صادق کے ہندی مضامین - ترجمہ شدہ کتاب کا ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2023-01-08

صادق کے ہندی مضامین - ترجمہ شدہ کتاب کا ایک جائزہ

sadiq-ke-hindi-mazameen-a-review
کتاب کا نام : صادق کے ہندی مضامین
ترجمہ نگار : ابراہیم افسر
ضخامت : 160 صفحات
قیمت : 300 روپے

اردو زبان و ادب کا ابتدا تا حال گر مجموعی جائزہ لیا جائے تو اس نتیجے پر با آسانی پہنچا جا سکتا ہے کہ صوبہ اترپردیش ہمیشہ سے اہلِ ادب اور اہل زبان کا قدر داں رہا ہے یہی وجہ ہے کہ دہلی کے بار بار اجڑنے کے باوجود بھی یہاں کہ ادبی فضا ادبا و شعرا کے لیے سازگار رہی۔ صوبہ اترپردیش کا ایک علاقہ ہے جسے انتظامیہ نے اپنے سرکاری امور کی سہل انجام دہی کے لیے مغربی اترپردیش کا نام دیا ہوا ہے اور اسی حصے میں ایک ضلع ہے جو ادبی اعتبار سے ادبی حلقوں میں کسی بھی طرح سے محتاج تعارف نہیں وہ ہے بچوں کے ادیب اسماعیل میرٹھی کا آبائی ضلع میرٹھ۔ ہاں سہی سنا آپ نے اسی ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان قلم کار ہیں جنہیں ہم اور آپ ڈاکٹر ابراہیم افسر کے نام نامی سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ پیسے سے آپ معلم ہیں مگر اردو زبان و ادب کی نوک و پلک سنوارنا آپ کا عشق ٹہرا اور یہ عشق ہنوز جاری و ساری ہے۔ گزشتہ پانچ یا چھ سالوں کے ادبی منظرنامے کا گر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو پائیں گے کہ ملک اور بیرون ملک سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد میں موصوف کا نام پیش پیش ہے۔ میری معلومات کے مطابق ان سے زیادہ نئی نسل میں شاید ہی کوئی قلم کار ہو جو متواتر ادبی رسائل و جرائد میں چھپ رہا ہو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابراہیم افسر واقعی ایک شیداۓ اردو ہیں۔


اب تک آپ کی رشید حسن خاں کے حوالے سے آٹھ کتابیں منصہ شہود پر آ کر ادبی حلقوں میں داد و تحسین پا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ پانچ کتابیں طباعت کے مرحلے میں ہیں قوی امید ہے کہ وہ بھی جلد ہم سب کے ہاتھوں میں ہوں۔ کتابیات کے مطالعہ سے یہ معلومات فراہم ہوتی ہیں کہ آپ کا تحقیقی کام تحقیق کی دنیا کی ایک برگزیدہ شخصیت مرحوم رشید حسن خاں کی (رشید حسن خاں کی ادبی جہات) جیسے مشکل موضوع پر تھا۔ جسے آپ نے اپنی شبانہ روز کی محنت شاقہ سے آسان بناتے ہوئے جاں نشین رشید حسن خاں ہونے کا حق پایا۔ اس وقت موصوف کی میرے زیر مطالعہ ترجمہ شدہ کتاب " صادق کے ہندی مضامین " پیش نظر ہے۔ یہ کتاب ضخامت کے اعتبار سے 160 صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ جس میں 17 مضامین کو شامل کتاب کیا گیا ہے۔ اب تک ڈاکٹر ابراہیم افسر ہماری نظر میں ایک محقق، ایک مبصر اور ایک منجھے ہوئے ادیب کی شکل میں موجود تھے مگر یہ دلچسپ بات ہے کہ اب وہ اچانک متعلقہ کتاب کے ذریعے ہم سب کے سامنے ایک منجھے ہوئے ترجمہ نگار کے طور پر بھی اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ کتاب کی ابتدا میں موصوف کا پانچ صفحات پر مشتمل مختصر اور جامع پیش لفظ ہے جس میں آپ نے صادق صاحب کی ادب سے دلچسپی اور ادبی و تدریسی خدمات کا معلوماتی جائزہ پیش کیا ہے ساتھ ہی ساتھ اس کتاب کی تکمیل میں جہاں اپنے معاونین اور رفقاء کا ذکر کیا ہے وہیں ہماری بھابھی جان کی ناراضگی کا دلچسپ انداز میں ذکر خیر کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بقیہ تمام اوراق صادق صاحب کے مضامین کے لیے وقف کیے گئے ہیں۔ پروفیسر صادق علی کی شخصیت اردو زبان و ادب میں مختلف الجہات صفات کی حامل نظر آتی ہے۔ آپ ایک ہی وقت میں استاد، مصور، افسانہ نگار، شاعر، ترجمہ نگار، ڈراما نویس، صحافی، محقق اور نقاد کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ آپ عرصہ دراز تک دہلی یونیورسٹی کے اردو شعبے سے وابستہ رہے جہاں آپ کا برسوں تک الگ الگ زبانوں کے شعرا و ادبا سے سابقہ پڑتا رہا اور نئی نئی چیزوں کو سمجھنے کا موقع ملتا رہا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب آپ کو صدر شعبہ اردو بنایا گیا اور آپ نے بہت ساری کانفرنس اور سیمینارز اپنی دیکھ ریکھ میں منعقد کرائیں جہاں ادب کے نۓ نۓ پہلوؤں پر بحثیں ہوئیں جو اس سے قبل پردہ خفا میں تھیں۔ اس کتاب میں ابراہیم صاحب نے صادق صاحب کے ان مضامین کو شامل ترجمہ کیا ہے جو صادق صاحب نے ہندی ادب کے حوالے سے الگ الگ موقعوں پر تحریر کیے یا کانفرنسوں میں پیش کیے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ تمام مضامین کے مطالعہ سے یہ معلوم ہی نہیں چلتا کہ یہ ترجمہ شدہ مضامین ہم پڑھ رہے ہیں یا Pure اردو مضامین ہم پڑھ رہے ہیں۔ تمامی مضامین کی زبان جس قدر آسان نظر آتی ہے ویسے ہی رواں بھی معلوم پڑتی ہے ایک دفعہ کتاب پڑھنے بیٹھیے اور ختم کر کر ہی دم لیجئے ۔ دوسری بات اس کتاب سے یہ سمجھ آتی ہے کہ جب ہم دوسری زبانوں کے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت ساری غلط فہمیاں ہمارے اندر جو عدم معلومات کی بنا پر در آئیں ہوتی ہیں ان سب کا بر وقت ازالہ ہو جاتا ہے ۔
جیسا کہ متعلقہ کتاب میں ایک مضمون صادق صاحب کا بعنوان " ہندی اور اردو کے رشتے " کے نام سے شامل کتاب کیا گیا ہے اس کا بغائر مطالعہ کرنے پر بہت سے شکوک و شبہات چند لمحوں میں دور ہو جاتے ہیں جن کا جاننا بہت ضروری ہے خاص طور سے موجودہ صورتحال میں جس طرح سے آج کی سیاست نے اپنے مفاد میں قوموں اور سبزیوں تک کو اپنے اپنے حساب سے دو خانوں میں بانٹ لیا ہے اسی طرح زبانوں کو بھی دو خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے یعنی ہندی زبان کو اس کے نام کی مناسبت سے ہندو قرار دے دیا گیا ہے جبکہ اردو کو اس کے نام کی مناسبت سے مسلمانوں سے ہم آمیز کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا گھنونا کام ہے جو کسی بھی جمہوری ملک اور قوم کے لیے مضر سمجھا جانا چاہیے۔ حالانکہ تحقیق سے یہ بات ثابت بھی ہو چکی ہے کہ دونوں زبانوں کا ماوی و مرجع ایک ہی خطہ اور ایک ہی خاندان ہے، بس لباس تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں یہ چند سطور:-
"ہندی اور اردو کو سید احمد خاں نے ایک دلہن کی دو خوبصورت آنکھوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایک آنکھ کو بھی نقصان پہنچے گا تو یہ دلہن بھینگی ہو جائے گی۔ پریم چند بھی اسے دو رسم الخط میں لکھی جانے والی زبان مانتے تھے-" ( ص نمبر 16)

ایک اور مضمون جس نے مجھے دوران مطالعہ بہت متاثر کیا وہ تھا صادق صاحب کا سوانحی مضمون بعنوان " مَیں اور میرا ہمزاد " بلا شبہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان یا ادب میں جتنی بھی خودنوشتیں اور سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں یا لکھی جا رہی ہیں ان میں کثیر تعداد ایسی خودنوشتوں اور سوانح عمریوں کی ہے جن میں سچائی کم جھوٹ زیادہ پروسہ گیا ہے یا پروسہ جا رہا ہے۔ صادق صاحب نے مذکورہ بالا اپنے مضمون میں اسی بات کو مطمح نظر بنایا ہے اور سیر حاصل گفتگو کی ہے جس سے بہت سی تہیں پرت در برت کھلتی چلی گئی ہیں۔ جیسا کہ اس حوالے سے ایک جگہ وہ اپنے مضمون میں یوں رقم طراز ہیں ملاحظہ فرمائیں:-


"خودنوشت کے بہانے لوگ عموماً اپنی تعریف کرتے ہیں۔ اپنی تمام غلطیوں اور غلط کاموں کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔ اپنی شخصیت کی تشہیر و تبلیغ کرتے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ خودنوشت میں مصنف مکمل سچ نہیں لکھتے۔ " (ص نمبر 121)


اسی طرح سے اس کتاب میں شامل صادق صاحب کے انٹرویو سے سعادت حسن منٹو کے تئیں بہت ساری ایسی من گھڑنت کہانیوں کا پردہ چاک ہوتا ہے کہ جن کو صادق صاحب کی تحقیق سے قبل اہل زبان اور اہلِ ادب نے حرف آخر سمجھ لیا تھا ۔ ان میں سے ایک دو باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ منٹو شناسی کا چولا پہننے والے بیشتر سوانح نگاروں نے یہ مانا ہے کہ منٹو کو جب آخری بار طبیعت خراب ہونے پر گھر سے بذریعہ ایمبولینس ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو وہ تب بھی راستے میں شراب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جبکہ سچائی اس کے برعکس ہے جس کی تردید ان کی ہمشیرہ ناصرہ اقبال نے صاف لفظوں میں کی ہے۔ ایسی ہی کچھ باتیں ان کی جاۓ پیدائش سے متعلق لوگوں کے ذہن میں غلط طریقے سے سرایت کر گئی ہیں۔


مجموعی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ برادرم افسر صاحب نے اس کتاب کا ترجمہ کرتے ہوئے واقعی ژرف نگاہی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ترجمہ کرنا بھی جوۓ شیر لانے سے کم نہیں کیونکہ کسی بھی ترجمہ نگار پر یہ بات لازم ہے کہ وہ جب بھی کسی فن پارے یا کتاب کا ترجمہ کرے اسے کم سے کم ان دو زبانوں پر مکمل دسترس حاصل ہو جن سے ان کا سامنا ہونا ہے۔ تبھی جا کر وہ نا صرف اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا بلکہ اس کا جیسا حق بنتا ہے اسے ادا کرنے میں سرخرو بھی ہو سکے گا۔ کتاب کے تمامی مشمولات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مضمون کی طوالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سبھی مضامین پر خامہ فرسائی کرنا تو مشکل ہے پھر بھی آپ قارئین کی مطالعاتی دلچسپی کے لیے تمامی مضامین کے عناوین شامل مضمون کیے جاتے ہیں۔ جن میں چراغ دیر،اردو میں پریم چند کی روایت،قرۃالعین حیدر کی کہانیاں،اختر الایمان کے تخلیقی سروکار ،چاند کا منہ ٹیڑھا ہے : کچھ باتیں، سردار کہاں ہے محفل میں، جگ جگ جیوے میرا مرشد سونا، نریندر موہن کی طویل نظمیں، چندر کانت پاٹل کی ادبی خدمات،بال سروپ راہی کی غزلیں،باتیں اس کی یاد آتی ہیں، مَیں اور میرا ہمزاد، منٹو کی کتاب : جنازے، نئی اردو شاعری کا پس منظر :ایک تجزیہ اور کل دیپ سلیل کی غزلیں پیش پیش ہیں۔اہلِ ادب کو چاہیے کہ وہ اس کتاب کو اپنے مطالعہ کا محور و مرکز بنائیں۔ امید ہے کہ صاحب کتاب کا یہ کام ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

***
محمد انعام برنی۔ ریسرچ اسکالر، دہلی یونیورسٹی، دہلی

Email: mdinammeo[@]gmail.com


A review on Abdul Bari Qasmi's book 'Tafheem o Tabeer'. - Review: Mohd Inam Burney

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں