یار سے چھیڑ چلی جائے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-09

یار سے چھیڑ چلی جائے

daagh-dehlvi-a-monograph

داغ شاید طبعاً عاشق مزاج تھے اور پھر جس ماحول میں انہوں نے آنکھ کھولی اور عنفوانِ شباب کا دور گزرا اس نے اس کے فطری میلان کو اور بھی تقویت دی۔اس دور کے روسا اور امر ابہ یک وقت کئی کئی عورتوں سے جنسی تعلقات رکھنے کو نہ صرف یہ کہ معیوب نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے شان امارت کے اظہار کا ایک ذریعہ بھی خیال کرتے تھے۔ داغ نے اسی ماحول میں پرورش پائی تھی اور وہ اس ماحول کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ جب ان کے معاشی حالات زیادہ اچھے نہیں تھے تب بھی اپنی عشق پیشگی کے وہ اسیر رہے اور جب حالات بہتت اچھے ہوگئے تو باوجود اس کے کہ وہ عمر کی آخری منزلوں میں تھے ، وہ اور بھی کھل کھیلے اور بہ یک وقت دو دو تین تین طوائفوں سے ان کے مراسم رہے۔ یہ مراسم ظاہر ہے جنسی سے زیادہ جذباتی نوعیت کے رہے ہوں گے۔ اس عمر میں ان کی ذہنی کیفیت وہی رہی ہوگی جس کا اظہار غالب کے اس شعر میں ہوا ہے :
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے


زندگی میں جانے کتنی طوائفوں سے داغ کے مراسم رہے ہوں گے لیکن ان کا کوئی دیر پا نقش داغ کے روزوشب پر نظر نہیں آتا۔ یہ دیر پا نقش صرف کلکتے کی منی بائی حجاب نے چھوڑا جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں بسائے رہے۔


حجاب کو داغ نے آخری بار 3جولائی 1882ء کو کلکتے میں الوداع کہا تھا۔ پھر وہ کچھ ایسے حالات سے دوچار رہے کہ حجاب سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکال سکے۔ 1899ء میں انہوں نے نظام حیدرآباد کے ساتھ کلکتے کا سفر بھی کیا لیکن غالباً نظام کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے انہیں حجاب سے ملاقات کی مہلت نہیں ملی۔ اس وقت تک کوئی حسے صاحب حجاب کو پردہ نشیں بھی بناچکے تھے۔ داغ کے اس سے مل نہ سکنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہوگی۔


داغ کی حجاب سے ملاقات چاہے نہ ہو سکی ہو لیکن حجاب تک یہ خبریں ضرور پہنچی ہوں گی کہ داغ والیِ دکن کے ساتھ کلکتے آئے ہیں اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے دل میں بھی پرانی یادوں نے انگڑائی لی ہوگی چنانچہ اس نے داغ کے ساتھ مراسلت کا رابطہ قائم کیا اور ان کے ایما پر حسّے صاحب سے طلاق لے کر داغ کے پاس حیدرآباد جانے کا فیصلہ کرلیا۔ دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا تھا ، عجب نہیں کہ انہو ں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کرلیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے ، واپس ہوئے تو ان کے ورود حیدرآباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے ، سر اور داڑھی کے بال خضاب سے رنگے جاتے ہی؛ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے ، رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرارہہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لئے کیوں ناجائز کردی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا۔


داغ نے 3 جولائی 1883ء کو حجاب کو کلکتے میں خدا حافظ کہا تھا۔ اٹھارہ انیس برس کے بعد انہوں نے 18 یا19 جنوری 1903ء کو اسے حیدرآباد میں خوش آمدید کہا۔ انہوںنے حجاب کے قیام کے لئے ایک مکان کا انتظام کردیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کردی جو سیدہ جعفر کے بیان کے مطابق ابتدا میں ساٹھ روپے تھی پھر سو روپے کردی گئی( داغ دہلوی ، حیات اور کارنامے ، دہلی اردو اکادمی ،ص56) حجاب کا ہاتھ کھلا ہوا تھا۔ یہ رقم اس کی ضرورتوں کی کفالت کے لئے ناکافی تھی ، وہ مزید رقم کا مطالبہ کرتی ہوگی۔ داغ نے اپنے ایک عزیز شاگرد میر حسن علی خاں کو ایک بار لکھا تھا:"حجاب کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، آئے دن سر گرداں رہتی ہے۔"
(خطوط داغ، مرتبہ رفیق مارہروی)


حجاب حیدرآباد پہنچی تو اس پر مذہب کا رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ صوم و صلوۃ کی پابند تھی۔ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھنے لگی تھی اور اوراد ووظائف سے بھی شغف پیدا ہوگیا تھا۔ میر یٰسین علی خاں نے، جنہوں نے اس وقت حجاب کو دیکھ اتھا ، اس کا حلیہ یوں بیان کیا ہے:"کوئی 40۔45 کا سن ہوگا۔ رنگ صاف، آنکھیں بڑی بڑی، ناک اونچی ، بالوں پر خضاب چڑھا ہوا ، پتلے پتلے لب، میانہ قد ، اونچی پیشانی ، مانگ پھٹی پھٹی سی، تنگ اطلس کا پاجامہ ، مغزی ٹکا ہوا لانبا کرتا اور اس پر سفید اوڑھنی ، پاؤں میں دہلی کی جوتی اور دونوں ہاتھوں کی پتلی پتلی انگلیوں میں انگوٹھیاں۔"
(نگار،جنوری 1953ء)


حجاب یہی توقع لے کر آئی تھی کہ داغ اس سے نکاح کریں گے۔ اس نے آنے سے پہلے ہی داغ کو لکھ دیا تھا کہ"جب تک نکاح نہیں کرلوں گی ، تمہارے سامنے نہیں آؤں گی۔ میں نے یہ تمام جھگڑا اس لئے نہیں کیا کہ شرعی باتوں کی خلاف ورزی کروں۔ تم اس بھروسے میں نہ رہنا کہ میں تمہارے سامنے آؤں۔"


داغ کے روزنامچہ نگار کا بیان ہے "ایک طوائف کی ایسی دنیا ب دلی ہے کہ کوئی وقت وظیفے سے خالی نہیں ہے۔۔ مرزا صاحب فرمارہے تھے کہ دوچار برس میں ولیہ ہوجائیں گی۔"
(22 جنوری 1903ء)


لیکن داغ حجاب کو اس رنگ میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جانما زاور تسبیح بھجوانے کا حجاب کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے یہ بھی کہلا بھیجا کہ"جب تک تمہارے اوراد ووظائف نہیں چھوٹیں گے ، اس وقت تک تم انسان نہیں بن سکتیں اور جب تک انسان نہ بن سکو، اس وقت تک میرے کام کی نہیں ہو سکتیں۔"


جیسا کہ اوپر بیان ہوا ، داغ حجاب کو سو روپے ماہوار دینے لگے تھے مگر وہ اس رقم کو اپنی کفالت کے لئے ناکافی خیال کرتی تھی اور اس نے ادھر ادھر سے قرض لینا شروع کردیا ، جس کی ادائیگی بالآخر داغ ہی کو کرنی پڑتی۔ پھر حجاب نے کلکتے سے اپنے متوسلین کو بھی بلالیا اور اس کے نتیجے میں روز مرہ کے اخراجات اور بڑھ گئے۔ داغ حجاب کی خاطر یہ اضافی اخراجات بھی شاید جھیل لیتے لیکن حجاب ان کے معمولات میں بھی دخیل ہونے لگی۔ داغ کا مشہور شعر ہے :
تو جو ہر جائی ہے ، اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی


حجاب نے سوچا ہوگا کہ اب ادھر ادھر کے سارے رشتے توڑ کر وہ داغ کے پاس چلی آئی ہے تو انہیں بھی ، تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی" کا رویہ ترک کردینا چاہئے۔ ادھر داغ کا طرز عمل یہ تھا کہ انہی دنوں جب حجاب کی حیدرآباد میں آمد آمد تھی اور وہ اسے ایسے عاشقانہ خطوط لکھ رہے تھے:
"دشمن جانی ، سلام شوق۔ عین انتظار میں تمہارا محبت نامہ دستیاب ہوا۔ کئی بار پڑھا اور آنکھوں سے لگایا، چوما اور چھاتی پر دھرا، تم لکھتی ہو مجھے بھول جاؤ اور اگر نہ بھولو تو بدل جاؤ۔ یہ کرلوگے جبھی تمہارے پاس آؤں گی۔ خوب، تم کو میں بھول جاؤں:
تو بھولنے کی چیز نہیں خوب یاد رکھ
نادان! کس طرح تجھے دل سے بھلائیں ہم
اچھا تم یہاں آجاؤ ، پھر ہم ایک دوسرے کو بھولنے کی کوشش کریں گے۔"


کہ ان کے شاگرد رشید نوح ناروی حیدرآباد آئیے اور انہوں نے استاد کی خدمت میں الہ آباد کی ایک طوائف بنی جان کی تصویر سوغات پیش کی۔ داغ تصویر دیکھ کر ہی بنی جان پر لٹو ہوگئے اور انہوں نے اسے لکھا:" کیوں جی! تم سے کیونکر ملیں ، تم کو کیونکر دیکھیں، کیونکر سنیں اور نہ دیکھیں تو کیونکر جئیں"
(انشائے داغ، ص66، خط پر 15 دسمبر 1901ء کی تاریخ درج ہے )


خط میں"کیونکر سنیں" کے لفظ توجہ طلب ہیں۔ داغ کو گانا سننے کا بہت شوق تھا۔ حجاب کے حیدرآباد آجانے کے بعد بھی انہوں نے اختر جان نامی ایک مغنیہ کو ملازم رکھا ہوا تھا جس سے کبھی کبھار داغ گانا سنا کرتے تھے۔ حجاب نے اس کی برطرفیی کا بھی مطالبہ کیا اور عدت پوری ہوتے ہی نکاح کی بھی خواستگار ہوئی۔ داغ نے خود بھی یہی ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ وہ حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں مگر اب سچ مچ یہ مرحلہ آیا تو وہ گھبرا گئے۔ ایک دن انہوں نے اپنے احباب سے کہا"کچھ سنا؟ نکاح کا تقاضا ہورہا ہے۔ بڈھے ہوگئے، منہ میں دانت نہیں، پیٹ میں آنت نہیں، نکاح کاماحصل اور جزواعظم دونوں کے پاس ندارد۔"


حجاب نے کچھ دن انتظار کیا کہ داغ اس کی راہ پر آجائیں، ادھر داغ نے بھی نباہنے کی اپنی سی کوشش کی مگر دونوں ہی ناکام رہے۔ داغ سے مایوس ہوکر حجاب اگست 1904ء میں کلکتے واپس چلی گئی۔ تمکین کاظمی "معاشقۂ حجاب و داغ" میں لکھتے ہیں:
"یہ صرف وضع داری اور دل لگی تھی۔ اس جذبہ تفریح کو محبت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ دونوں طرف سے ایک ہی جذبہ کارفرما تھا۔ داغ اپنی دولت و ثروت اور عزت و امارت کا نقش حجاب کے دل پر بٹھانا چاہتے تھے اور حجاب کی نظر داغ کی دولت پر تھی۔"
(ص61)


یہ خیال کسی حد تک درست ہوسکتا ہے۔ داغ کے ایک مقطعے سے حجاب کے رویے کی نشاندہی ہوتی ہے:
داغ سے کہتے ہیں سب دے دو مجھے
جو ملا ہے تم کو آصف جاہ سے


لیکن کم از کم داغ کے دل میں حجاب کے لئے نرم گوشہ ضرور تھا۔ حجاب کے کلکتے چلے جانے کے بعد داغ زیادہ زندہ نہیں رہے لیکن جب تک رہے ، اسے ماہانہ کچھ بھجواتے رہے۔
حجاب اگست 1904ء میں داغ سے خفا ہوکر کلکتے واپس چلی گئی تھی۔ اس کے جانے کے لگ بھگ سات مہینے بعد 16فروری 1905ء کو داغ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔"دبدبۂ آصفی"(شمارہ 9،جلد8، صفحہ29، 6 ذی الحجہ 1322ھ) میں داغ کے مرض الموت کی تفصیل شائع ہوئی تھی جس کے مطابق وہ آٹھ دن تک بستر علالت پر زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ بائیں طرف فالج کے حملے کی وجہ سے جسم کا ایک حصہ بیکار ہوگی اتھا۔ نور اللہ محمد نوری نے عبدالمجید آزاد کے حوالے سے لکھا ہے کہ زندگی کے آخری دنوں میں داغ کو زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ انہوں نے آزا د سے کہا تھا" اب مجھے عطر کی بو محسوس نہیں ہوتی، گانا سنوں تو وحشت ہونے لگتی ہے، غزل کہنے اور سننے سے طبیعت دور بھاگتی ہے۔۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ میری زندگی کے دن ختم ہوچکے ہیں:
ہوش و حواس تاب و تواں داغ جاچکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
(داغ دہلوی،ص24)


آصف سادس نے اپنے استاد کی رحلت کی خبر سن کر تجہیز و تکفین کے لئے خزانہ شاہی سے تین ہزار روپے بھجوائے۔ داغ کی نماز جنازہ عیدالاضحٰی کی صبح مکہ مسجد میں ادا کی گئی اور درگاہ یوسفین میں وہ اپنی رفیقہ حیات کے پہلو میں مدفون ہوئے۔ وہیں ان کے ہمعصر امیر مینائی بھی آسودۂ خاک ہیں۔

***
ماخوذ از کتاب: داغ دہلوی۔ مصنف: مخمور سعیدی۔
ناشر: ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی (سن اشاعت: 2004ء)

A romance of Daagh Dehlvi. Essay by: Makhmoor Saeedi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں