بات آر ایس ایس کی - کالم از شکیل رشید - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-10-02

بات آر ایس ایس کی - کالم از شکیل رشید

baat-rss-ki

بات آر ایس ایس کی !
آر ایس ایس پر پابندی لگائی جائے - لال پرساد یادو

یہ مطالبہ لالو پرساد یادو جیسا سیاست داں ہی کر سکتا تھا۔ حالانکہ کمیونسٹ پارٹیوں کی طرف سے بھی یہ مطالبہ کیا گیا ہے ، لیکن ان کا انداز لالو پرساد یادو جیسا دو ٹوک نہیں تھا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے سنگھی تنظیم پر پابندی کی بات تو کی ، مسلم قیادت کی طرح اپنی جبینیں کسی بھاگوت کے آگے جھکائیں تو نہیں ، کسی سنگھی سرسنگھ چالک کو ' راشٹر پِتا ' تو نہیں کہا ، کسی فرقہ پرست کو ' اچھائی ' کی سند تو نہیں دی۔ سیدھے سیدھے انداز میں انہوں نے کہہ دیا کہ آر ایس ایس ہی سارے فتنہ کی جڑ ہے ، یہ تنظیم ملک کو دھرم کے نام پر باٹنا چاہتی ہے ، لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔
یہ مطالبہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی لگانے کے مرکزی سرکار کے اعلان کے ردعمل میں کیا گیا ہے ، لیکن نہ لالو کا مطالبہ ہوا میں ہے اور نہ ہی کمیونسٹ پارٹیوں کا مطالبہ۔ پی ایف آئی پر جن الزامات کے تحت پابندی لگائی گئی ہے ، آر ایس ایس پر اس سے کہیں زیادہ سنگین الزامات لگ چکے ہیں۔


بات سالِ رواں کے اگست مہینے کی ہے ،جب 29 تاریخ کو ناندیڑ کی عدالت میں یشونت شندے نام کے ایک شخص نے ایک حلف نامہ داخل کر کے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ، آر ایس ایس نے بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے ، ماضی میں ملک میں کئی جگہوں پر بم دھماکے کیے تھے۔ شندے کی درخواست تھی کہ اسے ناندیڑ میں 2006ء کے بم دھماکہ معاملہ میں گواہ بنایا جائے۔ حلف نامے میں کہا گیا تھا کہ پنسے وشو ہندو پریشد کا کارکن تھا۔ شندے 1999ء میں ، اندریش کمار کی ہدایت پر ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایک سینئر کارکن ، ہمانشو اور اس کے سات دوستوں کو جموں لے گیا تھا جہاں انہوں نے ہندوستانی فوج کے جوانوں سے جدید ہتھیاروں کی تربیت حاصل کی۔ شندے نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے بعد میں ایک کیمپ میں بم سازی کی تربیت بھی حاصل کی تھی۔ کیمپ کا ماسٹر مائنڈ اور مین آرگنائزر ملند پراندے تھا ، جو اس وقت وشو ہندو پریشد کا قومی آرگنائزر ہے۔ کیمپ میں مرکزی انسٹرکٹر متھون چکرورتی کے نام سے ایک آدمی تھا جس کا اصل نام روی دیو [آنند] تھا ، جو اب وشو ہندو پریشد کی اتراکھنڈ یونٹ کا سربراہ ہے۔


بتا دیں 2006ء میں ناندیڑ ضلع میں ، بجرنگ دل کے ایک کارکن سمیت دو افراد ، جن کا تعلق وشو ہندو پریشد کی یوتھ ونگ سے تھا ، اس وقت مارے گئے تھے جب ایک بم ، جسے وہ مبینہ طور پر بنانے کی کوشش کر رہے تھے پھٹ گیا تھا۔ اپنے حلف نامے میں شندے نے دعویٰ کیا ہے کہ ریاست کے اورنگ آباد ضلع میں ایک مسجد پر حملہ کرنے کے لیے بم تیار کیا جا رہا تھا۔ شندے کے مطابق اسے پوری معلومات تھی کیونکہ مرنے والے دو آدمیوں میں سے ایک ، ہمانشو پنسے اس کا ساتھی تھا۔
ناندیڑ کا واقعہ 15، اپریل 2006ء کا تھا۔ اس کی تفصیل جو سامنے آئی ہے یوں ہے کہ ، آدھی رات کو پی ڈبلیوڈی کے ریٹائرڈ اگزیکیٹو انجنئیر شری لکشمن راج کونڈوار کے مکان واقع پاٹ بندھارے نگر میں جب آر ایس ایس ور کر بم بنانے میں مصروف تھے دھماکہ ہوا تھا جس میں لکشمن راج کونڈوار کا بیٹا نریش اور ایک سنگھی ہمانشو پانسے مارے گیے تھے اور یوگیش دیشپانڈے ، راہل پانڈے ، ماروتی وا گھ اور یوراج تپتے وار زخمی ہوئے تھے ، یہ سب آر ایس ایس کے ورکر تو تھے ہی ان کا تعلق ' ابھینو بھارت ' سے بھی تھا۔ راہل پانڈے اور سنجے چودھری نے نارکو ٹیسٹ میں اپنے " بجرنگ دلی " ہونے کا اور جالنہ ، پورنا و پربھنی کی مسجدوں میں بموں کے پھینکنےکا اعتراف کیا تھا اور یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ جو طاقتور بم پھٹا تھا اسے عید الفطر کے دن اورنگ آباد کی سب سے بڑی مسجد میں رکھا جانا تھا۔


پربھنی کی " محمدی مسجد " کا جب میں نے دورہ کیا تھا تب اس میں بم دھماکے کی ساری حقیقت سامنے آئی تھی۔ وہ 21 نومبر 2003ء کا دن تھا جب ' محمدی مسجد ' دھماکوں سے گونج اٹھی تھی۔ رمضان المبارک کے آخری ایّام تھے ، مسجد جمعتہ الوداع ادا کرنے کے لیے آئے لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ مسجد کا صرف ایک دروازہ تھا ، وہ بھی تنگ تھا۔ سڑک کی جانب کی دیوار ایک جانب سے کھلی ہوئی تھی۔ نماز ختم ہو چکی تھی ، نمازی امام صاحب کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہے تھے کہ اچانک زوردار دھماکوں کی آواز سے مسجد گونج اٹھی اور گاڑھا گاڑھا دھواں ساری مسجد میں بھر گیا۔ جب دھواں چھٹا تو کئی لوگ خون میؓں تربتر مسجد کے فرش پر پڑے نظر آئے۔ جن افراد نے مسجد کے اندر بم اچھالے تھے انہوں نے مسجد کے گیٹ کو باہر سے بند کر دیا تھا ، اس لیے افراتفری بڑھ گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ دو موٹر سائیکل سوار تھے جو مسجد کے اندر بم پھنک کر فرار ہو گیے تھے۔ وہ اپنے ہاتھوں میں ریوالور لیے ہوئے تھے اس لیے کوئی انہیں پکڑنے کی ہمت نہیں کر سکا۔
اس حملے میں عبدالصمد نامی ایک 40 سالہ شخص شہید ہوا تھا ، زخمیوں کی تعداد 34 تھی۔ چونکہ حملہ کامیاب تھا اور پولیس کسی کو گرفتار نہیں کر سکی تھی ، اس لیے یرقانیوں کے حوصلے بڑھ گیے تھے ، اورانہوں نے جالنہ اور پورنا کی مسجدوں پر بم سے حملے کیے تھے۔ ان تین مسجدوں پر حملوں کے بعد ناندیڑ کا معاملہ جب سامنے آیا تب پتہ چلا کہ یہ ساری منصوبہ بندی سنگھ کی تھی۔ اور اس بار اورنگ آباد کی کسی بڑی مسجد میں بم دھماکے کرنے کا منصوبہ تھا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان مسجدوں پر حملے کرنے والے آزاد ہیں ! تمام ملزمین کا تعلق آر ایس ایس سے ثابت ہے۔ کئی ایسے تھے جو سنگھ کی ذیلی تنظیم بجرنگ دل سے جڑے ہوئے تھے۔ اور کئی کا تعلق ابھینو بھارت سے تھا۔


پورنا کے مدرسہ معراج العلوم اور جالنہ کی قادریہ مسجد کے ملزمین بھی اس گروپ میں شامل تھے۔ ان دونوں مسجدوں میں بھی جمعہ ہی کے روز دھماکے کیے گیے تھے۔ اس پورے معاملہ میں وشو ہندو پریشد کا نام بھی سامنے آیا ہے ، گویا کہ سارے سنگھ پریوار پر دہشت گردی میں شامل ہونے کا الزام ہے۔ اس وقت ، عدالت نے جب تمام ملزمین کو جب بری کیا تو اس پر حیرت کا اظہار بھی کیا گیا اور حکومت کی طرف سے یہ بیان بھی آیا کہ وہ ان کے بری کیے جانے کو چیلنج کرے گی ، لیکن یہ بیان محض بیان ہی ثابت ہوا۔ مالیگاؤں کے دو بم دھماکوں میں بھی ، شہید ہیمنت کرکرے کی تفتیش کے بعد ، سنگھ کا کردار بہت واضح ہو کر سامنے آیا تھا۔
سادھوی پرگیا اور کرنل پروہت کا سنگھی تنظیموں سے رشتہ جگ ظاہر ہو گیا تھا ، مگر آج سادھوی رکن پارلیمنٹ ہے ، اور کرنل پروہت کے خلاف مقدمہ کمزور کر دیا گیا ہے۔ مالیگاؤں کے بم بلاسٹ میں ابھینو بھارت کا نام سامنے آیا تھا۔ یہ تنظیم ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے ہر حد تک جانے کو آمادہ تھی۔ ممبئی کے کئی بم دھماکوں میں ہندوتوادی تنظیموں کے ناموں کا انکشاف ہوا ہے ، یہاں تک کہ ایک سابق اعلی پولیس افسر ایس ایم مشرف نے اپنی کتاب " کرکرے کے قاتل کون ؟" میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ ممبئی پر 11/26 کے دہشت گردانہ حملوں کا فائدہ اٹھا کر سنگھی تنظیموں نے کرکرے کو راستہ سے ہٹایا ہے۔ وہ آر ایس ایس کو ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ بات صرف مہاراشٹر تک محدود نہیں ہے ، حیدرآباد میں جو دھماکے ہوئے ، بشمول مکہ مسجد دھماکہ اس میں بھی سنگھ کا نام سامنے آیا ہے۔ اسیمانند کو بھلایا نہیں جا سکتا۔


سچ تو یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل سے لے کر ملک کے فسادات اور کئی بڑے بم دھماکوں تک سنگھ کا کردار شک و شبہ سے باہر نہیں ہے۔ اس پر دو بار پابندی بھی عائد ہو چکی ہے۔ اور اب پھر پابندی کا مطالبہ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس بار پابندی کا لگنا یا لگایا جانا ممکن نہیں ہے کیونکہ ملک پر ایک طرح سے آر ایس ایس ہی کی حکومت ہے۔ ایک بات بہت واضح ہے ' آر ایس ایس ملک کو ہر حال میں ہندو راشٹر بنانا چاہتا ہے ' اور اس کے لیے وہ مسلم تنظیموں سے ، مسلم قائدین سے مل کر انہیں منانے اور نہ ماننے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ وہ اپنا کام چمکار کر اور ڈرا کر نکالنا خوب جانتا ہے۔
میں نے کبھی لکھا تھا کہ آر ایس ایس کئی سروں ، کئی روپ اور کئی منھ والا عفریت ہے۔ ہر منہ سے الگ الگ بات نکلتی ہے۔ یہ واضح رہے کہ جب آر ایس ایس کے طرح طرح کےروپ اور ایک سے زائد منہ کا ذکر ہوتا ہے تو اس کا سیدھا مطلب اس کٹر ہندو تووادی تنظیم کے سر سنگھ چالک یعنی اس کے سربراہ کے افعال ، اعمال اور بیانات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہ سرسنگھ چالک ہی ہیں جو وہ 'راہ' متعین کرتے ہیں جس پر سنگھ کو چلنا ہوتا ہے۔
موہن بھاگوت نے کچھ عرصے قبل ہی کہا تھا کہ " ہندو راشٹرکا مطلب یہ نہیں کہ اس میں مسلمانوں کےلیے جگہ نہیں ہے ، جس دن ایسا کہا جائے گا اس دن وہ ہندوتو نہیں رہ جائے گا ، ہندوتو کی نظر میں پوری زمین ایک کنبہ ہے"۔
انہوں نے " ہندو راشٹر " کے تصور کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ " ہندو راشٹر مسلمانوں کے بغیر نہیں ہو سکتا "۔ بھاگوت کے مذکورہ بیانات کے بعد یہ بحث چل پڑی تھی کہ آیا " آر ایس ایس میں تبدیلی آ رہی ہے؟" ایودھیا تنازعہ کے تعلق سے بھی بھاگوت کے ایک بیان سے یہ اشارہ ملا تھا کہ سنگھی ٹولہ اپنا رخ یا تو تبدیل کر رہا ہے یا پھر اپنے رویے کو نرم کررہا ہے۔


بھاگوت نے سپریم کورٹ میں بابری مسجد ، رام مندر معاملے کی سماعت کے موقع پر صاف لفظوں میں یہ کہا تھا کہ " آر ایس ایس سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنے لیے پابند ہے ، ایودھیا تنازعے پر جو بھی فیصلہ آئے گا وہ قبول ہوگا "۔ لیکن اس کے بعد ان کا ایک بیان آیا تھا جس سے جہاں ایک طرف ان کے مذکورہ بیان کی کہ " ہندو راشٹر کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں مسلمانوں کےلیے جگہ نہیں ہے" کی نفی ہوئی تھی ، وہیں دوسری طرف ایودھیا تنازعے میں ان کی دوغلی سوچ بھی سامنے آئی تھی۔
بھاگوت نے آر ایس ایس کے مرکز ناگپور میں وجے دشمی کے ایک موقع پر سنگھی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا " رام مندر اب بن جانا چاہیے لیکن سیاسی پارٹیاں اس معاملے پر سیاست کر رہی ہیں"۔
اگر ان کا بیان اس جملے تک ہی محدود رہتا تو بھی فکر اور تشویش کی کوئی بات نہیں تھی مگر انہوں نے ا نتہائی نفرت بھری زبان کا استعمال کرتے ہوئے بابر کو ایک بھیانک آندھی سے تشبیہ دی تھی۔ انہوں نے یہ تو کہا کہ " اس بھیانک آندھی (بابر) نے ملک کے ہندو اور مسلمانوں کو نہیں بخشا " لیکن یہ بھی کہا کہ " رام صرف ہندوؤں کے نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے ہیں اور کسی بھی طرح سے مندر بننا چاہیے بلکہ حکومت کو رام مندر بنانے کےلیے قانون لاناچاہیے ، لوگ کہتے ہیں کہ ان (بی جے پی) کا اقتدار ہے پھر مندر کیوں نہیں بنا"؟


گویا یہ کہ بھاگوت کو اپنے بیانات کو بھول جانے کی عادت ہے ، آج جو کہیں گے کل ایسا بیان دیں گے جو اس کی ضد ہوگا۔ ایودھیا تنازعے پر سپریم کورٹ میں مقدمہ کے دوران انہوں نے یہ اعلان کررکھا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کیاجائےگا !
لیکن پھر یہ بیان بھول کر بھاگوت نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کےلیے حکومت پر قانون سازی کےلیے زور ڈالنا شروع کردیا تھا۔ یہ عدالت عظمی پر اثر انداز ہونے کی بھی کوشش کی تھی او رمسلمانوں کو دھمکانے کی بھی ، کہ اس ملک میں ہندوتو وادی جو چاہیں گے وہی ہوگا کسی عدالت کافیصلہ چلنے والا نہیں ہے !
ایک مثال مزید لے لیں ، وہ کچھ پہلے اس ملک کے مسلمانوں کو یہ یقین دلارہے تھے کہ وہ ' غیر ' نہیں ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ مسلمان خود کو ' ہندو ' کہیں۔ اصلی اور حقیقی آر ایس ایس یہی ہے ، کئی سروں اور کئی منہ والا ایک عفریت ، ایک دیو جو جیسا موقع دیکھتا ہے ویسا بولتا ہے۔ اُن لوگوں کو جو یہ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس میں تبدیلی آ رہی ہے ، حقیقی صورت حال کو دیکھنا ، سمجھنا اور غور کرنا ہوگا۔



The RSS factor. Analysis: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں