حیدرآباد کا پہلا سفر - پروفیسر رشید احمد صدیقی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-02-07

حیدرآباد کا پہلا سفر - پروفیسر رشید احمد صدیقی

hyderabad state map
یہ حیدرآباد ہے ۔ میں علی گڑھ کا ہوں اور یہ شعر اکبر مرحوم کا ہے:
مولوی ہرگز نہ چھوڑیں گے خدا گو بخش دے
گھیر ہی لیں گے پولیس والے سزا ہو یا نہ ہو
یہ بات اکبر کے زمانے میں پولیس والے کرتے ہوں یا نہ ہوں حیدرآباد میں ریڈیو والوں کے ہاتھ میرا یہی حشر ہوا ۔ چنانچہ اب آپ کے سامنے ہوں اور میرے تمام اعمال میرے ساتھ ہیں ، جن میں میرے وہ سب ہی احباب ہیں، جو علی گڑھ سے میرے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب وہ ہیں جن کی تقریر کل اسی نشر گاہ سے سن چکے ہیں۔ انہوں نے ادب میں انقلاب دیکھا ہے ۔ خود ادب نے ان میں کیا دیکھا ہے وہ مجھے اور آپ کو بھی دیکھنا ہے ۔ اردو کے ایک مشہور جواں مرگ ادیب نے ایک موقع پر لکھا ہے:
"مجھے عقبیٰ سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ میں صرف قرۃ العین کے قاتلوں کا حشر دیکھنا چاہتا ہوں۔"
لیکن خاکسار ہرگز ایسا نہیں ہے ۔ مجھے ہر چیز سے دلچسپی ہے ۔ اس ادب سے بھی جس میں صرف قرۃ العین کوئی نہیں قاتل سب ہی ہیں ۔ میں اپنے دوسرے ساتھیوں کا تذکرہ نہ کروں گا۔ وہ اس نشر گاہ کے ادھر ادھر میری فکر میں ہوں گے ۔ رات کا وقت ہے ۔ جب نوجوان اور چور کسی کے قابو میں نہیں ہوتے ، میں بھی ریڈیو کے قابو سے نکل جاؤں گا اور آل انڈیا اردو کانگریس حیدرآباد کے مشاعرے میں جا پہنچوں گا جہاں ہر شخص بے قابو ہوگا ۔ کچھ شعر سننے کے لئے، کوئی داد دے گا ۔ کوئی فریاد کرے گا۔ کوئی مشاعرے میں شرکت کرنے سے ہمیشہ کے لئے کان پکڑ لے گا اور کسی کو کان پکڑوا کر نکلوا دیا جائے گا۔ باز کوئی نہ آئے گا۔

حیدرآباد میں علی گڑھ برداری کی وہ کثرت ہے کہ میرے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات کبھی نہ آئی تھی کہ میرے ملنے والوں میں ہر دوسرا تیسرا شخص علیگ یا کسی علیگ کا رشتہ دار یا پرستار ہوگا۔ میں علی گڑھ والوں کو پاکر یکسر مطمئن ہو جاتا ہوں ۔ اگر مجھ سے بڑا ہوتا تو میں ا سے قرض مانگ لیتا ہوں، برابر کا ہوا تو وہ بغلگیر ہو جاتا ہے اور چھوٹا ہوا تو میں اس سے بستر کھلواتا ہوں اور بازار سے بیڑی منگواتا ہوں ۔ ایک علی گڑھ والا دوسرے علی گڑھ والے سے ایسا ہی واقف ہوتا ہے جیسا اپنی کمزوریوں سے اور اس پر اتنا ہی اعتماد کرتا ہے جتنا اپنی عقل پر ۔
میں کسی معقول آدمی سے ملتا ہوں تو میرے دل میں فوراً خیال آتا ہے کہ وہ علی گڑھ کا گنہگار ضرور ہوگا ۔ اگر وہ نہیں ہوتا تو بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ایسا اچھا آدمی اتنی بڑی نعمت سے کیسے محروم رہا۔ حیدرآباد میں بعض بڑے ہی معقول اور کڑہے ہوئے لوگوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے علی گڑھ میں کبھی پڑھا نہ تھا۔ ان کو میری طرف سے مایوس نہ ہونا چاہئے ۔ ایک بڑ ے مشہور انگریزی ناول نگار نے ایک جگہ لکھا ہے کہ دنیا کی ہر حسین عورت میری محبوبہ ہے ۔ اسی طرح میرا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا اچھا آدمی علیگ ہے ۔ اس میں کوئی محبوبہ آجائے تو مجھے اعتراض نہ ہوگا۔

حیدرآباد میں علی گڑھ والوں کو پاکر میرا ذہن اکثر علی گڑھ کے بسکٹوں کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ممکن ہے آپ کا بھی ہوتا ہے ۔ ان بسکٹوں کی روایت یہ ہے کہ علی گڑھ میں ملیں تو "نان سینس" اور علی گڑھ کے باہر ملیں تو نعمت ، حیدرآباد طویل فاصلوں اور عجیب و غریب اردو ترجموں کا دیار ہے ۔ یہاں کی ترکی ٹوپیاں کافی اونچی ہوتی ہیں۔ پہلے تو مجھے خیال آیا کہ ہر شخص اوپر تلے کئی ٹوپیاں پہنے ہوتا ہے ۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ٹوپی ایک ہوتی ہے ۔ میٹریل البتہ کئی ٹوپیوں کا ہوتا ہے ۔

مجھے حیدرآباد کا محل و قوع بہت پسند ہے ۔ چھوٹی بڑی پہاڑیوں پر دور دور تک پھیلا ہوا ہے ۔ بیچ میں شفاف جھیل ہے جو ارد گرد کی پہاڑیوں اور ان پر بنے ہوئے خوش قطع مکانات کے لئے آئینہ خود بینی کا کام دیتی ہے ۔ کسی بلند مقام پر چلے جائیے سارا حیدرآباد بیک وقت آنکھوں کے سامنے آ جائے ۔ پہاڑیوں کے نشیب و فراز نے منظر کو نہایت درجہ دل آویز بنا دیا ہے۔
یہاں کے مناظر، یہاں کی ہوائیں، یہاں کے پانی کے ذخیرے، بے ڈول لیکن پرشکوہ پتھروں کے چھوٹے بڑے تودے جو کہیں کہیں ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے بچوں کی مانند دیو پیکر دیوتاؤں نے چھوٹے بڑے پتھروں کو کھیل کود کے سلسلہ میں بے خیالی میں ایک دوسرے پر رکھ دیا ہو۔ اور یک بیک کچھ یاد آ گیا ہو اور سب کے سب انکو تنہا چھوڑ کر کسی طرف نکل گئے ہوں اور ہوا کے خفیف جھونکے سے زمین پر آ رہیں گے ۔ یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جس کو دیکھ کر آپ تھوڑی دیر کے لئے بالکل بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں جنگ چھڑی ہوئی ہے یا نہیں یا آپ کے بیوی بچے بھی ہیں یا نہیں۔ جن صاحبوں نے نینی تال کی سیر کی ہے وہ حیدرآباد کے مناظر طبعی کا صحیح اندازہ لگا سکیں گے۔ نینی تال کو سینکڑوں ہزاروں ٹکڑے کرکے زمین پر بچھا دیا جائے اور نینی تال کی نمناک ابدی کہر کو حذف کر دیا جائے تو حیدرآبا دکا نقشہ بن جائے گا۔

نینی تال کے طبعی مناظر کو نظر انداز کردیں تو کوئی بات ایسی نظر نہ آئے گی جس سے آپ کے ذہن و دماغ میں کوئی ہیجان یا حرکت پیدا ہو ۔ حیدرآباد کے مناظر میں یہاں کی تاریخ کچھ اس طرح سموئی ہوئی ملتی ہے کہ آپ یہاں کی قدیم تاریخ سے نہ بھی واقف ہوں تب بھی آپ کا ذہن آپ کے سامنے تاریخی عظمتوں اور تہذیب رفتہ کے عجیب و غریب نقوش اور تصویریں لا کھڑا کرے گا۔ گریز پا تصویریں، پیچھا کر نے والے تاثرات ، باقی رہ جانے والی یادیں اور یادگاریں جن کو دل اس طور محسوس کرتا ہے کہ نہ بیان کیا جا سکے ، نہ اس کو بھلانا گوارا ہو۔
اقبال مرحوم نے ایک مقام پر کہا ہے ؎
سواد رومۃ الکبری میں دلی یاد آتی ہے
وہی شوکت وہی عبرت وہی شان دل آویزی
سواد رومۃ الکبریٰ میں اقبال کو دلی یاد آئی ۔ مجھے سواد حیدرآباد میں اقبال کا شعر یاد آیا اور میں خود بھی اسلام کے سواد اعظم میں اقبال کو یاد کر رہا تھا کہ دوستوں کے ساتھ جامعہ عثمانیہ جا پہنچا ۔ جامعہ عثمانیہ کی عمارات کا نقشہ اور اس کی تعمیر نواب زین یار جنگ بہادر کی رفعت تخیل اور قوت تخلیق کی رہن منت ہے ۔ حسن اتفاق کہ جس دن حیدرآباد میں وارد ہوا اسی دن شام کو نواب صاحب سے ملاقات ہوئی اور جلد ہی فن تعمیر پر سرسری گفتگو ہونے لگی ۔ تھوڑی دیر تک تو میں نے گفتگو کو محض سرسری تفریحی اور اخلاقی مشغلہ کی حدود تک رکھنا چاہا لیکن مجھے جلد ہی یہ محسوس ہونے لگا کہ میں محض ایک انجینئر کے نہیں بلکہ صاحب فن کے سامنے ہوں جس نے فن کو پیشہ کے طور پر اختیار نہیں کیا ہے بلکہ جس کو فن نے خود اپنے لئے اور صرف اپنے لئے منتخب کیا ہے ۔
میں خود کسی فن سے واقف نہیں ہوں ۔ انجینئری سے تو دور کا واسطہ نہیں لیکن میں فن کی برگزیدگی فنکار میں اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں ۔ نواب زین یار جنگ بہادر میں، میں نے یہی بات پائی ۔ ان میں سنگ و خشت کا لہو ترنگ نظر آیا ۔ فن کی صلاحیت اور نزاکت نے ان میں انسانی جسم کا روپ اختیار کر لیا ہے۔ جامعہ عثمانیہ سے جوں جوں قریب ہوتا گیا اس کے مصنف نواب زین یار جنگ کے ذہن کی وسعتیں اور ان کے تصورات کی تعبیریں بے نقاب ہونے لگیں۔ آرٹس کالج کی مکمل عمارت نیچے اوپر دائیں بائیں اندر باہر سے دیکھ ڈالیں ۔ پورے نقشے میں یہ عمارت محض جزو کی حیثیت رکھتی ہے ۔ سارا نقشہ مکمل ہوجائے گا تو نقشہ ہی کچھ اور ہوگا۔

ظاہر ہے اس پر کیا لاگت آئی ہوگی اور پوری تعمیر پر کیا صرف ہوا ہوگا ۔ میں تو صرف یہ سمجھتا ہوں کہ تخلیق کی رفعت و عظمت کو روپیہ پیسوں میں تحویل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ کسی مقدس مقام کو نجس کر دینا۔ آرٹ کی تعمیر آرٹ کی تعبیر ہوتی ہے اور بس کہا جاتا ہے کہ اس عمارت میں ہندوستانی کلچر کی مکمل ترجمانی کی گئی ہے۔ میرے نزدیک آرٹ کا مکمل نمونہ ہندی ہو سکتا ہے نہ ولایتی۔ وہ آفاق گیر ہوتا ہے ۔ یہ نمونہ انسانی برتری اور برگزیدگی کی پہچان ہوتا ہے اور پہنچ بھی۔
جامعہ عثمانیہ کی اس عمارت کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ تاج محل ، لال قلعہ اور جامع مسجد وغیرہ کی تخلیق کن دیو پیکر ذہنوں اور شخصیتوں نے کی ہوگی۔ میں اس امر کا قائل ہوگیا کہ بڑے سے بڑے پیمانے پر سوچنا، بنانا اور انتہائی نزاکت و رعنائی کے ساتھ اس کو مکمل کرنا مسلمانوں ہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے ۔ عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر ایسے دیکھیے تو آپ محسوس کریں گے کہ آپ کسی زبردست عمارت نہیں شخصیت کے سامنے ہیں جس کی موجودگی میں آپ کوئی ایسی حرکت نہیں کرسکتے جو اول درجہ کی نہ ہو ، چنانچہ باوجود اس کے، صدہا نوجوان اس میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں آپ کو کہیں کوئی داغ دھبہ یا خراش نہ ملے گی۔ آرٹ اور فن کی سطوت غیرذمہ دارانہ شخص کو بھی مسجور و مغلوب کردیتی ہے ۔

جامعہ عثمانیہ کی اس عمارت کے سامنے کھڑا ہو کر میں نے غور کرنا شروع کیا کہ انسانی ذہن و فکر اور ایمان و ایقان کیسی کیسی عظمتوں میں اپنے آپ کو بے نقاب کر سکتا ہے ۔ پھر خیال آیا کہ ان عظمتوں کے ہوتے ہوئے انسانیت کی معراج اور زندگی کے بے پایاں اور پراسرار معنویت کے آج کل وہ نوجوان کیوں نہیں قائل ہوتے جن کے لیے یہ عظمتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ میں نواب زین یار جنگ کی فنی اور تخلیقی عظمتوں کا دل سے معترف ہوں لیکن کسی طرح اس سے کم خسرو دکن کا قائل نہیں ہوں ۔ آرٹسٹ نہ کوئی ذات ہے نہ قوم۔ آرٹ گنایا نہیں جا سکتا، نہ قانون میں بانٹا جا سکتا ہے ۔ فیاض اور بہادر بھی آرٹسٹ ہوتا ہے ۔ مقصد کی بلندی اور اہمیت کا مکمل احساس اوراس کی تکمیل میں پورے طور پر معین ہونا اور کسی وسوسہ کو خاطر میں نہ لانا بہت بڑی بات ہے۔ یہاں پہنچ کر آرٹسٹ اور آرٹ کا محسن و مربی تینوں ایسی بلند سطح پر پہنچ جاتے ہیں جس میں کہیں نیچ اونچ نہیں ہوتی۔ آپ تو جانتے ہیں محمود کا ظرف فردوسی کی عظمتوں کا متحمل نہ ہوا ۔

اس عمارت کو دیکھ کر میرا ذہن جنگ کی طرف منتقل ہوا ۔ آج کل جنگ میں نہ پناہ دی جاتی ہے نہ مانگی جاتی ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا زیادہ دن کی بات نہیں ہے متحارب قوتیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہونے کے باوجود روم اور اس کے نوادر کو تباہی سے بچانے میں متفق ہوجاتی ہیں کہ کہیں وہ یادگاریں نہ معدوم ہو جائیں جن کو پھر سے پیدا کرنا ناممکن ہوگا ۔ آرٹ کی اس جیت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
پھر میرے ذہن میں آیا کہ یہ عمارت جو معلوم نہیں کتنی گزشتہ تہذیبی عظمتوں کی آئینہ دار ہے ویران ہونے پر کس عظمت و جلال کا مظہر بنے گی۔ زبردست کھنڈروں میں بھی آرٹ کی عظمت نمایاں اور پائندہ رہتی ہے ۔ میرے نزدیک سب سے پر عظمت اور بامعنی عمارت وہ ہے جس کی تعمیر میں اس کے کھنڈر کی عظمت پوشیدہ ہو ۔ جس جیتی جاگتی عمارت میں کھنڈر کی عظمتیں نہ پوشیدہ ہوں وہ عمارت نہیں کچھ اور ہے۔

یہ سب تو ہوا لیکن سوال یہ ہے کہ جن نوجوانوں کے لئے تہذیبی تصورات کا یہ شاہنامہ تصنیف کیا گیا ہے وہ بھی اپنے اندر ذمہ داری کا کوئی احساس رکھتے ہیں یا نہیں؟ حیدرآباد کے بوڑھے کی یہ امانت، دیکھئے حیدرآباد کے نوجوان کس طرح اٹھاتے ہیں کس طرح لیے رہتے ہیں اور کس طرح زندہ جاوید بناتے ہیں؟ عمارت کی خوبی کوئی معنی نہیں رکھتی اگر اس کی حفاظت تہذیب و تزئین ان روایات سے نہ کی جا سکے جو اس کی تعمیر میں مضمر ہوتی ہیں۔ جب تک اس شاندار اور عہد آفرین عمارت کے ارد گرد شاندار اور عہد آفرین روایات کی فضا نہ قائم ہوگی اس وقت تک نہ اس عمارت کی کوئی اہمیت ہوگی اور نہ ان نوجوانوں کی کوئی حیثیت جن کے لئے یہ وجود میں لائی گئی ہے۔ حیدرآباد کے نوجوانوں کو مخاطب کرکے میں غالب کا صرف ایک مصرع پڑھوں گا اور امید کرتا ہوں کہ نہ تو ثانی مصرع کے پڑھنے کی نوبت آئے گی اور نہ پہلے ہی مصرع کو لہجہ بدل کر دوبارہ پڑھنا پڑے گا ۔ وہ مصرع یہ ہے ؎
کون ہوتا ہے حریف مئے مرد افگن عشق؟

یہ مصرع پڑھا تو ہے میں نے حیدرآباد کے نوجوانوں کو مدنظر رکھ کر لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ مجھے اپنی مسلم یونیورسٹی یاد آ گئی ۔ چنانچہ ایک اور مصرع پڑھ کر آپ سے فی الحال رخصت ہوتا ہوں ؎
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حناکے بعد!

بشکریہ:
مختصر سفرنامے و رپورتاژ، مرتبہ:راشد اشرف
The first journey to Hyderabad. Article:Prof Rasheed Ahmed Siddiqui
Source: Osmania Magazine 1944, Hyderabad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں