عدلیہ : پیمانوں کا فرق - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-05-21

عدلیہ : پیمانوں کا فرق - کالم از ودود ساجد

ملک بھر میں منافرت پھیلانے والوں کی ناک میں نکیل ڈالنے والے مقبول اور پسندیدہ جج، جسٹس کے ایم جوزف نے گزشتہ 19مئی کو اپنی عدالت میں آخری سماعت کی۔ ہر چند کہ ان کی سبکدوشی کی تاریخ 16جون ہے لیکن گرمی کی تعطیلات کے سبب اب وہ سپریم کورٹ نہیں آئیں گے۔


گرمی نے اس ملک کے بہت سے مظلوموں کو ان کے ہاتھوں انصاف پانے سے محروم کردیا۔ ان کی بے باک اور عادل شخصیت کے تعلق سے لکھنے والے لکھتے رہے ہیں۔اب ان کے بہت سے اہم فیصلوں اور ان کے ذریعہ بہت سے اہم مقدموں کی سماعت کی تفصیلات پر بھی لکھنے والے لکھیں گے۔ان کے ساتھ ہی دو اور جج، جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس وی سبرامنیم کا بھی عدالت میں بیٹھنے کا گزشتہ 19مئی کو آخری دن تھا۔


ایک اور جج، جسٹس ایم آر شاہ گزشتہ 15مئی کو ہی سبکدوش ہوگئے تھے۔ ان کے تعلق سے 'لائیو لا' کے "منو سیباسٹین" کا مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنے طویل مضمون کی ابتدا ہی یہاں سے کی ہے کہ: نومبر 2018 میں جس وقت جسٹس ایم آر شاہ کو سپریم کورٹ میں لایا گیا تھا تو اسی وقت سے یہ عام تصور جاں گزیں ہوگیا تھا کہ وہ امکانی طور پر حکومت نواز جج کا کردار ادا کریں گے۔


جس وقت وہ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے انہوں نے عوامی طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خوب ستائش کی تھی۔اس کے چند ماہ بعد ہی وہ سپریم کورٹ آگئے تھے۔انہوں نے وزیر اعظم کو ایک ماڈل اور ہیرو قرار دیا تھا۔اس وقت ان کے اس تبصرے پر نکتہ چینی ہوئی تھی۔روایتی اور اخلاقی طور پر ججوں کا اس طرح کھلے عام سیاسی لیڈروں کے تئیں اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنا معیوب سمجھاجاتا ہے کیونکہ انہی لیڈروں کے ذریعہ کئے گئے فیصلے عدالتی جائزوں کیلئے ان کے سامنے لائے جاتے ہیں۔


منو سیباسٹین نے لکھا کہ نہ صرف تقریروں کے ذریعہ وزیر اعظم کی ستائش بلکہ فیصلوں کے ذریعہ اس کا اظہار تک ان کا معمول بن گیا۔ بعض مواقع پر وہ 'لا اینڈ لاجک' یعنی قانون اور منطق کو کھینچ کر اس حد تک لے گئے کہ جس سے ان کا امتیازی رویہ پہلے سے ہی ظاہر ہوگیا اور جو حادثاتی طور پر یا اتفاقی طور پر حکومت کے حق میں فیصلہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔


یہ ایک تکلیف دہ رجحان ہے جس پر خود جسٹس شاہ کو کوئی ندامت نہیں ہے۔ انہوں نے سبکدوشی کے بعد انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں وزیر اعظم سے اپنے رشتوں اور ان کی شخصیت کی ستائش کے جملوں پر کوئی افسوس یا ندامت نہیں ہے اور یہ کہ انہیں چند لوگوں کی نکتہ چینی کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ کس بات کی ندامت؟ کیا میں نے وزیر اعظم کی تعریف کرکے کوئی غلط کام کیا؟


انہوں نے وضاحت کی کہ جج کے طور پر میں نے کسی بھی تعلق کی بنیاد پر یا بدنیتی سے کوئی فیصلہ نہیں کیا بلکہ میں نے فقط قانون کے مطابق فیصلہ کیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے کئی فیصلے حکومت کے خلاف بھی لکھے ہیں اور جب ہم فیصلہ دیتے ہیں تو ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اقتدار میں کون ہے۔ لیکن منو سیباسٹین کا طویل مضمون ان کے اس دعوے کو عملی طور پر غلط قرار دیتا ہے۔اس مضمون میں منو نے ایک سے زائد مثالیں پیش کرکے بتایا ہے کہ جسٹس شاہ نے ملتے جلتے اور ایک جیسے معاملات میں پہلے سے موجود نظائر کے خلاف جاکر فیصلے کئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بڑی بنچ کے فیصلوں کی بھی پروا نہیں کی اور اپنی منطق کے مطابق فیصلے کئے۔


یہ بھی افسوس کا مقام ہے کہ ایسے وقت میں جب چیف جسٹس چندر چوڑ کے زمانے میں اکثر شخصی آزادی کے معاملات میں حکومت کے مقابلے افراد کے مفادات کو ترجیح دی گئی، جسٹس شاہ نے افراد کے مقابلے حکومت کے مفادات کو ترجیح دی۔ کسی بھی فلاحی ریاست میں شہریوں کی آزادی مقدم ہوتی ہے حکومت کی نہیں۔ مبصرین کے مطابق شخصی آزادی، ٹیکس کی وصولی اور زمین کی تحویل کے مقدمات اگر جسٹس شاہ کی عدالت میں ہوتے تھے تو وکلاء ان کے ممکنہ فیصلہ کا پہلے سے ہی اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔جبکہ یہ طے شدہ اصول ہے کہ ججوں کی شبیہ ایسی ہونی چاہئے کہ فریقوں کو آخر وقت تک اندازہ ہی نہ ہو کہ ججوں کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔


انوپ بھوئیاں بنام حکومت کے مقدمہ میں جسٹس شاہ نے سیاہ قانون یواے پی اے کے تحت چلنے والے مقدموں میں قائم کی گئی نظیروں کے برخلاف فیصلہ دیا۔ نظائر کہتی ہیں کہ کسی ممنوعہ تنظیم کی غیر فعال ممبرشپ، یو اے پی اے کے تحت جرم کے زمرہ میں نہیں آئے گی۔ 2011 کی نظائر بتاتی ہیں کہ یو اے پی اے کے تحت کسی کو ماخوذ کرنے کیلئے اس کے متشدد ایکشن میں حصہ لینے کو ثابت کرنا ضروری تھا۔ یہ قانون مخالفوں اور متحرک رضاکاروں کے خلاف بنایا گیا تھا۔جسٹس شاہ نے قومی سلامتی کے عنصر اور یو اے پی اے کے مقاصد کو سامنے رکھا اور قومی سلامتی اور شخصی آزادی کے اصولوں کے درمیان توازن نہیں رکھا۔


ابھی جسٹس شاہ کے رجحانات کی بہت سی اہم مثالیں باقی ہیں لیکن ہمیں رخصت پزیر جسٹس جوزف کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کیلئے چند سطور درکار ہیں۔ قانونی مبصرین جسٹس جوزف کے فیصلوں کا تفصیلی جائزہ شاید اگلے ماہ ان کی سبکدوشی کی تاریخ گزر جانے کے بعد پیش کریں۔ لیکن یہاں ان کا کچھ ذکر توکیا ہی جاسکتا ہے۔ جلسے جلوسوں اور دھرم سنسدوں میں نفرت انگیزی کے معاملہ میں انہوں نے ملک بھر کی پولیس کیلئے قانون طے کردیا ہے کہ ایف آئی آر کا انتظار کئے بغیر پولیس کو منافرت پھیلانے والوں کے خلاف از خود کارروائی کرنی ہوگی۔


17مئی کو اس سلسلہ میں مہاراشٹر حکومت کو ان کی عدالت میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جسٹس کے ایم جوزف اور جسٹس اروند کمار کی بنچ نے سالیسٹر جنرل (مرکز اور مہاراشٹر حکومت کے وکیل) تشار مہتا کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمارے فیصلہ کو دبا کرنہیں بیٹھ سکتے۔ عرضی گزار نے حکومت مہاراشٹر کی بے عملی کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ دائر کیا تھا۔اس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود مہاراشٹر حکومت یا پولیس نے منافرت انگیزی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ منافرت انگیزی کے کئی معاملات کی سماعت جسٹس جوزف کی بنچ کر رہی تھی۔


ایڈوکیٹ نظام پاشا نے عدالت کو بتایا کہ باوجود اس کے کہ مہاراشٹر حکومت نے اپنی دستاویزات کی فہرست میں شرپسندوں کے خلاف ایف آئی آر کا ذکر کیا ہے لیکن عدالت کی ہدایت کے باوجود ایف آئی آر کی کاپی ہمیں دستیاب نہیں کرائی گئی ہیں۔ اس پر جسٹس جوزف نے اظہار ناراضی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل سے کہا کہ آپ کو جو بھی کاغذات عرضی گزار کو دینے ہیں وہ دئے جانے چاہئیں۔ آپ اس طرح ہمارے فیصلہ کو دباکر نہیں بیٹھ سکتے۔


نظام پاشا نے یہ سنگین الزام بھی عاید کیا کہ حکومت مہاراشٹر نے جو تفصیلات دی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ درج شدہ ایف آئی آر کی تاریخیں بھی غلط ہیں اور واقعات بھی وہ نہیں ہیں جن کے خلاف ہم اس عدالت میں آئے ہیں۔ پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کے وکیل سنجے پاریکھ نے عدالت سے کہا کہ نفرت انگیزی کے معاملات مسلسل بڑھتے جارہے ہیں اور حکومت کچھ نہیں کر رہی ہے۔ اس پر سالیسٹر جنرل نے جسٹس جوزف کی سبکدوشی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتے، عرضی گزار کو مجسٹریٹ کے پاس جانا چاہئے، سپریم کورٹ مجسٹریٹ کی عدالت نہیں ہے۔


تشار مہتا نے یہ بھی سوال کیا کہ کیا مہاراشٹر کے علاوہ دوسری تمام ریاستیں پر امن ہیں اور کیا دوسرے فرقے نفرت انگیزی نہیں کر رہے ہیں؟ سنجے پاریکھ نے عدالت سے کہا کہ آپ نے ہم سے نفرت انگیزی سے نپٹنے کے لئے تجاویز طلب کی تھیں لہذا ہم نے اس کیلئے حلف نامہ داخل کیا ہے۔اس پر تشار مہتا نے کہا کہ عدالت کو آپ کی تجاویز کی ضرورت نہیں ہے اور عدالت نے آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔اس پر سنجے پاریکھ نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر میں خاموش رہوں گا۔ لیکن اس پر جسٹس جوزف نے کہا کہ آپ بولئے، اگر ہر ایک خاموش ہوجائے گا تو عدالت اپنا کام کرنا بند کردے گی۔


نظام پاشا نے شکایت کی کہ نہ صرف نفرت انگیزی کے نئے معاملات میں ایف آئی آر درج نہیں کی جارہی ہیں بلکہ پہلے سے درج ایف آئی آر پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا ہے۔اس پر پھر سالسٹر جنرل نے اعتراض کیا اور کہا کہ آپ انہیں مجسٹریٹ سے رجوع کرنے کو کہیں لیکن جسٹس جوزف نے نظام پاشا سے کہا کہ فکر مت کیجئے، ہر نکتہ پر غور کیا جائے گا۔


جی چاہتا ہے کہ جسٹس شاہ اور جسٹس جوزف کی عدالتوں میں ہونے والی سماعتوں اور ان کے فیصلوں کا ایک طویل موازنہ پیش کیا جائے۔ لیکن آخری سطور میں چیف جسٹس سے کچھ کہنا مطلوب ہے: ایک طرف جہاں آمرانہ سیاسی ذہنیت کے جبر سے شہریوں کا تحفظ کرنا آپ کی ذمہ داری ہے وہیں عدلیہ کے وقار اور اس کے'منصفانہ کردار' کو بچاکر رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔


جسٹس شاہ کے فیصلوں سے متاثر افراد کچھ دنوں آنسو بہاکر خاموش ہوجائیں گے لیکن ان کے فیصلوں کی زد انصاف کے عمل اور عدلیہ کے وقار پر اس وقت تک پڑتی رہے گی جب تک ان فیصلوں کو پلٹنے کا انتظام نہ کردیا جائے۔ آپ نے ماضی میں ایسا کیا بھی ہے۔ آپ نے تو اپنے والد کی قیادت والی بنچ کا ہی ایک فیصلہ پلٹ دیا تھا۔ حالانکہ وہ بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے تھے۔ آپ اس کالجیم کے بھی سربراہ ہیں جو ججوں کے تقرر اور ترقی کی سفارش کرتا ہے، اس لئے آپ کی ذمہ داری حتمی ہے۔


حال ہی میں سینئر ایڈوکیٹ کے وی وشوناتھن کا سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرر ہوا ہے۔جسٹس وشوناتھن نے چند ہی ہفتوں پہلے اس وقت کے وزیر قانون کرن رجیجو کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا۔ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کی جس بنچ نے 19مئی کوگیان واپی میں 'مبینہ شولنگ' کے سروے سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پرروک لگائی ہے اس میں جسٹس وشوناتھن بھی شامل تھے۔ یہ ان کا پہلا ہی مقدمہ تھا۔ وہ 2030 میں چیف جسٹس بھی بنیں گے۔


وشو ناتھن کا تقرر بتاتا ہے کہ سپریم کورٹ ابھی دستبرد سے محفوظ ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہیں کہیں خرابیاں بھی ہیں۔یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بعض اہم مقدمات میں جسٹس شاہ کے رجحان کے مطابق ممکنہ فیصلوں پر ان کے شریک ججوں نے 'بریک' بھی لگایا۔ ایسے ججوں میں جسٹس بی وی ناگرتھنا اور جسٹس سی ٹی روی کمار کے نام نمایاں ہیں۔ تبدیلی مذہب کے ایک معاملہ میں چیف جسٹس نے مدعیان کو سخت سست سنائی تھیں اور انہیں مسلم مخالف مواد کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ جبکہ جسٹس شاہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن جسٹس ناگرتھنا کے سخت اعتراض کے بعد یہ مقدمہ چیف جسٹس کی سہ رکنی بنچ کو بھیجنا پڑا تھا۔


جسٹس ناگرتھنا اکتوبر 2027 تک سپریم کورٹ میں رہیں گی۔ وہ 36 دنوں کیلئے چیف جسٹس کا عہدہ بھی سنبھالیں گی۔ اس کے علاوہ موجودہ چیف جسٹس کے سبکدوش ہونے کے بعد 2030 تک جتنے بھی چیف جسٹس ہوں گے وہ کم وبیش اپنی انصاف پسندی کیلئے مشہور ہیں۔امید ہے کہ انصاف کے پیمانوں کا فرق آج نہیں توکل ضرور مٹ جائے گا۔

***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 21 مئی 2023ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

The Judiciary: Difference of standards. - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں