ممتاز صحافی طارق غازی (سابق منیجنگ ایڈیٹر "سعودی گزٹ") ہفتہ 13/اپریل 2024ء کی شام ٹورانٹو، کینڈا میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی عمر 79 سال تھی۔
انھوں نے انگریزی روزنامہ ' سعودی گزٹ' (جدہ) مین 28 سال خدمات انجام دیں۔ 1945 میں یوپی کے شہر بجنور میں پیدا ہوئے طارق غازی کا تعلق آزادی ہند کے مجاہدین کے خاندان سے تھا۔ ان کا مکمل نام محمد طارق الانصاری غازی تھا۔ ان کے والد حامد الانصاری غازی بھی ایک مجاہد آزادی اور صحافی تھے۔ وہ بمبئی سے شائع ہونے والے اخبار "جمہوریت "کے ایڈیٹر تھے۔ طارق غازی کوئی دس سال کی عمر میں کلکتہ سے اپنے والد کے ساتھ بمبئی آ بسے تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم بمبئی ہی میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم علیگڈھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئی۔ وہ 1979 میں جدہ، سعودی عرب منتقل ہوئے اور سعودی گزٹ سے منسلک ہوئے جہاں انھوں نے 28 سال خدمات انجام دیں۔
قلم کو اپنا ایمان سمجھنے والے صحافی، ایک وضع دار شاعر اور کئی انگریزی اور اردو کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ وہ جدہ کے ادبی و سماجی حلقوں کی ایک معروف و مقبول شخصیت تھے۔ وہ جدہ کی ادبی محافل میں پابندی سے شریک رہتے۔ طارق غازی نے بمبئی میں اپنے ایام شباب ہی میں شعر کہنا شروع کیا تھا۔ وہ ایک دینی مزاج آدمی تھے مگر اس دور کے نامور ترقی پسند شعراء علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، جانثار اختر، اختر الایمان، کرشن چندر وغیرہ کے قریبی احباب میں گنے جاتے تھے۔
وہ سعودی گزٹ سے سبکدوش ہوکر سن 2003 میں کینڈا منتقل ہوئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ کینڈا سے بھی وہ ایک عرصہ تک ہندوستانی اخبارات کے لئے مسلسل بنیاد پر کالم لکھا کرتے تھے۔ اور دم آخر تک تصنیف و تالیف سے جڑے رہے۔
طارق غازی کے سانحہ ارتحال پر منیجنگ ایڈیٹر روزنامہ 'عرب نیوز' سراج وہاب نے اپنے تعزیتی پیام میں کہا کہ طارق غازی کا جہان فانی سے کوچ کر جانا انگریزی و اردو صحافت اور ادب کا ایک بڑا نقصان ہے طارق غازی اسلامی تاریخ، دور عثمانیہ اور آزادی ہند کی تاریخ کا ایک بولتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ آج تاریخ ہند جو مسخ کر دی گئی یا تاریخ کے فراموش کردہ باب طارق غازی کی زبان کی نوک پر تھے۔ جدہ میں طارق غازی اور ان کے رفقاء کا دور ایک سنہری دور تھا۔ جدہ میں طارق غازی کے دیرینہ رفیق رہے عبد الغفور دانش نے طارق غازی کے ساتھ گزارے یاد گار لمحوں اور ان کی زندگی پر فوری طور پر اپنے خیالات قلم بند کیے اور بطور خراج عقیدت ان خیالات کو سوشیل میڈیا پر جاری کیا۔
رپورٹ : کے این واصف (بشکریہ: روزنامہ سیاست، پیر 15/اپریل 2024ء)
جدہ ہی سے محمد اکرم اسد نے خبر دی ہے کہ معروف صحافی اور مفکر انگریزی روزنامہ سعودی گزٹ کے سابق مینجنگ ایڈیٹر محمد طارق غازی کینیڈا میں انتقال کر گئے، طارق غازی تینتیس برس تک روزنامہ سعودی گزٹ جدہ سے بطور مینیجنگ ایڈیٹر منسلک رہے۔اس سے قبل ہندوستان میں ماہنا مہ سائنس ،ابوالکلام ویکلی، چنار سری نگر،عصر جدید کلکتہ کے ایڈیٹر رہے۔وہ مولانا حامد الانصاری غازی ایڈیٹر مدینہ بجنور کے بڑے بیٹے تھے اور مجاہد جلیل مولانا محمد میاں منصور انصاری سرخیل تحریک شیخ الہند کے پوتے تھے، سعودیہ میں بر صغیر پاک و ہند سے تعلق رکھنے والی کمیونٹی نے انکی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت اور لواحقین کے لئے صبر کی دعا کی اور انکی صحافتی خدمات کو سراہا۔
طارق غازی کے مضامین تعمیرنیوز پر پڑھیے ۔۔۔
مسلمانوں کے حالات اور ماضی کی بازیافت
رفیع احمد قدوائی - ایک عظیم انسان
بصیر احمد خاں - علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا ایک خودشکن طالب علم
کچھ علمی و ادبی لطائف - از طارق غازی
معصوم مرادآبادی نے اپنے کالم میں لکھا :
ممتاز صحافی اور ادیب ڈاکٹر طارق غازی گزشتہ روز کینڈا میں انتقال کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ اردو کے جید صحافی مولانا حامد الانصاری غازی کے بیٹے تھے۔ طویل عرصہ جدہ سے شائع ہونے والے”سعودی گزٹ” کے منیجنگ ایڈیٹر رہے۔سعودی عرب جانے سے پہلے وہ کلکتہ کی اردو صحافت سے وابستہ رہے تھے ،جس کا اندازہ درج ذیل خط سے ہوتا ہے جو انھوں نے کلکتہ کی اردوصحافت سے متعلق خاکسار کے ایک مضمون کو پڑھ کر لکھا تھا۔ یہ خط کلکتہ کی اردوصحافت کے دلچسپ گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ ملاحظ فرمائیں۔
محترم معصوم مرادآبادی صاحب
سلام و رحمت
کلکتہ کا جو ذکر کیا تم نے۔۔۔
لطف فزوں تر یوں ہوا کہ اس بہانے ایک بار اور اردو صحافت کا ذکر مذکور ہوگیا۔ اس سلسلہ میں آپ کی مساعی قابل قدر بھی ہیں اورمستقبل کے لیے راہ نما بھی۔
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
اس مضمون سے جہاں اردو صحافت کی تاریخ کا آموختہ ہوا وہاں کچھ یادیں بھی تازہ ہوگئیں۔ میں ستمبر 1971 سے ستمبر1975 تک انگریزوں اور کمپنی بہادر کے پہلے دارالحکومت میں کولوٹولہ ا سٹریٹ کے متوازی بولائی دت ا سٹریٹ کے 9 نمبر میں مقیم رہا۔ تب'جام جہاں نما' سمٹ کر مولانا شائق احمد عثمانی کا جاری کردہ 'عصر جدید'،خان بہادر محمد جان جاپان والے کی ملکیت میں آچکا تھا۔ اسی ادارہ کا شام کا روزنامہ 'امروز' اقبال اکرامی صاحب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ذرا فاصلہ پر چونا گلی اردو کی فلیٹ ا سٹریٹ تھی۔ وہیں سے ابراہیم ہوش کی ادارت میں شام کا روزنامہ 'آبشار' شائع ہوتا تھا۔ اس کے پاس ہی ساگر دت لین میں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اور میرے زمانہ میں ان کے صاحب زادے احمد سعید ملیح آبادی کے روزنامہ 'آزاد ہند' کا دفتر تھا، چونا گلی میں قدرے پہلے روزانہ'ہند' کا دفتر تھا جس کے اڈیٹر میرے پرانے کرم فرما رئیس الدین فریدی تھے، وہیں سے کریم رضا مونگیری مرحوم کا فلمی ہفتہ وار 'عکاس' شائع ہوتا تھا جو بعد میں شام کے روزنامے میں تبدیل ہوگیا تھا۔ اسی نواح میں شام کے روزنامہ 'غازی' کا دفترتھا، اس کے محترم مدیر کا نام ذہن سے محو ہوگیا۔ قریشی تھے اورجری آدمی تھے۔ کولوٹولہ اسٹریٹ میں لور چت پور روڈ کے آس پاس غالباً ہرن باڑی میں شہزادہ سلیم کا ہفتہ وار'الہلال' شائع ہوتا تھا۔ عبدالعزیز ایک ہفتہ وار غالباً 'تعمیر ملت' شائع کرتے تھے۔ وسیم الحق انگریزی ہفتہ وار'ا سٹرگل' شائع کرتے تھے، بعد میں انہوں نے روزنامہ'اخبار مشرق' شائع کرنا شروع کیا۔ وسیم الحق کے چھوٹے بھائی جسیم الحق فلم ویکلی شائع کرتے تھے۔ بعد میں کلکتہ سے روزنامہ 'اقرا' کااجرا ہوا۔
احمد سعید ملیح آبادی صاحب کی اولاد میں اردو کا شغف نہ رہا تو وہ اخبار بیچ کر ملیح آباد چلے گئے۔ میرے چلے آنے کے بعد'عصر جدید' بھی زیادہ عرصہ نہ چلا۔ پھر خان بہادر محمد جان کا خاندان اپنے آبائی وطن دہلی منتقل ہوگیا۔ ابراہیم ہوش کے انتقال کے بعد ان کے دوست اور شاعر سالک لکھنوی کی ادارت میں 'آبشار' شائع ہوتا رہا۔ اقبال اکرامی صاحب اللہ کو پیارے ہوئے تو 'امروز' بھی دیروز ہوگیا۔ اب کلکتہ میں اردو اخبارات کا کیا حال ہے مجھے خبر نہیں۔
کلکتہ کے مزید چند اردو صحافی دوست جو اکثر یاد آتے ہیں: رضوان احمد (آزاد ہند)، پاکستا نی شاعر منیر نیازی کے ہمنام منیر احمد نیازی(آزاد ہند)، محمود ایوبی(بعد میں بمبئی کے ہفتہ وار 'بلٹز'اردو کے مدیر)، سید ناظر الحسینی (عصرجدید) عبدالمالک (عصر جدید)، بدر عالم(عصر جدید / امروز)، اے اے اے نشاط، ہندستانی مورخ سید رئیس احمد جعفری کے الہ آبادی ہمنام رئیس جعفری(عصر جدید) وغیرہ۔
میں ستمبر1971 میں کلکتہ آیا۔ لوور چت پور روڈ سے چورنگی کی ٹرام میں بیٹھ کر چورنگی، شکسپئر سرانی، پارک سرکس، کلکتہ میدان وغیرہ کی سیر کی، لوگوں سے میل ملاقات ہوئی تو میرا تاثر تھا کہ کلکتہ شہر نہیں تھا' وہ ایک کروڑ آبادی والا دنیا کا سب سے بڑا قصبہ تھا۔ اب دیدی کی ممتا نے اسے کیا روپ دیا ہے کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔
ایک بار پھر اس وقیع اورمعلوماتی مضمون پر معصوم مرادآبادی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
محمد طارق غازی (وھٹبی۔ کینڈا۔ جمعرات 2/جون 2022ء)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں