تاروں کی آخری منزل - افسانہ از تبسم فاطمہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-03-31

تاروں کی آخری منزل - افسانہ از تبسم فاطمہ

taaron-ki-aakhri-manzil-short-story-by-tabassum-fatima

میں ایک بار پھر سے غائب تھی۔
ہمیشہ کی طرح صبح ہوتے ہی میں اپنے ضروری کاموں سے فارغ ہو کر اپنے کمرے میں آئی اور آئینہ کے سامنے کھڑی ہوئی تو آئینہ میں کوئی تھا ہی نہیں۔ ممکن ہے آپ اسے میرا وہم سمجھیں مگر آئینہ کی دنیا ویران تھی۔ شدت جذبات سے میں نے آنکھیں بند کر لیں۔ دوبارہ آنکھیں کھولیں تو آئینہ میں مجھے میرا ہی عکس ہلتا ڈلتا ہوا نظر آیا۔
کیا یہ میں ہوں۔۔۔۔۔؟
چہرے کی شادابی غائب تھی۔ خوبصورت لباس کی جگہ ایک جھولتا ہوا لباس میرے جسم پر ڈول رہا تھا۔ میں نے آنکھیں مل کر ایک بار پھر آئینہ کو دیکھا۔ آئینہ سے شام کے قہقہے بلند ہو رہے تھے۔
'روبی۔ اب عمر ہو رہی ہے تمہاری۔۔۔'
میں ایک لمحے کے لیے چیخ پڑی تھی۔ 'شام۔ تم عمر کو کب سے ماننے لگے ؟'
'میں نہیں مانتا۔' شام کے قہقہے غائب تھے۔
'مگر عمر ہوتی ہے روبی۔ اور ایک دن عمر کے احساس کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ ایک دن عمر کے پرندوں کے چہروں پر بھی جھریاں چھا جاتی ہیں۔ ایک دن پرندے اس شان سے نہیں اڑ پاتے جیسے اڑان سیکھنے کے فوراً بعد اڑتے پھرتے ہوں۔ ایک دن ٹھہری ہوئی ندی کی طرح عمر ٹھہر جاتی ہے۔'
میں اچانک چونک گئی تھی۔ ساحل مجھے آواز دے رہا تھا۔ آپ ساحل کو نہیں جانتے۔ ساحل میرا بیٹا۔۔ میرا پیارا بیٹا۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے سترہ سال کے جوان لڑکے میں تبدیل ہو کر میرے سامنے آتا ہے تو ایک بار پلکیں جھپکانا بھول جاتی ہوں۔
ہونٹوں پر درود کی صدا ہوتی ہے کہ اللہ میرے بچے کو ہمیشہ نظر بد سے محفوظ رکھنا۔ پھر مسکرا کر اس کی طرف دیکھتی۔۔۔ جیسے سب کچھ ابھی ابھی گزرا ہو۔
ابھی تو چھوٹا تھا ساحل۔۔۔۔۔ ننھا منا سا۔ اس کی انگلیوں سے کھیلتا ہوا۔ اس کے پاؤں سے چلتا ہوا۔۔ یہ بچے بھی کتنی جلد بڑے ہو جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے۔ پتہ بھی نہ چلا اور ساحل کے پر لگ گئے۔۔۔
میں چونک گئی تھی۔ ساحل آواز دے رہا تھا۔
'کہاں ہو ممی۔۔۔'
تلاش کرتا ہوا اچانک وہ کمرے میں آ گیا تھا۔
'لو تم یہاں ہو۔ میں کہاں کہاں نہیں تلاش کر رہا تھا۔ اف ممی۔ صبح صبح تو اتنی بزرگ مت بن جایا کرو۔۔۔۔۔'
'شی۔۔۔ بزرگ۔۔۔ آپ کو بتاتی ہوں۔'
ساحل اردو بالکل نہیں جانتا۔ کوشش کی کہ مولوی رکھ لوں مگر ساحل اردو نہیں سیکھ سکا۔ ہاں شام کے منہ سے اردو کے الفاظ سن کر انہیں دہرانا نہیں بھولتا۔ ایک بار شام نے ڈنر کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
ہم اب بزرگ ہو گئے ہیں۔'
ساحل نے چونک کر پوچھا تھا۔ 'بزرگ۔۔۔؟'
'اولڈ پرسن' شام نے سمجھایا تھا۔ اس دن سے ساحل ہمیشہ اسے چھیڑتا ہے: 'ممی۔۔۔ تم بزرگ ہو گئی ہو ۔۔۔'
چہرے پر ایک ہلکی سی ہنسی نمودار ہوئی۔ لیکن فوراً ہی یہ ہنسی غائب بھی ہو گئی۔ پلٹ کر ساحل کو دیکھا۔
'کیا بات ہے؟'
'مجھے اسکول کے لیے دیر ہو رہی ہے۔'
'پیسے چاہئیں۔'
'ہاں'۔
'کتنے پیسے چاہئیں؟'
'ممی پوچھا مت کرو'۔ ساحل کے چہرے پر ناگواری بھرا احساس تھا۔
'اور ہاں کل پیرنٹس میٹنگ ہے۔ وہ ہنس رہا تھا۔
'ساتھ چلو گی۔ مگر پلیز ، بزرگ بن کر مت جانا۔۔۔۔۔'
ساحل پیسے لے کر جا چکا ہے۔ وہ سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آئی تو شام باہر نکلنے کی تیاریوں میں تھے۔ شام اسے دیکھتے ہی سنجیدہ ہو گئے۔ وہ شام کے ساتھ چلتی ہوئی ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئی۔
شام کے چہرے پر گہرے بادل چھائے تھے۔ وہ مسلسل ایک ٹک شام کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ لے رہی تھی۔ شام نے گلے کو کھنکھارا پھر اس کی طرف دیکھا:
'کچھ کہنا تھا رو بی تم سے۔۔۔'
'ہاں بولونا۔۔۔۔۔'
'وہ اپنے مجید بھائی۔۔۔'
'مجید بھائی۔۔۔؟' میں چونک کر شام کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔


مجید بھائی کو آپ نہیں جانتے۔ لیکن میں آپ کو بتاتی ہوں، یہ دنیا کبھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں رہی۔ شاید اسی لیے آج بھی یہ دنیا حسین ہے۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں، خدا کی بنائی ہوئی کائنات میں کوئی برا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں جرم، گناہ جیسے الفاظ نہیں جانتی۔ میری لغات میں بے وفا، بد چلن جیسے الفاظ ہیں ہی نہیں۔ اور شاید شام کا بھی یہی رخ ہے۔ شام بھی کبھی کسی کے بارے میں برا نہیں سوچتے۔ ہم دونوں کے مزاج میں بھی یکسانیت تھی۔ شاید اسی لیے ہمارا ملنا بھی ہوا کہ ہم دونوں ایک ہی طرح سے سوچتے تھے۔ ان دنوں شام ٹی وی کے لیے چھوٹے چھوٹے پروگرام بنایا کرتے تھے۔ میں زندگی میں آئی تو میں نے بھی شام کا ساتھ دینا شروع کیا۔ ساحل زندگی میں آیا تو جیسے کا ئنات روشن ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا، جب ہم آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے تھے۔ ہمارے پاس پروگرام کے ڈھیر تھے۔ پھر جیسے زندگی خوشیوں کے نئے نئے باب لکھنے لگی۔ اپنا گھر ، اچھی سی گاڑی اور خوشیوں کے، حاتم طائی کی کہانیوں کی طرح سات دروازے۔۔ ہر دروازے پر ایک نئی روشنی۔۔۔ تب یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ خوشیوں کے رنگ بہت جلد اتر جاتے ہیں۔
ہم شاید وقت سے زیادہ تیز بھاگنے میں یقین کر رہے تھے۔ اور اچانک ٹی وی کی دنیا میں نئے لوگوں کی آمد نے ہمارے لیے پروگرامس کے دروازے محدود کر دیئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی اڑان ہم سے بھی کہیں زیادہ تیز تھی۔ وہ سب کچھ کر سکتے تھے۔ ایک پروگرام کو پانے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔ رشوت سے لڑکی تک۔۔۔ اور اس دن پہلی بار شام کا سہما ہوا چہرہ دیکھا تھا میں نے۔۔۔ شام غصے میں چیخ رہے تھے۔
'اب زندگی مشکل ہو گئی ہے روبی، جو دوسرے کر رہے ہیں وہ ہم نہیں کر سکتے۔'
'جانتی ہوں۔'
'وہ دور بدل گیا۔ نئے لوگوں نے اس میڈیا کو ایک پب ، ایک ویشیا خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔'
"شام۔۔۔" میں شام سے زیادہ زور سے چیخی تھی۔
'ہم دلال نہیں بن سکتے روبی۔ پروگرام ملے یا مت ملے۔ لیکن ایک تہذیب سے نکل کر دلدل میں داخل ہونے کے لیے سوچ بھی نہیں سکتے'۔


اور یہی وہ وقت تھا جب ایک پروگرام کے سلسلے میں مجید بھائی سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ لمبا قد۔ سر پر چھوٹے چھوٹے بال، کرتا پائجامہ۔۔۔ ان کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے بارے میں معلومات کے ذخیرے بڑھنے لگے۔ جیسے معلوم ہوا، ان کے کئی فلیٹ ہیں۔ جیسے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیک وقت وہ مذہبی بھی ہیں اور ترقی پسند بھی۔ مجید بھائی اپنے آپ کو کبھی ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہ سراپا محبت تھے۔ وہ خود کو کبھی مکمل طور پر کھولنے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ اکثر و بیشتر وہ گھر آ جاتے اور جب جاتے تو ان کی گرانقدر باتیں دیر تک ذہن میں ہلچل مچائے رہتیں۔
جب آپ ٹوٹتے ہیں تو کتنا کچھ بدل جاتا ہے۔ پروگرامس میں کمی آنے کی
وجہ سے ساحل کے چہرے پر بغاوت کے عکس ابھر رہے تھے۔ اور ادھر دوسری طرف خوشیوں کی جگہ گھر میں بیماریوں کا بسیرا ہو رہا تھا۔ اور ادھر وقت نے ایسی کروٹ لی کہ مجید بھائی سے شام کو کچھ روپے لینے پڑے۔ مگر یہ مجید بھائی ہی تھے کہ کبھی انہوں نے پیسوں کا تقاضہ نہیں کیا۔ شام اکثر رات کی تنہائی میں کہا کرتے:
'روبی دو سال سے زیادہ ہو گئے۔ مجید بھائی کی محبت کہ وہ پیسوں کے بارے میں نہیں پوچھتے۔ مگر۔۔۔'
میں شام کو سمجھاتی: 'کوئی بات نہیں۔ یہ پروگرام ہوگا نا۔۔۔ پھر جو پیسے آئیں گے، وہ مجید بھائی کو دے دیئے جائیں گے۔'


میں پرانی کہانی کی سرنگ سے لوٹ آئی تھی۔ مجید بھائی میری ہی کالونی میں رہتے تھے۔ میں نے چونک کر پوچھا۔
'کیا ہوا مجید بھائی کو۔۔۔؟'
'کل رات ان کے پاس گیا تھا۔'
'ہاں پھر ؟'
'انہوں نے بتایا نہیں لیکن مجھے ڈر ہے کہ۔۔۔'
'ڈر ۔۔۔؟'
'شاید انہیں کینسر ہے۔'


میں زور سے اچھلی تھی۔۔۔
'تمہیں یاد ہے روبی ابھی دو مہینے پہلے وہ آئے تھے۔ صرف دو مہینے پہلے۔۔۔ ایک لمحہ۔۔۔ ایک لمحہ۔۔۔ یہاں اس دنیا میں انسان کو بزرگ کر دیتا ہے۔ صرف ایک لمحہ۔ کل رات مجید بھائی کو دیکھ کر ایسا ہی لگا۔ دو مہینے پہلے تک وہ جوانوں سے کہیں زیادہ جوان دکھتے تھے۔ مگر کل رات انہیں دیکھ کر یقین نہیں آیا کہ یہ وہی مجید بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔'
'انہوں نے پیسوں کے لیے کچھ کہا کیا ؟'
'نہیں۔۔۔'
شام کی آواز ابھی بھی بھیگی ہوئی تھی۔
'اب ڈر جاتا ہوں روبی۔ بس ایک لمحے میں تارے ڈوب جاتے ہیں۔ ایک لمحے میں پرندہ پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ پھر۔۔۔ سے موت کے کنویں میں اتر جاتا ہے۔ شاید مجید بھائی کو دیکھ کر ڈر گیا ہوں۔۔۔'
شام گاڑی لے کر جا چکے ہیں۔۔۔ لیکن شام کی آواز گونج رہی ہے۔ مسلسل کانوں کے پاس نقارے بج رہے ہیں۔ ایک لمحہ۔۔۔ ایک لمحہ۔۔۔ فلک کے دشت پر تاروں کی آخری منزل۔۔ ایک لمحے میں منزل کی ڈگر گم ہو جاتی ہے۔ جیسے میں آئینہ کے سامنے کھڑی تھی اور غائب تھی۔۔


میرے بدن میں جھرجھری کی پیدا ہوئی۔۔۔ کانوں میں ساحل کی آواز اتر رہی تھی۔
'ممی تم بزرگ ہوگئی ہو۔۔۔'
میں تھم سی گئی ہوں۔ جیسے جسم میں خون کی گردش رک گئی ہو۔ میں خود کو سنبھالتی ہوئی سیڑھیوں سے اوپر کی منزل طے کرتی ہوں۔ یہ میرا کمرہ ہے۔ میرا بیڈ روم۔۔۔ میں ایک بار پھر بیڈ روم میں آئینہ کے سامنے کھڑی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ میں ایک تھرتھراتا ہوا عکس ہے۔۔۔
اور آپ میرا یقین کیجئے وہ تھرتھراتا ہوا عکس جیسے ایک سکنڈ میں ہلتا ہوا آئینہ سے غائب تھا۔ میں سامنے کھڑی تھی۔
مگر آئینہ کا سناٹا میرا مذاق اڑا رہا تھا۔

***
ماخوذ از مجموعہ: تاروں کی آخری منزل (افسانے) ، سنِ اشاعت: 2012ء

Taaron ki aakhri manzil, short-story by: Tabassum Fatima

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں