میسور : خوابوں اور خواب زاروں کا شہر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-01

میسور : خوابوں اور خواب زاروں کا شہر

mysore-city-of-dreams-and-dreamers

میسور جسے خوابوں اور خواب زاروں کا شہر کہاجاتا ہے۔ اس شہر کو قدرت نے اپنی جلوہ سامانی کے ذریعہ وہ حسن عطا کی ہے جو دلوں کو موہ لیتا اور آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔ یہاں کے تالاب، یہاں کے سبزہ زار، یہاں کے گلشن اور یہاں کی آب و ہوا نے اس شہر کو فردوس نظر بنادیا ہے۔ خصوصاً برنداونن گارڈن شہر میسور ہی کا نہیں پورے ہندوستان کے باغات کا سر تاج ہے بلا شبہ سری نگر(کشمیر) کے مغل گارڈنس، اپنی خوبصورتی اور شادابی کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں تاہم برنداون گارڈن کی شان ہی جداگانہ ہے۔ خصوصاً سر شام جب برقی قمقمے جگمگا اٹھتے ہیں تو لگتا ہے کہ کہکشاں ٹوٹ کر زمین پر آرہی ہے۔
واقعی ریاست میسور کے وزیر اعظم سر مرزا اسماعیل اور یہاں کے وڈیارراجاؤں نے مل کر اس شہر کو بہت رنگین اور حسین بنادی اہے اس کی کشادہ سڑکیں، چوراہوں پر بنے راجوں کے مجسمے، برقی قمقمے، چمن بندی، آراستہ بازار ، راجہ کا محل تو دسہرہ کے موقع پر بقعۂ نور بن جاتا ہے۔ میسور کا دسہرہ حیدرآباد اور لکھنو کے محرم کی طرح مشہور زمانہ ہے۔ للت محل، میوزیم، نندی ہلز اور ایسے کئی مقامات ہیں جو میسور کو قاببل دید بنادیتے ہیں میسور دکن میں ہندو خصوصاً کنڑا تہذیب کا ایک اہم مرکز ہے۔ یہاں کے حکمرانوں کی فراخدلی اور وسیع النظری نے اس شہر کو بہشت ارضی میں تبدیل کردیا۔
میسور اسلامی نقطہ نظر سے بھی ایک اہم شہر ہے۔ حیدر علی اور ٹیپو سلطان شہیدؒ کا دور گو بہت مختصر تھا لیکن ان بادشاہوں کی رعایا پروردی انسان دوستی اور اسلامی اقدار سے الفت نے میسور اور اس سے قریب واقع شہر سرنگا پٹنم کو اسلامی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ بنادیا۔ میسور علم و ادب اور شعر کا سر چشمہ ہے یہاں نامی گرامی شعراء و ادباء پید اہوئے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے دور حکومت میں علماء و فضلاء کی بڑی تعداد یہاں جمع تھی زبان فارسی کے ساتھ ساتھ زبان اردو کو ترقی حاصل ہوئی اور یہ کہ تاریخ جنگ آزادی میں سرنگا پٹنم اور میسور محاذ جنگ بن گئے تھے۔ ٹیپو سلطان کی شہادت نے اس شہر کو تاریخ ہند میں دوام بخشا۔ چنانچہ شہرۂ آفاق شاعر اقبال نے جب یہاں مزار ٹیپو پر حاضری دیتو کچھ دیر کے لئے وہ کھوسے گئے تھے۔ ان کا خراج آجج بھی اقبال کی شاعری کا گراں قدر حصہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے افواج ہند کی سالاری کی تھی اسی طرح ٹیپو سلطان نے بھی فرنگیوں کو ملک بدر کرنے کی ٹھان لی تھی۔ ایک ولولہ، ایک جوش تھا جو ٹیپو سلطان کے سینہ میں موجزن تھا اور وہ بھی اس کے سپاہ بھی انگریزوںکو ملک سے نکال باہر کرنے کا عظم مصمم کرچکے تھے چنانچہ فوجی پریڈ کے موقع پر جو نغمے گائے جاتے تھے آج بھی ان کی صدائے باز گشت حیدر و ٹیپو کی گنبد میں سنی جا سکتی ہے۔
ملک ہندوستان میں دین کا وہی سلطان ہے
غرق جس کے آب خنجر میں فرنگستان ہے
کیا ہے نسبت جاہ و حشمت میں سکندر سے تجھے
بارگاہ قدر کا دارا تر دربان ہے
دعا کرتا ہے ہر ایک مور جس وادی میں تو گزر ے
فلک پر مہر ہے جب تک زمین پر ٹیپو سلطان ہے
جنگ آزادی میں تاجداران میسور نے جو حصہ ادا کیا ہے اس کے ذکر کے بغیر تاریخ ہند کے صفحات سادہ اور سفید سمجھے جائیں گے۔


اردو زبان و ادب کے فروغ میں میسور اور اہل میسور کا ناقابل فراموش حصہ رہا ہے یہاں گیارہویں صدی ہجری ہی سے اردو ادب کا سراغ ملتا ہے چنانچہ سقوط بیجا پور کے بعد اہل علم و کمال ہجرت کرکے یہاں میسور میں جمع ہوئے اور حضرت امین الدین علی اعلیٰ کے بیشتر مریدین و خلفا نے میسور اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں میں بودوباش اختیارکی۔ ڈاکٹر حبیب النساء نے ریاست میسور میں اردو ادب کی نشوونما میں اردو زبان و ادب کی تحریکات کا جامع اور محقق اردو سلیم تمغائی نے اپنے چیدہ چیدہ مضامین میں ان کا ذکر کیا ہے شاہ صدرالدین پر ڈاکٹر ہاشم علی کی تحقیق ایک اہم کارنامہ ہے اس طرح گیارہویں اور بارہویں صدی ہجری کے بعد سے آج تلک اردو کے کئی نامور ادیب اور شعراء یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ عہد حیدر و ٹیپو کے بعد وڈیر خاندان کے خاتمہ حکومت میں بھی اور آزادی کے بعد شعراء اور ادباء کا ایک قافلہ ہے کہ رواں دواں ہے۔


عہد جدید کے شعراء اور ادباء کی فہرست بڑی طویل ہے یہاں کی بزم اردو اور انجمن ترقی اردو ہند فعال ادارے ہیں۔ بزم اردو کی بزم آرائیاں اقبال فریداور رزاق افسر کی ذات سے عبارت ہیں۔ خلیل بے باک گو صحافی ہیں مگر شعر بھی موزوں کرتے ہیں اور تنظیمی کاموں سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کاروزنامہ"کوثر" میسور کا معتبر اخبار ہے ان کے دم خم سے میسور میں اکثر مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ جامعہ میسور میں مختلف کالجوں کے قیام کے بعد تو یہاں اردو کا چمن سدا بہارہو گیا ہے۔
چنانچہ اساتذہ اردو میں پروفیسر خضر علی خان، پروفیسر عبدالقادر سروری، ڈاکٹر حبیب النساء، پروفیسر حنیف کلیم ، پروفیسر سراج الحسن ادیبی ، پروفیسر میر محمود حسین، پروفیسر ٹی عبدالقادر، پروفیسر مبارزالدین رفعت، پروفیسر ڈاکٹر ہاشم علی ، ڈاکٹر قیوم صادق ، ڈاکٹر مسعود سراج، محترمہ محمودہ خانم شبنم،پروفیسر عبدالرشید ، محترمہ ثمینہ نیلو فر ، ڈاکٹر جہاں آرا ء ، ڈاکٹر جمیلہ بانو، ڈاکٹر پرجیس فاطمہ اور مہ جبیں صاحبہ نجم کے علاوہ ممتاز زرینہ اور شہناز قیوم نے باغ اردو کی آب یاری کی ہے۔ خصوصاً نوجوان اساتذہ میں سید منظور احمد ایک فعال اور متحرک شخصیت ہیں یہ انجمن ترقی اردو ہند میسور کے معتمد اور انجمن اساتذہ اردو جامعات ہند کے ریاست کرناٹک کے لئے کنوینر ہیں۔


سلیم تمنائی میسور کی ان ہستیوں میں شمار ہوتے ہیں جن کے نازک کندھوں پر اردو کا گراں بار بوجھ لاد یا گیا ہے یہ وقف برائے اردو ہیں۔
سلیم تمنائی کی ویسے تو اردو زبان سب سے بڑی کمزوری ہے لیکن ان کی دوسری کمزوریوں میں شہر میسور اور سلطان ٹیپو بھی شامل ہیں۔ یہ عاشق میسور ہونے کے علاوہ عاشق ٹیپو سلطان بھی ہیں۔ ان کی دوسری اور بہت سی کمزوریاں ہیں میں ان کا ذکر یہاں نہیں کروں گاکہ میں ان کا دوست ہوں اسلئے یہ کہہ کر ٹال جاتا ہوں کہ آخر سلیم تمنائی بھی تو انسان ہیں اور کمزوریاں بشریت کا تقاضہ ہیں !"ہمہ خاندان آفتاب است" کے مصدق یہ اور ان کا پورا خاندان اردو زبان کا شیدائی اور خدمت گزار ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی نعیم اقبال خود بھی اچھے افسانہ نگار ہیں ان کی رشتہ کی بہن رفعت زہرہ اچھی ادیبہ ہیں اور تو اور ان کی نصف بہتر( میں ان کو سلیم تمنائی کی کمزوری نہیںکہوں گا) مجیبہ سلیم بھی اپ نے ذوق سلیم کے لئے مشہور ہیں حد تو یہ ہے کہ ان کی نمبر2 دختر نیک اختر عذرا بھی اردو زبان کی خدمت کرتے ہوئے خوش ہوتی ہیں۔ سلیم تمنائی کے الفاظ ہیں:
"پیاری بیٹی عذرا کا ایک پیا ( وہ احسان کی قائل نہیں) اس طرح احسان بن گیا کہ کنڑی پر اردو اثر مضمون کے لئے کنڑی ادب سے بھی اردو الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالے۔"


شاید بیٹی بھی باپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے کیونکہ سلیم تمنائی بنیادی طور پر ہندی ادب کے طالب علم ہیں مگر خدمت کررہے ہیں اردو زبان و ادب کی۔ اسی طرح عذرا اردو نہ جانتے ہوئے بھی اردو زبان کی خدمت کررہی ہیں۔ لگتا ہے عذرا باپ پر گئی ہیں!


سلیم تمنائی اردو کے انشا پرداز بھی ہیں محقق بھی اور اس سے بھی بڑھ کر وہ اردو زبان کے یہ نقیب، اردو تہذیب کے نگہبان بھی ہیں۔ ان کو اردو زبان اور اردو والوں سے بے پناہ محبت ہے۔ان کو اپنا خلوص نچھار کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ اردو زبان کے ادیب شاعر ہیں۔ اپنی انشا پردازی اور تحقیق کی وجہ سے جہاں یہ ملک بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ وہیں ارد و نوازی کے واسطے سے مہمان نوازی کے لئے دور دور کے اسکالرز ، ادیب اور محقق ان کی ضیافت سے محظوظ ہوتے ہیں۔ مالی وسائل محدود ہیں لیکن اللہ نے ان دل بڑا دیا ہے اور اس دل میں درد بھی بڑا ہے اس لئے اپنے احباب کے لئے بچھ سے جاتے ہیں اپنے نازک کندھے پر کپڑے کی تھیلی لٹکائے یہ شہر بھر گھومتے پھرتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ اردو کہاں کہاں کسمپرسی کی حالت میں ہے اور کہیں نظر آجاتی ہے تو فوری مزاج پرسی کرنے لگتے ہیں۔
عزیز سیٹھ صاحب ( سابق وزیر ریاست کرناٹک) ایم پی سے ان کے مخلصانہ مراسم رہے ہیں حضرت اسد پیراں، شاہد میسوری، نذیر احمد، نذیر محمد، خلیل بیباک ،رزاق افسر ، اور جانے کن کن سے ان کے اچھے برے روابط ہیں۔ بہرحال یہ سب کے آشنا اور سب ان کے شناسائی ہیں۔ ان دنوں یہ انجمن ترقی اردو ہند(میسور) کے صدر ہیں حالانکہ ان کو کسی انجمن کی ضرورت نہیں، یہ اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں محاورۃً نہیں واقعتا اور جب سے انجمن کے صدر ہوگئے ہیں گھر کی کم اور انجمن زیادہ فکر کرنے لگے ہیں۔ ویسے بھی ان کو گھر سے کم ہی سروکار رہتا ہے۔ وہ تو غنیمت ہے کہ بھابی مجیبہ پڑھی لکھی اور ملازم ہونے کے باوجود گرہست خاتون ہیں۔ ان کے سلیقہ نے ان کی لڑکیوں سلمی اور عذرا کو بھی سلیقہ مند بنا دیا ہے۔
ہونہار بروا کے چکنے چکتے پات ، حسنی چھوٹی لڑکی بھی بال و پر لائے گی اور خاندان کی ناک اونچی رکھے گی۔ شاید اپنی بیوی، صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی اسی ہوشمندی نے سلیم تمنائی کو گھر کی ذمہ داریوں سے بے نیاز رکھا ہے۔ مگر ایک بات یہ اپنے متعلقین کو چاہیں وہ بیوی یا بچے ہوں یا بہنیں بھائی محبت کی دولت سے مالا مال کرتے ہیں۔ بھلا بتائیے وہ شخص جو ہم ایسے غیروں کو اپنے حسن سلوک، مروت اور محبت سے گرویدہ بنالیتا ہے اور بے تکان خلوص کی دولت نچھار کرتا ہے وہ اپنوں کو کیسے محروم کر سکتا ہے۔ ویسے بھی سلیم تمنائی پیدائشی طور پر شریف زادہ ہیں۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ سے ملتا ہے اور ان کے جد حضرت دودھ پیرؒ نے علاقہ میسور میں تبلیغ دین کے فریضہ کو انجام دیا ہے اولیائے میسور میں ان کا بڑا مرتبہ ہے اور عید گاہ قدیم میں ان کا "مکاں" زیارت گاہ خاص و عام ہے۔


سلیم تمنائی اپنے مخصوص طرز تحریر کے لئے بھی اردو ادیبوں میں امتیاز اور انفرادیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے نذیر احمد سے متعلق مضامین کو یکجا کیا ہے۔ ایک ہستی، ایک انجمن، ان کی دوسری اہم تصنیف دانائے راز دیار دکن میں اقبال کی میسور وبنگلور میں آمد اور روضہ پر حاضری سے متعلق ہے قومی یکجہتی اور دکن دیس ان کے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے سلیم تمنائی بنیادی طور پر ایک محقق ہیں اور مجھے ان کی اس تصنیف کا انتظار ہے۔ جو اردو ادب کے ذخیرہ میں یقینا نایاب و کمیاب کہلائے گی۔ ایسی توقع بے جا بھی نہیں اس لئے کہ سلیم تمنائی کی ذاتی لائبریری میں ایسے نایاب اور کمیاب مخطوطے ہیں جن سے وہ استفادہ کرسکتے ہیں۔


میرا یہ احساس ہے کہ سلیم تمنائی تنظیمی امور میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں خصوصاً جب سے وہ انجمن کے صدر بن گئے ہیں وہ پریشان، پریشان گھومتے ، لوگوں سے ملتے، شعراء و ادیبوں کو اکٹھے کرتے رہتے ہیں یہ ہیں دبلے پتلے سے، ناک پکڑو تو دم نکل جائے مگر اپنی کارگزاریوں سے شہر بھر کے لوگوں کا نام میں دم کررکھا ہے۔ سونے پر سہاگہ ان کی دوستی سید منظور احمد سے جو ہوگئی ہے تو سارے شہر میں انجمن کا ہنگامہ ہے۔ منظور بڑے ذمہ دار آدمی ہیں۔ بات اور وقت کے پابند اور تنظیمی صلاحیت بلاکی ہے، جذبات پر قابو ہو تو یہ بڑے کام کے آدمی ہیں۔ سلیم تمنائی اور منظور احمد کا منجوگ میسور میں اردو کے ماحول کو بنائے رکھنے اور پروان چڑھانے میں ممدومددگار ثابت ہوا ہے۔ چشم بددور۔۔َ!


پتہ نہیں خوابوں اور خواب زاروں کے اس شہر میسور میں ایسی کتنی شخصیتیں ہیں جن کی ذات اردو ادب اور اردو تہذیب کے لئے باعث برکت بابرکت ہوگی اور جن کا لہو لالہ کی حنا بندی میں خاموشی کے ساتھ مصروف ہے۔ تاہم میں جن شخصیات سے واقف ہوں اور جن کے کام نے مجھے متاثر کیا ہے ان کا ذکر میں نے یہاں کردیا ہے۔ ویسے بھی گلشن کی رونق صرف گل و گلاب ہی نہیں ہوتے وہ سبزہ بھی ہوتا ہے جو زمین پر بچھ کر چہل قدمی کرنے والوں کو تازگی اور تراوٹ بخشتا ہے۔ میسور ان معنوں میں سبزہ سزار بھی ہے، صدا ہرا بھرا میسور کے ادیب، میسور کے شاعر ، میسور کے فنکار ، اور مصور یہی سب اس گلشن اردو کے گل و گلاب ہیں، چمپا، چمیلی ،موگھرا اور موتیا بھی! ان ہی کے قلب و نظر کی تازگی اور تراوٹ نے اردو کے اس برنداون گارڈن کو حسن بھی اور روشنی عطا کی ہے اور یقین ہے ان ہی کے خون جگر سے اس گلشن کو حیات نو ملتی رہے گی!


***
ماخوذ از کتاب: آباد حیدرآباد رہے
مصنف: ڈاکٹر طیب انصاری۔ سنہ اشاعت: اکتوبر 1988ء

Mysore: The city of dreams and dreamers. by: Tayeb Ansari.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں