ادب میں اختلاف رائے کے اظہار کا طریقہ کیا ہو؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-09-24

ادب میں اختلاف رائے کے اظہار کا طریقہ کیا ہو؟

How to express disagreement in the literature
ناچیز کی ایک پوپ کہانی پر کچھ احباب نے سوالات اٹھائے جس سے میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ذہنوں میں اس طرح کے سوالات کے پیدا ہونے کی نفسیاتی اور تاریخی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ شائد یہ وضاحت ناکافی ہو کیونکہ یہ سوال ہر ایک کے لئے دلچسپی کا باعث ہوسکتا ہے۔ اور ہر قاری کے پاس اس سے بہتر جواب بھی ہوسکتا ہے۔

کسی شعر یا انشائیہ کی خوبصورتی یہی ہیکہ اس کے ہمہ جہت معنے نکلتے ہیں اورہر ایک کو یہی لگتا ہے کہ یہی معنی صحیح ہیں جو اس نے اخذ کیے ہیں۔ لیکن قاری یا سامع جو معنی اخذ کرتا ہے اسی کی بنیاد پر اس کے کامن سینس یا آئی کیو کا تعین بھی ہوجاتا ہے۔ اس لئے سمجھداری کا تقاضہ یہ ہیکہ آپ جو بھی معنی اخذ کریں اس میں یہ گنجائش رکھیں کہ اس کے علاوہ بھی کوئی اور پہلو سے دوسرے معںی ہوسکتے ہیں۔ کم از کم ادب میں یہ رویہ اختیار کرنا لازمی ہے۔ حقِ آزادئ اظہار اگر سلب کرلیا جائے تو پھر قوم پڑھے لکھے گونگوں بہروں کی قوم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے کچھ لوگ نادانستہ طور پر اس بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں جس میں آدمی ہر بات کو مذہب، مسلک، سیاست یا کسی مخصوص نظریات کے فلٹر سے چھان کر تبصرہ و تنقید بلکہ تنقیص کرنے لگتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تخلیق کار بحث و تکرار و کردار کشی کے خوف سے تخلیق چھوڑ دیتا ہے۔

اختلاف الرائے میں مخاطب کے ایمان و عقائد پر شک کرنے کی بیماری کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ ادب میں بھی در آئی ہے۔ اب تو لوگ اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ جو بات ان کی محدود عقل میں سما نہ سکے ، کہنے والے کو لے جا کر سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے مرتدوں کے برابر کر دینا، انہیں انگریزوں کا یا بی جے پی یا سرکار کا ایجنٹ کہہ دینا، تحقیر و تکفیر کرڈالنا لوگوں میں عام ہوتا جا رہا ہے۔ دین کی جو پروگرامنگ ان کے ذہنوں میں اباجان یا پیرومرشد یا امیرِ جماعت نے کردی ہے کوئی بھی شعر، تحریر یا تقریر اگر اس پروگرام میں نہ چلے تو بجائے دوسرا مطلوبہ پروگرام ڈاون لوڈ کرنے کے فوری وائرس قرار دے کر بے تکے تبصرے شروع کر دیتے ہیں۔

اس بیماری کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ انہی کی بنیاد پر ہزاروں مذاہب و مسالک وجود میں آئے جو نہ ایک دوسرے کے خدا کو تسلیم کرتے ہیں، نہ شریعت کو نہ حدیثوں کو۔ ایک دوسرے کی حدیثوں کے دلائل کوبھی یہ کمزور اور ضعیف کرکے رد کرتے ہیں۔ یہ رویہ بے شمار مذہبی معاملات میں دیکھنے میں آتا ہے۔
چونکہ ادب پڑھنے والے رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں۔ جو رہ گئے ہیں وہ مذہبی مطالعہ ہی کی وجہ سے اردو سے واقف ہیں اسلئے شوقیہ کبھی کبھی ادب کی بھی جگالی کر لیتے ہیں۔ اسلئے اس نفسیاتی سانچے سے باہر نہیں نکل سکتے جس کی وجہ سے انہیں ہر وہ شخص جو ان سے اختلاف الرائے کرے، کم عقل، کم علم، گمراہ اور اسلام دشمن یا اسلام دشمنوں سے مرعوب نظر آتا ہے۔

سرسید کے خلاف معرکوں کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ڈپٹی نذیر احمد اور اکبر الہ آبادی وغیرہ جیسے ایسے کئی نام ملتے ہیں جنکی تحریروں میں سر سید کی ہر حرکت پر غیر اسلامی اور انگریز نوازی کا شک کیا جاتا تھا۔ سر سید کے خلاف بے شمار فتوے اور کتابیں لکھی گئیں۔ مائکرواسکوپ لے کر ان کے ہر ہر اقدام میں اسلام دشمنی تلاش کی گئی۔ اور یہی روش بڑھتے بڑھتے ترقی پسندوں کے زمانے تک پہینچی اور انہوں نے مذہب سے بیزاری کا اعلان کرکے حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنے اطراف ایک دیوار کھینچ دی تاکہ ان کو مذہب سے آزاد کر دیا جائے۔ ترقی پسندوں سے ادب کو ترقی تو بہت ملی لیکن دوسری طرف ہمارے مذہبی روئیے کی وجہ سے ترقی پسند ہمارے لاکھوں روشن خیال باصلاحیت تخلیق کاروں کو بآسانی ایک بے مقصدیت کی طرف بہا لے گئے۔ جس میں سوائے شعر و ادب کے اور کچھ نہیں تھا۔

جہاں تک میری پوپ کہانی کا تعلق ہے یہ سعودی عرب کا ایک سچا واقعہ ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں۔ سعودی عرب میں نمازوں کی پابندی کا یہ حال ہیکہ اگر کوئی اذان کے بعد دکان یا آفس بند نہ کرے تو اسے جیل بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن جہاں تک ان کے اخلاق اور دین کے دوسرے اہم فرائض کی ادائیگی کا سوال ہے یہ سعودی عرب میں رہنے والا ہر تارکِ وطن بخوبی جانتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ برائیاں صرف امیر عربوں میں ہیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ انڈیا پاکستان میں پٹرول نہیں نکلا ورنہ ہماری قوم ان عربوں کو بداخلاقیات کے ہر شعبے میں مات دینے کی صلاحیت رکھتی ہے

یہ کہانی اُس مذہبی رویے کی طرف نشاندھی کرتی ہے جس میں دین کا صحیح تصور ناپید ہے۔
اصل دین "الدین معاملہ " یعنی دین معاملہ داری کا نام ہے۔ حقوق العباد کا قیام یا مکارمِ اخلاق کی تکمیل بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ تمام اہم ترین عبادات ہیں لیکن ان کو حقوق اللہ میں شامل کیا گیا ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان ہیں۔ بندے اور بندے کے درمیان معاملہ اصل دین کی پہچان ہے۔
بدقسمتی سے مسائلِ فقہ پر جتنی ضخیم کتابیں لکھی گئیں، حتی کہ طہارت اور ڈھیلے کے استعمال پر جتنی تفاصیل لکھی گئیں، اتنا زور معاملات پر نہیں دیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان کی پہچان داڑھی ٹوپی نماز روزہ وغیرہ تو بن گئے لیکن سچائی ، ایمانداری، عہد کی پابندی، غیبت سے نفرت، حلال کمائی وغیرہ نہ بن سکے ۔ بلکہ ان چیزوں کو ایسے بیان کیا گیا گویا یہ مستحب یا فرضِ کفایہ ہیں۔ اور فقہی مسائل کی اختراع نے ہزاروں ٹن کا ایسا لٹریچر پیدا کیا جس کے نتیجے میں یہ رویہ پیدا ہوگیا کہ بھلے کوئی نماز نہ پڑھے لیکن اگر پڑھے تو اسکے ایمان و عقیدے کا انحصار اس پر ہے کہ وہ ہاتھ کہاں باندھتا ہے، فاتحہ پڑھتا ہے یا فاتحہ نہیں پڑھتا ہے۔ تراویح بھلے نہ پڑھے لیکن اگر پڑھتا ہے تو آٹھ رکعت پڑھتا ہے کہ بارہ کہ بیس۔
ان بحثون کے نتیجے میں پوری قوم اب جارج بُش کے رویہ پر مسلمان ہوچکی ہے۔ جس نے عراق جنگ سے پہلے کہا تھا کہ "یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ ہیں"۔ اس نے کوئی دوسرا آپش نہیں دیا۔ اسی طرح ہمارے ذہن بھی اب یہ بن چکے ہیں کہ اگر آپ سے کسی کا عقیدہ یا عمل یا سوچ یا نظریہ الگ ہو تو دونوں ایک دوسرے کیلئے مشکوک ہوجاتے ہیں۔ اس روش کے نتیجے میں علما، مشائخ، لیڈر، سیاسی و دینی جماعتیں ، دانشور، شاعر و ادیب کوئی بھی ایسے نہیں بچے جن کی عزت و احترام محفوظ ہو۔ حالانکہ ہر ایک میں اگر تلاش کی جائے تو کوئی نہ کوئی سچائی اور اچھائی موجود ہوتی ہے۔

تمام اہلِ ادب سے یہ درخواست ہے کہ اس مذہبی (نہ کہ دینی، کیونکہ مذہب کا معاملہ فقہی و مسلکی معاملات کا ہے اور دین وہ ہے جو قرآن و حدیث سے ہمیں ملا ہے لیکن ہم لوگوں نے مذہب کو دین پر غالب کردیا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے جو طویل ہے ، پھر کبھی اس پر گفتگو ہوگی) رویہ کو ادب میں نہ آنے دیں۔
کسی شعر یا تحریر یا تقریر کی پسند یا ناپسند کی کسوٹی اپنی ذاتی سوچ کو نہ بنائیں بلکہ یہ رعایت دیں کہ ہو سکتا ہے لکھنے والا یا کہنے والا کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہو۔

***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 00966504627452
علیم خان فلکی

How to express disagreement in the literature - Article: Aleem Khan Falaki

1 تبصرہ:

  1. علیم بھائی؛ السلام علیکم



    آپ نے قارئین کی عمومی فکری تحلیل جو کی ہے اُس سے یہ جملہ دل کو لگا "شوقیہ کبھی کبھی ادب کی بھی جگالی کرلیتے ہیں"۔ محترم تھوڑا سا یو ٹرن لینے کی اجازت مرحمت فرمائیں پھر موضوع پر آتا ہون؛ مذاہب اور مسالک کی بناء دینِ اسلام کے ابتدائی ایام سے ہی پڑ چکی تھی لیکن اِن باتوں کو مبسوط و منضبط تحریری شکل میں باب در باب، مسئلہ بہ مسئلہ بعد کو لایا گیا۔ زکات کے نہ دینے پرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے جہاد کا اعلان ہواور اس پر اعتراض یا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا تراویح کا با جماعت شروع کرنا ہواور اس پر اعتراض، مالِ غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ ہو یا مسلمانوں کے باہمی تنازعات پر فیصلے ہوں، اِن تمام پر جو احکامات صادر کئے گئے وہ تمام فقہ کی ذیل ہی میں آنے ہیں اور یہ کوئی بعد کی اختراع نہیں ہے۔



    مسجدوں کا مسلکی بنیاد پر علٰحدہ علحٰدہ کرلینا دورِ حاضر کی اختراع اور بدعتِ خبیثہ ہے۔ سر سید کا آپ نے حوالہ دیا، اُس حوالے سے چند دہے پہلے تک جو قانقاہی نظام رائج تھا اُس کو ہر کہہ و مہہ برا کہتا ہے۔ آگر آپ سیاسی، سماجی، ادبی اور علوم میں سے جن جن معاشرتی اٰکائیوں کے افق پر نگاہ کریں گے اُن اُن اُفقوں پر مسلمانوں کی نمائندگی ننیانوے اعشاریہ نو فیصد اٰن ہی قانقاہوں کے تربیت یافتہ اور فارغ التحصیل لوگوں نے کی ہے۔



    سر سید کے امتِ مسلمہ پر خصوصیت سے اور تمام ہندوستان کے باشندوں پر عمومی اعتبار سے احسانات جس طرح مسلم ہیں اسی طرح دینی فکر کی لکنت اور چند معاشرتی نہائیوں کے خصوص میں کئے گئے فیصلے اربابِ اقتدار کے تئیں مرعوبیت کے بھی غماز ہیں۔ اُن کے معاصرین اور پھر بعد کے نسل سے کچھ نےصرف منفی عینک چڑھا کر اُن کے کارناموں کو دیکھا توکفر کا فتویٰ دے مارا اور جس نے صرف مثبت سوچ کو اپناتے ہوئے نظر کی اُن کو یہ کہتے ہوئے سر چڑھایا کی "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"



    ادب اور علوم کے باب میں بلکہ آپ کے حساب سے زندگی کے ہر معاملے میں عام مسلمانوں کا رویہ "حرام و حلال اور مسلکی تنگ نظری" جو معرضِ وجود میں آیا ہے اس کی ابتداء مغرب کے استعماری دور سے ہوئی۔ دو ماہ پہلے "مخلص صاحب" نے انہی صفحات پر موجودہ دینی مدارس کی ابتداء کا کلکتہ سے شروعات ہونے کا ذکر کیا تھا جو کہ اس وقت کے انگریز وائسرائے کی خصوصی توجہ اور ایماء پر ہوا تھا اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ خالص دینی مدارس خود ایک بدعت ہے اور ایک سازش کہ مسلمان سیاست، معیشت اور معاشرت کے دیگرموضوعات سے دوراور پچھڑے ہوئے رہیں۔ حالاںکہ کچھ حکماء اور پھر اقبال نے بھی اشارہ دیا کہ "جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"۔



    علیم صاحب، ہمیں آپ کے صورت ایک اور سر سید ملا ہے۔ آپ بجائے اپنے سماج کی حالت اور رویہ پر ماتم کناں ہوں اُس کے رویہ کو تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھائیں تحریر اور تقریر سے اور انجمنیں قائم کر کے۔ ایک مستحسن کام تو آپ کر ہی رہے ہیں جہیز و جوڑے کے خلاف آواز اٹھا کرمزید ایک فکری اور عملی کاوش اور سہی۔



    والسلام

    سید منصور شاہ

    جواب دیںحذف کریں