کوئی لوٹا دے میرے : جاوید نہال حشمی کی شگفتہ بیانی کا خوبصورت مرقع - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-23

کوئی لوٹا دے میرے : جاوید نہال حشمی کی شگفتہ بیانی کا خوبصورت مرقع

''بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ مزاح اس مذاق، اس بات یا اس کام کو کہتے ہیں جس کے کرنے میں کسی کو نقصان نہ پہنچے۔ ظاہر ہے یہ غلط ہے۔ مزاح بھی سنجیدگی کی طرح بات کہنے یا کرنے کا ایک اسلوب ہے۔ مزاح تو کبھی کبھی (بقول جاحظ) سنجیدگی سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ مزاح کا مقصد سخت سے سخت بات کو نرم سے نرم انداز میں کہنا ہے۔ کبھی کبھی ہم ایسے لوگوں کے لیے اشارے کنایے میں بات کرتے ہیں جو کھل کر بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن سب سے افضل اور بہتر مزاح وہ ہے جس سے تفریح کے انداز میں لوگوں کی اصلاح مقصود ہو''۔
(غبار حیاتِ/ 310)


مذکورہ بالا باتیں عربی کے معروف دانشور، کالم نویس اور دانشور ڈاکٹر عمر فروخ نے اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھی ہے۔ اس تناظر میں جب ہم اپنے زمانے کے ادیب جاوید نہال حشمی کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو اس فن میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور طنز و مزاح میں بھی ان کے یہاں ایک قسم کی سنجیدگی اور متانت نظر آتی ہے۔ پھکڑ یا سوقیانہ پن کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے یہ برسوں کی ریاضت اور ادب کی حرمت کو جاننے کے بعد آتا ہے اور جاوید نہال حشمی کے یہاں یہ خوبی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
میرے پاس ان کے انشائیوں کا مجموعہ ''کوئی لوٹا دے میرے'' موجود ہے، جس میں کل 33 انشائیے ہیں اور ہر انشائیہ اپنی جگہ پر ایک خوبصورت پھول ہے، جو قاری کو مسکرانے اور اس کے دل کو کو گدگدانے پر مجبور کرتی ہے۔
اس سے قبل یوں تو ان کے افسانے اور نظمیں پڑھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے لیکن اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ اچھے افسانہ نگار ہیں، شاعر یا پھر انشائیہ نگار۔ ان کی کتاب کو جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ ہمارے درمیان اس قدر شگفتہ مزاج قلم کار موجود ہے اور ہمیں اس کی خبر تک نہیں۔


دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کے ایک ایک انشائیے کو پڑھتے جائیے اور سر دھنتے جائیے۔ لفظوں سے بازی گری کا ہنر اگر کسی کو سیکھنا ہو تو اسے جاوید نہال حشمی کے انشائیے ضرور پڑھنے چاہیے۔ ان کے یہ انشائیے اس لیے بھی پڑھنے لائق ہیں کہ وہ کسی چیز کو بیان کرنے کے لیے دور نہیں جاتے بلکہ ہمارے ہی معاشرے اور آس پاس کی چیزوں سے اسے اٹھاتے ہیں اور جھاڑ، پونچھ، چھان پھٹک کر اس خوبصورتی سے اسے لفظوں کا جامہ پہناتے ہیں کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے۔ وہ خود اس کے وجود میں آنے کی کہانی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:


"جستجوئے ملازمت کے دوران مجھے جن تلخ حقائق سے دوچار ہونا پڑا انھوں نے مجھے نہ صرف ذہنی طور پر چڑچڑا بنا دیا بلکہ موجودہ نظامِ معاشرہ سے بغاوت کرنے پر اکسانا شروع کر دیا تھا۔ وہ تو بھلا ہو میرے اندر کے افسانہ نگار کا جس نے میرے ذہن میں اٹھتے ہوئے طوفان کو ایک معقول اظہاریہ دیا اور مجھے گمراہ ہونے سے بچایا۔ طنزیہ و مزاحیہ مضمون "ضرورت ہے" اسی دور کی تخلیق ہے جس کا ہر لفظ میرے ذاتی تجربے کی عکاس ہے۔ اسے میری آپ بیتی بھی کہی جا سکتی ہے۔"
(اپنی بات۔ صفحہ 11)


مصنف کی شگفتہ مزاجی کتاب کے مقدمہ یعنی "اپنی بات" سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ شادی کے واقعہ سے طنز و مزاح کی ابتدا کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"دراصل شادی سے قبل میاں بیوی کے تعلق سے جتنے لطائف پڑھے یا سنے تھے شادی کے بعد بھی انھیں لطائف ہی سمجھتے رہنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اکثر کہا کرتا تھا۔ "اف تم لطیفوں والی بیگمات سے کم نہیں ہو۔" پھر جلد ہی احساس ہو گیا کہ ازدواجاً سینئر لوگوں نے احتیاطاً اپنے تجربے لطائف کے ریپر میں لپیٹ کر دراصل بڑے بلیغ اشارے کیے تھے، میں ہی ان اشاروں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔"


نثر میں شاعری کیسے کی جاتی ہے، اس کا ایک نمونہ دیکھیے:
"ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھایا مگر پسند آنے والی سب کی سب ویٹنگ میں ہی رگئیں، ڈیٹنگ کی نوبت ہی نہیں آئی"۔ (ص:12)
ویٹنگ اور ڈیٹنگ کا خوبصورت استعمال قاری کو مسکرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔


لفظوں سے کیسے کھیلا جاتا ہے اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں، انشائیہ 'واردات کلبی' میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
"اگر عورتیں آنکھیں 'مٹکا کر' اور کولھے 'ٹھمکا کر' مردوں کو ٹپکا سکتی ہیں اور بڑے بڑے کام نکال لیتی ہیں تو مرد بھی 'دُم ہلا کر' ترقی کی سیڑھیاں چڑھ بلکہ پھلانگ سکتا ہے۔ البتہ بحیثیت شوہر یہ اسلحہ صرف 'بندگی' کی علامت ہے"۔ (ص 37)


"بریانی ایک ترقی بخش غذا" میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
"دیکھنے آنے والوں کے لیے بھی لڑکی والے لڑکی سے زیادہ ناشتے اور بریانی پر محنت و توجہ صرف کرنے کے قائل ہوتے ہیں تاکہ صورت، سیرت، تربیت و صلاحیت میں کسی قسم کی کمی کو بریانی سے پورا کیا جا سکے۔" (ص:82)


طنز کے تیر کس طرح چلاتے ہیں کہ پڑھنے والا مسکراتا بھی ہے اور سوچنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے کہ بات تو واقعی غور کرنے والی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں انشائیہ "دنیا سمٹ رہی ہے" سے ایک پیراگراف:
"ہندوستان کی اولین اردو یونیورسٹی عثمانیہ یونیورسٹی، جو کبھی میڈیکل کی ڈگری کی سند بھی خالص اردو میں جاری کرتی تھی، میں اردو اب یونیورسٹی کے مونو گرام تک سمٹ آئی ہے۔ ہندو ازم جس کے پیروکار اپنی وسیع القلبی نیز کشادہ ذہنی پر ہمیشہ فخر کرتے آئے ہیں، آج صرف گائے میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ہماری قومیت، ہماری حب الوطنی کھوکھلے نعروں میں سمٹی جا رہی ہے۔ اگر سمٹنے سمٹانے کے ان سلسلوں کو نہ روکا گیا تو بہت جلد ہماری اعلیٰ تہذیب بھی سمٹ کر وحشی دور میں لوٹ جائے گی، یعنی بیک ٹو اسکوائر ون"۔ (ص: 88)


"زیر لب" کے تحت چند سطری گفتگو کے تحت اسلامی ملکوں کی چپقلش اور ناچاقی پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"سعودی عرب لڑاکا اور جنگی طیاروں کے پُرزے بنانے لگا— ایک خبر/ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوں۔ یہ تیاریاں اسرائیل نہیں ایران کے خلاف ہیں"۔ (ص:201)


پیازچے کے تحت گفتگو میں مہنگائی پر کچھ اس طرح طنز کرتے ہیں :
"پیاز دینا۔۔۔
کتنا دوں صاحب؟ تین کیلو تول دوں؟
ابے آہستہ بول۔۔ انکم ٹیکس والوں کو میرے پیچھے لگائے گا کیا"۔


یہاں پر طوالت کے خوف سے ہم نے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر محض چند مثالیں ہی پیش کی ہیں ورنہ پوری کتاب شگفتگی، خوش مزاجی اور طنز و مزاح کا خوبصورت مرقع ہے، جس کا اعتراف انیس رفیع، ڈاکٹر عابد معز، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی اور پروفیسر اسلم جمشید پوری جیسے صاحبان علم و فن اور شناوران ادب نے کی ہے۔

یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
کوئی لوٹا دے مرے - جاوید نہال حشمی کی کتاب کی رسم اجرا
فن انشائیہ اور جاوید نہال حشمی - از ممتاز انور
جاوید نہال حشمی : پیکر صفات
***
alamislahi[@]gmail.com
موبائل : 09911701772
E-26, AbulFazal, Jamia Nagar, Okhla , New Delhi -110025
--
محمد علم اللہ

Koi lauta de mere, a book of light-essays by Jawed Nehal Hashami. - Reviewer: Mohammad Alamullah

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں