تبصرہ کتاب - تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ از نورین علی حق - مبصر ہما خان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-16

تبصرہ کتاب - تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ از نورین علی حق - مبصر ہما خان

tashbeeh-mein-taqleeb-ka-bayania-noorain-ali-haque-book

وجودی اضطراب ، جذبے کی شدت و حرکت اور فنا کے شدید احساس کی تثلیث سے نورین کے افسانوں کا خمیر تیار ہوتا ہے، افسردگی اور غم کی کیفیت چوتھی طرف سے آکر اس رنگ کو مزید تیز کر رہی ہے۔
کتاب کھولتے ہی مجموعے کا انوکھا انتساب اس جانب متوجہ کردے گا۔
موضوعات، اور تکنیک دونوں سطح پر تنوع اور رنگا رنگی کے باوجود مذکورہ تینوں خصوصیات کلیدی حیثیت سے تمام افسانوں میں جابجا نظر آئیں گی اور یہ کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم بھی ہیں۔
وجود کا تجربہ عدم کا احساس دلا رہا ہے دہشت،وحشت بے چینی کا سبب بن رہی ہے اور یہ بے چینی واحد حاضر کے صیغے میں تحرک کی صورت اختیار کر کے روانی میں ڈھل رہی ہے تو فن تخلیقیت سے ہم آہنگ ہو کر لفظوں کا رقص پیش رہا ہے۔ داخلی فشار و انتشار میں طوفان زدہ ماحول کا گردو غبار بھی بروقت ساتھ دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی باطنی ااتھل پتھل اور اضطراب کی سرشاری ہے، زبان میں یکلخت تیزی اور روانی آ گئی ہے۔


لیکن یہاں افسانے کا کردار دوسرے کرداروں سے کچھ مختلف ہے، وہ بے چین اور مضطرب وجود تو ہے لیکن خائف اور منکر نہیں دنیا یا دنیاوی علائق میں پناہ ڈھونڈنے کے بجائے ایک قدم آگے بڑھ کر موت کو گلے لگانے کا مشتاق ہے۔ نہ ہی کامیو کے the stranger کے کردار کی طرح دنیا کی بے معنویت ، زندگی اور کائنات کی نیرنگیوں کی لامعقولیت کا قائل ہے۔
اس کے پاس جینے کی امیدیں اور امنگیں ہیں لیکن پریشانیوں میں الجھا ہوا کہیں خودسری اور چڑچڑاہٹ میں خداسے موت کا طالب ہے ، کبھی اضطراب میں مبتلا احساس فنا و زیاں کے درمیان ہچکولے کھا رہا ہے۔کہیں بزبان ٹیگور کہہ رہا ہے
تو کہ تکمیل حیات
تمت دیوان بے شیرازہ فکرو عمل
اے اجل میری اجل
آ مرے کانوں میں کر سرگوشیاں
اور کہہ قم یا حبییی کم تنام
تیری خاطر ہی سہیں
زندگی کی سختیاں
کر رہا ہوں صبح و شام


آسمان کو آنکھیں دکھانے اس کی طرف منھ کر کے دھواں بھرنے کی خواہش، بار بار شہہ رگ سے قریب ہونے کا حوالہ اور خدا سے اس کی ناراضگی بتا رہی ہے کہ یہ ذہن اپنی انتہا پر پہنچ کر انکار کے بجائے اقرار اور عقیدے سے قریب ہو کر لڑنے جھگڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
افسانہ 'قسطوں میں مرنے والے' کا نوحہ فرد واحد کی زندگی سے بیزاری مرگ کی طلبگاری ، بیماری کے طویل اور تکلیف دہ عمل کی داخلی کیفیات، کو بیان کرتا ہوا افسانہ ہے ،،،، لیکن اسی کے پہلو بہ پہلو سیاسی بیانیہ ابھرنے لگا تو ایسا لگا مرض سے جوجھتا ہوا یہ انسان پوری بیمار قوم کا استعارہ تو نہیں ؟ جو مختلف غلاظت میں لتھڑ کر بستر مرگ پہ پڑی مختلف طبی مراحل سے گذر رہی ہے۔
افسانے سے نکلتا ہوا یہ مفہوم سوچ کر کوؤں کی کائیں کائیں اور ٹی وی اینکر میں بھی مشابہت نظر آنے لگی، اسی طرح بھنور میں پھنس کر گھومتی ہوئی اشیاء ، گرداب اور بے بس چیزیں گویا جابر و محکوم کی کوئی علامت ہوں، ایک طرف موت کے مشتاق ایک شکستہ انسان کی بالاقساط موت دوسری طرف اجتماعی سطح پر بیمار قوم کا مرتا ہوا وجود۔ اس افسانے کی سب سے اہم خوبی اس کا بیانیہ ہے جو ایک طرف سے گرفت مضبوط کیے ہوئے ہے دوسری طرف سے کرب کی کیفیتوں میں ڈوب کر ہلا ڈال رہا، کہ اختتام تک پہنچتے پہنچتے کردار میں سرایت کر کے قاری خود ھباء منثورا اور کعصف ماکول والی کیفیت سے دوچار ہو جائے۔
افسانہ نگار کی ہوشیاری ، فنکاری یا انفرادیت ہے کہ اسلوب، مطالعے اور مشاہدے کو گھلا ملا کر اس طرح پیش کیا ہے تمام افسانوں میں بیانیہ کی نثر تہہ داری میں ڈھل کر ایک مرکب بن کر سامنے آتی ہے۔ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق کار کے افکار، سوچنے کے طریقہ کار اور اس کے اظہار دونوں میں جدید اور کلاسک کا امتزاج ہے۔ وہ کہیں سرمد کا حوالہ دیتے ہیں کہیں مزاحمت اور تصادم کی صورت میں کربلائی استعارے اور کردار ابھارتے ہیں
افسانہ سپیدی سحر کا جملہ ملاحظہ ہو:
"رباب، ام لیلی، سکینہ باہر نکلو اپنے وجود کی بقا ضروری ہے"


ایک طرف انسان پہ گذرنے والے ذاتی آلام ، مکان، چھت اور پنکھے سے انسیت، منھ کی بدمزگی ، شعور و لاشعور کی گہرائی میں تیر کر کردار کی سوچ اور اس کی حرکات کا جزئیات سمیت بیان ہے، تو دوسری جانب دریا کی روانی میں خس و خاشاک کی رائیگانی یا اس طرح کے جملے " دیکھتے نہیں سفینہ ڈوب رہا ہے " وہ ہلکے ہیں اس لیے سطح آب پر تیر رہے ہیں جس دن بھاری ہو جائیں گے ، ڈوب جائیں گے اور جو ڈوبا سو پار " ان جملوں، ان کی سوچ اور اس کے ڈکشن دونوں میں کلاسک سوچ جھلک رہی ہے۔ اس لیے اس افسانے کی آخری سطر سے محسوس ہو رہا ہے کہ ابھی تکالیف کی انتہا اور شدت کی تکمیل اس نقطے تک نہیں پہنچی کہ ڈوبنے بھر کا وزن کافی ہو، سو تسلسل جاری ہے۔

مجموعے میں شامل آخری افسانہ 'تشبیہ میں تقلیب کا بیانیہ' استعاراتی افسانہ ہے اس میں بیان کی گئی کہانی جس طرح دھیرے دھیرے عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے مطابقت میں ڈھل رہی ہے یہ نہ صرف تخلیق کار کی فنکاری بلکہ علمیت وسعت مطالعہ پر بھی دلالت کر رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض تراکیب و اصطلاحات ، الفاظ اور جملے اس طرح جمائے اور بٹھائے گئے ہیں کہ ان سب کو جوڑ کر افسانہ سمجھنے میں تھوڑی ذہنی ورزش درکار ہے۔ دوسری بات کہانی یا معنوی سطح کے علاوہ لفظی سطح پر بھی کئی جگہ الفاظ سے کھیل کر بیان اور بدیع کے رشتے کو مربوط کیا ہے۔


مجموعے میں شامل تمام افسانوں کی بہ نسبت اس افسانے کے لہجے میں سب سے زیادہ حرکت اور تیز رفتاری ہے اسلوب و آہنگ ایسا ہے کہ اول تا آخر حواس غیر شعوری طور پر بیدار اور متحرک ہیں۔ افسانہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے مصرعوں اور عربی ، فارسی کے ٹکڑے پیوست کر کے شعوری طور پر معنویت تخلیق کرنے اور قاری سے دماغی محنت کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ "خالی بوتل میں ابال" شروع کرتے ہی ذہن پر منٹو کے ٹھنڈا گوشت کی دستک محسوس ہوتی ہے اور بالآخر اختتام تک پہنچتے پہنچتے ایشر سنگھ نمودار ہو جاتا ہے۔


"پنجرے میں قید نیند" میں انسان کی دوہری شخصیت ، ظاہر و باطن کا تضاد، منافقانہ رویہ اور اس کے احساس کا اظہار ہے۔۔۔ قصدا یا بحالت مجبوری اس رویے کے سرزد ہونے کی دونوں صورتوں کی کیفیت۔۔۔۔اپنے اس عمل کی واقفیت اور اس آ گہی کے نتیجے میں گھٹن کی حد تک بڑھی ہوئی کشمکش کا اظہار اکثر افسانوں میں نظر آ رہا ہے۔ انسانی نفسیات کی یہ صورت حال کرداروں میں کہیں بین السطور اور زیریں سطح پر سر اٹھا رہی ہے کہیں بالکل واضح۔
اس افسانے کی تکنیک اور پیشکش بھی کچھ الگ قسم کی ہے زندگی میں بہت سی چیزیں ہمارے حواس کی گرفت میں نہیں آتیں لیکن خیال کے حدود میں ہوتی ہیں، فنکار تخیل میں جذب کر کے اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ غیر حقیقی ہوتے ہوئے بھی ہمیں حقیقت کا شبہ ہونے لگے بلکہ تخیل حقیقت سے اس درجہ ہم آمیز ہو جائے کہ یہ صورت متحرک ہو کر ہمارے اردگرد کے مناظر اور محسوسات کا حصہ بن جائے۔ اس افسانے میں یہ چیز بڑی شدت سے ابھری ہے ، اس کے علاوہ "بوسیدہ حویلی میں رقص"، "حسرتوں کے چراغ"، "قسطوں میں مرنے والا کا نوحہ" میں بھی تکنیک کی یہ فنکاری دیکھنے کو ملتی ہے۔


نورین کے افسانوں کے عنوان اور موضوعات کچھ بھی ہوں لیکن تقریباً ہر افسانے میں کہیں شوق و طلب اور کہیں کرب کی صورت میں موت و فنا کا احساس شدت کے ساتھ دوڑ رہا ہے۔ تمام تشبیہات اسی قسم کی ہیں:
"پانی کے بہاؤ اور اس کی تیز رو سے ایک خطرناک آواز پیدا ہو رہی ہے جیسے اصرافیل صور پھونک رہے ہوں"
"لگتا تھا اس کی آواز سے زمین آسمان کی پرتیں پھٹ جائیں گی اور یہ زمین میں سما جائے گا، آسمان روئی کے گالے میں تبدیل ہو جائے گا"
"کہ جیسے ماں کسی مرتے ہوئے بچے پہ اپنی جان کو وارے"
"اس کے قدموں کے نیچے سے عجیب و غریب کررمرر کی آوازیں ابھریں ہیں گویا وہ پتے شاخوں سے الگ ہو کر اپنی زندگی کی تباہی کا افسانہ کہہ رہے ہیں"


یہ چند مثالیں ہیں ، آپ شروع سے آخر تک پڑھ جائیے اکثر بلکہ تمام افسانوں میں اسی قسم کے دکھ، خوف، الم آلود فضا میں لرزش، بغاوت، حرکت اور تھرتھراہٹ کا شور چھایا ہوا ہے۔


***
ہما خاں، لکھنؤ
ای-میل: huma12267[@]gmail.com

A review on Tashbeeh mein taqleeb ka bayania, a collection of short stories by Noorain Ali Haque. Reviewer: Huma Khan

2 تبصرے: