فن انشائیہ اور جاوید نہال حشمی - از ممتاز انور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-30

فن انشائیہ اور جاوید نہال حشمی - از ممتاز انور

jawed-nehal-hashami-and-his-light-essays

انشائیہ - ادب کی وہ لطیف صنف ہے جو دلچسپی اور توجہ سے پڑھی جاتی ہے۔ یہ موجودہ زمانے کی مقبول ترین صنف مانی گئی ہے جس کی بےترتیبی میں بھی ایک ربط ہوتا ہے جس میں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے۔ یعنی یہ دعویٰ درست ہے کہ حکمت سے حماقت تک اور حماقت سے حکمت تک کی ساری منزلیں انشائیہ میں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن اس کی ابتدا اور شناخت پر اختلاف رائے ہے۔


ویسے اردو ادب میں بیشتر اصناف عربی، فارسی اور مغربی ادب سے مستعار ہیں لیکن انشائیے سے متعلق بہت سارے اعتراضات ہیں۔ بعض معترضین کا دعویٰ ہے کہ اردو میں انشائیہ وہی ہے جو انگریزی میں (ایسے) Essay ہے۔ جس کا موجد و بانی مائیکل ڈی مونتین ہے جس کی پیروی بیکن اور ابراہم کاولے نے کی۔ اصلاً اور اصولاً Essay ہی انشائیہ ہے جو انگریزی ادب میں Light Essay کے طور پر جانا جاتا ہے اس طرح اگر یہ دعویٰ مان لیا جائے تو انشائیہ مغرب کی دین ہوا۔
بعض معترضین کا دعویٰ ہے کہ یہ صنف انشائیہ، مشرقی تہذیب کی پروردہ ہے اور ملا وجہی کی کتاب "سب رس" اس کا نقش اول ہے۔ ایسا دعویٰ اس لئے بھی ہے کہ غالباً ملا وجہی کا دور وہی ہے جو مونتین اور بیکن کا ہے۔
بعض معترضین اسے سرسید کی طرز نگارش سے جوڑتے ہیں کہ سر سید انگریزی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے لیکن بعض نے اسے غالب کی انشا پردازی کو اس کا نقش اول قرار دیا ہے جہاں بے تکلفانہ گفتگو کا پیرایہ، مجلسی سلیقگی اور ماحول کی دلکش مرقع سازی اپنے جوہری کمالات کے ساتھ نمایاں ہیں۔
بعض معترضین کی رائے نے انشائیے سے جذباتی طور سے جڑتے ہوئے انشائیے کے لئے محمد حسین آزاد کے دور کو صبح کاذب اور رشید احمد صدیقی کےدور کو صبح صادق قرار دیا ہے۔


مولانا آزاد کی انشاپردازی کے نمونے جو غبار خاطر میں موجود ہیں، ان کو بھی بعضوں نے انشائیہ کی بنیاد بتایا ہے۔ لیکن یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ انشائیہ شروع میں مضمون لطیف، لطیف پارے، طیفیہ، مراقبہ اور افکار پارے وغیرہ ناموں سے منسوب رہا اور وزیر آغا نے "انشائیہ" کی اصطلاح اس صنف کو دی۔ صرف یہی نہیں وزیر آغا، نظیر صدیقی اور مشکور حسین یاد کے بعد انشائیہ لکھنا شائستہ، شستہ اور شگفتہ عمل قرار پایا۔ مشکور حسین یاد کی زبان میں انشائیہ "ام الاصناف" ہے۔


حقیقت خواہ کچھ بھی ہو لیکن "انشائیہ" لفظ "انشا" سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی ہیں عبارت، تحریر، صنائع بدائع، طرز تحریر اور وہ جملہ ہے جس میں سچ اور جھوٹ کا گمان نہ ہو۔ انشائیہ میں طنز و مزاح کا عنصر بھی ملتا ہے مگر یہ جز لازمی نہیں ہے۔
انشائیہ مضمون کی ایک قسم ہوتے ہوئے بھی مضمون سے الگ ہے۔ انشائیے میں عموماً انشائیہ نگار بے تکلفانہ اور بےساختگی سے ذاتی مشاہدے بیان کرتا ہے۔ اس میں اس کی شخصیت بھی جڑی ہوتی ہے لیکن خاتمے کے سلسلے میں انشائیہ تھوڑا الگ ہوتا ہے۔ اس میں کسی نتیجے کو قاری پر تھوپنے کے بجائے اسے قاری کے فیصلے پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اردو ادب میں انشائیہ ایک مقبول صنف کی حیثیت سے اپنی شناخت کرا چکا ہے جس میں لکھنے والوں کی لمبی قطار ہے اور اس قطار میں سنجیدگی سے انشائیے لکھنے میں منہمک ہیں:
جاوید نہال حشمی۔


سر زمین بنگالہ بالخصوص کولکاتا شعری اور نثری ادب میں کارہائے نمایاں انجام دینے میں بے مثال رہا ہے۔ اس کے خمیر میں ادب کے مختلف گوشوں کی خدمت گزاری کی جھلکیاں موجود رہی ہیں خواہ وہ فورٹ ویلیم کالج کے زمانے کی ہوں یا اس کے بعد کی۔ لیکن سنجیدگی سے ادب پر سلسلے وار کام کا ہونا اور ادب کے خزانے میں ادبی کتابوں کا ذخیرہ بنانا کلکتہ کے ادب کا شیوہ رہا ہے اور اس سے اردو کے قلمکاروں کا رشتہ دائمی ہے۔


جاید نہال حشمی علم و ادب سے منسلک ایک معیاری قلمکار اور ایک ذکی فنکار ہیں۔ ان کی انگلیوں میں خداداد فنکاری ہے۔ یہ انگلیوں کی فنکاریاں ہیں جو انھیں کارٹونسٹ بھی بناتی ہیں اور آرٹسٹ بھی، افسانہ نگار بھی بناتی ہیں اور ڈراما نگار بھی، کہانی کار بھی بناتی ہیں اور انشائیہ نگار بھی۔ یہ انگلیوں کی فنکاریاں ہی ہیں جو درس و تدریس میں سنجیدہ نکتوں پر جب اٹھتی ہیں تو عقل و فہم کی گرہیں کھولتی ہیں اور جب کلاس روم کے بورڈ پر چلتی ہیں تو حکمتوں سے مزین موضوعاتی تصویروں کی تشکیل کرتی ہیں جن پر مناسب گفتگو سے علم کی نہریں بہتی ہیں۔


ادب اور ادیب کے جہان خوش نویسی میں جاوید نہال حشمی ایک کامیاب افسانہ نگار کی حیثیت سے وارد ہوئے ہیں، جن کے افسانوں کے مجموعے "دیوار" (2016) اور مائیکرو فکشن "کلائیڈو اسکوپ" (2019) کے بعد انشائیوں کا مجموعہ " کوئی لوٹا دے میرے۔۔۔۔" (2021) میں منظر عام پر آیا ہے۔ افسانوں کے مجموعے پر اہل علم و دانش نیز ادبی اداروں کی پذیرائی کے بعد انشائیوں کا مجموعہ توجہ طلب ہے۔


جاوید نہال حشمی میں تخلیقی صلاحیت بھرپور ہے چونکہ سائنس ان کا سبجکٹ رہا ہے اس لئے ہر عنصر پر مشاہداتی نگاہ رکھتے ہیں۔ زبان و بیان پر قدرت ہونے کے سبب ہر عنصر کے عمل اور رد عمل کو پیش کرنے کے ہنر سے کما حقہ واقف ہیں۔ ان کے انشائیوں میں تفکرات اور تجریدات کا متناہی سلسلہ دراز ہے جس میں سیاست کی نجاست سے لے کر انسانی خباثت تک بے پردہ ہے۔ سماج کے کئی گوشے نہ صرف نظر غائر بلکہ نظر عمیق کی زد میں ہیں گویا ان کے قلم میں ذہانت و فطانت کا وہ زور ہے جس کے بس میں سب اور باقی سب بے بس۔


جاوید نے انشائیوں میں مزاح کی چاشنی کے لئے کسی حربے کو نہیں چنا ہے اور نہ ہی عامیانہ یا سوقیانہ جملے گڑھے ہیں بلکہ لفظوں کی صناعی نے خود بخود مزاح کا ایک پر لطف ماحول بنا دیا ہے۔

  • " دھوبی کا کتا بھلے ہی گھر کا ہوتا ہو نہ گھاٹ کا، مگر بشری کتے گھر کے بھی ہوتے ہیں اور گھاٹ کے بھی" (واردات کلبی)
  • "کالج کے دنوں میں اکثر فکر دامن گیر ہوتی کہ کیا بال بچے ہونے تک بال بچے رہیں گے" (کوئی لوٹا دے میرے)
  • " مردوں کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ شادی سے قبل زن کی بات سن کر مسحور ہوتے ییں اور شادی کے بعد زن کی بات سننے پر مجبور ہوتے ہیں" (زن کی بات)
  • "سیاست میں مخالف پارٹوں کے رہنماؤں کے پتلے جلانے کی تاریخ دلہنوں کے جلائے جانے کی روایت سے بھی زیادہ قدیم ہے" (بت شکن)
  • " یہ بات برسوں پہلے مشہور ڈراما نویس ولی میاں شیخ پیر نے کہی تھی 'جن کا نام انگریزوں نے حسب عادت بگاڑ کر ویلیم شیکیسپئر کر دیا تھا " (نام میں کیا رکھا ہے)
  • "کالج کی یونین کے انتخابات کے دوران میرے دوست نے خوب جھنڈے اٹھائے تھے۔ آج وہ شہر کی بڑی بڑی سرکاری عمارتیں اٹھا رہا ہے" (اٹھئے، اٹھائیے اور اٹھ جائیے)

درج بالا منقولہ جملے انشائیے کے دوسرے جملوں سے اس طرح چسپاں ہیں کہ درمیان سے انھیں نکالنا ویسے ہی لگ رہا ہے کہ کسی کے جسم سے کڈنی نکالی جا رہی ہو، کیونکہ خدشہ اس بات کا منڈلاتا رہا ہے کہ نقل شدہ جملے چغل خور نہ ہو جائیں کہ ان سے چھیڑ چھاڑ یقیناً کی گئی ہے۔
کہتے ہیں کہ لمبی ریس کا گھوڑا اپنی دلکی سے ناموس شرافت کی علامت بنتا ہے ٹھیک اسی طرح جاوید نہال کا بھی ذکر کرنا میں برجستہ سمجھتا ہوں کہ موروثی ادبیت ان کی زبان دانی اور لیاقت پر ثبت ہے۔


" کوئی لوٹا دے میرے۔۔۔۔" اکیسویں صدی کے انشائیوں کے تازہ کار علامات سے مزین ہے جس میں زندگی کی دھوپ چھاؤں پر کہیں تذکرہ ہے تو کہیں مذاکرہ۔ آنکھوں کو چکاچوندھ کر دینے والی سائنسی ترقی اور ترقی کے نام پر لائی جانے والی تنزلی بھی اوجھل نہیں ہے۔ لفظوں کی ترتیب نئے ذائقے سے آشنا کراتی ہے لیکن طنز و تیر کے جو نشتر باتوں باتوں میں چلائے گئے ہیں ان سے اہل نظر غافل نہیں رہ سکتے۔

  • "وہ تو اچھا ہے کہ نثری اصناف میں شاگردی کی روایت کبھی نہیں رہی ورنہ منٹوی' انتظاری' ستاری' چھتاری' پیغامی اور نارنگی جیسے تخلص والے افسانہ نگار اور ناقد پائے جاتے" (اٹھئے' اٹھائیے اور اٹھ جائیے)
  • " شلوار، جمپر اور دوپٹہ کو نئی نسل نے طنزاً مگرحقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے بڑا دلچسپ نام دے رکھا ہے: 'بہن جی والی ڈریس' (آ سانڈ مجھے۔۔)
  • " اگر گائے کے گوشت نے کئی لوگوں کی جان لی ہے تو اس سے کئی لوگوں کو جان بھی لیا گیا ہے" (گائے، ایک تجزیاتی مطالعہ)
  • "سوشل میڈیا خصوصاً فیس بک پر لائکس بٹورنے کی لت اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ اسے بلا جھجھک" ابواللت" کا درجہ دے دینا چاہئے" (لت دار)
  • "ٹائلٹ کا معاملہ تو اور نازک ہوتا ہے۔ آرام سے بیٹھیں تو نشانہ چوک جاتا یے اور اگر نشانہ ایڈجسٹ کریں تو ناک سامنے کی دیوار یا دروازے سے لگ جاتی ہے "(دنیا سمٹ رہی ہے)

انشائیہ نگاری کا یہ انداز روایتی سہی لیکن لب و لہجہ چونکا دینے والا ضرور ہے۔ حالات حاضرہ پر جمی نگاہیں آنے والے دشوار و آسان زمانے کا تعین کرتی ہیں۔ سائنسی دلچسپی نئے امکانات کا مظہر ہے اور ذہن و دل پر اس کے دیرپا نقوش واضح ملتے ہیں۔
جاوید نہال حشمی نے انشائیے کی آڑ میں تیر بہ ہدف سے کام لیا ہے اور بہ یک وقت تابڑ توڑ کئی اطراف پر نشانے سادھے ہیں۔ ہر جملہ اور ہر اشارہ ایک مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن داد تو اس پر دی جانی چاہئے کہ جاویدیات حصہ اول تیر کے نشتر آگ میں بھگو کر چلائے گئے ہیں۔

  • "راسخ العقیدہ مسلمان بسم اللہ پڑھ کر مرغ کو حلال کرتے ہیں جبکہ مسخ العقیدہ مسلمان غیر ذبیحہ چکن کو بھی بسم اللہ پڑھ کر حلال کر لیتے ہیں"
  • " سعودی عرب تیل دینے والی گائے ہے اور امریکہ ایک پرانا گئو رکھشک"
  • "خادم اردو ہونے کا دعویٰ کرنے والے بیشتر افراد دراصل 'کھادم اردو' ہوتے ہیں جو اردو کی کھاتے ہیں مگر اردو کو کھا جاتے ہیں"

جاوید نہال حشمی نے جاویدیات حصہ دوم میں کئی موضوعات پر تجرباتی سوالنامے پیش کئے ہیں جن کا پڑھنے سے تعلق ہے۔
اس طویل فہرست اور مغز ماری میں " پیازچے" کا کالم ہے جو پیاز کی گرانی کے سبب مظہر تخلیق پر آبرو سنبھالے ہوئے ہے تو" زیر لب" کے کالم میں تفہیمی خوش گپییوں نے پناہ لی ہے۔

  • " گٹکھا تیار کرنے والے مکان پر پولس کا دھاوا' چار افراد گرفتار۔۔۔۔ایک خبر :: (کمیشن وقت پر نہ پہنچانے کا خمیازہ)
  • "متھن چکرورتی کو روڈ شو کی اجازت نہیں ملی"۔خبر :: (ظاہر ہے کوبرا سانپ کو کھلے عام سڑک پر نہیں چھوڑا جا سکتا)
  • "آکسیجن نہ ملنےسے اسپتال میں مریضہ کی موت"۔۔۔خبر :: (نا شکری نہ کریں، بیڈ تو مل گیا تھا نا۔)

جاوید نہال حشمی کے انشائیوں کا یہ مجموعہ مجموعی طور پر ادب کے بڑے مجمع سے مخاطب ہونے میں کامیاب ہے جس میں اشارات اس قدر مجتمع ہیں کہ اگر میں مورد الزام نہ ٹھہرایا جاؤں تو صاف کہہ دوں کہ یہ کتاب ہی انشائیے کی جمع پونجی معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!!


***
(بشکریہ: روزنامہ اخبارِ مشرق، کلکتہ / 30 جنوری 2022ء)

The Light Essays of Jawed Nehal Hashami - Article: Mumtaz Anwar.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں