مسلم نوجوانوں سے متعلق ایک سروے کی زہرناکی - کالم از ودود ساجد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-09-18

مسلم نوجوانوں سے متعلق ایک سروے کی زہرناکی - کالم از ودود ساجد

جون 2010 میں ایک پرائیویٹ سروے کمپنی نے ہندوستان کے مسلم نوجوانوں کے تعلق سے دو درجن سے زائد زہریلے سوالات پر مشتمل ایک سروے کیا تھا۔ علماء، دانشوروں، تنظیموں کے سربراہوں اور ائمہ وغیرہ سے ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کا دعوی کیا گیا تھا۔
اس سروے کا 'پرفارما' لے کر کمپنی کا ایک نمائندہ میرے پاس بھی آیا تھا۔ اس میں زیادہ تر سوالات کے جواب بس 'ہاں یا نا' میں ہی دینے تھے۔ کمپنی کا نمائندہ فی الفور 'ہاں یا نا' میں جوابات چاہتا تھا اور پرفارما چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھا۔
نہ جانے کتنے مسلم نوجوانوں، اماموں، استاذوں اور مسلم قائدین نے اس پرفارما میں درج سوالات کے جوابات بغیر کسی رد و قدح کے اسی بے تابی اور عجلت میں دیدئے ہوں گے۔ ۔ کمپنی کے نمائندے نے مجھ سے کہا بھی تھا کہ اتنی جرح صرف آپ کر رہے ہیں ورنہ بہت سے مذہبی پیشواؤں اور مسلم قائدین نے تو آسانی کے ساتھ جوابات دے کر پرفارما پر دستخط کر دئے ہیں۔


یوپی میں مدارس کے سروے کے شور کے دوران 12 سال پہلے ہونے والے اس سروے کی 'فلم' میری نظروں کے سامنے گھوم گئی۔ مجھے یاد آیا کہ اس وقت سب سے پہلے میں نے ہی اس سروے کی زہرناکی اور ممکنہ خطرات پر سے پردہ اٹھایا تھا۔ میں نے مسلمانوں کے بیشتر سیاسی اور ملی قائدین کو مختلف ذرائع سے یہ سروے اور اس پر اپنی رائے بھیج کر ان سے اپیل کی تھی کہ اپنی اپنی سطح پر اس معاملہ کو اٹھائیں۔
کم و بیش ہر مسلم ممبر پارلیمنٹ کو میں نے اپنے صرفہ پر یہ تمام دستاویز ارسال کی تھی۔ کچھ ممبران پارلیمنٹ سے فون پر بات بھی کی تھی۔ کچھ ملی قائدین سے ملنے کا وقت بھی مانگا تھا۔ کوئی ملنے یا اس پر لب کشائی کو تیار نہ ہوا۔ کانگریس کی حکومت میں اتنا خوف؟
ایک بڑی شخصیت نے اپنے 24 گھنٹے کی لمحہ بہ لمحہ مصروفیات سناکر کہا تھا کہ صرف ایک وقت خالی ہے۔ اگر آپ فجر کی اذان کے بعد سنتوں اور فرض کے درمیان آسکیں تو ملاقات ہوسکتی ہے۔ جب میں نے اس پر بھی آمادگی ظاہر کردی تو یہ وقت بھی میرے ہاتھ سے جاتا رہا۔


میں نے اس سروے کے تعلق سے اس وقت جو تفصیلی مضمون اردو میں لکھا تھا اس کی انگریزی مختلف پورٹلوں نے بھی اپ لوڈ کی تھی۔ میں نے اپنے پسندیدہ انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کی ایک سینئر ایڈیٹر سے بھی بات کی تھی۔ ابتدا میں اخبار اسے شائع کرنے پر آمادہ تھا لیکن بعد میں وہ بھی پیچھے ہٹ گیا تھا۔ مجھے آف دی ریکارڈ بتایا گیا تھا کہ اس سروے میں فلاں وزارت کی رضامندی شامل ہے۔
یہاں اس سروے کے تمام سوالات اور ان پر اپنے جوابات کو من وعن نقل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کے چند انتہائی نامعقول سوالات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل سوال بھی پوچھے گئے تھے:


1- آپ کی کمیونٹی میں مذہبی پیشواؤں کے مداحوں کی تعداد بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے؟
2- آپ کی رائے میں مسلم نوجوان مذہبی قائدین سے ترغیب پاتے ہیں یا بازاری طاقتوں سے؟
3- ملک اور بیرون ممالک کے مسلم قائدین سے رابطہ کے لئے آپ انٹرنیٹ کا استعمال پہلے سے زیادہ کر رہے ہیں یا کم؟
4-آپ کی رائے میں آپ کا فرقہ سماجی معاملات میں سیاسی قائدین سے متاثر ہوتا ہے یا مذہبی قائدین سے؟
5- آپ کے خیال میں تشدد، غیر قانونی اور دہشت گردانہ سرگرمیاں کیوں بڑھ رہی ہیں اور اس رجحان کو کیا تعاون مل رہا ہے؟
6- کیا آپ نے فلم 'مائی نیم از خان' دیکھی ہے یا اس کے بارے میں سنا ہے؟
7- اگر دیکھی ہے تو آپ کے خیال میں اس فلم نے کیا پیغام دیا ہے؟
8- مسلم نوجوان کو سیاست میں زیادہ حصہ لینا چاہئے یا مذہب کی تبلیغ میں؟
9- بعض لوگ کہتے ہیں کہ ٹی وی چینل مسلم نوجوانوں کو مذہب بیزار بنا رہے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟
10- مذہب کمزور ہو رہا ہے یا زیادہ متشدد ہو رہا ہے؟
11- ہرطرف مسلم نوجوانوں کی منفی شبیہ کیوں بن رہی ہے؟
12- کچھ لوگوں کے خیال میں ایک نیوز میڈیا اورغیر ملکی ایجنسی تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کے لئے بھرتی کر رہی ہے، کیا آپ اس پر یقین کرتے ہیں اور کیا ایسا کوئی واقعہ آپ کے علم میں ہے؟
13- کیا اجمل عامر قصاب کو پھانسی کی سزا دینا مناسب ہے؟
14- کیا دوبارہ سنوائی کر کے اسے عمر قید میں بدل دیا جانا چاہئے یا آپ کے دوست سوچتے ہیں کہ قصاب پر شفاف مقدمہ نہیں چلایا گیا؟
15- دیوبند سے جاری اس فتوے کے بارے میں کیا خیال ہے کہ عورتیں مردوں کے ساتھ کام نہیں کر سکتیں؟
16- کیا آپ کے خیال میں ہندوستان میں بغیر ثبوت کے مسلمانوں کو دہشت گردی کا ذمہ دار گردانا جاتا ہے؟
17- کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی ہندوستان کے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے بھرتی کر رہی ہے، کیا آپ اس سے متفق ہیں؟


یہ تمام سوالات لغو اور بے ہودہ تھے۔ میں نے جو جوابات دئے تھے ان کی تلخیص اور مفہوم اس طرح تھا کہ مذہب کوئی کرتب یا فلم نہیں کہ جب اچھا ہو تو لوگ تعریف کریں اور جب برا ہو تو اس کی برائی کریں۔ جو لوگ مذہب کے پیروکار ہیں وہ ہمیشہ مذہبی پیشواؤں کی تعظیم کرتے ہیں اور مذہبی معاملات میں وہ انہی سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر کیا ملے گا کہ کتنے مسلمان اپنے مذہبی پیشواؤں کے مداح ہیں اور کتنے مخالف؟ ہم سیکولر ہندوستان میں رہتے ہیں بددین کمال اتاترک کے دور میں نہیں۔ کسی کو باہری مسلم قائدین سے رابطہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔


حیرت ہے کہ سروے کمپنی نے از خود یہ طے کرلیا کہ ہندوستان کے مسلم نوجوان غیر ملکی مسلم قائدین کے رابطہ میں ہیں اور ان سے ہدایات حاصل کرتے رہے ہیں۔ اب وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جدید ذرائع کا استعمال وہ دہشت گردی کے فروغ کے لئے تو نہیں کر رہے ہیں۔ سماجی معاملات کا تعلق نہ مذہبی قائدین سے ہے اور نہ سیاسی قائدین سے۔ سماجی معاملات عام سماجی رجحان کے تحت انجام پاتے ہیں۔
میں نے مزید لکھا کہ مذہب انسان کی روحانی خوراک ہے، جو لازمی ہے۔ جبکہ سیاست کا تعلق خارجی معاملات سے ہے اور جو ہر ایک کے لئے لازم نہیں ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔ مذہب ہر مسلمان کی زندگی کا لازمی عنصر ہے اور یہ اس کے پیدا ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے اور مرتے دم تک اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اس کا جوانی اور بڑھاپے سے کوئی تعلق نہیں۔
مذہب اسلام کوئی موم یا لوہا نہیں ہے۔ اس کو کوئی اپنے طور پر نہیں ڈھال سکتا۔ خدا کا شکر ہے کہ دنیائے اسلام اور اسلامی مسالک کے تنوع کے باوجود وہ دنیا کا واحد مذہب ہے جو رحمت کے طور پر ہی وجود میں آیا اور اسی صورت میں آج تک باقی ہے اور تا قیام قیامت اسی حال میں باقی رہے گا۔ اسلام وہ ہے جو قرآن میں درج ہے اور قرآن میں قیامت تک کوئی تحریف نہیں ہو سکتی۔ لہذا مذہب کے کمزور یا متشدد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


میں نے اجمل عامر قصاب کے تعلق سے کئے جانے والے سوال کے جواب میں لکھا کہ یہ خالص قانونی معاملہ ہے اور عدالت نے جو بھی فیصلہ کیا ہے وہ قانونی شواہد کی بنیاد پر کیا ہے، اور مسلمان عدلیہ کا احترام کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوچنا ہندوستانی مسلمانوں کا کام نہیں کہ اس پرشفاف مقدمہ چلایا گیا یا نہیں اور تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ قصاب ہندوستانی مسلم نوجوانوں کا کوئی رشتہ دار نہیں جو وہ اس کی سزا میں تخفیف کے بارے میں سوچیں، اسے ایک دہشت گرد بتایا گیا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ مسلمان اس کی حمایت کریں؟

میں نے عورت کے کام کرنے کے تعلق سے دیوبند کے فتوے کے بارے میں لکھا کہ دیوبند اس کی تردید کر چکا ہے کہ ایسا کوئی فتوی جاری ہوا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم عورت کو بازار کی زینت نہیں سر کا تاج بناکر رکھتے ہیں، ہم اسے کمانے پر نہیں لگاتے بلکہ اس کے لئے کماتے ہیں۔
میں نے بیشتر مسلم سیاسی قائدین سے اس وقت سوال کیا تھا کہ کیا اب بھی اس میں کوئی شک کی گنجائش رہ گئی ہے کہ یہ شرپسند سروے کمپنیاں کسی بڑی سازش کا حصہ ہیں اور ہندوستانی مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے لئے کیا کیا حربے اختیار کر رہی ہیں؟


ایک سوال اپنے ملی قائدین اور علماء سے بھی کیا تھا کہ کیا انہوں نے مسلم نوجوانوں میں سیاسی اور مذہبی بیداری پیدا کرنے کا کوئی لائحہ عمل بنا رکھا ہے؟ اگر نہیں تو پھر خدا کے لئے آج سے ہی یہ کام شروع کر دیجئے۔ اور اس کے لئے سیاسی ا ور مذہبی قیادت کو دور رہ کر نہیں ایک دوسرے کے قریب آکر کام کرنا ہوگا، ورنہ یہ خطرناک اور زہریلی مہم نتائج کے اعتبار سے اتنی تباہ کن ثابت ہوگی کہ جس کا تصور کرکے ہی روح کانپ جاتی ہے۔
مجھے دکھ ہے کہ کسی ایک مسلم قائد کا کوئی جواب آیا اور نہ ہی کسی نے اس سروے کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس کے بعد کے برسوں میں بڑی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ کتنے ہی نوجوان اپنی زندگی کے قیمتی ماہ وسال کاٹ کر جب باعزت بری ہوکر باہر نکلے تو ان کی دنیا ہی لٹ چکی تھی۔ متعدد نوجوانوں نے دس سال سے لے کر 14 اور 20 سال تک جیلوں میں گزار دئے۔ اب ان کے باعزت بری ہوکر باہر آنے کا کوئی معنی نہیں رہ گیا تھا۔


عامر نامی ایک نوجوان دہلی کا ہی تھا۔ گرفتاری کے وقت اس کی عمر 18برس تھی۔ اسے دہشت گردی کے 19 معاملات میں ماخوذ کیا گیا تھا لیکن 14 سال کے بعد عدالت نے اسے 'باعزت بری' کردیا۔ کانگریس کی قیادت والی حکومت میں جتنے مسلم نوجوان دہشت گردی کے فرضی معاملات میں ماخوذ کئے گئے اتنے کبھی نہیں کئے گئے۔ عامر کی قید کے دوران اس کی بہنوں کے رشتے ٹوٹ گئے، باپ کا انتقال ہو گیا اور جب جیل سے آیا تو ماں بھی رخصت ہوگئی۔ وہ اپنی باز آبادکاری کیلئے اس وقت کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کے پاس گیا لیکن سب بے سود۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اکابر کو ہم جیسوں کا متوجہ کرنا اچھا نہیں لگتا۔ جب ہم جیسے کچھ بتاتے ہیں تو وہ دوسری طرف رخ کر لیتے ہیں۔ لیکن جب حکومت کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پھر سرگرم ہو جاتے ہیں۔ کتنے ہی ایشوز اور معاملات ایسے ہیں کہ جن پر وقت رہتے اکابر نے توجہ نہیں دی لیکن وہی کام حکومت کے جبر یا قانون سازی کے بعد طوعاً وکرہاً انجام دیا۔


تازہ معاملات میں ایک معاملہ مسجدوں میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان کا ہے۔ میں ایک طویل عرصہ سے اس مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر متوجہ کرتا آ رہا تھا۔ لیکن کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ مگر آج حکومت کے 'قانونی جبر' کے آگے سب تیار ہو گئے۔
اسی طرح مدارس کے تعلق سے مجھ جیسے لوگ متنبہ کرتے آ رہے تھے لیکن اب ایک طرف سروے میں تعاون بھی کیا جارہا ہے اور دوسری طرف حکومت کی نیت پر شبہ کرکے تحریک بھی چلانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اب ملت اسلامیہ کے قائدین کو اس مزاج کو بدلنا ہوگا۔ اس مزاج نے پہلے ہی بہت نقصان کر دیا ہے۔ ہمیں 'خدا' اسی وقت یاد آتا ہے جب 'بت' ہمیں رنج پہنچا دیتے ہیں۔


***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 18 ستمبر 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

The toxicity of a survey about Muslim youth. - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں