اس حقیقت کو اب ساری دنیا تسلیم کررہی ہے کہ پڑھی جانے والی چیز کی بہ نسبت دیکھی جانے والی چیز عوام پر براہ راست جلد اثر انداز ہوتی ہے اور اس کااثر بھی دیر پا ہوتا ہے اس کے علاوہ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ایک کتاب تو ایک وقت میں ایک ہی قاری کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے جب کہ ایک فلم کا صرف ایک پرنٹ اگر کسی ایک سنیما میں دکھایاجارہا ہو تو بیک وقت کم از کم سات آٹھ سو تماشائیوں کے دل و دماغ پر اس کا بلا واسطہ اثر پڑتا ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی ضروری ہے کہ فلم اب بھی سب سے سستا اور مقبول ترین تفریح کا ذریعہ ہے۔ ایک کتاب کی خرید کے لئے تو کم سے کم100، 125روپے درکار ہوتے ہیں جب کہ ایک فلم25,20روپے میں دیکھی جاسکتی ہے اور اگر گھر میں ٹی وی ہو تو گھر بیٹھے بڑے آرام سے فلم دیکھی جاسکتی ہے۔ غالباً انہیں پہلوؤں کے پیش نظر آج سنیما ہمارے سماج کا ایک جزولاینفک بن چکا ہے۔
مرزارسوا کا ناول امراؤ جان ادا پڑھ کر لکھنؤ کے چوک بازار میں امراؤ جان کا کوٹھا تلاش کرنے والے تو خال خال ملیں گے لیکن ایک فلم دیکھ کر نفسیاتی اثرات قبول کرنے والے کروڑوں افراد ہیں۔ ہمارے عوام یعنی عورتوں اور بچوں پر لازمی طور پر اس کے نفسیاتی اثرات پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں مثبت بھی ہیں اور منفی بھی۔ فلموں نے ہمارے نوجوانوں پر اتنا نفسیاتی اثر ڈالا ہے کہ اس کے ذریعہ نت نئے فیشنوں کا چلن ہوا۔ اس کے علاوہ سماج پر اس کے اچھے اور برے تاثرات بھی رونما ہوئے ہیں انہیں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
آج سے تقریبا 65سال پہلے پی سی بروا کی فلم دیوداس آئی تھی۔ اس میں کے ایل سہگل کے یاس انگیز نغمات:"دکھ کے اب دن بیتت نا ہیں" اور"بالم آن بسومورے من میں۔" اور کیدار شرما کے تحریر کردہ مکالمے سن کر تماشائی سنیما ہال میں ہی آنسو بہاتے اور روتے دیکھے گئے تھے۔ اور انہیں کے ایل سہگل کے کردار کے باعث سماج میں ہر ناکام مجنوں کو دیکھ کر عوام اسے"دیو داس" کہتے تھے۔ اور کہتے ہیں کہ اس سے متاثر ہوکر کئی نے خود کشی بھی کرلی تھی اور ان کے ساتھ ہی کئی نوجوانوں میں زندگی کے تئیں مایوسی اور ناامید گھر کر گئی تھی۔ اس فلم میں ٹیکنیکی اعتبار سے لاکھ خوبیاں تھیں لیکن عوام میں بیمار اور غیر صحت مند نظریات کو تقویت دینے میں یہ فلم پیش پیش رہی جس سے ہمارے نوجوانوں میں غیر صحت مندرجحانات کو تقویت ملی۔ لیکن دوسری طرف اسی دور میں وی شانتا رام کی فلم"آدمی" آئی یہ فلم دیکھ کر عوام میں صحت مند نظریات کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اپنے زمانے کی نامور ادکارہ شانتاہبلیکر نے طوائف کا کردار ادا کرکے صحت مند کردار کے ذریعہ سماج میں وقار کے ساتھ جینے کا سلیقہ سکھایا۔
شانتا رام کی فلموں"دنیا نہ مانے" اور"جہیز" نے نوجوانوں کو نفسیاتی طور پر اتنا متاثر کیا کہ اس زمانے میں عوام نے بے میل شادی نہ کرنے اور جہیز نہ لینے کا بیڑا اٹھایا اور جب اپنے دور کی ممتاز ہیروئین نندہ کے والد ماسٹر ونائیک نے ہندی اور مراٹھی فلم"برانڈ کی بوتل" اور برانڈی چ ہائی باٹلی نام فلم پیش کی تو لوگوں نے مے نوشی ترک کرنے کا ارادہ کرلیا۔
یہ امر تو واضح ہے کہ فلمیں براہ راست نوجوانوں پر نفسیاتی اثر ڈالتی ہیں۔ ایسے ایک دو واقعات بطور مثال پیش کرنے سے وضاحت ہوجائے گی۔ یہاں ہم منفی اور مثبت دونوں پہلو پیش کررہے ہیں۔
1943ء میں جب بامبے ٹاکیز کی فلم"قسمت" آئی تو کچھ عرصہ بعد ممبئی پولیس نے 13/12سال کے ایک لڑکے کو جیب تراشی کے جرم میں گرفتار کرلیا۔ اور جب مجسٹریٹ نے لڑکے سے پوچھا کہ تمہیں جیب تتراشی کی تحریک کس سے ملی۔ تو اس نے فوراً جواب دیا کہ فلم "قسمت" میں اشوک کمار جس انداز سے جیب کاٹتا ہے ، مجھے جیب تراشی کی تحریک وہیں سے ملی اس کے علاوہ جب باسو چٹر جی کی فلم"سوامی" آئی جو ازدواجی رشتوں پر مبنی تھی تو اس دوران ممبئی کی عدالت میں طلاق کا ایک مقدمہ پیش ہوا۔ شوہر اور بیوی دونوں مجسٹریٹ کے روبروطلاق کے لئے پیش ہوئے۔ مجسٹریٹ نے انہیں سمجھایا اور طلاق کے نقصانات بتائے لیکن وہ نہ مانے آخر اس نے کہا طلاق لینے سے قبل آپ یہاں ممبئی میں چلنے والی ایک فلم"سوامی" دیکھ لیجئے۔ میاں بیوی دونوں رضا مند ہوگئے۔ دونوں نے فلم"سوامی" دیکھی اور اس فلم کا ان پر اتنا نفسیاتی اثر پڑا کہ انہوں نے آپس میں صلح کرلی اور طلاق کا مقدمہ واپس لے لیا۔
اس کے بعد1983ء میں جب سررچرڈ ایٹن برو کی فلم" گاندھی" آئی تو اس کو دیکھ کر عوام میں کھادی پہننے کا شوق پیدا ہوا اور گاندھی جی کی سوانح عمری پڑھنے کی تحریک بھی ملی۔ اس کے نتیجے میں کھادی کی فروخت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور گاندھی جی کی سوانح عمری "میری آپ بیتی" یعنی مائی ایکس پیری منٹس ود ٹروتھ My Experiments With Truth کی جلدیں دھڑا دھڑ فروخت ہوگئیں۔
فلمیں ہمارے نوجوانوں پر نفسیاتی طور پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہیں کہ انہیں سے نئے نئے فیشن بھی جنم لیتے ہیں مس گوہر اور دیویکارانی کے بالوں کا ہر اسٹائیل خواتین نے اپنایا۔
دیویکارانی اور نرگس جب سفید ساڑھی میں جلوہ گر ہوئیں تو ملک کی خواتین نے سفید براق ساڑھیاں پہننی شروع کردیں۔ سلوچنا، مس کنچن اور سادھنا بوس نے بغیر آستین کا پارسی کٹ بلاؤ زپہنا تو ہمارے ملک کی خواتین نے بھی اسے فیشن بنالیا۔ ناڈیا اور نرگس کے ہیر اسٹائیل کو دیکھ کر لڑکیوں نے اسی انداز سے اپنے بال ترشوائے۔ اپنے زمانے کی مشہور ایکٹرس سدھنا کا ماتھا چوڑا تھا۔ اس عیب کو چھپانے کے لئے میک اپ مین نے اس کے ماتھے کے سامنے کے بال اس انداز سے سنوارے کہ عیب چھپ گیا اور بالوں کا نیا اسٹائیل سادھنا کٹ مشہور ہوگی ا۔ اس کے علاوہ دلیپ کمار کی فلموں"بابل"،"میلہ"، دیدار"اور"شہید" وغیرہ میں ان کے بالوں کی ایک لٹ کو ماتھے پر لانے کا اسٹائیل دلیپ کمار اسٹائیل بن گیا۔ اگر کسی اداکار کے بالوں کی سائیڈیں یعنی قلمیں بڑی ہوتیں تو وہ بھی نوجوانوں کا فیشن بن جاتا۔ اور اگربالی ووڈ کے نامور اداکار یل پرائی نریا امریش پوری سر گھٹوا کر پردۂ سیمیں پر جلوہ گر ہوئے تو نوجوانوں نے انہیں کے نقش قدم پر چل کر سر گھٹوانے کو ہی ایک فیشن بنالیا۔ اسی طرح جب دیو آنند نے کھلی چوڑے پائینچے کی پینٹ اور فلیٹ ہٹ ایک خاص اسٹائیل سے پہنی تو نوجوانوں نے اسی کو فیشن بنالیا۔
راج کپور نے ہندوستانی نوجوانوں کو فیشن کا ایک نیا اسٹائیل دیا چوڑی موری کی پینٹ کے پائینچے موڑ کر انہیں اوپر چڑھانے اور فلیٹ ہیٹ پہننے کا مخصوص انداز فلم"آوارہ"‘ اور"چار سوبیس" میں دیکھنے کو ملا جسے نوجوانوں نے بڑے انہماک سے اپنایا۔
جہاں تک بھجنوں کا تعلق ہے۔ ہماری کیرتن بھجن اور جاگرن منڈلیاں فلمی طرز کے دھنیں اور ماتا کی بھینٹیں پیش کرتی رہی ہیں تاجرانہ طور پر بھی۔
ہمارے تاجروں پر فلموں اور فلمی شخصیتوں کا اثر غالب رہا۔ صابن، تیل، اور بنیان بنانے والی کمپنیاں بھی اپنے مال کی پبلسٹی کے لئے فلم ایکٹر سوں اور فلم ایکٹروں کی خدمات کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ دیویکارانی سے لے کر پونم ڈھلون اور مادھوری دکشت تک اور اشوک کمار سے لے کر دیون ورما اور شاہ رخ خان تک کے نامور اداکاروں نے پبلسٹی فلموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے علاوہ1941ء کے قریب رنجیت موی ٹون کی ایک فلم"بیٹی" آئی تھی۔ اس میں بھی شنکر مل ملز کی ململ کی پبلسٹی اس طرح کی گئی تھی : ایسی ململ کون بنائے شنکر مل شنکر مل!
وہ زمانہ یاد کیجئے جب مدھو بالا اور ثریا کا دور تھا۔ اس دور میں کپڑا بنانے والی کمپنیوں نے مدھو بالا اور ثریا کے نام سے کپڑا بھی مارکیٹ میں فروخت کیا۔ اور جب راج کپور کی فلم "بوبی" آئی تو اس کے گلیمر کے طوفان کا عوام پر اتنا نفسیاتی اثر ہوا کہ گھر گھر میں بوبی کی دھوم مچ گئی۔ ماؤں نے اپنے بچوں کے نام تھری ویلر سکوٹر والوں نے اپنے سکوٹروں کے نام بھی حتی کہ ریستورانوں کے مالکوں تک نے بھی بوبی ریستوران نام رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
ایک زمانہ تھا جب کوئی بھی فلم نیوز ریل کے بغیر دکھائی نہیں جاسکتی تھی لیکن اب صورت یہ ہے کہ کوئی بھی فلم پبلسٹی شاٹس کے بغیر پردے پر نہیں آتی فلم کی ابتدا اور انٹری کے دوران پانچ دس منٹ کے وقفے میں مختلف کمپنیوں کی تیاری کردہ اشیا کے پبلسٹی شاٹس بار بار دکھائے جاتے ہیں ایسے شاٹ بار بار دیکھ کر تماشائیوں کو وہ اشیا خریدنے کی کشش پیدا ہوتی ہے کہ اب یہ طوفان ویڈیو فلموں میں بھی آگیا ہے۔
فلموں کے نفسیاتی اثرات کایہ نتیجہ نکلا ہے کہ تماشائیوں پر بری بات کا اثر جلد اور سرعت کے ساتھ ہوتا ہے۔ مگر اچھی بات کا اثر قبول کرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔
فلموں نے نفسیاتی طور پر قومی یک جہتی ، وطن پرستی کا جذبہ استوار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا یہی نہیں بلکہ ہمارے فلم سازوں نے عموماً ایسی سماجی اور گھریلو فلمیں بنائیں جن میں مثالی بننے کاتصور بیدار ہوتے دکھایا جاتا رہا ہے۔ ایسی لا تعداد فلموں کی فہرست پیش کی جاسکتی ہے۔ ان میں جنوبی بھارت کے فلم سازوں کی خدمات اہم ہیں ان کے علاوہ فارمولا ٹائپ کی ایسی فلمیں بھی آئی ہیں جن میں ملک میں بڑھتی ہوئی لوٹ کھسوٹ اور استحصال کی عکاسی بھی نہایت خوبصورت انداز سے کی گئی ہے۔ لیکن ان کا اثر ہمارے تماشائیوں کے دلوں پر قدرے تاخیر سے ہوا ہے۔
یہ تو تھا تصویر کاایک رخ اس کا ایک ہولناک پہلو بھی دیکھئے، جسے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ ہمارے فلم ساز ایسی فلمیں بھی پیش کرتے رہے ہیں جن میں جرائم تشدد، عریانیت اور اخلاق سوز جنسی مناظر ، خواتین کی عصمت دری لڑکیوں کی بے حرمتی چھیڑ چھاڑ اور جنسی استحصال کے مناظر خوب کھل کر پیش کئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے نوجوانوں نے نفسیاتی طور پر اس کا اثر براہ راست بڑی سرعت کے ساتھ قبول کیا ہے۔ خصوصاً کھٹیا سرکانے والے بے ہودہ اور لغو نغمات دلوں کو گرماتے ہیں جن سے بیمار ذہنوں کو تقویت ملتی ہے۔ اور اعلیٰ اخلاقی قدریں طا ق پر دھری رہ جاتی ہیں۔ ایسی ذہنیت کا انسداد بہت ضروری ہے۔ اس سلسلے میں تمام ذمے داریاں محض حکومت پر عائد نہیں ہوتیں بلکہ عوام کو بھی ذمہ دار شہریوں کی حیثیت سے اپنی بیدار مغزی کا ثبوت دینا چاہئے۔ اور ایسی فلموں کا نہایت سختی کے ساتھ بائیکاٹ کیا جاناچا ہئے۔ اس کے علاوہ فلم سازوں پر بھی اتنی ہی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ وہ محض یہ کہہ کر راہ فرار اختیار نہیں کرسکتے ہیں کہ عوام ایسی فلمیں پسند کرتے ہیں۔ ایسی فلمیں بنائی ہی کیوں جائیں کہ لوگوں کو دیکھنے کا موقعہ ملے۔ لہٰذا ایک صحت مند سماج استوار کرنے کے لئے ایسی فلمیں پیش کی جانی چاہئیں جنہیں دیکھ کرہمارے تماشائی اعلیٰ اور ارفع اقدار کے حامل صحت مند سماج کے بہتر تصور کو عملی جامہ پہنا سکیں۔
ماخوذ از کتاب: ہندوستانی سینما کے پچاس سال
مصنف: پریم پال اشک۔ ناشر: موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی (سن اشاعت: 2000)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں