفظ - رضا علی عابدی
مضمون-3 : زبان کا فن - رضا علی عابدی
ریڈیو ہو، اخبار ہو، ٹیلی ویژن ہو یا دیوار پر لکھی ہوئی تحریر، سب کے پُر اثر یا بے اثر ہونے کا دارومدار زبان پر ہے ۔ یہ کہنا آسان ہے کہ زبان اچھی ہو لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ اچھی زبان کیسی ہوتی ہے۔ میں اپنے تجربے کی بنا پر کچھ پتے کی باتیں لکھنا چاہتا ہوں ۔
اچھی زبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سننے یا پڑھنے والے دل پر اثر کرتی ہے ۔ اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں۔ لکھنے والے کو زبان کا شعور ہو اور سننے یا پڑھنے والے کی شخصیت کی تصویر اس کے ذہن میں ہو۔
میں اپنے تجربے میں عملاً ہزاروں افراد سے ملا ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ میرا قاری یا سامع کون ہے۔ وہ چاہے پان کی دکان چلاتا ہو یا کوئی یونیورسٹی چلاتا ہو ، مجھے سب ہی سے گفتگو کرنی ہے۔

میر تقی میر جیسے عظیم شاعر کے اکثر شعر سلجھے ہوئے ، مختصر اور سہل اس لئے ہیں کہ انہوں نے خود کہا تھا کہ ؎
گفتگو پر مجھے عوام سے ہے
میرے خیال میں سب سے زیادہ پر اثر زبان گفتگو کی زبان ہوتی ہے ۔ وہی سہل ہوتی ہے اور وہی تصنع اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے ریڈیو یا ٹیلی ویژن کو سنیے ۔ جب کبھی وہ لکھی ہوئی عبارت پڑھ کر بول رہے ہوں تو اس میں گاڑھی ہندی جھلکتی ہے اور جب کبھی ان کے سامنے یا ان کے ہاتھ میں تحریری مسودہ نہ ہو تو وہ عام لب ولہجے میں بول رہے ہوتے ہیں جسے ہندی نہ جاننے والے بھی آسانی سے سمجھ لیتے ہیں ۔
یہ ایک عجیب انسانی خاصہ ہے کہ اگر آپ کسی کو دعوت دیں کہ وہ لکھ کر بولے تو امکان یہی ہے کہ وہ جناتی زبان لکھ لائے گا۔ لکھے بغیر بولنے میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ گفتگو میں تسلسل نہ ہو اور بات بے ربط ہو جائے، اس کے باوجود بات بہتر طور پر سمجھ میں آئے گی کیونکہ اس کے سارے انداز فطری ہوں گے ۔ اس میں گاڑھے لفظ مشکل ہی سے آئیں گے ۔
ایسی صورت میں سب سے بہتر راستہ یہ ہے کہ آپ پوری گفتگو حرف بہ حرف لکھنے کی بجائے بنیادی نکتے لکھ کر سامنے رکھیں تاکہ کہی جانے والی کوئی بات کہنے سے نہ رہ جائے۔

ریڈیو والوں کی تربیت میں یہ تک سکھایا جاتا ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپنا اسکرپٹ املا بول کر کسی اور سے لکھوائیں۔ میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ اپنی تحریر مکمل کر کے اسے اونچی آواز سے پڑھیں۔ جگہ جگہ آپ کو لفظوں کی ترتیب بدلنا ہوگی ۔ ایسا نہ کیا جائے تو مائیکرو فون یا کیمرے کے آگے وہی اپنی عبارت پڑھتے ہوئے زبان لڑکھڑا سکتی ہے ۔
ایک اور بہت ضروری بات۔ بے حد ضروری بات۔
آسان زبان لکھئے ، عام فہم زبان لکھئے، ثقیل لفظ لڑھکانے سے علمیت کا اظہار نہیں ہوتا۔ وہ لفظ ہرگز نہ لکھئے جو آپ عام زندگی میں استعمال نہیں کرتے ۔ اس کی ایک مثال لفظ "تاہم" ہے ۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ اپنی تحریر میں یہ لفظ کیوں نہیں لکھتے۔ میں نے ہمیشہ یہ جواب دیا کہ اپنے بیوی بچوں سے بات کرتے ہوئے میں نے لفظ تاہم آج تک استعمال نہیں کیا۔ بعض لفظ میں یہ کہہ کر رد کر دیتا ہوں کہ میری بیوی نہیں سمجھ سکتی ۔ ا پنے بہت سے اسکرپٹ نشر کرنے سے پہلے میں نے پڑھ کر بیوی کو سنائے ہیں۔

ایک اور ضروری بات ، بے حد ضروری ۔
چھوٹے چھوٹے جملے لکھئے۔ طویل اور پیچ دار بلکہ پیچ در پیچ جملے نہ لکھئے۔ پرنٹ میڈیا میں تو وہ شاید چل جائیں۔ ریڈیو یا ٹیلی ویژن پر طویل اور الجھے ہوئے جملے سامع کے ذہن میں وہ تصور قائم نہیں کر سکتے جو لکھنے والے ذہن میں قائم کریں۔ سادہ زبان مختصر جملے قاری یا سامع کے دل میں اتر جاتے ہیں۔
زبان شائستہ ہو تو کانوں اور آنکھوں دونوں کو بھلی لگتی ہے۔ مثال کے طور پر "آپ کبھی ہمارے گھر آئیں" اگر یوں ہو تو کتنا اچھا ہو کہ "آپ کبھی ہمارے گھر آئیے۔"
لیکن جس عبارت کی بالکل معافی نہیں ہے اور جو ٹیلی ویژن پر عام ہوتی جا رہی ہے ۔ اس کی چند مثالیں یوں ہیں:
آپ کبھی ہمارے گھر آؤ۔ آپ کب جاؤ گے ۔ آپ ایک کام کرو۔
ٹھیک ہے، علاقائی لب و لہجے اپنی جگہ لیکن اگر کوئی بہتر، شستہ اور شائستہ لب و لہجہ دستیاب ہو تو اسے اختیار کر لینے میں کیا برائی ہے ۔
مجھے عالمانہ زبان بہت ستاتی ہے ۔ اس کی ایک مثال یہاں درج ہے جو میں نے پاکستان کے ایک بہت بڑے اردو اخبار سے نقل کی ہے:
"زندہ اقوام و ملل اپنے لئے شعائر رکھتی ہیں جو ان کی جرات و دلیری اور عزت و حرمت کی پاسبانی اور پاسداری کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔ اسلام کے نزدیک منتہائے غرض و غایت حیات بشر اور معراج کامیابی و سرفرازی زہد و تقویٰ ہے اور شعائر الٰہی عظمت و بلندی کی علامت ہے۔ اس بنا پر تعظیم شعائر الٰہی نہ صرف لازم ہے بلکہ اسے زہد و تقویٰ کہا گیا ہے ۔"
اس کا کچھ مطلب ہوگا ضرور مگر سر کھپایا جائے تو اس کے بھید کھلیں گے ۔

ایک اور ضروری بات۔ اختصار سے کام لیجئے ۔ اس زمانے میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ لمبی لمبی تحریریں پڑھے ۔ میں نے بارہا طویل خبریں درمیان سے چھوڑ دیں کیونکہ ان میں ایک کہانی مسلسل چلے جا رہی تھی جب کہ کام کی بات کہی جا چکی تھی ۔ بات سمجھ میں آ گئی تھی اور طوالت کی ذرا سی بھی ضرورت نہیں تھی ۔
اس کے علاوہ ایک ضروری بات یہ ہے کہ کہنے کی بات تو چھوٹی سی ہوتی ہے ۔ باقی سب زیب داستاب کے لئے ہوتا ہے ۔ اکثر مضامین میں، اکثر سے میری مراد ہے کثرت سے ، نہایت لمبی چوڑی تمہید ایک عذاب بن جاتی ہے۔ صاحب مضمون بیٹھ کر ادھر اُدھر کی لمبی بات چھیڑتے ہیں اور بڑی مشکل سے اصل بات پر آتے ہیں ۔ اسے بھی یا تو طویل کرتے ہیں یا ایک ہی بات بار بار یا تو ایک ہی انداز مین یا انداز بدل بدل کر کیے جاتے ہیں اور پڑھنے والا یا سننے والا الجھنے لگتا ہے کہ جو بات سرخی یا عنوان میں کہی گئی ہے ، وہ مضمون میں کب آئے گی۔
میں لندن کے ایک اردو روزنامے میں شائع ہونے والا وہ مضمون کبھی نہیں بھولوں گا جس کا عنوان کچھ یوں تھا، 'برطانیہ میں اردو تعلیم کے مسائل'۔ میری اس بات میں ذرا سا بھی مبالغہ نہیں کہ مضمون کچھ یوں شروع ہوتا تھا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر اتارا ۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ آگے کیا لکھا تھا۔ مصنف ہی کو پتا ہوگا۔

پاکستان کے اکثر اخبارات ساری بڑی خبریں اپنے پہلے صفحے پر ٹھونس ٹھونس کر، ان پر چھ چھ سر خیاں لگا کر اور نیچے ان کی دو ڈھائی سطریں دے کر باقی صفحہ فلاں پر ڈال دیتے ہیں۔ پہلے صفحے پر اگر پچیس خبریں ہیں تو فلاں صفحے پر بقیے ہی بقیے بھرے ہوتے ہیں ۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ دیر تک صفحہ الٹ پلٹ کر تا رہے اور بقیہ کی بھول بھلیوں میں مطلوبہ بقیہ ڈھونڈتا رہے؟ جب شکایت کی گئی تو دلچسپ جواب ملا:
کہتے ہیں کہ پتا چلا ہے کہ لوگ صرف سرخیاں پڑھ کر اخبار بند کر دیتے ہیں ۔ اس لیے ایک ایک خبر پر پانچ پانچ سرخیاں جما کر ساری بات نمٹا دی جاتی ہے ۔ بقیہ والے صفحے پر شاید ہی کوئی جاتا ہے ۔
ایک بات ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔

مگر جو ہمارے میڈیا پر ایک لعنت مسلط ہوئی ہے وہ ہے جگہ جگہ انگریزی الفاظ کی بھرمار یا ہندی ترکیبوں کا استعمال مثلاً مسئلے یا معاملے کو مدّا کہنا اور "اس سوال کو لے کر یا اس صورت حال کو لے کر" کا جا بجا استعمال۔ اردو عبارت میں انگریزی تو بے تکان لکھتے چلے جاتے ہیں، جیسے ان کی پہلی زبان انگریزی ہو حالانکہ انہیں اتنی سی بات بھی نہیں معلوم کہ Haven اور Heavenمیں کیا فرق ہے؟ چنانچہ اکثر لکھا جاتا ہے کہ قبائلی علاقہ دہشت گردوں کی بہشت ہے ۔ کمیں گاہ جیسا لفظ انہوں نے کبھی سنا بھی نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر ایک شائع شدہ خبر کا تجزیہ کرنے سے پہلے اخبار، ریڈیو ، اور ٹیلی ویژن کے ساتھیوں سے التماس ہے۔ اپنی تحریر اور تقریر میں حوالے سے، حوالے سے کی تکرار للہ ختم کیجئے۔ اچھے زمانوں میں ہم لکھا اور کہا کرتے تھے "اس بارے میں۔ اس سلسلے میں۔ اس کے تعلق سے۔" لیکن نئی نسل نے یہ ساری ترکیبیں ترک کر کے "حوالے سے" کی رٹ لگانی شروع کی ہے اور حیرت ہے کہ یہ تکرار ان کے کانو ں پر گراں بھی نہیں گزرتی ۔
آئیے اب ایک شائع شدہ خبر کا تجزیہ کریں۔

یہ خبر 6 جنوری 2011ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی تھی ۔ اس میں انگریزی لفظوں کی بھرمار اور بے تکے جملوں کی تکرار حیران کن ہے ۔ مصنف نے عقل مندی کا صرف ایک کام کیا ہے۔ اس نے کہیں اپنا نام نہیں لکھا ہے ۔

پہلی سطر:
تین انگریزی لفظ، ٹی وی رپورٹ، ٹی وی۔ چینل۔
دوسری سطر:
ایک انگریزی لفظ حج اسکینڈل (شاید قضیہ مراد ہے)
چوتھی سطر:
ایک انگریزی لفظ: ایف آئی اے (یہ کیا بلا ہے شاید اہل پاکستان جانتے ہوں گے)
چھٹی سطر:
ایک انگریزی لفظ: کرپشن (شاید بددیانتی مراد ہے)
7 ویں سطر:
رپورٹ
10 ویں سطر:
ایم این ایز (غالباً ایم این اے کی جمع ہے جسے شرفاء ارکان قومی اسمبلی کہتے ہیں)
11 ویں سطر:
اسکینڈل۔ ایف آئی اے۔ ٹیم
12 ویں سطر:
انٹرویوز کیے (بظاہر انٹرویو کی جمع ہے ۔ انٹرویو سے مراد پوچھ گچھ ہے۔ اگر صرف "انٹرویو کیے" لکھتے تو وہ خود ہی صیغہ جمع بن جاتا)
15 ویں سطر:
ڈی جی ایف آئی اے (مراد ہے وفاقی تفتیشی ادارے کا سربراہ)
16 ویں سطر:
دوبارہ ایم این ایز (ان صاحب کو انگریزی لفظوں کا صیغہ جمع بنانے کا بہت شوق ہے۔)
17 ویں سطر:
تیسری بار ایم این ایز
18 ویں سطر:
ڈی جی حج (خدا جانے یہ کس بلا کا نام ہے ۔ کہیں مراد ڈائریکٹر جنرل تو نہیں؟)
19 ویں سطر:
یہ سطر پوری خبر کا حاصل مطالعہ ہے ۔ تبصرہ نہیں کروں گا۔ آپ خود پڑھیے:
"انہوں نے ان کو Coat کرتے ہوئے بتایا" ہمارے طرف اسے Quote کہتے ہیں اور جہاں جائز طور پر لفظ حوالہ لکھا جا سکتا تھا ، ظالم نے انگریزی رسم الخط میں کوٹ لکھا ہے ۔
20 ویں سطر:
ایک بار پھر ایف آئی اے
23 ویں سطر:
"ایک خطیر رقم ان کو دی تھی، یعنی قادر گیلانی کو دی" (لاجواب وضاحت ہے)
24 ویں سطر:
رپورٹ
25 ویں سطر:
ڈی جی حج
27 ویں سطر:
"اس اہم سیٹ پر راؤ شکیل کو تعینات کیا گیا۔" (سیٹ سے مراد عہدہ یا منصب ہے، یہ کسی اسمبلی کی نشست نہیں)
30 ویں سطر:
ایف آئی اے کی تحقیقات میں جا فائنڈنگز ہیں (شرفاء اس کو تفتیش کے نتائج کہتے ہیں)
32 ویں سطر:
" نہ ہی اس سارے معاملے کو ٹچ کیا گیا ہے" (اس ایک لفظ ٹچ پر ساری انگریزی زبان قربان)
36 ویں سطر:
" وہ حلف دینے کے لئے تیار ہیں" (ان کی مراد ہے وہ حلفیہ طور پر کہنے کے لیے تیار ہیں)
37 ویں سطر:
ایک بار پھر ایم این ایز (مہذب لوگ ارکان قومی اسمبلی کہتے ہیں)
38 ویں سطر:
پھر ایم این ایز
43 ویں سطر:
پڑھنے کے قابل ہے۔ ملاحظہ ہو:
"ہمارا اس کے ساتھ تھوڑا سا کمفرٹ لیول ہوا مدینہ شریف میں"
آپ کا یہ کمفرٹ لیول ہوگا، ہماری روح میں تو یہ کانٹا بن کر چبھا۔
45 ویں سطر:
پڑھئے:
"ہم نے راؤ شکیل سے پوچھا کہ آپ ای سی ایل پر ہونے اور نیب کو مطلوب ہونے کے باوجود کیسے ادھر لگ گئے" (ان کی مراد ہے یہاں آپ کا تقرر کیسے ہو گیا اور یہ ای سی ایل کس بلا کا نام ہے؟)
46 ویں سطر:
آگے جوا ب پڑھئے: "تو انہوں نے بولا" (ان کی مراد ہے انہوں نے کہا)
47 ویں سطر:
"تو انہوں نے بولا کہ میں کوئی ایسے تو آرام سے نہیں لگ گیا۔ میں کروڑوں روپے دے کر ڈی جی حج لگا ہوں۔"( کس غضب کا آرام ہے اس فقرے میں)
49 ویں سطر:
"مگر ہم نے جب ادھر اپنی انکوائری کی۔ اپنی ریسرچ کی کہ کس ریفرنس سے یہ پی ایم تک پہنچا" (یہ جملہ جوں کا توں اخبار ڈان میں چھپ سکتا ہے)
53 ویں سطر:
"ہم نے تاریخیں یہ ساری کنفرم کیں" (ان کی مراد ہے کہ ہم نے ان ساری تاریخوں کی تصدیق چاہی)
56 ویں سطر:
"زین سکھیرا عبدالقادار گیلانی کے کلاس فیلو ہیں۔" (پڑھے لکھنے لوگ ہم جماعت کہا کرتے ہیں)
56 ویں سطرجاری ہے:
وہ گیلانیز کے فیملی فرینڈ ہیں۔ (اب میں کیا عرض کروں)
59 ویں سطر:
"عمرے پر وہ گئے ہیں، زین سکیھرا" (کہنا یہ چاہتے ہیں کہ زین سکھیرا عمرے پر گئے ہیں)
60 ویں سطر:
"ان کی جتنی ڈیلز ہوئی ہیں، وہ یہ زین سکھیرا کرتے ہیں۔" (میں چپ رہوں گا)
61 ویں سطر:
"جتنے کانٹریکٹس ہوتے ہیں، یہ ان کے نام پر ہوتے ہیں۔"
62 ویں سطر:
"ان کے بچوں کے جو فرنٹ مین ہیں، وہ زین سکھیرا ہیں اور ان کا تعلق عارف والا سے ہے جو ساہیوال کے نزدیک ہے" (فرنٹ مین کی گلی اور مکان کا نمبر اور ڈاک خانے کا نام بھی لکھ دیتے تو پوسٹ کارڈ کو پہنچنے میں آسانی ہوتی)

یہ ہے اخبار میں زبان کی توقیر اور گفتگو کا احترام ۔ زبان کوئی بھی ہو، معزز ہوتی ہے ، مقدس ہوتی ہے اور واجب الاحترام ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ کھلواڑ معاشرے کی ذہنی کیفیت کی عکاسی بن جاتی ہے۔ زبان کو مسخ کرنے والے نہیں جانتے کہ اس سے ان کے نفسیاتی خلفشار ہی کی نہیں، کم علمی ، کم فہمی اور نا سمجھی کی تصدیق ہوتی ہے اور انہیں بھرتی کرنے والے آجروں اور برداشت کرنے والے ایڈیٹروں کی بےحسی پر دل دکھتا ہے ۔

نوٹ :
مضمون نگار، بی بی سی اردو (لندن) کے معروف براڈکاسٹر رہے ہیں۔
***
فیس بک : Raza Ali Abidi
رضا علی عابدی

The art of Language. Article: Raza Ali Abidi

1 تبصرہ: