اردو و ہندی میں ترقی پسند افسانوں کا تقابلی جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-04

اردو و ہندی میں ترقی پسند افسانوں کا تقابلی جائزہ

urdu-hindi-progressive-fiction-comparative-analysis

پرگتی (ترقی) سنسار میں، زندگی میں تغیر و تبدیلی کی فطری رفتار ہے۔ مارکس نے جدلیاتی مادیت کے اصول کے تحت بتایا تھا کہ تاریخ کا ارتقا بالضد ہمیشہ آگے کی طرف ہوتا ہے۔ قوموں و ملکوں کی تاریخ میں نشیب و فراز اور عروج و زوال آتے رہتے ہیں لیکن تاریخ کا سفر آگے کی طرف جاری رہتا ہے۔ یہ ارتقا ایک سیدھی لکیر میں نہیں ہوتا بلکہ اس میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں لیکن یہ ہمیشہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔ آج سے پانچ سو سال پہلے جیسی دنیاتھی ویسی اب نہیں ہے۔ ہر شعبہ میں زبردست ترقی ہوئی ہے۔ ریل گاڑی، موٹر کار، ہوائی جہاز ، ٹیلیفون، بلب، ٹیلی ویژن، راکٹ، ایٹم بم اور سینکڑوں ایجادات پانچ سو سال قبل نہیں تھیں، آج ہم ان سب کو دیکھتے ہیں، جانتے ہیں۔ اسی طرح سماج، معاشیات، سیاست اور ادب میں بھی تبدیلی آئی ہیں اور یہ بھی ترقی کی طرف گامزن ہوئے ہیں۔
اردو میں پرگتی وادیا ترقی پسندی کا مفہوم یہ ہے کہ زندگی کی جن حقیقتوں کو لائق اعتنا نہیں سمجھاجاتا تھا ان پر خصوصی توجہ دی گئی۔ سماجی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے تمام پہلوؤں کی ادب میں عکاسی کی گئی۔ پسماندہ طبقوں ،غریبوں، مزدوروں، کاشتکاروں کی زندگی کو اجاگر کیا گیا۔ عورتوں کو برابر کے حقوق دینے پر زور دی اگیا ، سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ، جبر، استحصال اور مذہبی ریاکاری کا پردہ فاش کیا گیا۔1917ء میں جب روس میں انقلاب آیا اور مزدوروں کی حکومت قائم ہوئی تو ادب پر بھی اس کا گہر اثر پڑا۔
مارکسزم کا جنم تو انیسویں صدیی کی آخری دہائی میں ہوچکا تھا ، لیکن روس میں1917ء میں اسے عملی جامہ پہنایا گیا۔ اردو افسانہ میں حقیقت نگاری اور غریبووں، و پسماندہ طبقوں کی زندگی کی عکاسی کا آغاز پریم چند نے کیا تھا۔ ہندی افسانہ میں بھی اس کے آغاز کا سہرا پریم چند کے سر ہے۔ پریم چند کی ہندی کہانیوں میں تقریباً وہی رجحانات ہیں جو اردو کہانیوں میں ہیں۔ کیونکہ پریم چند کی ہندی و اردو کہانیاں زیادہ الگ نہیں ہیں۔ انہوں نے پہلے اردو میں کہانیاں لکھیں اور پھر ان کا ترجمہ ہندی میں کیا۔ ایسا بھی ہوا کہ پہلے ہندی میں کہانیاں لکھیں اور پھر اس کا ترجمہ اردو میں کیا۔ کہیں کہیں ہندی اور اردو کی کہانیوں میں فرق بھی ہے۔ مگر پریم چند کا نقطہ نظر ، فن، اصول اور مقصد اردو ہندی کہانیوں میں یکساں ہے۔ ان کے ہندی افسانوں میں اردو افسانوں کی طرح ہی انقلابی اور باغیانہ رنگ کم ہے اور اصلاحی و مثالی رنگ زیادہ ہے۔ پریم چند مارکسزم سے متاثر تھے ، اس کا اظہار ان کے آخری دور کے ناولوں اور افسانوں میں ہوا ہے۔ 1919ء میں منشی دیانارائن نگم کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا:
"میں اب قریب قریب بولیشوسٹ اصولوں کا قائل ہو چکا ہوں۔"


پریم چند نے مظلوموں پر ہونے والے جبر و ظلم کو نشانہ بنایا۔ طبقای جدوجہد کو سب سے پہلے پریم چند نے ہی اجاگر کیا۔ پریم چند کی ہندی کہانیوں میں شانتی، نشہ، ٹھاکر کا کنواں، شکار، کسم، خدائی فوجدار، نیائے(انصاف) باسی بھات میں خدا کا ساجھا قانونی کمار، نرک کا مارگ، بھاڑے کا ٹٹو، مندر ، بینک کا دیوالہ، جوالہ مکھی، آہوتی ، کفن وغیرہ میں جبریت و استحصال کی مخالفت کی گئی ہے۔ پریم چند یگ(1915ء۔ 1936ء) کے دیگر ہندی افسانہ نگار مثلا وشمبر ناتھ کوشک، سدرشن، پانڈے بیچن شرما آگر، بھگوتی پرشاد واجپئی، ونود شنکر ویاس، رادھا کرشن، الاچندر جوشی ، نرالا ، پنت وغیرہ کے یہاں بھی پریم چند کا ہی رنگ ملتا ہے۔


1936ء میں انجمن ترقی مصنفین اور پرگتی شیل لیکھک سنگھ کا قیام عمل میں آیا۔ ہندی افسانہ میں پرگتی واد(ترقی پسندی) کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
پریم چند کے افسانے"کفن"(1936ء) نے ترقی پسند فکر کے ہم آہنگ شعور کی اعلی مثال پیش کی۔


"انگارے" کے افسانہ نگاروں اور پریم چند نے استحصال ، طبقاتی تفریق ، مہاجنی نظام، جاگیر دارانہ ظلم و ستم ، سامراجیت، غلامی، دولت کی غیر مساوی تقسیم، اونچ نیچ ، مذہبی ، کٹر پن پر بھرپور طنز کئے۔1936ء میں جب اردو میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی تو ہندی میں بھی اس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اردو میں ترقی پسند ی اور ہندی میں پرگتی واد کے اصول و نظریات یکساں تھے ، دونوں ہی اشتراکی فلسفہ سے متاثر زبانیں تھیں ، پریم چند نے ہی ہندی میں ادب برائے زندگی، مقصدیت اور افادیت پر زور دیا۔ دیہاتی لوگوں ، کسانوں، مزدوروں، اچھوتوں کی زندگی کے مصائب پریم چند نے ہی ہ ندی افسانوں میں پیش کئے۔


اردو میں پریم چند کے بعد کرشن چندر کی افسانہ نگاری کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی، پریم چند کے ابتدائی افسانوی مجموعے" طلسم خیال" اور " جہلم میں ناؤ" پر رومانیت و حقیقت کا حسین امتزاج ہے۔ رومانی رجحان اور رومانی انقلابیت کرشن چندر کے بہت سے افسانوں میں پایاجاتا ہے۔ فطرت کے حسن اور عورت کے حسن کو وہ کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔ تلخ سماجی حقیقتوں کو بھی وہ حسین فطری مناظر کے پس منظر میں پیش کرتے ہیں ،سماجی نا انصافیوں کو وہ معاشی و معاشرتی عدم مساوات کا نتیجہ مانتے تھے ، ان کے افسانوں میں دلکش طنز ہر جگہ مل جائے گا۔


اردو میں راجندر سنگھ بیدی کے یہاں ترقی پسندی اور نفسیاتی حقیقت نگاری کا بہترین امتزاج ہے ، خواجہ احمد عباس ، احمد ندیم قاسمی اور اوپندر ناتھ اشک کے یہاں اشتراکی حقیقت نگاری کا گہرا عکس ہے۔


ہندی افسانہ میں پشپال اوپندر ناتھ اشک، راہل سانکر تیاین، رانگے راگھو، امرت رائے، امرت لال ناگر، دھرم ویر بھارتی، منمتھ ناتھ گپت، رامیشور شکل انچل، موہن سنگھ سینگر اہم ترقی پسند افسانہ نگار ہیں۔ ان کے علاوہ دشمبر ناتھ کوشک، پانڈے بیچن شرما اگر، جینندر، الاچندر جوشی، اگیے اور نرالا پر بھی اشتراکی حقیقت نگاری اور ترقی پسندی کے اثرات ملتے ہیں، لیکن انہوں نے داخلی جذبات و احساسات اور نفسیاتی حقیقت نگاری پر زیادہ توجہ دی۔ کرشن چندر کی کہانی" ان داتا" اور پشپال کی کہانی "روٹی کا مول" ساتھ ساتھ پڑھی جائے تو ان میں یکساں موضوع اور طرز اظہارسامنے آتا ہے۔ دونوں افسانوں میں مہاجن اور جاگیر دار اور سرمایہ دار غلہ اپنے گوداموں میں بھر لیتا تھا، غریب کسان اور مزدور بھوکے مرنے لگتے تھے۔
کرشن اور پشپال کی کہانیوں کے بہت سے موضوعات ایک جیسے ہیں، لیکن ایک خاص فرق یہ ہے کہ کرشن چندر کے یہاں خطابت ، نعرہ زنی اور کھردرا پن اتنا زیادہ نہیں ہے جتنا پسپال کے یہاں ہے۔ پشپال کے بعض افسانوں کے کردار تو خالص تقریریں کرتے ہیں جس سے فن مجروح ہوتا ہے۔
کرشن چندر نے جس طرح" جگن ناتھ" اور مابعد الطبیعاتی اور روحانی زندگی پر تیکھے طنز کئے ہیں پشپال نے اسی طرح اپنی کہانی" پرلوک" میں ان رجحانات اور مذہبی توہم پرستی پر تیکھے طنز کئے ہیں، طبقاتی تفریق کو جس طرح کرشن چندر، خواجہ احمد عباس ، احمد ندیم قاسمی اور راجندر سنگھ بیدی نے اردو افسانوں میں اجاگر کیا ہے اسی طرح ہندی افسانوں میں پشپال، رانگے راگھو، امرت رائے ،امرت لال ناگر، منمتھ ناتھ گپت وغیرہ نے اجاگر کیا ہے۔ ہندی میں راہل، سانکر تیاین ایک عظیم افسانہ نگار تھے ، ان جیسی تاریخی بصیرت ، سماجی و طبقاتی تفریق کا اعلی درجہ کا شعور اردو میں کسی ترقی پسند افسانہ نگار کے یہاں نہیں ملتا۔


راہل کے افسانے والگا سے گنگا، ریکھا بھکت، سمیر، پربھا، بابو نوردین، مانو سماج وغیرہ ہندی افسانے میں پرگتی وادی وچار دھارا کا نہایت بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ان میں جو گہری فکر، فلسفیانہ تجزیہ اور فنی عظمت پائی جاتی ہے وہ اردو کے ترقی پسند افسانہ نگاروں میں بہت کم ہے۔ ہندی کے افسانہ نگاروں کے اسلوب ، ہیئت اور تکنیک میں اس دور میں نئے تجربات بہت کم کئے گئے۔


انہوں نے روایتی بیانیہ اسلوب کو ہی اختیار کیا، کردار نگاری کے بجائے واقعہ نگاری پر زیادہ توجہ دی، لیکن اردو کے ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اسلوب، ہیئت، تکنیک، میں نئے تجربے بھی کئے، انہوں نے استعاراتی اور علاماتی انداز کو بھی اختیار کیا ، ہیئت اور تکنیک میں نئے تجربے کئے، مثلاً کرشن چندر کے افسانے" ان داتا" میں ڈائری و خطوط کا طریقہ اختیار کیا گیا ، سعادت حسن منٹونے "پھندے" میں استعاراتی اسلوب اختیار کیا، کرشن چندر نے کئی افسانے ایسے تحریر کئے جن میں استعاراتی اور علامتی انداز بہت واضح کیا ہے، مثلاً گالیچہ، الٹا درخت، ہاتھ کی چوری، بت جاگتے ہیں، گڑھا ،مردہ سمندر، نیکی کی گولیاں، ان افسانوں میں تجریدیت کے تجربات بھی کئے گئے۔


قرۃ العین حیدر کے افسانے" آہ میرے دوست" مرزا ادیب کا افسانہ 'دل ناتواں' غیر علامتی اور تجریدی افسانوں کے نمونے ہیں۔ "شعور کی رو" کو اختیار کرکے اردو افسانوں کا آغاز ہو چکا تھا، ترقی پسند دور کی ابتدا ہی میں سجاد ظہیر "لندن کی ایک رات" ناول لکھ چکے تھے ، جس میں شعور کی رو کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ قرۃ العین کے افسانوی مجموعے " پت جھڑ کی آواز" کے کئی افسانوں میں شعور کی رو کا اثر ہے۔
ترقی پسند دور کے اردو افسانوں میں نئی تشبیہات، استعارے اور علامتیں خوب استعمال ہورہی تھیں لیکن ہندی میں پرگتی وادی افسانہ نگاروں کے بیشتر افسانے سپاٹ اوربیانیہ انداز کو ہی اپنائے ہوئے تھے، ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عموماً فن اور مقصد ہم آہنگ نظر آتے ہیں، لیکن ہندی میں مقصد فن پر حاوی نظر آتا ہے۔
اردو کے مقابلے میں ہندی میں بات سیدھے سادے انداز میں کہی جاتی ہے جب کہ اردو میں اسے استعارے، تشبیہات، تمثیل اور تلمیحات کے ذریعے کہنے کا عام رواج ہے ، ترسیل و ابلاغ کی سطح پر ہندی افسانے زیادہ واضح ہیں۔ ترقی پسند دور میں اردو افشانہ نگاروں نے کئی اعلی درجہ کے افسانے لکھے اور کئی اعلیٰ درجہ کے کردار تخلیق کئے لیکن ہندی میں اس دور میں اعلیٰ درجہ کے افسانوں کی تعداد بہت کم ہے۔
اس دور میں اردو ، ہندی کے افسانہ نگاروں نے عصری حقیقتوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا، لیکن ہندی میں صحافتی انداز زیادہ پایا جاتا ہے ، وقتی اور عارضی واقعات پر امرت رائے نے ہندی میں کئی افسانے لکھے، مثلا یورپ کی وجئی جنتا کے نام، ایٹمی سلطان ٹرومین کے نام ، کوریا کا نیا بھوگول ، گوڈ سے کے نام کھلا پتر وغیرہ۔ امرت لال ناگر کا افسانہ ایک تھا گاندھی، پانڈے بیچن شرما گر کی کرانتی کاری کہانیاں اس کی وجہ سے ہندی میں صحافتی انداز زیادہ پایا جاتا ہے۔ اردو میں خطابت اور نعرہ زنی کرشن چندر کے کئی افسانوں میں بہت زیادہ ہے ، خصوصاً "ہم وحشی ہیں" اور "گھونگھٹ میں گوری جلے" کے افسانوں میں مضمون نگاری کا انداز پایا جاتا ہے۔ "روزن برگ کی موت پر" کرشن چندر کا ایسا افسانہ ہے جو تقریر کا انداز رکھتا ہے، خصوصاً تقسیم ہند کے بعد ان کی (کرشن چندر کی) افسانہ نگاری میں ٹھہراؤ کم اور خطابت کا عنصر بڑھتا گیا"
(اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک۔ از خلیل الرحمن اعظمی، ص187)


ہندی کے پرگتی وادی افسانہ نگاروں کے افسانوں میں خطابت، نعرہ زنی، تقریر بازی اور موضوعات کی تکرار کچھ زیادہ ہی ہے ، اس نے فن کو نقصان پہنچایا اور زیادہ تر قاری اس طرز کے افسانوں سے اکتا گئے۔
1960ء کے قریب اردو اور ہندی میں افسانہ نگاری نے ایک نئی کروٹ لی ، جدید طرز احساس نے افسانوں کو بہت حد تک بدل دیا ، صنعتی معاشرے کی حشر سامانیوں نے فرد کی ذات کو ایک بحران میں مبتلا کر دیا۔ تنہائی، بے چارگی، لاسمتی، اقدار کی شکست و ریخت، کنبہ پروری ، رشو ت خوری ، جمہوری اداروں کی ناکامی، عقائد اور فلسفوں کی شکست نے نئی افسانہ نگاری کو جنم دیا۔


***
ماخوذ از رسالہ: عالمی انوارِ تخلیق (کتابی سلسلہ موسمِ گرما 2014ء)
مدیر اعلیٰ: ڈاکٹر ایم۔ اے۔حق (رانچی)

A Comparative Analysis of Progressive Fiction in Urdu and Hindi. by: Rehana Sultana.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں