عالمی سطح پر رائج نظامہائے حکومت میں جمہوریت کو اس کی چند نادر خصوصیات کے باعث بہتر نظام حکومت تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے تحت عوام کو اپنی پسند کا حکمراں خود اختیار کرنے کا بھرپور موقع فراہم ہوتا ہے۔ اس طرز حکومت میں ملک کے چپہ چپہ پر ساسی مساوات ،آزاد انتخابات ،مذہبی مساوات ، آزاد عدالتیں ،عوامی مفاد کو پیش نظر رکھ کر قانون سازی کا فریضہ انجام دینے والے آزاد ادارے پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے علم سیاسات میں جمہوریت کی تعریف میں یہ کہا گیا ہے کہ:
"جمہوریت لوگوں کی حکمرانی سے عبارت ایک ایسی انتظامی اور سیاسی اصطلاح ہے جو دو یونانی الفاظ Demo یعنی لوگ اور Kratos یعنی حکومت سے مل کر بنے انگریزی لفظ Democratic کا ترجمہ ہے۔"
جمہوریت اور بالخصوص غیر مذہبی جمہوریت طرز کی حکومت میں بنیادی طور پر ریاست یا ملک کے حاکمانہ اختیارات قانونی حیثیت سے پورے معاشرے(یعنی اس کے ایک ایک شہری )اس کا نظام سہ رکنی ہوتا ہے، یعنی مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ بالترتیب تثلیث حکم کے بطور اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھاتی ہیں اورنظام حکومت مذہب سے پوری طرح الگ اور آزاد ہوتا ہے۔ جس کی وجہ مختلف مذاہب و متنوع ثقافت کے لوگ مل جل کر ایک ساتھ پرسکون زندگی گزار لیتے ہیں۔ جبکہ جمہوریت صحیح ڈگر پر رہے تو شہریوں کے ساتھ بہرحال انصاف ہوتا اور اس کے اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنایا جائے تو معاشرہ فرقہ وارانہ فسادات اور گروہی عصبیات سے پاک وصاف رہتا ہے۔ بقول شاعر
سننے میں آرہے ہیں مسرت کے واقعات
جمہوریت کاحسن نمایاں ہے آج کل
جمہوریت کے اسی ظاہری حسن اور اس سے برآمد ہونے والے متوقع نتائج کی بنیاد پر مجاہدین آزادی ہند نے ہندوستان کو جمہوری اور یہاں کی اکثریت اور اقلیت کی باہمی منافرت کے تجربے سے گزرچکنے کی وجہ سے غیرمذہبی جمہوری ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس جمہوری ہندوستان میں ہندومسلم فرقہ وارانہ فسادات تو بارہا ہوئے اور مسلمانوں کا خون کئی بار اسی دھرتی پر بہا۔ لیکن گذستہ نوسال سے ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال روز بہ روز ابتری کی راہ پر گامزن بلکہ ہندوملک بنائے جانے کی سازش کی نذر ہوتی جارہی ہے۔ ٹی وی چینلوں اور مطبوعہ صحافت کے سبھی انواع جرائد ورسائل اور روزنامے اور سہ روزے کے نوے فیصدی شمارے اسی ہندو مسلم منافرت کی دن رات بیج بوتے جارہے ہیں۔ جس سے روز بہ روز نئی کونپلیں پھوٹتی اور اس کے بعد لگے ہاتھوں فصلیں بھی تیار ہوکرموقع بہ موقع کٹتی رہتی ہیں۔ بنابریں ملک کی تازہ سیاسی صورتحال بہت تشویشناک ہے۔
اس لیے 26/جنوری 2023ء کے اس 74ویں حشن یوم جمہوریہ کے حسین اور تاریخی موقع پر گذشتہ پورے ایک سال کی غیر خوش آئند سیاسی ،انتظامی ، قانونی اور عدالتی صورتحال اور آئین ہند کی تمہید:
“ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں اور اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی ،معاشی اور سیاسی انصاف ؛خیال ،اظہار،عقیدہ ،دین اور عبادت کی آزادی ؛بہ اعتبار حیثیت او رموقع مساوات حاصل کریں گے اور سب میں اخوت کو ترقی دیں گے جس سے فرد کی عظمت ، قوم کے اتحاداور سا لمیت کا تیقن ہو؛ اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج چھبیس نومبر 1949ء کو یہ آئین ذریعہ ہذا اختیار کرتے ہیں ،وضع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر نافذ کرتے ہیں"۔
دونوں ہمیں اندرون سے باربار جھنجوڑتی ہیں کہ کیا تم آج جس جمہوریت کا جشن تزک واحتشام کے ساتھ منا نے جارہے ہو وہ کیا واقعی وہی جمہوریت ہے جس کو برطانوی سامراج سے آزادی کے بہت تھوڑے عرصہ بعد 26/نومبر 1949ء کو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی میں اختیار اور چھبیس جنوری 1950ء کو ملک میں باضابطہ طور نافذ کردیا گیا تھا ؟
اس سوال کے بعد بغرض جواب ہندوستان کی موجودہ جمہوری صورتحال کا جائزہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ملک کا ہر امن پسند اور ترقی خواہ شہری رواں نظام حکومت سے پریشان اور متفکر ہے۔ جب کہ قوم مسلم ملک کے مطلق العنان حکمرانوں کی سنگ دلانہ جمہوریت کی بیچوں بیچ اس طرح پھنسی ہے کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کا مقولہ اس پر حرف بہ حرف صادق آرہاہے۔ ہر جانب سے وہی تختہ مشق ستم ہے۔ اس کے تعلیمی ادارے اور اس کی عبادت گاہیں اسلام مخالف اور مسلم دشمن برسراقتدار حکمرانوں اور ان کے چیلوں کے شکنجوں میں ہیں۔ عدالت گاہوں سے مسلمانوں کو ہاتھ آنے والی مایوسی ناقابل فراموش اور عدلیہ کی خود مختارانہ حیثیت کے حوالے سے انھیں متفکر بنانے والی ہے۔ انھیں جمہوریت آمریت ،منصف غاصب ،وکیل مدعی ،عوامی خدمت پر مامور افراد ظلم میں لت پت دکھائی دینے لگے ہیں۔
حالانکہ جمہوریت کا اصل حسن یہ ہے کہ اس کے زیر سایہ عوام سماجی زندگی کے باب میں نسلی ،مذہبی ، ثقافتی ،تہذیبی اور لسانی امتیازات کی لعنت سے پوری طرح پاک ہوں۔ ہر شہری اپنی جان ،عزت ،آبرو ،دولت ،عصمت کو محفوظ سمجھتا ہو۔ اس کے بنیادی اور انسانی دونوں نوعیتوں کے حقوق اس کے حق میں مفید ہوں۔ معاشرہ میں خیر سگالی ، باہمی محبت ، آپسی تال میل ، یکجہتی اور فرقہ وارانہ اتحاد اتفاق کا ہر طرف دوردورہ ہو۔ حکومت استبداد کے خلاف علم حق بلند کرنے والوں کو قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار نہ کیا جاتاہو،انسانی ذرائع کی ترقی اور قابل ترقی پر زو ردیا جاتا ہو، اکثریت اور اقلیت دونوں ایک حلیف کی طرح زندگی گزارتے ہوں نہ کہ ایک دوسرے کا حریف بن کر ،سبھی مذاہب اور سبھی ثقافتوں کا احترام کیا جاتا ہو،حکومت اپنے چندروزہ مفادات کی خاطر متعصبانہ قوانین نافذکرکے جمہوریت کی عصمت دن دہاڑے تار تار کرکے نئے انقلاب کو جنم دینے کی راہ ہموار نہ کرتی ہو۔ مگر افسوس کہ آمریت اور جمہوریت کے مابین حد فاصل بنیاد ی فروق کو بظاہر رفتہ رفتہ قسطوں میں بڑی چالاکی سے حکومت قطع کررہی ہے۔ اس لیے مجھے کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ
نام اس کا آمریت ہو کہ جمہوریت
منسلک فرعونیت مسند سے تب تھی اب بھی ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کی خوبیوں عملی طور اجاگر کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کی فطری خامیوں- جن میں بندوں کو گنا جانا اور انھیں نہ تولا اور نہ پرکھا جانا اور ہر آدمی کا اپنی مرضی سے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا شامل ہیں -کے تحت اکثریتی آراء سے منتخب ہوچکی آمریت کی رسیہ اس برسراقتدار جمہوری سیاسی جماعت کا بھرپو ر بیداری سے مقابلہ کیاجائے۔ حزب مخالف پارلیامینٹ میں اپنی موجودگی پوری زندگی کے ساتھ درج کرائے۔ صحافت اپنی قدروں کو زندہ رکھتے ہوئے رائے عامہ کو ہموار کرے اور ایک ایک شہری کو جمہوریت کی بحالی پر آمادہ کرے۔ دستور ہند کی تمہدی میں کیے گئے حلفیے وعدے ان حکمرانوں کو اپنی اپنی سطح پر ممکنہ ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے یاد دلائے جائیں۔ وقت پر عقل کے ناخن لینے کی خود تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہہ کراپنے آپ کو بھی تسلی دیتے رہیں کہ جمہوری نظام کی انتظامی خرابی یہ ہے کہ اس کی تخت سلطنت پر بیٹھنے والے حاکموں کے معیارات مقرر نہیں ہیں۔
یہی جمہوریت کا نقص ہے جو تخت شاہی پر
کبھی مکار بیٹھے ہیں کبھی غدار بیٹھے ہیں
محمد شفاء اللہ صدیقی ندوی (سیتامڑھی، بہار)
Email: shefaullahnadwi[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں