احساسِ نفس کی تہوں میں اترتا : ریاض دانش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-10

احساسِ نفس کی تہوں میں اترتا : ریاض دانش

jo-amaan-mili-riyaz-danish-book-review

(افسانوی مجموعہ 'جو اماں ملی۔۔۔۔' کے تناظر میں)


انسان کا شعور جب بیدار ہوا، اُس وقت سے آج تک کہانیاں سنی اور سنائیں جاتی ہیں۔ یہ کہانیاں ہماری وراثت ہیں، اثاثہ ہیں اور رہبر بھی۔ ان کہانیوں نے اُس وقت ہماری رہنمائی کی ، ہمارا دل بہلایا جس وقت اس کے مد مقابل دل جوئی اور راست راہی کا کوئی اور وسیلہ نہیں تھا۔ بدلتے ادوار کے ساتھ ان کہانیوں کا مزاج بدلا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا ، جب افسانوں میں 'کہانی پن' سے زیادہ ، انسانی زندگی کے کرب کو بیان کیا جانے لگا اوریہ صحیح بھی تھا۔ حالاں کہ اس تبدیلی سے افسانوں کا ایک نیا روپ سامنے آیا جس کے کچھ معترف ہوئے تو کچھ منحرف۔۔۔۔ مگر اس کا سفر جاری رہا اور دھیرے دھیرے افسانہ اپنے پاؤں پسارتا رہا۔ عصرِ حاضر میں ایسے افسانے ، جو انسانی زندگی کے کسی ایک پہلو کی نمائندگی کرتے ہیں ، مقبول ہیں۔ طلسماتی واقعات اور مافوق الفطرت واردات سے آج کا ذہن بیزار ہے۔ وہ کڑوی حقیقتوں کا بلاواسطہ سامنا کر رہا ہے ، جہاں اس کے اپنے ذاتی مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی دیو یا پری بھی سن لے تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوجائے۔ آج فضا میں سوندھی خوشبو بکھرنے کی بجائے وبا پھیلنے کا خطرہ بنا ہوا ہے۔ آج سورج کا طلوع دو پل کو چین سے سوئے ہوئے انسان کو اٹھا کر ہزار پریشانیوں کا سدباب ڈھونڈنے کو ننگی سڑکوں،بھیڑ بھری ٹرینوں، آگ لگتے بازاروں میں ایک دن کی زندگی ڈھونڈنے کو بھیج دیتا ہے۔ ا گر وہ ایک دن کی زندگی نکالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ کاغذی درستگی میں ہلکان ہوتا ہے۔ اب ایسی صورت حال میں ایک انسان جب اپنا ضمیر ٹٹولنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ قدرت کی ہر رنگینی سے بے نیاز ہو چکا ہوتا ہے۔ اسے بس ان سوالوں کے جواب چاہئے ہوتے ہیں ، جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
ایک فن کار کی مٹی میں جو عناصر موجود ہوتے ہیں ، ان میں احساس کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اور تیز تر ہوتا ہے۔ فن کار کیا ہے، گر ایک معمولی انسان کے خمیر سے جب یہ احساس کا مادّہ نکل جاتا ہے تو پھر جاندار تو کہلا سکتاہے ، پر انسان ہر گز نہیں۔ فن کاروں میں احساس کا یہ مادّہ ، اُن کے فن کو تابندگی بخشتا ہے۔ ایسے ہی افسانہ نگاروں نے ، جنہوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت کی اور جدید دور کے انسانی کرب کو محسوس کیا اور اُس کا مداوا ڈھونڈا ، ان میں ایک اہم نام ریاض دانش کا بھی ہے۔


ریاض دانش عمدہ افسانے لکھنے پر قادر ہیں۔ اُن کے افسانوں کا ایک اپنا جہان ہے۔ اُن کے افسانوں کی دنیا میں، انسان کی نفسیات و کیفیات کے رنگ جابجا کئی صورتوں میں اذہانِ قاری پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔ ریاض دانش اپنی بات اور مقصدِ تخلیق کی ترسیل میں بہت کامیاب نظر آتے ہیں ، وہ اس لئے کہ وہ جو بولنا چاہتے ہیں ، بالکل صاف اور واضح بول ڈالتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک افسانہ نگار کی کامیابی اسی منزل کو کہتے ہیں ، جہاں کہانی کو آخری موڑ سے قاری اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے کسی اور موڑ تک۔


مجموعہ 'جو اماں ملی' میں ۱۴؍ افسانے شامل ہیں۔ یہ افسانے ریاض دانش کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان افسانوں کی قرأت کے دوران افسانہ نگار بیباکی بہت متاثر کرتی ہے نیز موضوعات کے انتخاب میںماہرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ بھی کیاگیا ہے، اس لئے کسی افسانے میں Repetition of thoughts کا احساس نہیں ہوتا۔ افسانہ لکھنے کا فن ایک نئے جہان کے خلق کرنے کا فن ہوتا ہے ، جہاں مواد اور موضوعات تو حاضر دنیا سے ہی اخذ کئے جاتے ہیں مگر تخلیق ، دور حاضر کے تناظر میں کئے جاتے ہیں۔ تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ، جو انسانی زندگی سے جڑے ہیں اور ان احساسات کا مداوا ڈھونڈنے کی حسب صلاحیت کوشش ہوتی ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے ، جب قصوں کے کرداروں میں ہم اپنے وجود کو ضم کرکے ہنستے روتے تھے۔ آج تو ہمارے وجود سے ہزاروں کہانیاں صفحۂ قرطاس پر بکھرنے کو بیتاب رہتی ہیں ، پر ان کہانیوں کا خالق،قاری اور ناقد سب اپنا ہی وجود ہوتا ہے۔ مجموعے کا ٹائٹل افسانہ 'جو اماں ملی' ایسا ہی ایک افسانہ ہے۔ افسانے میں جس نکتے کو پیش کیا گیا ہے ، وہ بالکل نیا ہے اور اچھوتے انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ جس ندامت کا ذکر اس افسانے میں کیا گیا ہے، اس کی گواہی ایک زندہ ضمیر ہی دے سکتا ہے۔
عام طور سے لوگ سکون کی تلاش میں مقدس جگہوں پر جاتے ہیں اور so-called روحانی لوگوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں تاکہ گزرے ہوئے کربناک لمحوں کی ٹیس کم اٹھے مگر ایسا نہیں ہوتا ، گناہ تو گناہ ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ زندہ ضمیر کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔ مردہ دل ، گناہوں کے ان کچوکوں سے مبرا ہوتے ہیں مگر جس نے گناہ کیا اور ضمیر کو زندہ چھوڑ دیا ، تو گناہ زندگی کی آخری سانس تک اُس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اُس کے مٹنے یا مٹانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ، چاہے وہ بعد کی زندگی میں رہبانیت کی زندگی ہی کیوں نہ جی رہا ہو۔
گناہ کی یہ پکڑ مرشد و مرید کے لئے یکساں ہے۔ افسانہ نگار کا نظریہ اس افسانے میں عملی ہے۔ یہ افسانہ خاکی پتلے کے دل میں گھس کر لکھا گیا ہے۔ افسانے میں جب شیخ جی اپنے مرید سے سوال کرتے ہیں کہ تیری پریشانی کیا ہے ؟ تو مرید جو جواب دیتا ہے ، وہ جواب ہی اس افسانے کو لکھنے کا سبب ہے۔


"میری پریشانی ہے میری عقل۔۔۔۔ میرا ضمیر۔۔۔۔۔ میرا من۔۔۔۔۔ کہ یہ سب کے سب میرے وہ بے لگام گھوڑے ہیں جو مجھے زندگی کے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں، جہاں آکر کئی راہیں تو ملتی ہیں مگر کوئی نئی راہ نہیں نکلتی۔ ایک ایسی راہ جہاں سے میں فرار حاصل کرسکوں یا پھر خود کو تسلّی دے سکوں۔ پس اس نئی راہ کے نہ پانے پر میں بے چین ہوجاتا ہوں اور مجھے اپنی ساری عبادت و ریاضت بیکار محض دکھائی دینے لگتی ہیں اور میں زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگتا ہوں۔ "


'سڑک کا دوسرا کنارہ' کا موضوع بے حسی ہے ، جو انسانی قلب کی آماجگاہ بن چکی ہے۔ دھوبی منڈی میں پائی جانے والی نیلی آنکھوں والی بچی، جس نے موت کو مات دے کر مشفق اور نیک دل کانسٹیبل مختار الدین کے آنگن میں بیٹی کا پیار پایا۔ اس نے سن بلوغت کو پہنچتے ہی، زندگی کی راہوں پر چلنے کے لئے ایک ایسے بے ضمیر نواب کا ہاتھ تھاما جس نے اس کی زندگی کی تمام رونقیں چھین کر اُسے بد رنگی عطا کردی۔ حالات نے اسے وہاں پہنچا دیا ، جہاں پہنچ کر تمام رشتے مندمل ہوجاتے ہیں ، جہاں رگوں میں خون اپنی معنویت کھو کر لال رنگ کی بے حسی بن کر دوڑتا ہے ، جہاں انسانیت ، حسن اور سکوں کی جھنکار میں بہ خوشی بے آبرو ہوجاتی ہے۔ نیلی آنکھوں والی لڑکی جب اپنے خون کے پاس پہنچتی ہے ، تو وہ خون اسے خودغرضی میں پہچان بھی نہیں پاتا اور جب فطرت اسے یاد دلانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ فطرت کے منہ پر نوٹ کی گدی اچھال دیتا ہے۔


'تار عنکبوت' ایک استعاراتی افسانہ ہے جس میں ریاض دانش نے خواب سے تعبیر کے درمیان ہونے والے غیر انسانی واقعات کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ تعبیر کی تلاش میں انسانیت سے حیوانیت کی طرف بڑھتے قدم اور پھر الجھتے قدم سے گرتے انسانی احساس کے Rehabilitation کی ناکام کوشش کا المیہ ہے۔ عنوان معنی خیز ہے اور افسانے کا رمز بھی اس عنوان میں مضمر ہے۔


'آکسیجن' آج کی کہانی ہے۔ ایک نام نہاد مہذب اور Advance Age کی کہانی ، جہاں عہد و پیماں،شرم و لحاظ،اخلاق و اعتبار مردّہ شئے ہیں۔ مریادا کو کب کی لانگھ چکی زندگی ، اب ان واہیات عناصر کا جی کھول کر مذاق اڑا رہی ہے۔ افسانہ نگار نے فلیش بیک میں جاکر مناظر کی جو عکس بندی کی ہے اور حال سے جو اس کے ریشمی دھاگے جوڑے ہیں، وہ عمدہ فن کاری کے ثبوت ہیں۔ یہ دور جس میں سن رسیدہ اعتبار ، تہذیب کی لاش کو محض اس لئے ڈھورہی ہے کہ اس میں اس بے حس سماج سے آنکھ ملانے کی سکت نہیں۔ دنیا روز نئے لباس بدل رہی ہے، کافی کے مختلف ذائقے تیار ہو چکے ہیں۔ بلیک بھی ہو سکتی ہے اور براؤن بھی،کافی گرم بھی ملتی ہے اور ٹھنڈی بھی۔ یہ تو صارف کو طے کرنا ہے ، اسے کون سا ذائقہ پسند ہے۔ اب تو تاثیر بھی چوائس کے مطابق بدلتی ہے۔ سب کو کھلی فضا میں آکسیجن حاصل کرنے کی آزادی ہے، کوئی ان پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ اپنے اپنے مقدار کے مطابق آکسیجن کے ساتھ سب جی رہے ہیں ، کسی کو، کسی سے ، کوئی شکایت نہیں۔


کہانیاں تغیر پذیر ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ موضوعات اورکردار بدلتے رہتے ہیں۔ نئے مسئلے سر ابھارتے ہیں ، نیا حل تلاش کئے جاتے ہیں۔ اب زندگی جینے کی اسکیمیںTerms & Conditions Apply پر منحصر ہوتی جارہی ہے، جہاں خلافِ فطرت کچھ بھی نہیں ہے۔ افسانہ 'سراب' ایسا ہی افسانہ ہے ، جو عصر رواں کی ایک خوف ناک مگر سچی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس افسانے کی کہانی چونکاتی نہیں مگر اس افسانے کا اختتام ، جب غیر متوقع طور پر بدلتا ہے تو قاری کے منھ کھلے رہ جاتے ہیں۔ ماضی کے ایک پل میں کھڑے روہیت ورما کی Semen Analysis کی رپورٹ کے ندی میں بہنے کے بعد جب روہیت ورما کہتا ہے کہ: "تھینکس کملا! تم نے میری لاج رکھ لی۔۔۔۔ مجھے بہت سی رسوائیوں سے بچا لیا !" یہ فقرہ روہیت کو سمجھوتے کی سبھی سطحوں سے گرا دیتا ہے مگر وہ غیر اعتمادی کا شکوہ بھی نہیں کرتا۔ یہ یقینا اس کا ظرف نہیں ، سماج میں با وقار زندگی گزارنے کا غرض تھا۔


ریاض دانش اپنے افسانوں میں زمینی حقیقتوں کا انکشاف کرتے ہیں۔ ترقی پسندی کہیں نہ کہیں سر اٹھائے جھانکتی نظر آتی ہے۔ زمین پر انسانوں کے ساتھ ایک ذات بے بس مزدوروں کی ہوتی ہے جو پیدائشی سزا یافتہ ہوتی ہے۔ یہ 'ذات' جی، میں ذات اس لئے کہوں گا کہ مزدور ایک ذات ہی ہے۔۔۔۔ نام، روپ، زبان، مقام اور طریقۂ استحصال الگ الگ ہوسکتے ہیں ، پر زندگی ، خواب ، سسکیاں ، آہیں ، نالے ، کبھی نا ختم ہونے والی بھوک اور ٹوٹتے بدن بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ریاض دانش کا افسانہ' مدنا!تم مر نہیں سکتے' اسی ذات کا المیہ ہے۔ مدنا اور مدنا جیسے لوگ کبھی مر ہی نہیں سکتے۔ ایک مدنا مرے گا تو ہم اور ہم جیسے کئی مدنا بنانے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ اس افسانے میں افسانہ نگار نے منا بھائی کے تجارتی ذہن کے ساتھ خود کی بے غیرتی کو بھی نوکِ قلم پر رکھا ہے اور ایسا کرکے ریاض دانش نے خود احتسابی کی راہ ہموار کی ہے۔ افسانے کے آخری سطور دیکھیں، کیا حقیقت بیانی ہے:
"مدنا مرچکا ہے مگر منا بھائی نے کہا تھا کہ مدنا جیتا کب تھا ، جو اسے موت آئے گی۔ تو مدنا تمہیں موت نہیں آسکتی۔۔۔۔۔ اور اگر کبھی موت آئی بھی تو ہم لوگ تمہیں بچالیں گے اور زندہ رکھیں گے کسی نہ کسی روپ میں اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ اپنی طول حیات سے گھبرا کر تم خود مرنا چاہو تو بھی ہم تمہیں نہیں مرنے دیں گے۔ تم ہماری زمین کی بہت بڑی ضرورت ہو۔
شایدسب سے بڑی۔۔۔۔۔۔۔ "


افسانہ 'ٹریجڈی' مردہ ضمیری کی روداد ہے اور خود احتسابی کی تصویربھی۔ جب انسان ، انسانیت کی سطح سے لڑھک کر حیوانیت کے جنگل میں جا گرتا ہے تو وہ تمام تر انسانی صفات سے عاری ہوجاتا ہے۔ اس کے رگ و پے میں نفرت کی چنگاری بھر چکی ہوتی ہے۔ صفاتِ حیوانی کا غلبہ اس کے ذہن پر غالب آ جاتا ہے۔ ایسی صورت ِ حال اکثر و بیشتر انسانی مہذب سماج میں رونما ہو جاتے ہیں۔ افسانے کا مرکزی کردار بھی حیوانی صفات سے لیس تھا ، جب اس نے آدمیت کی سیما لانگھی تھی اور تین لوگوں کی حیات چھین لی تھی لیکن اس برگد کے نیچے بیٹھے شخص کی ہلاکت کے بعد اس کا جینا دوبھر ہوگیا۔ اُس کا ضمیر جی اٹھا تھا۔ وہ اپنے گناہوں کے بوجھ تلے دبتا ہی جا رہا تھا اور ایک لاش اس کا تعاقب کر رہی تھی اور اس نے اس کرب سے آزادی کی خاطر خود کو بھی مار ڈالا مگر ' اماں 'اسے ابھی بھی نہیں ملی تھی۔ اسے اپنے کئے پر اس وقت افسوس ہورہا تھا ، جب اس افسوس کی کچھ وقعت نہیں رہ گئی تھی۔ اس افسانے میں اجتماعیت کے خود احتسابی کا پہلو بھی ابھرتا ہے۔ مقتول کی معافی کے بعد بھی قاتل کی پشیمانی احساسِ ندامت کا کچوکا نہیں تو اور کیا ہے؟


'یونہی ہوتا' ایک شوہر ، ایک باپ اور ایک مرد کی کہانی ہے۔ آصف روٹین لائف سے بیزار ہو چکا ہے۔ اس کے اندر کا انسان بے تکلف زندگی گزارنے کا خواہاں ہے جبکہ زندگی کے جس موڑ پر وہ ہے ، وہاں ایسی آزادانہ زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اب اس کے اندر کا آدمی تو آصف کمال ہے مگر باہر سے شوہر اور ایک باپ ہے جس کا نام نہیں ، بس ایک فرض ہے۔ اسے عینی کی یاد بھی کبھی ستاتی ہے مگر وہ فوراً اس کے احساس سے باہر نکل آتا ہے۔ افسانے کے آخر میں اس کا لوٹ کر نا آنا تجسس پیدا کرتا ہے۔


ریاض دانش کا افسانہ "تصورات کی پرچھائیاں"حقیقت کے کھردرے پن میں تصورات کی رنگریزی ہے۔ حقیقت کی دنیا الگ اور تصورات کی دنیا الگ ہوتی ہے۔ روز ازل سے وہ چیزیں جو پردۂ خفا میں رہیں وہ پرکشش اور دلفریب رہیں۔ حسن اور حسن کی لذت کا احساس ان دیکھے اور ان چھوئے چیزوں سے ذیادہ ہوتا ہے۔ تاج محل کا جو تصور ایک اجنبی کے دل میں بستا ہے وہ ان تصورات کے ہمراہ تاج محل کو کئی بار دیکھ چکا ہوتا ہے اور اس کے ان رازوں سے آشنا بھی ہوتا ہے جن رازوں کا حقیقت میں کوئی وجود بھی نہیں ہوتا مگر وہ اپنے تصورات سے ایسے دل کو خوش کرنے والے راز پیدا کرلیتا ہے۔ انسانی خمیر میں دل کو خوش کرلینے والی یہ تصورات شامل ہیں اگر نہیں ہوتیں تو زندگی وبال بن جاتی۔ یہ تصورات نے ہی ہماری تسکین کا سامان فراہم کر رکھا ہے۔ تصور کبھی بوڑھا نہیں ہوتا اور زمانے کا اس پر اثر بھی نہیں ہوتا۔ یہ نہ دکھائی دینے والے "تصور"ہر قید و بندش سے بھی آزاد ہوتا ہے۔


اس افسانے میں انسان کی ایک اہم ضرورت جنسی تسکین جو دراصل نفسیاتی تسکین ہے، کو موضوع بنایا گیا ہے اور اس تسکین کا ذریعہ انسان کا تصور ہی ہوتا ہے دوسرا کوئی نہیں۔ تمام ضرورتوں کے ساتھ یہ بھی ایک اہم ضرورت ہے اس کی طلب ہونا اور طلب کا مداوا ڈھونڈنا انسانی تہذیب سے قطعئ الگ نہیں۔ کہانی کے ہیرو کو اپنی بیوی میں کوئی کشش نہیں دکھائی دیتی جب کہ آفس کی ٹائپسٹ میں اسے اپنی ذہنی و جسمانی تسکین دکھائی دیتی ہے وہ بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے ٹائپسٹ کی بانہوں میں جھولتا ہے جب حقیقت سر ابھارتی ہے وہ خواب کی چادر اوڑھا دیتا ہے اس کی بیوی بھی اسی ذہنی کرب سے دو چار ہے اور وہ بھی اس پرانے کھنڈر میں اس نئے محراب کو ڈھونڈتی ہے بلکہ تصور کے پنکھوں کے سہارے اس محراب پر کسی پرندے کی مانند بیٹھ کر لطف اندوز ہو رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے میں کسی تیسرے کو دیکھنے کی اور حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
کہانی میں بیوی کا سرد آہ بھر کر صراحی کی طرح لڑھک جانا اور کہانی کے آخر میں اس کا اپنی بانہوں میں بیٹی کے عاشق کو بھرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اسے اپنی بیٹی کے عاشق کی طلب اپنی بیٹی سے ذیادہ تھی ورنہ سرد آہ بھرنے کی ضرورت پیش نہ آتی اور احساس کی یہ لذت اسے رشتوں کے پرے لے کر چلی جاتی ہے جہاں اسے تسکین حاصل ہوتی ہے۔ بیوی تصورات کو عکس دیتی ہے اور شوہر عکس کو تصورات۔ دونوں حقیقت کا سامنا نہیں چاہتے۔ یہ جدید دور کا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔


شوہر کا بیوی میں اسٹینو گرافر کا عکس ڈھونڈنا اور تسکین کی تلاش کرنا حقیقت سے انحراف کر تصور میں خوشی کی تلاش ہے۔ انسان حقیقت کے ساتھ عکس سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے۔ مسرت کا احساس آنکھوں کے راستے دل میں سماتا ہے۔


اس افسانے میں موصوف نے جذبات نگاری اور منظر نگاری کے لئے جو action words کا استعمال کیا ہے وہ قاری کو اپنے ساتھ انہیں تصورات میں کھینچ لیتے ہیں جہاں یہ کہانی میں رونما ہوتے ہیں۔ تصویری الفاظ ذہن میں حقیقی نقش و نگار ابھارتے ہیں۔


اس نفسیاتی افسانے میں واقعات کے بیان میں فنکاری کا عمدہ نمونہ ملتا ہے۔ قاری مصنف کے اس احساس کے سفر میں شریک خود بھی تصورات کو عکس اور عکس کو تصورات دیتا ہے۔



مجموعے میں شامل دیگر افسانے بھی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 'یاترا' ، ' کافی کی پیالی' وغیرہ خوبصورت افسانے ہیں۔ مجموعے میں شامل 'اپنی بات 'میں اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ: " افسانہ لکھنے کی ترغیب تو اپنی گھٹی میں لے کر پیدا ہوا تھا!" جس طرح افسانہ نگار کو کہنا پڑتا ہے کہ: " مدنا !تم مر نہیں سکتے!" ٹھیک ویسے ہی کہنا پڑے گا: " دادا ! ایروم آف سانہ گولو کوکھونو موربے نا۔ "


ریاض دانش کے اسلوب کی سادگی و سلاست بہت خوب ہے۔ وہ افسانہ نگاری کے رموزِ فن سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ عملی طور پر اس کا اظہار، ان کے افسانوں میں جا بہ جا ملتا ہے۔


بیانیہ اندازِتخاطب قاری کو افسانے کے حصار سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔ آرٹ کے تمام نمونے جو افسانہ نگاری کے شوکیس میں سجے ہیں ، ایک ایک کرکے تمام نمونے قارئین کی فکر و نظر کے حوالے کرتے جاتے ہیں۔ افسانوں میں مکالمے کے دوران یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ الفاظ مع کردار نکل کر ہمارے سامنے کیفے ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔ کہیں کوئی بندش نہیں دِکھتی ،افسانہ نگار کی باتیں گھرگھراتی ہوئی سیدھے دل تک پہنچ جاتی ہے۔ افسانہ نگاری کا یہ کمالِ فن ہوتا ہے کہ کہانی کار قاری تک جو باتیں پہنچانا چاہتا ہو اور جس طریقے سے پہنچانا چاہتا ہو ،پہنچا دے۔ مجموعہ کے مطالعے کے دوران میں نے یہی محسوس کیا ہے کہ ریاض دانش نے اپنے افسانے کے کرداروں کو بہت قریب سے نہیں دیکھا ہے بلکہ اُن کی ذہنی الجھنوں کا سرا ڈھونڈ کر، اُن کے احساسِ نفس کی تہوں میں اتر کر دیکھا ہے۔
یہ بات حدِّ امکان سے باہر نہیں کہ آئندہ دنوں میں ریاض دانش کے مزید افسانے پڑھنے کو ملیں گے، جن کے منتظر قارئین کی خالی آنکھوں کے ساتھ ادب کے خالی صفحے بھی ہیں۔

***
nasimashk78[@]gmail.com
موبائل : 09339966398
ہولڈنگ نمبر 10/9، گلی نمبر 3، جگتدل، 24 پرگنہ، مغربی بنگال۔
نسیم اشک

Jo Amaan mili..., A collection of short stories by Riyaz Danish. - Reviewer: Nasim Ashk

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں