انیس کی شاعری کا سماجی مقصد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-27

انیس کی شاعری کا سماجی مقصد

ہر فن کار اپنے اطراف و اکناف کی حقیقتوں سے ذہنی ارتسامات حاصل کرتا ہے اور پھر انہی حقیقتوں کو فن کارانہ چابک دستی سے کینوس پر منتقل کرکے عوام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ بڑا فن کار وہی ہے جس کی فنی تخلیق قبول عام کی سند حاصل کرے اور وہی فنی تخلیق قبول عام کا اعزاز حاصل کرے گی جس میں عوام کو اپ نے آلام، اپنے ارمانوں اور اپنے دل کی دھڑکنوں کی صدائے بازگشت سنائی دے۔ وہی فن کار بڑا ہوگا جو اس عظیم کشمکش میں ڈوب کر ابھرے اور انہی ریاضتوں کے نتیجے کے طور پر جو فن تخلیق ہوگا وہی عظیم بھی ہوگا اور آفاقی بھی۔


ہر فنی تخلیق کی طرح شعری تخلیق بھی اسی صداقت کے تابع ہے۔ کسی شاعر کی شعری تخلیق کا جائزہ لینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ معلوم کیاجائے کہ اس نے کس دور میں شعر کہے ہیں، کسی ماحول میں تربیت پائی ہے، کون سے عوامل تھے جنہوں نے اس کے احساسات کو مہمیز کیا اور بالآخر عوام نے ان شعری تخلیقوں سے کیا فیض حاصل کیا۔ اچھے شعر کے تاثر کو پوری طرح قبول کرنے کے لئے شعر پڑھنے والے کو بھی تھوڑی بہت اسی درد و کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔جس نے شاعر سے شعر کہلوایا۔ یہی دردوکرب شاعر اور سامعین کی قدر مشترک ہے اور یہی شعر کا خالق اور داد کا جواز ہے۔


میر انیس 1798ء میں پیدا ہوئے، 1857ء کی جنگ آزادی دیکھی اور 1870ء میں ہندوستانیوں کے لئے اپنے مراثی کی گراں قدر میراث چھوڑ کر خود"قید حیات و بند غم" سے نجات حاصل کرلی۔


میر انیس، میر حسن کے پوتے اور میر خلیق کے فرزند تھے۔ دہلی کی ٹکسالی زبان ان کے گھر کی ز بان تھی، فیض آباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر لکھنو گئے وہاں فن سپہ گری کی تربیت حاصل کی اور لکھنو ہی میں سکونت اختیار کرلی۔ انیس کو کھڑی بولی کی مٹھاس ورثے میں اور اودھی اور لکھنو کی زبان کا لوچ ماحول سے ملا، ادبی مذاق تو ان کے گھر ہی کی چیز تھی۔


نظیر اکبر آبادی اٹھارویں صدی کے وسط کے شاعر ہیں اور انیس انیستویں صدی کے نصف اول کے، نظیر کا انتقال 1830ء میں ہوا۔ اس وقت انیس کوئی 32 سال کے رہے ہوں گے۔


نظیر سے پہلے سترھویں صدی عیسوی تک ہندوستان میں جاگیر داری سماج عروج پذیر تھا۔ راجے اور نواب لڑتے بھی تھے ، جنگ و جدال بھی ہوتے، لیکن گانوں کی سماجی زندگی میں کوئی اتھل پتھل نہ ہوتا۔ وادی گنگ و جمن میں زندگی ایسی ہی خراماں خراماں گزرتی جیسے گنگا کا دھارا ، لیکن اٹھارہویں صدی نے نئے گل کھلائے۔ انگریزی سامراج نے ہندوستانی معیشت کو جڑ سے اکھیڑ دیا، اور تباہی پھیلنے لگی۔ ہندوستان کی دولت سے انگلستان میں صنعتی انقلاب ہورہا تھا۔


ہندوستانی دیہاتی زندگی کی خوشی چھن گئی۔ چین چلا گیا اور اس کی جگہ "غم" نے لے لی۔ اسی کو کارل مارکس نے(Particular Melancholy)"مخصوص غم" کہا ہے۔ جو برطانوی سامراجی لوٹ نے ہندوستانی عوام کو دیا۔ اٹھارویں صدی کا فن کار اسی "مخصوص غم" کے ماحول میں فن کی تخلیق کرتا ہے۔
نظیر نے یہی تباہی دیکھی اور اپنی مشہور نظم "شہر آشوب" کہی۔


فن کاروں اور کاری گروں کی بد حالی ، بڑھتا ہو اافلاس، بیوپاری، ساہوکار کلاونت، حتی کہ معشوق خوش جمال اور عاشق خوش خصال ، سبھی مفلسی کے کرب ناک شکنجے میں تھے۔ نظیر کی شاعری کی عظمت یہی ہے کہ انہوں نے انہی آلام کو شعر کے کینوس پر بڑی پر کاری اور فن کاری سے منتقل کیا اور اسی"مخصوص غم"کی ترجمانی کی۔ لیکن جیسا کہ احتشام حسین صاحب نے کہا ہے "نظیر کا دور بہتر زندگی کے لئے راستہ پانے کا دور نہیں تھا۔ کھونے، الجھنے اور غم کھانے کا دور تھا ، نظیر کے ہاں تباہ حالی کی عکاسی اور افلاس کا شعور ملے گا ، نظیر اسی میں کھو جاتے ہیں۔ ان سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ اس گرداب سے نکلنے کا راستہ بتائیں گے۔ یہ نظیر کے دور کے بس کی بات بھی نہیں تھی۔
نظیر گئے اور انیس آگئے۔
گومتی کے کنارے انیس نے کیا دیکھا؟
دہلی اجڑ رہی تھی ، اور لکھنو بس رہا تھا۔ لیکن وہی"مخصوص غم" لکھنو کو بھی کھائے جارہ اتھا۔ شیعہ حکمرانوں نے عزاداری حسین میں پناہ لی۔ 1779ء میں آصف الدولہ نے عاشور خانہ آصفیہ تعمیر کیا، عزا خانے اور ماتم کدے ، شہر بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ شیعہ دربار نے موضوعی حالات کے"مخصوص غم" سے آنکھ بچا کر مذہبی روایات کی چار دیواری میں گوشہ نشینی اختیار کی تاکہ ایک بناوٹی بے خبری کے ماحول میں مصنوعی آسودگی حاصل ہوسکے۔


یہی وہ زمانہ ہے جب کہ عزا داری حسین کے لئے کہے گئے مرثیے بھی محض روایتی ہوکر رہ گئے تھے۔ یہ محض رونے، رلانے کے لئے ہی ہوتے۔ یہاں تک کہ فنی اعتبار سے بھی وہ گھٹیا ہوتے، چنانچہ کہاجانے لگا:
بگڑا شاعر مرثیہ گو


مرثیہ ایک ادبی صنف سے زیادہ محض مذہبی فریضہ کی ادائیگی کا ذریعہ بن کر رہ گیا۔ لیکن سودا نے یہ گوارا نہ کیا کہ مرثیہ فنی اعتبار سے کم زور رہے۔ انہوں نے بڑی کاوشیں کیں ، مگر وہ تھے ہر فن مولا۔ غزل، قصیدہ، مرثیہ سبھی میدانوں میں تو سن فکر کی جولانیاں دکھلانا اور پھر مرثیے پر خاص توجہ کرنا ایک ساتھ ممکن نہ تھا۔ لیکن سودا نے کام شروع کیا اور میر خلیق ، اور خاص طور پر میر ضمیر نے مرثیے کو فنی اعتبار سے نکھارنے اور پختہ کرنے کا کام پورا کیا۔


اس طرح انیس کو اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بروئے کار لانے کے لئے زمین تیار ملی۔ لیکن انیس کا لکھنو، آتش و ناسخ کے گرفت میں تھا۔ غزل کا ماحول تھا اور روایات کی پابندی تھی، یہ چیزیں انیس کی طبعی جولانیوں کے لئے طوق و سلاسل سے کم نہ تھیں۔


انیس نے غزل کو چھوڑا اور مرثیے کی طرف رجوع ہوئے۔ وہ اپنے پیش روؤں سے یوں ممتاز ہیں کہ محاکاتی شاعری کے مقصد سے میدان میں آتے ہیں اور شاعری کو حقیقت سے الگ دیکھنا گوارا نہیں کرتے ، یہ انیس کی شاعری کی سب سے بڑی سماجی خدمت ہے۔ فرماتے ہیں:
قلم فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
شمع تصویر پر گرنے لگیں آ آ کے پتنگ


واقعات اور جذبات کو زبان اور محاورات کی گرفت میں جکڑ لینا انیس کے فن کا معجزہ ہے۔ ان کے ہاں صورت حال اور انداز بیان ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ یہی واقعیت اور حقیقت پسندی انیس کی زبردست ادبی خدمت ہے۔


حضرت صغرا بیمار ہیں، حضرت امام حسین انہیں چھوڑ کر جارہے ہیں ، بہت سے مرثیہ گویوں نے اس موضوع پر طبع آزمائی کی ہے لیکن انیس کا جواب نہیں۔


حضرت علی اکبرؑ، اٹھارہ سال کا سن، حضرت امام حسین ؓکے فرزند ہم شکل رسولؐ، حضرت زینبؓ کے چہیتے اور اپنی ماں، حضرت شہر بانو کے نور نظر غور فرمائیے، شہادت کے لئے تیار ہوکر جارہے ہیں۔ انیس نے اس واقعے کو اور اس واقعے سے وابستہ انسانی جذبات کو جس مہارت سے مرثیے میں بیان کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔


انیس کے مرثیے پڑھنے سے ماں بیٹے کی محبت، بھائی بہن کی محبت ،بھائی بھائی کی محبت، باپ بیٹے کی محبت، محبت اور فرض کے درمیان کشمکش غرض سبھی جذبات اور احساسات ابھر آتے ہیں، عظیم ادب بہترین انسانی جذبات کی ترجمانی کرنے والا اور انہیں ابھارنے والا نہیں تو پھر اور کیا ہے۔


محبت اور فرض کی آویزش اور بالآخر فرض کا محبت پر غالب آنا، غور کیجئے کس قدر عظیم کشمکش ہے۔
حضرت شہربانو کی مامتا اور گریہ و زاری سے دل گرفتہ علی اکبر اپنے کمر سے تلوار کھول ڈالتے ہیں آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور پھر بند پلٹتا ہے ، بین میں حضرت شہر بانو کی کیفیت دیکھے:
لے کے بیٹے کی بلائیں کہا کیوں روتے ہو
لو نہ روکوں گی میں کاہے کو خفا ہوتے ہو


فرض نے اپنی منوالی ، محبت مغلوب ہوگئی ، مرثیہ سننے والی ماؤں پر کیا اثر ہوگا؟ روئیں گی، زاری کریں گی، لیکن فرض کا احساس بھی پیدا ہوگا ، یہی اس مرثیے کی سماجی افادیت ہے۔
حضرت زینب اپنے لخت ہائے جگر حضرت عون اور حضرت محمد کو، جو بہت کم سن ہیں۔ جنگ کے لئے تیار کرتی ہیں۔ یہاں حضرت زینب کا کردار بہت بلند ہے اور انیس نے اس بلندی کو ضبط بیان میں لایا ہے بچوں کو ان کی کم سنی کا خیال کرکے جنگ کرنے کے طریقے سمجھاتی ہیں:
ایک بھائی لڑے بڑھ کر جوہاتھ ایک کا تھک جائے
بلوہ جو پھر اس پر ہو تو یہ بہر کمک جائے
ہاتھوں میں صفائی ہو کہ بسمل بھی پھڑک جائے
گر صف ہو تو پسپا ہو، پرا ہو تو سرک جائے
جملوں میں سب انداز ہوں خالق کے ولی کے
پہچان لیں وہ سب کہ نواسے ہیں علی کے


میر انیس کے مرثیے محض المیہ نہیں ہیں ، انہوں نے بڑی مہارت سے رزمیہ نقشے بھی کھینچے ہیں، تلوار کے چلنے کی ایسی منظر کشی کی ہے کہ خون جوش کھانے لگتا ہے۔اور بوڑھی ہڈیاں بھی کڑکڑانے لگتی ہیں۔


انیس کے ہاں ڈرامائی کردار نگاری اپنے عروج پر ہے۔ حضرت امام حسین ،حضرت زینب ، حضرت عباس ، حضرت علی اکبر، غرض المیہ کربلا کے کرداروں کو بڑی ادبی شان سے پیش کیا ہے۔ ہر عظیم فن کار اس قسم کی کردار نگاری سے قوم کے کردار کا معمار بنتا ہے۔ انیس ایسے ہی ایک عظیم معمار قوم ہیں۔
غور فرمائیے ، اودھ پورے ہندوستان کی طرح انگریز سامراجیوں کی دست برد کا شکار ہے اور ایک"مخصوص غم" عوام کو گھن کی طرح کھارہا ہے شیعہ دربار عزاداری حسین کے نام پر محض رونے رلانے کا اہتمام کئے فرار کی راہیں ہموار کررہا ہے۔
ایسے میں انیس جیسا عظیم فن کار کیا کرے ؟


زبان، ادب اور تاریخ کو کھنگال کر انیس ایسی چیزیں پیش کرتے ہیں، جن سے قوم کا کردار بنتا ہے۔ رزمیہ روایات تازہ ہوتی ہیں ، بہترین انسانی جذبات بیدار ہوتے ہیں اور فرض کا احساس جلاپاتا ہے۔
یہی انیس کی عظیم شاعری کی سماجی افادیت ہے۔


تاریخ شاہد ہے، اسی لکھنو سے 1857ء کی عظیم جنگ آزادی میں ایک زبردست کردار ابھرا اور وہ حضرت محل ہیں ، کون کہہ سکتا ہے کہ انیس کے مرثیوں کے عظیم کردار ، حضرت زینب کو ، حضرت محل کی شخصیت کی تعمیر میں دخل نہیں ہے۔

***
ماخوذ از کتاب: ادبی مطالعے
مصنف: ڈاکٹر راج بہادر گوڑ۔ ناشر: انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش، حیدرآباد (سن اشاعت: 1978ء)

The Social Purpose of the Poetry of Meer Anees

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں