tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post1430676150379799042..comments2024-03-24T13:10:01.488+05:30Comments on Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com: ادب میں اختلاف رائے کے اظہار کا طریقہ کیا ہو؟Mukarram Niyazhttp://www.blogger.com/profile/06227726236038562812noreply@blogger.comBlogger1125tag:blogger.com,1999:blog-5839411065975902337.post-59360291856720836482013-09-25T15:37:31.344+05:302013-09-25T15:37:31.344+05:30علیم بھائی؛ السلام علیکم
آپ نے قارئین کی عمومی...علیم بھائی؛ السلام علیکم<br /><br /> <br /><br />آپ نے قارئین کی عمومی فکری تحلیل جو کی ہے اُس سے یہ جملہ دل کو لگا "شوقیہ کبھی کبھی ادب کی بھی جگالی کرلیتے ہیں"۔ محترم تھوڑا سا یو ٹرن لینے کی اجازت مرحمت فرمائیں پھر موضوع پر آتا ہون؛ مذاہب اور مسالک کی بناء دینِ اسلام کے ابتدائی ایام سے ہی پڑ چکی تھی لیکن اِن باتوں کو مبسوط و منضبط تحریری شکل میں باب در باب، مسئلہ بہ مسئلہ بعد کو لایا گیا۔ زکات کے نہ دینے پرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے جہاد کا اعلان ہواور اس پر اعتراض یا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا تراویح کا با جماعت شروع کرنا ہواور اس پر اعتراض، مالِ غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ ہو یا مسلمانوں کے باہمی تنازعات پر فیصلے ہوں، اِن تمام پر جو احکامات صادر کئے گئے وہ تمام فقہ کی ذیل ہی میں آنے ہیں اور یہ کوئی بعد کی اختراع نہیں ہے۔<br /><br /> <br /><br />مسجدوں کا مسلکی بنیاد پر علٰحدہ علحٰدہ کرلینا دورِ حاضر کی اختراع اور بدعتِ خبیثہ ہے۔ سر سید کا آپ نے حوالہ دیا، اُس حوالے سے چند دہے پہلے تک جو قانقاہی نظام رائج تھا اُس کو ہر کہہ و مہہ برا کہتا ہے۔ آگر آپ سیاسی، سماجی، ادبی اور علوم میں سے جن جن معاشرتی اٰکائیوں کے افق پر نگاہ کریں گے اُن اُن اُفقوں پر مسلمانوں کی نمائندگی ننیانوے اعشاریہ نو فیصد اٰن ہی قانقاہوں کے تربیت یافتہ اور فارغ التحصیل لوگوں نے کی ہے۔<br /><br /> <br /><br />سر سید کے امتِ مسلمہ پر خصوصیت سے اور تمام ہندوستان کے باشندوں پر عمومی اعتبار سے احسانات جس طرح مسلم ہیں اسی طرح دینی فکر کی لکنت اور چند معاشرتی نہائیوں کے خصوص میں کئے گئے فیصلے اربابِ اقتدار کے تئیں مرعوبیت کے بھی غماز ہیں۔ اُن کے معاصرین اور پھر بعد کے نسل سے کچھ نےصرف منفی عینک چڑھا کر اُن کے کارناموں کو دیکھا توکفر کا فتویٰ دے مارا اور جس نے صرف مثبت سوچ کو اپناتے ہوئے نظر کی اُن کو یہ کہتے ہوئے سر چڑھایا کی "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"<br /><br /> <br /><br />ادب اور علوم کے باب میں بلکہ آپ کے حساب سے زندگی کے ہر معاملے میں عام مسلمانوں کا رویہ "حرام و حلال اور مسلکی تنگ نظری" جو معرضِ وجود میں آیا ہے اس کی ابتداء مغرب کے استعماری دور سے ہوئی۔ دو ماہ پہلے "مخلص صاحب" نے انہی صفحات پر موجودہ دینی مدارس کی ابتداء کا کلکتہ سے شروعات ہونے کا ذکر کیا تھا جو کہ اس وقت کے انگریز وائسرائے کی خصوصی توجہ اور ایماء پر ہوا تھا اِس بات کا بین ثبوت ہے کہ خالص دینی مدارس خود ایک بدعت ہے اور ایک سازش کہ مسلمان سیاست، معیشت اور معاشرت کے دیگرموضوعات سے دوراور پچھڑے ہوئے رہیں۔ حالاںکہ کچھ حکماء اور پھر اقبال نے بھی اشارہ دیا کہ "جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"۔<br /><br /> <br /><br />علیم صاحب، ہمیں آپ کے صورت ایک اور سر سید ملا ہے۔ آپ بجائے اپنے سماج کی حالت اور رویہ پر ماتم کناں ہوں اُس کے رویہ کو تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھائیں تحریر اور تقریر سے اور انجمنیں قائم کر کے۔ ایک مستحسن کام تو آپ کر ہی رہے ہیں جہیز و جوڑے کے خلاف آواز اٹھا کرمزید ایک فکری اور عملی کاوش اور سہی۔<br /><br /> <br /><br />والسلام<br /><br />سید منصور شاہAnonymoushttps://www.blogger.com/profile/08165805068922221063noreply@blogger.com