شہرہ آفاق اردو ناول - اداس نسلیں - کے خالق عبداللہ حسین کا انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-07-04

شہرہ آفاق اردو ناول - اداس نسلیں - کے خالق عبداللہ حسین کا انتقال

Renowned-Urdu-novelist-Abdullah-Hussain
معروف مصنف ناول نگار عبد اللہ حسین طویل علالت کے بعد، 84 برس کی عمر میں آج 4/جولائی 2015 کو لاہور کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کر گئے۔ وہ کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے عبداللہ حسین کے انتقال پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: قومی زبان کی ترقی اور اردو ادب کیلئے عبداللہ حسین نےگراں قدر خدمات انجام دیں عبداللہ حسین کی وفات ملک اور ادبی حلقوں کیلئےبڑا نقصان ہے۔

عبداللہ حسین نے باگھ، فریب، نشیب اور نادار لوگ جیسے کئی مقبول ناول تحریر کیے لیکن ان کی اصل وجۂ شہرت ان کا ناول "اداس نسلیں" بنا جسے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت پذیرائی ملی۔ سنہ 2014 میں ان کے اس شہرۂ آفاق ناول کے پچاس برس مکمل ہوئے تھے۔
ادب کے لیے عبداللہ حسین کی خدمات پر حکومت پاکستان نے انھیں 2012 میں پاکستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ "کمالِ فن" سے نوازا تھا جبکہ "اداس نسلیں" پر انھیں 'آدم جی ایوارڈ' بھی ملا تھا۔

اُداس نسلیں کے خالق عبداللہ حُسین داود خیل کی فیکٹری میں بطور کیمسٹ کارگزار تھے۔ وقت گذارنے کیلئے اُنہوں نے ایک رومانوی کہانی لکھنی شروع کی، جس کا اختتام "اُداس نسلیں" کے نام سے ایک ناول پر ہوا، اسے پاکستان کا پہلا ناول بھی کہا جاتا ہے۔ جس کی بُنت برصغیر کی تقسیم اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کے حوالے سے ہے ۔
دلچسب بات یہ ہے جس وقت یہ ناول لکھا گیا اُس وقت عبداللہ حُسین کی اُردو زبان سے دسترس واجبی سی تھی، مگراُنہوں زبان سے زیادہ حقیقت نگاری پر توجہ دی، جب یہ ناول شائع ہوا اس میں موجود گالیوں کی وجہ سے اسے ہدف تنقیدبھی بنایا گیا۔ اس ناول کی اب تک برقرار مقبولیت یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پچاس برس پہلے لکھا جانے والے اس ناول نے ہر نسل کو متاثر کیا ہے۔
اس ناول نے عبداللہ حسین کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اگرچہ قرۃ العین حیدر نے عبداللہ حسین پر نقل کے الزامات لگائے تھے اور صفحہ نمبر تک کے حوالےدیئے تھے کہ اس میں انکے ناول "آگ کا دریا" کا اسلوب اور پیراگراف شامل کئے گئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود 'اداس نسلیں' آزادی کے بعد تحریر کئے جانے والے اہم ترین اردو ناولوں میں سے ایک ہے۔ اس میں دہلی اور پنجاب کے درمیان ایک گاؤں کا منظر پیش کیا گیا ہے جس میں میں ہندو، مسلم اور سکھ بستے ہیں۔ اُن کے ساتھ اس دور میں کیا کچھ ہوا؟ خواہ غربت ہو جنگ عظیم ہو یا تحریک آزادی ۔ ان حالات نے لوگوں پر کیا اثرات پیدا کیے؟ انگریز کی غلامی اور فسادات نے اعضابی تناؤ کا شکار اداس نسلیں پیدا کیں۔ اور یہی مرکزی موضوع اس ناول کا اصل موضوع رہا ہے۔

اردو بلاگر عدنان مسعود اس ناول سے متعلق اپنا تجزیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
urdu novel udas-naslein
کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد آپ کو کم از کم اس صنف میں موجود دیگر کتب انکےآگے ہیچ لگنے لگتی ہیں، اپنی کم علمی کم مائگی کا احساس بڑھتا جاتا ہے۔ عبداللہ حسین کا ناول "اداس نسلیں" بھی اسی قسم کی ایک نہایت اہم و دلچسپ کتاب ہے جو فکشن اور نان فکشن کے درمیانے احاطے میں با آسانی چہل قدمی کرتے ہوئے تین نسلوں کی سرگذشت سناتی ہے۔ ۱۹۶۳ میں چھپنے والے اس ضخیم ناول کو اکثر برصغیر کے بٹوارے کی داستاں گردانا جاتا ہے لیکن پیش منظر میں بہت سے دیگر نہایت اہم موضوعات زیر بحث رہے جن میں مقصد حیات، طبقاتی تقسیم، غربت و استحصال، سماجی اقدار، مذہب و کلچر کا آپسیں رشتہ، مذہب، الحاد اور عقل کے باہمی تعلق پر مکالمے شامل ہیں۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلشرز نے شائع کیا ہے اور اسکا انگریزی ترجمہ بھی ویری نیشنز کے نام سے ایمزن پر دستیاب ہے جس کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ وہ ایک مبتدی کی ایک ماہر ہنر کے کام کو نقل کرنے کی کوشش ہے۔

یہ ناول ایک 'ایپک' داستاں ہے اور مہابھارت سے لے کر ہومر سے لے کر ایپک کی ایک خوبی اسکی طوالت ہوتی ہے۔ 450 صفحات کی اس کتاب کو ایک کنٹیمپرری ایپک [contemporary epic] کہا جاسکتا ہے جس کے مصنف نے نا تو خود سے بٹوارہ دیکھا اور نا ہی انکی مادری زبان اردو ہے لیکن مکالمہ سازی، پلاٹ، کردار سازی اور قصہ گوئی میں عبداللہ حسین کو جو ملکہ حاصل ہے وہ عالمی ادب میں چیدہ چیدہ مصنفین کے پاس ہی نظر آتا ہے۔ لائف آف پائ [Life of Pie] کی تمثیل تو شائد مہمل ٹھرے لیکن 1776 کے ڈیوڈ میکیلگ بھی عبداللہ حسین سے تنوع سیکھ سکتے ہیں۔ دو کسانوں کی باہمی عامیانہ گفتگو ہو، نعیم اور انیس کا فلسفیانہ مکالمہ ہو، روشن علی آغا کی غدر میں سنہرے بالوں والے انگریز کو جان ہتھیلی پر رکھ کر بچانے کی لرزہ خیز کہانی ہو یا اینی بیسنٹ کا مجلس خدام ہند پر تبصرہ، مصنف نے اس خوبی سے ان تمام موضوعات کو ایک جامع ناول میں یکجا کیا ہے کہ ہر ایک کردار جدا بھی ہے اور بڑے کینوس کا حصہ بھی۔
یہ ناول اشفاق حسین کی طرح 'پریچی' نہیں، منٹو کی طرح 'ایکسپلسٹ' نہیں اور بانو قدسیہ کی طرح 'انکلسوڈ' نہیں۔ انگریزی کے اصطلاحات استعمال کرنے کی معذرت لیکن اداس نسلیں کے مصنف نے بھی اس امر میں کوئی شرم محسوس نہ کی۔ مذہب و الحاد پر جس قسم کی عمیق و جداگانا بحث ہمیں انکے یہاں ملتی ہے اس کا عشر عشیر بھی آج کے ترقی پسند لٹریچر میں نظر نہیں آتا۔ عبداللہ حسین کے اس ناول نے جدید واقعہ گوئی کو درویش کے قصوں سے ملا کر ایک ایک نئی صنف کی بنیاد ڈالی ہے۔

بحوالہ : اداس نسلیں از عبداللہ حسین

قابل مطالعہ ۔۔۔
- عبداللہ حسین کا "اُداس نسلیں" پچاس برس کا ہوگیا (محمود الحسن۔ روزنامہ ایکسپریس ، پاکستان)

***
متذکرہ ناول "اداس نسلیں" انٹرنیٹ سے پی۔ڈی۔ایف شکل میں ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
ناول : اداس نسلیں
مصنف: عبداللہ حسین
پی۔ڈی۔ایف صفحات : 502
پی۔ڈی۔ایف فائل سائز : 35 میگابائٹس
لنک : Urdu novel Udas Naslein

Renowned Urdu novelist Abdullah Hussain passes away

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں