کوئی لوٹا دے مرے - جاوید نہال حشمی کی کتاب کی رسم اجرا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-06

کوئی لوٹا دے مرے - جاوید نہال حشمی کی کتاب کی رسم اجرا

jawed-nehal-hashami-book-release-function

کلکتہ مغربی بنگال کی سرزمین ہوڑہ برج، رس گلے اور مخصوص تہذیب کے لیے جانی جاتی ہے اس شہر سے تعلق رکھنے والے ادیب، مصور، انشائیہ نگار، افسانہ نگار و مائیکرو فکشن نگار جاوید نہال حشمی صاحب نے گزشتہ ہفتہ حیدرآباد کا دورہ کیا۔


اس موقع پر ان کے انشائیوں کے مجموعے"کوئی لوٹا دے مرے۔۔۔" کی رسم اجراء تقریب 29/ڈسمبر 2021ء بروز چہارشنبہ شام 7:00 بجے اردو مسکن، خلوت حیدرآباد پر عمل میں آئی۔ یہ ایک نجی تقریب تھی لیکن اخبارات میں کتاب کی رسم اجراء کی خبر شائع ہونے کے بعد باذوق سامعین کی اچھی تعداد اس تقریب میں شریک رہی۔ اس تقریب کا اہتمام جناب مکرم نیاز صاحب، بانی و مدیر اعزازی تعمیر نیوز ویب پورٹل نے کیا جو جناب جاوید نہال حشمی صاحب کے دیرینہ رفیق ہیں۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

جاوید نہال حشمی سائنس کے ایک اچھے استاد ہیں۔ جو کلکتہ کے مدرسہ عالیہ اینگلو پرشین میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پیشہ تدریس میں ان کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ سائنسی موضوعات کو خوبصورت اشکال کے ساتھ اردو میں اچھی طرح سمجھاتے ہیں۔ اسی طرح سافٹ ویر ٹیکنالوجی کے ماہر ہونے کے سبب وہ اپنے اسباق کے دلکش ویڈیوز اردو زبان میں بھی بنا کر سوشل میڈیا پر پیش کرتے رہتے ہیں۔ اردو ادب سے دلچسپی انہیں وراثت میں ملی۔ اور کلکتہ کی ادبی محفلوں میں وہ اپنے افسانے اور مائیکروفکشن کہانیاں پیش کرتے رہتے ہیں اور دیگر ادبی محفلوں کو بھی رونق بخشتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی دلکش اور حیرت انگیز تصاویر دیکھ کر ڈاکٹر عابد معز صاحب ماہر تغذیہ اور مزاح نگار نے انہیں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی سائنس کانگریس میں مدعو کیا۔ وہ چند اور موقعوں پر حیدرآباد تشریف لا چکے ہیں۔ اس طرح حیدرآباد میں بھی جاوید نہال حشمی صاحب کا حلقہ احباب وسیع ہو چکا ہے۔ وہ شگوفہ کے لیے مضامین اور انشائیے لکھنے لگے۔


اس دفعہ وہ اپنے کسی عزیز کی ملازمت اور قیام کے سلسلے میں حیدرآباد کے دورے پر آئے اور انہوں نے اپنے عزیز دوست مکرم نیاز صاحب سے گزارش کی کہ ان کے انشائیوں کے مجموعے کی رسم اجراء تقریب شہر اردو حیدرآباد میں منعقد کریں۔ مکرم نیاز صاحب نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے اس تقریب کا اہتمام کیا جس کی صدارت پروفیسر سید فضل اللہ مکرم صدر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کی۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر محمد غوث ڈائرکٹر سکریٹری اردو اکیڈیمی تھے جب کہ مہمانانِ اعزازی ڈاکٹر عابد معز، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، پروفیسر مصطفی علی سروری اور راقم الحروف (ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی) تھے۔
جلسے کی کاروائی کا آغاز قاری فرحت اللہ شریف صاحب نے قرأت کلام پاک اور نعت شریف سے کیا۔ اس کے بعد مہمانوں کے اظہار خیال کا سلسلہ شروع ہوا۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

سب سے پہلے مکرم نیاز صاحب نے خیر مقدمی کلمات ادا کئے۔ اور ایک انشائیے کے اسلوب میں انہوں نے دلچسپ اور پر لطف انداز میں جاوید نہال حشمی صاحب کا تعارف، ان سے اپنی تیس سالہ رفاقت اور دوستی کے منفرد بیانیے کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ حشمی کو لوگ اکثر ہاشمی کہتے ہیں جب کہ ان کے والد محمد حشم الرمضان کے نام کی نسبت سے ان کا نام حشمی ہے۔ انہوں نے جاوید صاحب کی افسانہ نگاری، مائیکرو فکشن نگاری اور انشائیہ نگاری کی تفصیلات پیش کیں کہ ان کی نسبی اولاد کے علاوہ تین کتابوں "دیوار،،(2016) افسانوں کا مجموعہ، "کلائیڈوسکوپ" (2019) مائیکرو فکشن کے بعد اب "کوئی لوٹا دے مرے۔۔۔" (2021) انشائیوں کے مجموعے کے ساتھ وہ کثیر العیال ہو گئے ہیں۔ اور امید کی جاتی ہے کہ اردو ادب میں جواں سالی کے سبب وہ مستقبل میں مزید تخلیقات پیش کرتے رہیں گے۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی، صدر شعبہ اردو این ٹی آر کالج محبوب نگر نے اس موقع پر اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے کہا کہ جاوید نہال حشمی کو وہ فیس بک سے جانتے ہیں اور ان کی دلچسپ تحریروں کے ہمیشہ مداح رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انشائیہ ایک ہلکی پھلکی نثری تحریر ہوتی ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی انفرادیت اور چاشنی کے سبب موضوع میں جان ڈال دیتا ہے۔ جاوید نہال حشمی صاحب نے زندگی کے تجربات سے اپنے انشائیوں کے لیے دلچسپ موضوعات حاصل کیے ہیں اور انہیں مزاح کی چاشنی اور حاضر جوابی اور اسلوب کی ندرت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انہوں نے "کوئی لوٹا دے مرے۔۔" انشائیوں کے مختلف اقتباسات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو میں مشتاق احمد یوسفی، پطرس بخاری، کنہیالال کپور، رشید احمد صدیقی، یوسف ناظم اور مجبتیٰ حسین کے بعد جاوید نہال حشمی کی صورت میں اردو انشائیہ نگاری میں ایک خوبصورت اضافہ ہوا ہے۔ اور ان کی انشائیہ نگاری کو فروغ دینے میں رسالہ ”شگوفہ" اور عابد معز صاحب کی حوصلہ افزائی نے اہم کام انجام دیا ہے۔ کتاب کے آخر میں "جاویدیات" اور "پیازچے" کے نام سے چھوٹے چھوٹے جملوں میں زندگی اور سماج پر طنز کرتے ہوئے فقرے جاوید نہال حشمی کی مہارت کی دلالت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے تجویز رکھی کہ اچھی کتابوں کو قارئین تک پہنچانے کے لیے کتاب کو کم قیمت پر قارئین کو فراہم کیا جائے۔ اور ان انشائیوں کو سوشل میڈیا پر تحریر اور آواز کے ساتھ پیش کیا جائے تاکہ عالمی سطح پر موجود محبان اردو ان سے استفادہ کر سکیں۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

مدیر گواہ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز نے کہا کہ حشمی صاحب سے ان کے دوستانہ مراسم ہیں۔ شہر اردو میں ان کا خیر مقدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وباء کے بعد جس طرح زندگی میں ہر طرف مایوسی اور غم کے بادل چھا گئے تھے، لوگ مسکرانا تک بھول گئے تھے لیکن جاوید صاحب کے انشائیے پڑھنے کے بعد قاری کو ایک فرحت بخش احساس ہوتا ہے اور قاری ان انشائیوں کو مکمل پڑھنے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ خیالات کی ندرت اور اظہار خیال کی تازگی ان انشائیوں کی خاص بات ہے۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

جناب مصطفی علی سروری، اسوسی ایٹ پروفیسر مولانا آزاد اردو یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جاوید نہال حشمی صاحب کے انشائیے بوجھل زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی لاتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تازگی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے روزمرہ موضوعات کو فنی مہارت سے انشائیوں کی تازگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب کی ستائش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نئی نسل کے طلباء بھی ان کے انشائیوں کو پسند کر رہے ہیں اس لیے انہوں نے طلباء کو تحفہ دینے کے لیے اس کتاب کی پانچ اضافی کاپیاں خریدنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے تجویز رکھی کہ لوگ اردو کی اچھی کتابوں کو خرید کر پڑھیں۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

حیدرآباد کے بزرگ شاعر جناب یوسف روش اپنی کمزور صحت کے سبب نہ نفسِ نفیس تقریب میں شرکت سے قاصر تھے مگر ان کا لکھا ہوا تہنیتی قطعہ سہیل عظیم صاحب نے پڑھ کر سنایا۔ پھر اس فریم شدہ قطعہ کو پروفیسر مصطفیٰ علی سروری کے ہاتھوں صاحب کتاب کو پیش کیا گیا۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

ڈاکٹر عابد معز صاحب نے اپنے خطاب میں جاوید نہال حشمی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف پیش کیا۔ اور کہا کہ نہ صرف وہ اردو میں سائنس کے ایک مثالی استاد ہیں بلکہ ایک اچھے افسانہ نگار اور انشاء پرداز ہیں۔ حیدرآباد میں مزاح کی صورتحال اور مجموعی طور پر اردو کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عابد معز صاحب نے کہا کہ زندگی کی ناہمواریوں کو طنز و مزاح کے ذریعے اجاگر کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، اسے دوسرے درجے کا ادب کہا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پہلے درجے کا ادب ابھی تک نہیں لکھا گیا یا یہی دوسرے درجے کا ادب گزشتہ کئی سال سے زندگی کے نشیب و فراز میں لوگوں کو فرحت بخش احساس فراہم کر رہا ہے۔
ڈاکٹر عابد معز نے کہا کہ یہ اہل حیدرآباد کے لیے ایک خوش بختی ہے کہ شہر کلکتہ کے ایک ہونہار انشاء پرداز کی کتاب کی رسم اجراء یہاں ہو رہی ہے۔ انہوں نے جاوید نہال حشمی کے انشائیوں کو اردو ادب میں ایک اہم اضافہ قرار دیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ وہ اس طرح اپنے قلم کا جادو جگاتے رہیں گے۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

پروفیسر فضل اللہ مکرم صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ انشائیہ ایک غیر افسانوی صنف ادب ہے اس کے نقوش واضح نہیں ہیں۔ زندگی کے کسی بھی موضوع پر انشائیے لکھے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے انشائیہ کے خد و خال واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انشائیہ مغرب سے اردو میں آیا لیکن ملا وجہی کی سب رس سے لے کر آج اردو کی ہر صنف میں انشائیہ داخل ہو چکا ہے۔ ایک اچھے انشائیہ کے لیے اسلوب کی چاشنی اور اظہار خیال کی انفرادیت لازمی ہے۔ انہوں نے جاوید نہال حشمی صاحب کو مبارکباد پیش کی کہ کلکتہ میں رہتے ہوئے وہ سلیس اردو میں ادب لکھ رہے ہیں۔
انہوں نے خاص طور پر "اپنی بات" کے عنوان سے جاوید نہال حشمی صاحب کی تحریر کو بےحد پسند فرمایا کہ مصنف نے اپنے متعلق جن امور کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا ہے اسے پڑھ کر مسرت آمیز حیرت ہوتی ہے۔ اگر فن کار اور اس کے فن کو سمجھنا ہو تو اسے ضرور پڑھنا چاہئے، بطور خاص واوین میں دئیے الفاظ اور فقرے بڑے دلچسپ اور معنی خیز ہیں۔ ان کے انشائیے واردات کلبی، بیوی: ایک معتبر شک صیت،آسانڈ مجھے۔۔۔ اور دیگر انشائیے ادب میں خوش گوار اضافہ ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ وہ مزید انشائیے لکھتے رہیں گے۔


ڈاکٹر غوث صاحب کسی سبب تقریب میں شرکت نہیں کر سکے تھے اس لیے پروفیسر فضل اللہ مکرم اور دیگر مہمانان کے ہاتھوں کتاب کی رسم اجرا انجام دی گئی۔
اخبار میں کتاب کی رسم اجراء تقریب کی خبر پڑھ کر جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے اوربٹ انگریزی میڈیم اسکول جماعت دہم کے طالب علم محمد حسین کو، ڈاکٹر عمر بن حسن کی جانب سے کتاب کی ایک جلد مصنف کے ہاتھوں دی گئی اور جاوید صاحب سمیت تقریب کے دیگر مہمانان گرامی نے اس امید کا اظہار کیا کہ اردو کا مستقبل ایسے ہی باذوق نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ صاحبِ کتاب نے 15 سالہ محمد حسین کو اصل چیف گیسٹ قرار دیا۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مصنف کتاب جاوید نہال حشمی نے اہل حیدرآباد کا شکریہ ادا کیا اور مزاحاً کہا کہ مقررین نے حسبِ موقع اور حسب روایت کتاب کی ستائش کی مگر وہ چاہتے تو اس کی خامیاں اور کمزوریاں خالص دکنی زبان و لہجے میں کر سکتے تھے، وہ اسے بھی تعریف ہی سمجھ کر محظوظ ہو سکتے تھے۔
انہوں نے مکرم نیاز اور دیگر دوستوں کی مہمان نواز ی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ متعدد حیدرآبادی فیس بک فرینڈس سے روبرو مل کر انہیں بےحد مسرت کا احساس ہو رہا ہے اور یہاں کے اہل اردو کی مہمان نوازی نے ان کا دل جیت لیا ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مزید اپنی قلمی کاوشیں پیش کرتے رہیں گے۔


ممتاز جہد کار ارشد حسین نے اظہار تشکر پیش کیا اور کہا کہ اردو کتابیں بھی عالمی سطح پر آن لائن فروخت کے لیے پیش ہو رہی ہیں اور ان کی خریداری کا عالمی سطح پر اچھا رجحان ہے۔

jawed-nehal-hashami-book-release-function

جناب سہیل عظیم صاحب نے جلسے کی کامیاب نظامت انجام دی۔ اس جلسہ رسم اجراء میں ڈاکٹر غوث ارسلان نامور خطاط، جناب سجاد الحسنین صحافی، جناب جہانگیر قیاس،جناب شفیع الدین ظفر، ڈاکٹر عمر بن حسن، ڈاکٹر رشید، نوجوان صحافی سہیل اختر قاسمی اور دیگر خواتین و حضرات نے شرکت کی۔


جاوید نہال حشمی صاحب کی کتاب ان سے فون نمبر 9830474661 پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔


Jawed Nehal Hashami's light Essays book 'Koi lauta de mere...' release function at Hyderabad. Reportaz: Dr. Mohammad Aslam Faroqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں