شیزوفرینیا : ایک مزاحیہ جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-11-17

شیزوفرینیا : ایک مزاحیہ جائزہ

schizophrenia-humorous-review

انسانی نفسیات سے بہت زیادہ دلچسپی ہونے کے باعث اس کے متعلق مضامین مطالعے سے گزرتے رہتے ہیں۔ انسانی نفسیات بذات خود ایک بہت دلچسپ موضوع ہے لیکن آج ہم ایک ایسی نفسیاتی بیماری کے تعلق بات کرنا چاہتے ہیں جسے شیزوفرینیا کہتے ہیں۔ نام سنتے ہی آپ کو ایسا محسوس ہوا ہوگا کہ کوئی فرانسیسی دوشیزہ ہوگی۔ لیکن نہیں جی کہاں کی دوشیزہ، یہ تو ایک بیماری ہے مرض ہے۔


ہم آپ کو اس بیماری کے تعلق کجھ بتانا چاہیں گے۔ یہ ایسی بیماری ہے جو پندرہ سے بینتیس سال کے انسانوں کو لاحق ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد کیا یہ چھٹی لے لیتی ہے یہ ہم بعد میں معلوم کر کے بتاتے ہیں۔ اب آتے ہیں اس کی علامتوں پر۔
اس مرض میں مریض کو وہم آنے لگتے ہیں اور آوازیں آنی شروع ہوتی ہیں۔ مریض خود سے بات کرنے لگ جاتا ہے۔ خود ہی سوال اور خود ہی جواب دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی نادیدہ مخلوق اس سے ہمکلام ہے۔ ان علامتوں کو پڑھ کر ہم تو سکتے میں رہ گئے کہ صرف ان علامتوں کے سہارے ہمارے عامل حضرات اپنی دال روٹی چلا رہے ہیں۔ یعنی کوئی شیزو فرینیا کا مریض ان کے پاس آتا ہے اور یہ ایسے ظاہر کرتے ہیں کہ آپ پر فلاں جن نے قبضہ کیا ہے وہ آپ سے بات کر رہا ہے۔ آپ پر حکم ‌چلا رہا ہے اور مریض اور اس کے لواحقین ان عامل حضرات کو لاکھوں روپیے دے کر اس کے شک کی تصدیق کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ مرض کچھ اور ہے اور دوا کچھ اور کی جا رہی ہی۔


کچھ مریضوں کو فریب کاری [hallucination] کا مرض لاحق ہوتا ہے۔ اس میں مریض کو ایسی چیزیں نظر آ رہی ہو تی ہیں جو سرے سے ہو تی ہی نہیں۔ ایسی بیماری میں مریض وہ دیکھتا ہے جو کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے خیال میں ہر سیاسی لیڈر اپنے عوام کو ایسے ہی ہالی سینیشن دکھاتا ہے جسے عام زبان میں سبز باغ دکھانا کہہ سکتے ہیں۔ عوام کو وہ چیز دکھاتا ہے جو ہوتی ہی نہیں۔ تو اس سے یہ بات تو سمجھ میں آئی کہ ہر لیڈر میں اس مرض کے جراثیم موجود ہو تے ہیں۔


اس مرض کی ایک اور علامت ہو تی ہے۔ ڈیلیوشن یعنی ایسا خیال جس کے بارے میں مریض کو سو فیصد یقین ہوتا ہے کہ ہوتا ہے! جبکہ اس کے رشتہ دار اس کی تردید کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم اسے بلٹ ٹرین کا ڈیلیوشن کہہ سکتے ہیں جو کہ ایک لیڈر کا ڈیلیوشن ہے جو اسے حقیقت بتاتا ہے اور ہم اس سے انکاری ہیں۔ ایسے ڈیلیوشنز تو لیڈر ہی دکھا سکتے ہیں۔


ایک اور علامت ہے کہ مریض اپنے آپ کو مریض نہیں سمجھتا تو اس بیچارے کا کیا قصور؟ ہمارے معاشرے میں تو کوئی بھی اپنے آپ کو مریض نہیں سمجھتا۔ اگر ہم سیاسی لیڈر کو کہیں کہ تم نے جھوٹ کہا، تم نے وعدہ خلافی کی، تو کیا وہ مان لے گا؟ نہیں۔ تو ہر مریض مرض سے انکاری ہے تو ان شزوفرینیوں کے پیچھے کیوں پڑتے ہیں لوگ، یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔


ہمیں تو لگتا ہے کہ شیزوفرینیا اور اردو ادب کا بھی چولی دامن کا ساتھ ہے۔ آپ پوچھیں گے کہ وہ کیسے؟ تو ہمارے کئی ادیبوں نے اسی مرض میں مبتلا ہو کر تحریریں لکھیں ہیں جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ اس مرض میں مبتلا تھے ورنہ کون مچھر سے بات کرتا ہے۔ اور مچھر اور انسان کا مکالمہ لکھتا ہے؟ ایسی کئی تحریریں ہیں جیسے کسی مردے سے گفتگو ، شیر سے ایک مکالمہ، فلاں ادیب سے ملاقات، فلاں بادشاہ سے انٹرویو وغیرہ۔
تو یہ سارے ادیب کسی نفسیاتی مرض میں مبتلا لگتے ہیں تو کیا غلط لگتے ہیں۔ ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ کچھ ادیب خود کلامی کرتے ہیں! دیکھا پکڑے گئے ناں۔ خود کلامی بھی ایک مرض ہے جو اکثر ادیبوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اور اکثر وہ خودکلامی کرتے کرتے جانے کہاں کہاں پہنچ جاتے ہیں؟


اب تو آپ کو یقین آ گیا ہوگا کہ یہ جو شیزوفیرینیا مرض ہے وہ ہر خاص و عام میں کافی مقبول ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس کے فالوورز۔۔۔ ہمارا مطلب ہے کہ اس سے متاثرہ لوگوں کے اعداد و شمار سے پتا لگایا جا سکتا ہے۔ ہر دس میں سے ایک فرد تو اس مرض میں مبتلا ہے ہی۔ لیکن سیاسی لیڈران ، ادیب، فنکار وغیرہ تو اس مرض سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔


اس کا علاج کیا ہو سکتا ہے؟
اس کا ایک ہی علاج ہے وہ ہے اپنے مرض کو پہچاننا۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ سیاسی لیڈروں کی طرح اپنے گریبان میں تو کوئی جھانکنے کی ہمت نہیں کرنا اور نہ اپنے مرض کو پہچانتا ہے، ہاں دوسروں پر الزام تراشی ضرور کرتا ہے۔ فلاں نے جادو کروایا یا پھر کسی جن پرالزام دھر دیا جاتا ہے اور بس۔
اس کے آگے کی داستان ہم آپ کو کیا سنائیں کہ ہمیں امی کی وہ چپل نظر آ رہی ہے جو ابھی تو دور ہے مگر ہمیں نظر آ رہی ہے لیکن آپ کو نظر نہیں آ رہی ہوگی لیکن وہ کبھی بھی ہمارے سر یا جسم تک پہنچ سکتی ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کہ آپ ہمیں شیزوفیرینیا کا مریض سمجھ کر نفسیاتی معالج کے پاس لے جائیں، بہتر ہے کہ ہم خود رفوچکر ہو جائیں۔ ہاں اگر آپ کو اپنے اندر اس مرض کی کچھ علامتیں نظر آئیں تو فوری طور پر معالج کے مطب پر دستک دیں کیونکہ۔۔۔ ہر مرض کی دوا "زندہ طلسمات" نہیں ہوتی!!

***
سدرہ فردوس (حیدرآباد)
nfismailismail[@]gmail.com
Schizophrenia: A Humorous Review. - Humorous Essay: Sidra Firdous

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں