داغ دہلوی (نواب مرزا خاں داغ دہلوی) (پیدائش: 25/مئی 1831ء - وفات: 17/مارچ 1905)
ان معنوں میں بڑے شاعر نہ ہوں جن معنوں میں مثال کے طور پر میر، غالب یا اقبال کو بڑا شاعر کہا جاتا ہے لیکن اردو کے اہم شاعروں میں داغ کا شمار ہمیشہ سے کیا جاتا رہا ہے، ان کی شاعرانہ اہمیت اور ان کی شاعری کی فنی قدر و قیمت سے آج بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ اقبال اور سیماب جیسے شعرا کو بھی داغ سے نسبتِ تلمذ رہی ہے۔ داغ کی وفات پر اقبال نے جو مرثیہ کہا ہے اس میں انہیں جہاں آباد (دلی) کا آخری شاعر قرار دیا ہے: ع
آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے
اور سچ یہی ہے کہ داغ کے بعد دلی کی سرزمین نے ایسا کوئی شاعر پیدا نہیں کیا جو ان کی خالی جگہ پُر کر سکتا ہو۔ داغ شاعری کی ان تمام اصناف پر قادر تھے جو ان کے زمانے میں مروج تھیں۔ دلی کی تباہی پر انہوں نے شہر آشوب بھی لکھے، اپنے سرپرستوں کی شان میں قصیدے بھی کہے، تاریخی قطعات بھی ان سے یادگار ہیں، رباعیاں بھی ان کے ذخیرۂ کلام میں موجود ہیں لیکن ان کی پہلی پہچان بنی ان کی غزل اور دوسری حیثیت ملی ان کی مثنوی کو جو "فریادِ داغ" کے تاریخی نام سے مشہور و مقبول ہوئی اور کلکتے کی منی بائی حجاب سے ان کے معاشقے کی یادگار ہے۔
داغ کی غزل کی سب سے نمایاں خصوصیت جذبے کی سچائی اور اظہار کی بےتکلفی ہے۔ ان کی غزل فکری عنصر سے یکسر خالی نہیں، کم کم ہی سہی لیکن ان کی سوچ انہیں زندگی کے ان مظاہر تک لے جاتی ہے جن کا سامنا ایک فکرمند انسان ہی کر سکتا ہے۔
داغ کی برسی پر، ان کی مختصر سوانح پر مبنی ایک یادگار کتاب تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 3 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
***
نام کتاب: داغ دہلوی (مختصر سوانح)
مصنف: مخمور سعیدی
ناشر: ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی (سن اشاعت: 2004ء)
تعداد صفحات: 96
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 3 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Daagh Dehlvi by Makhmoor Saeedi.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | حرفے چند | 7 |
1 | حسب نسب اور خاندان | 11 |
2 | لال قلعے تک رسائی | 17 |
3 | دربارِ رامپور سے وابستگی | 21 |
4 | ڈھلتی عمر کا معاشقہ | 26 |
5 | والیِ دکن کے مشیر سخن | 35 |
6 | یار سے چھیڑ چلی جائے ۔۔۔ | 53 |
7 | غالب سے راہ و رسم | 59 |
8 | غزلوں کا مختصر انتخاب | 77 |
ب | مآخذ | 94 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں