صوبہ مہاراشٹر کے قدیم مدارس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2024-04-30

صوبہ مہاراشٹر کے قدیم مدارس

islamic-education-system

مہاراشٹر کے قدیم دینی ادارے:
مہاراشٹر کے قدیم مدارس کے سلسلے میں ایک عرب سیاح ابن بطوطہ کا بیان:
ابن بطوطہ (ولادت 703ھ، وفات 779 ھ) کے بیان کے مطابق شہر ہونور جو ممبئی تھانے سے قریب ایک شہر ہے (یہ ایک خوبصورت شیر باغات سے گھرا ہوا، پانی کی فراوانی، زمین، زرخیز) یہ ایک کھاڑی میں واقع تھا۔ جس میں بیرونی جہازوں کی آمد رہتی تھی۔ شہر ہونور کے باشندے دیندار اور نیک بخت ہیں۔ یہاں کی عورتیں حافظ قرآن ہیں۔ یہاں تیرہ13 مکتب لڑکیوں کے اور 23 تئیس لڑکوں کے ہیں۔ سوائے شہر کے یہ بات میں نے کہیں نہیں دیکھی۔ تحقیقات اسلام ص 46 1996


ماہم ممبئی کا مدرسہ
قطب کوکن حضرت مخدوم علی مہائمی (ولادت محرم 776ے 835ھ) کے زمانے میں ماہم میں ایک مدرسہ تھا جہاں حضرت مخدوم علیؒ مصرف درس و تدریس رہے۔ ان کے ایک شاگرد شیخ محمد سعید کوکنی کے بارے میں مولوی سید امام الدین گلشن آبادی نے اپنی کتاب تاریخ الاولیاء میں ذکر کیا ہے کہ ان سے سینکڑوں طالبان علم نے علم حاصل کیا اور یہ رتناگیری میں مدفون ہیں ۔ (لوک راجہ ستمبر اکتوبر 2009)


شہر ایلج پور کے دینی مدارس:
محمد تغلق (1325ء 1351ء کے زمانے میں صوبۂ برار کی سلطنت قائم ہوئی جس کا صدر مقام ایلج پور (موجودہ اچل پور) تھا جو تقریباً پانچ سو سال تک علاقۂ برابر کا دارالخلافہ (راجدھانی) رہایہ شہر ہردور میں علوم و فنون کا مرکز رہا اور بے شمار شاعر ، صوفی، ادیب اس سرزمین نے جمع کردئے تھے۔ اسی بنا پر اسے دارالسرور بلدۂ نورایلج پورے سے یاد کیا جاتا ہے۔
بہمنی سلطنت کے حکمران حسن گنگوہی (1347ء 1358ء ) نے ایلج پور کا صوبیدار صفدر خان سیستائی کو بنایا تھا 1378ء میں یہاں سخت قحط پڑا تو اس نے غریبوں کے لئے لنگر خانے، یتیم خانے کھلوائے مدرسے قائم کئے اور طلبہ کے لئے وظائف مقرر کئے دیگر بہمنی سلطنت کے فرمانرواؤں نے بھی یہاں علم و ادب کو خوب فروغ دیا۔ مدرسے قائم کئے۔ اور تعلیمی معیار کوبلند رکھنے کے لئے جید علماء کا تقرر کیا جاتا تھا۔ فطیل خان نے یہاں عربی یونیورسٹی قائم کی تھی۔ (تاریخ کے جھروکے سے ص129) شہر کے محلہ قلعہ میں ایک جامع مسجد ہے جسے محمد تغلق کے عہد میں عمیر کردہ ایک عمارت ہے جسے بھڑکل (برکل) کہا جاتا ہے۔ اس مسجد میں ایک دینی مدرسہ تھا اور یہ عمارت طلبہ کے ہاسٹل کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ (ص73 لوک راجیہ)


بُرھان نظام شاہ کا شیعی مدرسہ احمدنگر میں:
برہان نظام شاہ 1509ء 1552ء جس نے شیعہ مذہب قبول کیا تھا۔ شعیت کی ترویج اور اشاعت کے لئے اس نے مختلف طیرقہ اختیار کئے۔ ایک مدرسہ اثنا عشری قلعہ احمدنگر کے مقابل میں قائم کیا اور اسی کے متصل ایک لگر خانہ دوزدہ امام بھی تعمیر کیا اور ان کے مصارف کے لئے متعدد گاؤں وقف کئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اور مدرسہ مدرسہ بغداد کے نام سے بھی تعمیر کیا تھا۔


شہر اورنگ آباد کے قدیم دینی مدارس:
عہد عالمگیری میں شہر اورنگ آباد علوم و فنون کا مرکز رہا ہے۔ بڑے بڑے علماء و فضلاء، صوفیاء و شعراء یہاں آکر مقیم ہوگئے تھے۔ اورنگ زیبؒ خود بھی زبردست عالم دین تھے اس لئے علم پروری میں انہوں نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔ بڑے بڑے مدارس و مکاتب قائم کئے گئے ۔ جگہ جگہ کتب خانے تھے۔ جس میں مختلف علوم و فنون کی کتابیں جمع تھیں۔ ہمہ وقت تشنگان علوم ان کتابوں سے استفادہ کرتے تھے۔ اس دور کے چند قبل ذکر مدارس یہ ہیں:
1) مدرسہ قدریہ نو شاہ حمویؒ
2) مدرسہ حضرت شاہ شریفؒ
3) مدرسہ حضرت شاہ بابا مسافرؒ
4) مدرسہ مقبرہ رابعہ درانی وغیرہ
ان مدارس میں دینی تعلیم کا بہترین انتظام تھا اور طلبہ کی رہائش کے لئے دارالاقامہ بھی تھے۔ اور کم از کم دوسوطلبہ یہاں مفت تعلیم پاتے تھے۔ (تاریخ اورنگ آباد ص 135)


مدرسہ قادریہ حضرت شاہ نوری حمویؒ:
حضرت سید شاہ نور حمویؒ ادات حسینی ہیں۔ عبداللہ بن سید ایوالعلاء کے فرزند ہیں ۔ شہر خراسان کے قصبہ حمأت (بغداد)میں ہوئی آپا خاندانی سلسلہ بارہویں پشت حضرت عبدالقادر جیلانیؒ سے ملتا ہے۔ اورنگ زیبؒ کے زمانے میں آپ نے اورنگ آباد کا رخ کیا اور محلہ موچی پورہ میں مقیم ہوگئے۔ اور تقریباً 25؍برس تک درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اشد و ہدایت کا کام انجام دیا۔ اور ایک خلق کثیر نے آپ سے فیض حاصل کیا اور آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہونا اپنے لئے باعث سعادت سمجھا حافظ سید شہاب الدینؒ اور خود عالمگیرؒ کا شمار آپ کے خلفاء میں ہوتا ہے۔
مدرسہ قادریہ کے نام سے آپ کا ایک دینی مدرسہ تھا جس میں دو سو طلبہ قیام و طعام کی سہولت کے ساتھ علم یدن حاصل کرتے تھے۔ ارکان دولت و سلطنت سے جو کچھ آپ کو ملتا آپ ان طلباء کی ضروریات میں صرف کرتے تھے۔ دیانت خان نے آپ کے اس مدرسے کی بھرپور مدد کی۔ آپ کے خلفاء اس مدرسے میں درس دیا کرتے تھے۔ چند مشہور خلفاء کے نام یہ ہیں۔
1) حضرت سید شہاب الدین (جو آپ کے بھانجے بھی تھے) 2) حافظ محمد یوسف3) حافظ محمد عمر4) حافظ محمد یسین5) قاضی محمد مسعود6) محمد اکرام (الملقب بہ شیخ الاسلام ثانی)7) حافظ محمد اسماعیل
8) سید سعداللہ۔
حضرت شاہ نوری حمویؒ صاحب تصانیف کثیرہ ہیں جن میں زیادہ تر کتابیں سلوک وطریقت کے موضوع پر ہیں لیکن یہ کتابیں اب ناپیدا ہوچکی ہیں۔


مدرسہ محمد غیاث خان بہادر اورنگ آباد:
محمدغیاث خان بہادر (م 1148ھ؍ 1735ء ) نظام الملک آصف جاہ کے معتمد و مشیر خاص تھے۔ مختلف عہدوں اور مناسب سے انہیں نوازا گیا اورنگ آباد میں محلہ مغل پورہ میں ایک شاندار مدرسہ اور خوبصورت باغ اس نے بنایا تھا۔ اس کا مزار اسی مدرسہ کے احاطے میں واقع ہے۔ (تاریخ اورنگ آباد)


مدرسہ پن چکی حضرت باباشاہ مسافرؒ:
پن چکی اورنگ آباد کے مشہور سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے آتے ہیں ۔ درحقیقت یہاں ایک دینی درس گاہ تھی۔ جہاں دور دراز سے طالبان علوم حضرت باباشاہ مسافر پلنگ پوش سے قرآن تعلیمات حاصل کرنے آتے تھے۔ یہاں طلبہ کے لئے دارالاقامہ (ہاسٹل) بھی تھا۔ طلبہ کے لئے کھانے پینے کا انتظام بھی اسی عمارت میں تھا۔ اسی سبب آٹا پیسنے کے لئے یہاں ایک بڑی چکی لگائی گئی تھی جو پانی کی قوت سے چلتی تھی۔ اسی مناسبت سے اس تاریخی عمارت کا نام پن چکی رکھا گیا یہ پن چکی آج بھی بہترین حالت میں ہے اور سیاحوں کے لئے اسے چلاکر دکھایا جاتا ہے۔ عمارت کے باہر احاطے میں آبشار کے سائے میں طلبہ کو درس دیا کرتے تھے۔ (ص 15؍ستمبر اکتوبر لوک راجیہ 2009ء) 1941ء میں اس پنچکی کے احاطے میں نادار طلبہ کے لئے ایک اقامت خانہ قائم کیا گیا تھا۔ جہاں ان کے خوردنوش کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ 1953ء میں یہ اقامت خانہ اورنگ آباد کی جامع مسجد کے تعمیر شدہ حضروں میں منتقل کیا گیا تھا۔ جامع مسجد کے حضروں میں اب ایک بہت بڑا دینی ادارہ جامعہ کاشف العلوم ہے۔ (تاریخ اورنگ آباد ص111)

***
Dr.Abdul Samad Nadvi
Mob : 9225302029
Head Dept of Arabic, Milliya Arts Science & Management Science College, Beed, M.S

Ancient Madrasahs of Maharashtra Province. Essay: Dr. Abdul Samad Nadvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں